25 نومبر کو UNITE) Universal Nexus for Interfaith Trust and Engagement) کے زیر اہتمام بین الاقوامی کانفرنس برائے مذہبی ہم آہنگی میں شرکت کے لئے اسلام آباد جانا تھا۔صبح نو بجے میں گاڑی لے کر مدرسہ نصرۃ العلوم پہنچا جہاں سے استاد محترم مولانا زاہد الراشدی اور جامعہ میں زیر تعلیم دورہ حدیث کے ایک ساتھی مولانا عبدالمتین عباسی کے ساتھ اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے۔ ہماری پہلی منزل انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی تھی جہاں اسلام اور سائنس کے موضوع پہ یونیورسٹی کے طلبہ نے ایک پروگرام منعقد کیا ہوا تھا۔ مولانا وقاص احمد اس کے روح ورواں تھے۔ دعوۃ فیکلٹی کے سربراہ ڈاکٹر احمد جان ازہری کی صدارت میں پروگرام شروع تھا۔ استاد محترم نے اسلام اور سائنس میں تصادم کے موضوع پر گفتگو کی (جس کا خلاصہ اسی شمارے میں شامل اشاعت ہے)۔
مولانا زاہد الراشدی کے بیان کے بعد ڈاکٹر احمد جان ازہری نے شرکاء اور مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا۔اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کے آفس میں گئے جہاں ڈاکٹر سراج الاسلام حنیف مردان یونیورسٹی سے ملاقات ہوئی۔ یونیورسٹی سے آگے ہمیں اسلام آباد کے سیکٹر جی 10/1 جانا تھا جہاں مولانا محمد رمضان علوی منتظر تھے۔مولانا وقاص احمد ہمارے ہمراہ تھے۔ انہوں نے استاد محترم سے سوال کیا کہ آپ تحریک انصاف کے علماء کنونشن میں گئے تھے جس سے ہمارے لوگوں میں تشویش ہے۔ مولانا نے فرمایا !بھئی ہمیشہ سے یہ اصول ہے کہ جاؤ ہر کسی کے پاس، لیکن بات اپنی کرو۔ لوگوں نے میرا وہاں جانا تو دیکھا لیکن میں نے جو باتیں وہاں کیں، وہ نہیں سنیں۔
مولانا محمد رمضان علوی کے ہاں پہنچے تو وہاں ورلڈ اسلامک فورم کے رابطہ سیکرٹری اور ابو الحسن علی ندوی اکیڈمی کے چیئر مین جناب جعفر بھٹی بھی موجود تھے جو بین الاقوامی مذاہب کانفرنس کے لیے برطانیہ سے تشریف لائے تھے۔ نماز ظہر ادا کرنے کے بعد مولانا رمضان علوی ،جناب جعفر بھٹی ،مولانا وقاص احمد وغیرہم کے ساتھ عصر تک نشست رہی۔ مختلف موضوعات پہ گفتگو ہوئی۔ استاد محترم نے ہمارے اور یورپ کے تحقیقی ذوق کا تقابل کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دفعہ میں یو کے میں تھا تو وہاں میں نے امام نسائی کی کتاب "کتاب المصاحف" دیکھی۔ نیچے ناشر کا نام چرچ آف انگلینڈ لکھا تھا۔ میں حیران رہ گیا کہ امام نسائی کی کتاب کا ناشر چرچ آف انگلینڈ۔ معلوم کرنے پہ پتہ چلا کہ یہ کتاب مسیحی پادریوں کو نصاب میں پڑھائی جاتی ہے، اس لیے کہ قرآن مجید میں لفظی اختلاف ثابت کیا جا سکے، جبکہ ہمارے ہاں کے بہت سے مدرسین کو بھی اس کتاب کا علم نہ ہوگا۔
مولانا وقاص احمد نے پوچھا کہ اسی طرح کی ایک کتاب کا ذکر آپ نے تحریک ریشمی رومال کے حوالے سے بھی کیا تھا۔ مولانا نے تفصیل بتائی کہ میں نے لندن میں خبر پڑھی تھی کہ جرمن وزارت خارجہ کے ڈپٹی سیکرٹری اولف شمل کی مرتب کردہ سرکاری دستاویزات کتابی صورت میں شائع ہوئی ہیں۔تحریک ریشمی رومال برطانوی سی آئی ڈی میں "سلک لیٹرز سازش کیس" کہلاتی ہے جبکہ جرمن انٹیلی جنس اس کو " برلن پلان'' کے نام سے جانتی ہے، کیونکہ بنیادی پلان تو برلن میں بیٹھ کے بنایا گیا تھا۔یہ کتاب جرمن زبان میں ہے، لیکن مل نہیں رہی۔ دو تین دوستوں کے ذمہ لگایا، لیکن نہیں ملی۔اس کتاب کی خبر لندن کے روزنامہ جنگ میں چھپی تھی۔اس خبر کو ہم نے الشریعہ میں شائع کیا تھا۔ہم اس تحریک کے آدمی ہیں۔ مجھے اس رپورٹ سے پتہ چلا کہ جاپان بھی اس پلان میں شریک تھا اور جاپان نے قبائلی علاقوں میں ٹریننگ کیمپ قائم کیا تھا اور ایک جاپانی نے یہاں آکر ٹریننگ دی۔ استاد جی نے فرمایا کہ ہمارا ذوق نہیں ہے۔ ہم شیخ الہند کانفرنس میں گئے تھے۔ وہاں میں نے مولانا محمود مدنی کو بھی کہا ، مولانا سلمان بجنوری کو بھی کہا، لیکن بات بنی نہیں۔
