ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ لاہور کے رہائشی علاقے شاد باغ میں رفیق احمد باجوہ ایڈووکیٹ (مرحوم) کے گھر پر ملک بھر کے سیاسی راہنماؤں کا ایک اجلاس ہوا ۔ یہ 10 جنوری 1977کی اک سہ پہر تھی۔ میں LLB کے امتحان سے فارغ ہو کر ہمہ وقت تحریک استقلال کے لیے کام کرتا تھا ۔ نہ دن کا پتہ نہ رات کا، بس سیاست کا سودا ہی ذہن میں سمایا رہتا۔ ہم کچھ لوگ رفیق باجوہ صاحب کے دروازے پر کھڑے ہو کر آنے والوں کا استقبال کرتے ۔ جمعیت علما ء پاکستان کے سربراہ شاہ احمد نورانی اور مولانا عبد الستار نیازی پہلے سے ہی وہاں موجود تھے ۔ پھر ایئر مارشل (ر) اصغر خاں، بیگم نسیم ولی خان، خاکسار لیڈر اشرف خاں، آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم و صدر سردار عبد القیوم خاں، جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد، ایک شیعہ مکتب فکر کے راہنما اور آخر میں مولانا مفتی محمود اجلاس میں شرکت کے لیے آئے۔ پیر صاحب پگارہ شریف اگرچہ لاہور میں موجود تھے مگر ان کی نمائندگی کسی اور نے کی۔ باجوہ صاحب کے گھر کے باہر ہجوم اکٹھا ہو گیا جو مطالبہ کر رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کے خلاف تمام جماعتیں متحد ہو کر مقابلہ کریں۔ پھر شام کے وقت پروفیسر غفور احمد نے چھت پر آ کر اعلان کیا کہ مارچ میں ہونے والے قومی انتخابات میں تمام جماعتیں مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابات میں حصہ لیں گی۔ ساتھ ہی دوسرا اعلان کیا کہ دو دن کے بعد تمام راہنماؤں کا اعلیٰ سطح کا اجلاس مسلم لیگ ہاؤس ڈیوس روڈ پر ہو گا۔
دودن کے بعد جب ہم مسلم لیگ ہاؤس پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ انسانوں کا ایک ہجوم وہاں در آیا ہے۔ اجلاس ہو ا اور پروفیسر غفور کی بجائے رفیق باجوہ نمودار ہوئے اور انہوں نے چند فیصلوں کا اعلان کیا کہ تحریک استقلال، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ، جمعیت علماء اسلام،جمعیت علماء پاکستان، جماعت اسلامی، مسلم کانفرنس، خاکسار تحریک اور شیعہ الائنس (غالباً یہی نام تھا) پر مشتمل اتحاد تشکیل پا چکاہے۔ مفتی محمود اس کے سربراہ اور میں رفیق احمد باجوہ اس کے جنرل سیکرٹری ہوں گے۔ اس سیاسی اتحاد کا نام ’’ پاکستان قومی اتحاد‘‘ ہو گا جسے انگریزی میں P.N.A کہا جائے گا۔ تمام جماعتوں کے لیے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کا فارمولا اگلے اجلاس میں طے کیا جائے گا جو گلبرگ میں چوہدری ظہور الٰہی کی رہائش گاہ پر ہو گا۔ تاہم تحریک استقلال اور J.U.P کے لیے 34% کوٹہ مقرر کیا گیا ہے۔
پھر چوہدری ظہور الٰہی کی کوٹھی ’’قومی اتحاد‘‘ کا مرکز بن گئی۔ پاکستان قومی اتحاد کا پہلاجلسہ عام کراچی کے نشتر پارک میں ہو اجس کی آڈیو کیسٹ ریکارڈنگ لاہور پہنچی جو چینیزلنچ ہوم میں حبیب جالب، میں نے اور دیگر کارکنوں نے سنی۔ اس ریکارڈ نگ میں کسی مقرر نے بھی ’’نظام مصطفی‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا۔ دوسرا جلسہ لاہور کے ناصر باغ میں احسان وائیں کی صدارت میں ہوا۔ ناصر باغ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ ملحقہ سٹرکیں ، مال روڈ ، پوسٹ آفس جنرل کے دفتر سے لے کر ضلع کچہری کے آخری سرے تک اور اولڈ کیمپس کے انار کلی والے سرے تک پر جوش لوگوں کا ایک جم غفیر تھا۔ اس جلسہ میں ایئرمارشل اصغر خاں اور بیگم نسیم ولی خاں کو بہت پذیرائی ملی۔ دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ اب تک نو جماعتوں کے یہ سربراہ ’’نو ستاروں‘‘ کا عوامی لقب اختیار کر چکے تھے۔ ایک صحیح معنوں میں عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔ یہاں بھی ہمیں ’’نظام مصطفی‘‘ کا کوئی مطالبہ سننے کو نہیں ملا۔