اسی سلسلے میں بات کرتے ہوئے فرمایا کہ جاپان پر اگر ایٹم بم نہ گرایا جاتا تو جاپان ہرگز ہتھیار نہ ڈالتا۔مجھے یہ ڈر لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جب یہ دیکھیں گے کہ ان کا بس نہیں چل رہا تو یہاں بھی وہ ایٹم بم گرادیں گے۔(29 نومبر کی تاریخ میں روسی سیاستد ان نے روسی صدر کو ترکی پہ ایٹم بم گرانے کی تجویز دی ہے۔بحوالہ خبر اردو پوائنٹ نیوز)
جعفر بھٹی صاحب نے سوال کیا کہ مولانا! آپ یورپ میں مسلمانوں کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟ مولانا نے کہا کہ ٹکراؤ نظر آرہا ہے۔ جو کچھ یہ مڈل ایسٹ میں کررہے ہیں، اس کا ردعمل تو آنا ہے اور ردعمل وہیں آئے گا جہاں آزادی ہوگی۔ جعفر صاحب نے برطانوی اخبار ڈیلی سن کی رپورٹ کا تذکرہ کیا جس میں کہا گیا ہے کہ یوکے میں مقیم مسلمانوں میں سے ہر پانچواں مسلمان دہشت گردوں کی مدد کرتا ہے۔
جعفر بھائی نے پوچھا کہ جان کائزر کی کتاب کے اردو ترجمہ پر آپ کا مقدمہ ہے، لیکن اس پہ مترجم کا نام نہیں ہے۔استاد جی نے فرمایا، مجھے بھی معلوم نہیں، لیکن مترجم کا نام چھپنا چاہیے تھا۔ میں نے عرض کیا، الجزائری صاحب کے حوالے سے ہمارے ہاں کے اشکالات اور ہیں جبکہ عرب کے کچھ علماء ان پر وحدۃ الوجود کے حوالے سے اشکالات کرتے ہیں۔ استاد جی نے تصدیق کی کہ سلفی علماء اس وجہ سے انہیں ملحد کہتے ہیں۔ اس پراستاد جی نے واقعہ سنایا کہ مجھے اہل حدیث عالم دین نے سوال کیا کہ وحدۃ الوجود کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جو مولانا میاں نذیر حسین دہلوی کا ہے، وہی میرا نظریہ ہے۔جو نواب صدیق حسن خان صاحب کا نظریہ ہے، وہی میرا ہے۔ کہنے لگا، انہوں نے بھی یہ نظریہ اپنایا ہے؟ میں نے کہا، ہاں بھئی۔ پڑھ لو جا کر۔اس کے بعد دوبارہ اس نے نہیں پوچھا۔ حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی نے اس حوالے سے بڑے مزے کی بات کہی۔کسی نے کہا کہ حضرت مجدد الف ثانی نے وحدۃ الوجود کے بارے میں یہ یہ باتیں کی ہیں۔صوفی صاحب نے فرمایا کہ بھئی جو نہیں سمجھے گا، وہ یہی کہے گا۔
جعفر بھائی نے مولانا کو بتایا کہ میرا ارادہ ہے کہ مغرب میں جو مدارس ہیں، ان پہ کام کروں کہ ان کا نصاب و نظام کیا ہے۔ ہمارے ہاں کے مدارس پرتو بات ہوتی ہے کہ ان کے نصاب کو بدلا جائے اور نظام کو درست کیا جائے لیکن مغرب میں جو مدارس ہیں، ان پر کام کیا جائے۔استاد محترم نے فرمایا کہ بہت اچھی بات ہے، اس پر کام ہونا چاہیے۔
مولانا محمد رمضان علوی کی خواہش پر مولانا نے نماز عصر کے بعد مختصر بیان فرمایا اور صحابہ کرام کا ایک واقعہ بیان کیا کہ صحابہ کی ایک جماعت جہاد کے لیے جارہی تھی۔دشمن کے علاقہ میں تھی کہ انہیں ایک چرواہا نظر آیا۔ مجاہدین نے یہ سمجھا کہ یہ کافر ہے۔ اسی اثنا میں اس نے انہیں السلام علیکم کہا۔صحابہ سمجھے کہ یہ سلام کر کے جان بچانا چاہتا ہے۔یہ سمجھ کر انہوں نے اس چرواہے کو قتل کردیا۔اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی آیات نازل کیں۔
ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقآی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا، تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا، فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃ’‘ (النساء، آیت ۹۴)
’’اے ایمان والو ! جب تم اللہ کی راہ میں نکلو تو (دشمن کو پہچاننے کے لئے ) اچھی طرح تحقیق کرلیا کرواور جو شخص تمہیں سلام کرے ، اس کو دنیوی سامان کی خاطر فورا یہ نہ کہہ دو کہ تم مومن نہیں۔اللہ کے پاس (تمہارے لیے ) بہت مال غنیمت ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے اس بات پر ڈانٹا کہ تحقیق کی بغیر ایک آدمی کو کیوں قتل کردیا۔
یہ بات میں نے اس لیے عرض کی ہے کہ آج ہمارے مزاج کا حصہ بن گیا ہے کہ کام پہلے کرگزرتے ہیں اور تحقیق بہت بعد میں جا کر کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ایک چیز سنی، موبائل میں محفوظ کی، آگے دس بیس بندوں کو بھیجی۔ انہوں نے آگے دس بیس بندوں کو بھیجی۔ اس کے نتیجے میں اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے اور کوئی نقصان وغیرہ ہوجاتا ہے، تب جاکر پتہ چلتا ہے کہ وہ بات تو غلط تھی۔وہ میسج فیک تھا۔ آج کل اس پہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔آج کل یہ وبا پھیل چکی ہے۔ میسجنگ ، سوشل میڈیا وغیرہ پر سنی سنائی بات کو پھیلا دیا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں اچھا خاصا نقصان ہوجاتا ہے۔ پھر پتہ چلتا ہے کہ بات غلط تھی اور ہمیں اس پر شرمندگی ہوتی ہے۔تو اس بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ پہلے تحقیق کرلو۔ جب اچھی طرح بات واضح ہوجائے، تب کوئی فیصلہ کرو۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
دعا کے بعد جمعیت علماء اسلا م، اسلام آباد کے امیر اور بزرگ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرؤف صاحب استادجی سے ملے اور اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ان کے گھر کی جانب چل پڑے۔راستے میں جعفر بھائی سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ ابوالحسن علی ندوی اکادمی کی جانب سے مفکر اسلام مولانا علی میاں کے افکارو خدمات پر مقالات لکھوائے جائیں۔ایک مقابلہ مضمون نویسی تو شروع ہے، لیکن تحقیقی مقالہ جات جو ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے ہوں، لکھوائے جائیں۔ میں نے ایک تجویز دی کہ ہمارے مدارس کے طلباء مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی سے صرف القراء ۃ الراشدہ اور قصص النبیین کے حوالے سے واقف ہیں۔ اگر ممکن ہو تو آپ مختلف مدارس میں دو دن یا تین دن کی ورکشاپ رکھیں اور وہاں حضرت کی خدمات و افکار کا کچھ تعارف ان کے سامنے رکھیں۔جب یہ چیز سامنے ہوگی تو اس صورت میں آپ کو مولانا علی میاں پر کام کرنے والے ملیں گے۔
مولانا عبد الروف صاحب کے گھر پہنچے۔ استاد جی نے ان کا احوال پوچھا تو انہوں نے کہا جی بس ہمارا ہاتھ اور زبان سلامت رہے، کام چل جاتا ہے۔اس پہ استاد جی نے حضرت ابی ابن کعبؓ کا واقعہ سنایا کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک کہ ’’آدمی کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ اس کے گناہوں کے لیے کفارہ بنتی ہے‘‘ سنا تو دعا کی کہ یا اللہ مجھے ہمیشہ اس حد تک بخار میں مبتلا رکھیے کہ مجھ سے فرض نماز، رمضان کے روزے، حج بیت اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ نہ چھوٹے۔اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی کہ اور ان کو ہمیشہ اندورنی طورپہ بخار رہا کرتا تھا۔