پھر ایک روز کسی شہر میں رفیق باجوہ نے ’’نظام مصطفی‘‘ کا نعرہ بلند کر دیا اور اسٹیج پر سے ہی اللہ ہو اللہ ہو کا ورد بھی شروع کر کے اس سوال کی بنیاد رکھی جو سید افضل حیدر ایڈووکیٹ نے اپنی حالیہ شائع ہونے والی کتاب " M.D.R " میں اٹھا یاہے اور یہی سوال فرخ سہیل گوئیندی نے بھی اپنی کتاب ’’ ترکی ہی ترکی‘‘ میں اٹھایا ہے۔ تاریخ کو درست کرنا میرا کام نہیں۔ ایک کوشش اس لیے کر رہا ہوں کہ میں پاکستان قومی اتحاد اور تحریک استقلال کی ہائی کمان کے نزدیک رہا ہوں۔ بہت کچھ جانتا ہوں۔ کئی گفتنی اورنا گفتنی حقائق ہیں جنہیں ابھی تک خوف فساد خلق کی بنا پر سامنے نہیں لایا گیا ۔ قومی اتحادکی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک سراسر سیاسی تحریک تھی۔ اس پر دورانِ تحریک اصغر خاں اور بیگم نسیم ولی خاں کا ہی غلبہ رہا۔ عوامی طور پر رفیق باجوہ نے اسے ’’نظام مصطفی‘‘ کا نام دے کر اپنی تقریروں کی مقبولیت کی سند تو حاصل کر لی مگر یہ اتحاد کے کسی منشور وغیرہ کا حصہ نہیں تھا۔ یہ صرف دھاندلی کے خلاف چلائی گئی ایک سیاسی تحریک تھی جسے بعد میں ضیاء الحق نے شب خون مار کر یرغمال بنا لیا اوراپنی پہلی ہی تقریر میں کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک میں جو ’’ اسلامی جذبہ‘‘ دیکھنے کو ملا، وہ قابل تعریف ہے ۔ اور پھر اس کے بعد ضیا ء الحق نے اسلام کے نام پر کیا کیا ظلم وزیادتیاں اس نے ’’ ایجاد‘‘ نہ کیں۔ تاریخ اس کی گواہ ہے ۔
پروفیسر غفور احمد نے بھی اپنی کتاب ’’اور مارشل لاء آگیا‘‘ کے آخری ابواب میں پاکستان قومی اتحاد کے وہ تمام آخری مطالبات پیش کیے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کیے گئے اور جن پر اتفاق ہو گیا تھا۔ ان مطالبات کو دیکھ کربخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں بھی ایسا کوئی مطالبہ شامل نہیں تھا۔ سب مطالبات سیاسی نوعیت کے حامل تھے۔
اب آخر میں رفیق باجوہ کے انجام کا بھی ذکر کرتا چلوں۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے چیف سیکرٹری پنجاب بریگیڈیئر مظفر کے ذریعے انہیں وزیر اعظم ہاؤس میں دعوت پر بلایا ۔ ایک غیر سیاسی شخص جو صرف دو ماہ میں ہی قومی سطح کا لیڈر بن چکا تھا، اس دعوت کے ملنے پر اتنا خوش ہوا کہ بغیر کسی کو بتلائے وزیر اعظم ہاؤس کھانا کھانے چلا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اتنا احمق تو نہیں تھا کہ اتنی بڑی تحریک کو ختم کرنے کے لیے صرف ایک شخص سے ہی مذاکرات کرتا۔ بس رفیق باجوہ کو اوجِ ثریا سے زمین پر گرانا تھا، سو گرا دیا۔
ملاقات کی خبر عوام تک پہنچی تو وہ غم وغصہ میں آگئے۔ باجوہ صاحب نے چند دن تو تردید میں گزار دیے۔ اس دوران ایک روز میں میاں محمود علی قصوری کے فین روڈ والے بنگلے پر گیا جہاں ایئر مارشل اصغر خاں اور مولانا شاہ احمد نورانی موجود تھے۔ ایئرمارشل صاحب نے مجھے کہا کہ باہر دروازے پر کھڑے ہو جاؤاور جب تک میں نہ کہوں، کسی کو اندر نہ آنے دینا۔ دونوں نے دوپہر کا کھانا اکٹھے کھا یا اور رفیق باجوہ کو پاکستان قومی اتحاد اور جمعیت علماء پاکستان دونوں جماعتوں سے فارغ کر دیا۔ رفیق باجوہ نے پھر سیاست کی طرف منہ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی سیاستدانوں نے انہیں اپنے پاس بٹھایا۔ ’’ سیاسی مرزائی‘‘ بن کر رہ گئے۔ اور تو اور ہائیکورٹ بار میں بھی جانا چھوڑ دیا۔ ایسی تنہائی کا شکار ہوئے کہ خدا کی پناہ! اور اسی عالم میں ایک دن اپنے فکری اعمال کا جواب دینے اُس کے پاس پہنچ گئے جو سب کا حساب رکھتا ہے۔