اسی گفتگو کے دوران استاد جی نے امام نسائی کی کتاب المصاحف کا واقعہ سنایا اور ساتھ ہی ایک اور واقعہ بھی سنایا کہ جب کچھ مسلمان خلاباز خلا میں جانے لگے تو وہاں نماز کے بارے میں سوال ہوا تو اس کا جواب سب سے پہلے انٹرنیٹ پر ایک یہودی نے دیا کہ خلا باز کا حکم معذور جیسا ہے، جیسے ممکن ہو پڑھ لے۔ اس یہودی نے البحرالرائق کا حوالہ دیا۔
اس مختصر نشست کے بعد ہم یونائٹ کے زیر اہتمام بین الاقوامی مذاہب کانفرنس کے لیے روانہ ہوئے اور مغرب کی نماز جناح کنونشن سینٹر میں ادا کی۔ نماز کے بعد کی نشست میں جعفر بھائی نے سوال کیا کہ مدارس کی کریم (یعنی ہونہار اور قابل علماء) کہاں جاتی ہے۔استاد محترم نے جواب دیا کہ ڈاکٹر مشیر الحق مرحوم نے بڑا دلچسپ تجزیہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے فضلاء کی چار قسمیں ہیں۔ایک وہ جو مدارس کے مزاج کے ہوتے ہیں، وہ مدارس میں کھپ جاتے ہیں۔اس کے بعد دوسراطبقہ بیرون ملک یونیورسٹیز میں اپنا آموختہ دوہرانے کا معقول وظیفہ پاتا ہے۔ تیسرا طبقہ کوشش کرتا ہے کہ وہ یونیورسٹی، کالج یا اسکول کہیں ایڈجسٹ ہو کر کام کرے۔اس کے بعد چوتھا طبقہ مسجد کی امامت وغیرہ کی جانب رخ کرتے ہیں۔
اسی دوران ایک فون پہ کسی نے مسئلہ پوچھا تو استاد محترم نے بتایا کہ جائزہے لیکن علماء کو احتیاط کرنی چاہیے۔اس پر یہ واقعہ سنایا کہ میں اور مولانا منظور احمد چنیوٹی ہم اکٹھے سفر کرتے تھے تو جہاز میں نماز کا مسئلہ ہوتا تھا۔میں قضا کر لیا کرتا تھا۔ مولانا پڑھ لیتے تھے اور بعد میں قضاء کرلیتے تھے۔ میں نے ایک دن والد صاحب سے پوچھا۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ نے نہیں پڑھنی۔ میں نے پوچھا، کیا وجہ ہے ؟ جواب دیا، آپ تو دوہرا لو گے لیکن آپ اچھے خاصے مولوی لگتے ہو۔ آپ کو دیکھ کر جو پڑھے گا، وہ نہیں دوہرائے گا۔ اس لیے میرا جہاز میں پڑھنے کا معمول نہیں ہے۔
اس کے بعد استاد محترم نے بین الاقوامی مذاہب کانفرنس سے خطاب کیا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ عدم برداشت، شدت پسندی میں ایک کردار مذہب کا بھی ہے، لیکن کیا انسانی معاشرہ کے باقی مسائل بھی مذہب کے پیدا کردہ ہیں؟کیا کرپشن، اباحیت، طاقت کی بالادستی، فحاشی، عریانی اور خاندانی نظام کا بکھرنا، کیا یہ بھی مذہب کے پیداکردہ ہیں؟ میرے خیال میں ہمیں توازن قائم کرنا ہوگا۔مذہب کا غلط استعمال معاشرے میں مسائل پیدا کررہا ہے، لیکن مذہب سے انحراف اس سے زیادہ مسائل پیدا کررہا ہے۔ہمیں بات حقیقت پسندی کی بنیاد پر کرنا ہوگی۔ جتنے مسائل مذہب نے پیدا کیے ہیں، مذہب سے بغاوت، مذہب سے انحراف اور مذہب سے بے پروائی نے اس سے زیادہ مسائل پیدا کیے ہیں۔ اس لیے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم مذاہب کے نام پر جمع ہیں، ہمیں ان مسائل کا مذاہب کی بنیاد پر جائزہ لینا ہوگا اور میں آج کی کانفرنس سے دنیا کو یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ ہمیں انسانی سوسائٹی کو درپیش عملی مسائل، پریکٹیکل ایشوز پر مذاہب کی مشترکہ تعلیمات سے آج کے اسلوب میں ان کا حل پیش کرنا ہوگا۔ مذہب کے نمائندے ہونے کی حیثیت سے لوگوں کو آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کی دعوت دینا ہماری ذمہ داری ہے۔
خطاب کے بعد استاد محترم نے چیئرمین یونائٹ مفتی ابو ہریرہ محی الدین صاحب سے یادگاری شیلڈ وصول کی۔ جعفر بھائی اور مولانا محمد ادریس صاحب نے ہمیں الوداع کہا اور ہم واپس گوجرانوالہ کی جانب روانہ ہوگئے۔