ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے دسمبر کے شمارے میں ممتاز قادری کی سزا کے حوالے سے ڈاکٹر محمد شہباز صاحب کا مضمون پڑھا۔ موصوف نے تحفظ شریعت کانفرنس کے ایک فیصلے پر نظر ڈالتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے، اس کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ ہم لوگ مغربی اور یورپی ممالک کے پروپیگنڈے سے اتنے مرعوب ہوچکے ہیں کہ ان کو خوش کرنے اور انھی کی زبان بولنے کو اپنا فریضہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ جناب موصوف نے تحفظ شریعت کانفرنس کی طرف سے عدالت کی طرف سے ممتاز قادری کو سنائی گئی سزائے موت کو غیر شرعی قراردیتے ہوئے سپریم کورٹ کو سزاواپس لینے کے مطالبے پر لکھا ہے۔ ان سے یہ ہضم ہی نہیں ہورہا کہ اس قدر غلط اور غیر معقول فیصلے کی بڑے بڑے مذہبی ستونوں نے تائید کردی ہے۔ موصوف نے اپنی جس حیرت اور تعجب کا اظہار کیا ہے، پورا مضمون پڑھ کر ہمیں ان کی حیرت اور تعجب پر حیرت اور تعجب ہورہا ہے۔ موصوف نے ایک طرف توہین رسالت کی سزا کی حمایت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اس سزا کے حامی ہیں اور اس قانون کو کسی بھی طور پر ختم نہیں ہونا چاہیے اور دوسری طرف قادری کی سزا کو غلط قرار دینے کے خلاف اپنے مزعومہ دلائل دیتے ہوئے اس سزا کے حق میں لکھا ہے۔موصوف نے سارا زور اس بات پر لگایا ہے کہ ممتاز قادری نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر نہ صرف ناجائز کام کا ارتکاب کیا ہے بلکہ وہ سلمان تاثیر کے قتل ناحق کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے نقصانات کے حوالے سے جو مثالیں دی ہیں اور جن پر قیاس کیا ہے، بنظر انصاف دیکھا جائے تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔ موصوف نے توہین رسالت کے جرم کی نوعیت اور سنگینی کو سمجھا ہی نہیں۔ وہ یہ سمجھ نہیں سکے کہ ایک مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے مگر اپنے نبی کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتا۔ نیز یہ کہ اس کی ایمانی غیرت اس موقع پر کیا تقاضا کرتی ہے؟ انہوں نے اس جرم کو بھی ان عام جرائم کی طرح سمجھا ہے جن میں مظلوم قانون کو ہاتھ میں لے لے تو اس سے معاشرے میں گوناگوں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہاں ہمار ا مقصد توہین رسالت کی شرعی حیثیت کو واضح کرنا نہیں ہے کیونکہ اس سے موصوف بخوبی واقف ہیں۔ طنز کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ تحفظ شریعت کانفرنس کے فیصلے کی عبارت سے یوں لگ رہا ہے کہ خدانخواستہ کتاب و سنت، اسوہ رسول وصحابہ رضی اللہ عنہم اور چودہ سو سالہ اجماع کا بنیادی مسئلہ اور مقصد وحید ممتاز قادری کیس کا فیصلہ کرنا تھا کہ کہیں کسی کو اس سزا کے شریعت کے خلاف ہونے میں شک باقی نہ رہ جائے۔ حقیقت یہی ہے کہ ممتاز قادری کو دی جانے والی سزائے موت کے غیر شرعی ہونے میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔
ممتاز قادری نے کسی معصوم مسلمان کے قتل کا ارتکاب نہیں کیا ہے کہ اس کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا جاتا، بلکہ اس نے ایک مباح الدم گستاخ رسول کو قتل کیا تھا جس کے سلسلے میں بس اتنا شکوہ کر لیا جاتا کہ ا س نے قانون کو کیوں اپنے ہاتھ میں خود لے لیا تو بات کسی حد تک معقول ہوتی، مگر موصوف نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے ’’جرم‘‘ اور قتل کے جرم، دو الگ الگ چیزوں کو خلط کرتے ہوئے ممتازقادری کی گردن پر دونوں ڈال دیے ہیں، جبکہ حقیقت میں ممتاز قادری پر شرعاً قتل کا جرم عائد ہی نہیں ہوتا کیونکہ اس نے ایک واجب القتل، مباح الدم شخص کو قتل کیا ہے جس کا خون شریعت کی نظر میں رائیگاں ہے۔ رہی بات قانون کو ہاتھ میں لینے کی تو یہ الگ بات ہے جس پر بحث کی گنجائش ہے کہ اس کو جرم کے زمرے میں لانا درست ہے یا نہیں؟ بہر حال اس پر ممتاز قادری کو سزائے موت سنانا اور اس فیصلے کے خلاف تحفظ شریعت کانفرنس کے فیصلے کو خلاف عقل اور غلط کہنا سراسر بے انصافی اور ظلم ہے۔
موصوف نے ایک طرف خود عدالتی نظام میں موجود ان خامیوں کی نشاندہی کی ہے جس کی وجہ سے عدالت سے عموماً انصاف نہیں ملتا۔ دوسری طرف ممتاز قادری اور مسلمانوں کو یہی مشورہ دیا ہے کہ وہ عدالت پر اعتبار کریں اور اسی کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہیں۔ اس طرح موصوف کی باتوں میں کافی حد تک تضاد نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر محمد شہباز صاحب نے عدالتی نظام میں جن خرایبوں کی خود نشاندہی کی ہے، انھی خرابیوں کی بنا پر ہم ممتاز قادری کو قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور و معذور سمجھتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موصوف اس موقع پر عدالتی نظام اور ہمارے قانون میں موجود ان خرابیوں کو آڑے ہاتھوں لیتے جن کی بنیاد پر ممتاز قادری کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینا پڑا، مگر موصوف نے اپنی متضاد کڑوی باتوں کا رخ سارا کا سارا ممتاز قادری اور ان کے حمایتی علماء کے طرف موڑا ہوا ہے۔
موصوف نے لکھا ہے کہ ’’اگر عدالتی پروسیجر میں پڑنے کے سبب بڑے اور بااثر ملزموں کے اپنے اثر ورسوخ کی وجہ سے سزا سے بچے رہنے کے اندیشے کے تحت توہین رسالت کے ملزم کو ذاتی حیثیت میں قتل کرنا جائز کہا جائے تو بااثر قاتلوں اور ظالموں کے ٹرائل میں پڑ کر چھوٹ جانے کے خدشے کی وجہ سے ایک مقتول کے غریب اور بے سہارا ورثہ اور مظلوموں کے اس سے خود انصاف لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کو کس دلیل کی بنا پر ناجائز کہا جائے گا؟‘‘ نیز ۔لکھا ہے کہ ’’شریعت دراصل لوگوں کی اصلاح کے لیے ہے اور سزادینا اس کی ضرورت اور مجبوری ہے ، خوشی اور دل لگی نہیں۔ عجب ستم ظریفی یہ ہے کہ جس شریعت کی خوشی لوگوں پر سے سزائیں ٹالنے میں ہے، ہم ایسی سزائیں زبردستی نافذ کرکے خوش کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ موصوف نے اس طرح قیاس مع الفارق کرنے سے قبل اس نکتے پر غور نہیں کیا کہ عام قتل اور توہین رسالت کے جرم میں بہت بڑا فرق ہے۔ نیز ایک جرم قابل معافی ہے تو دوسرا نا قابل معافی۔ اس لیے موصوف کا جب سوال ہی درست نہیں ہے تو اس کے جواب کے درپے ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
دراصل اسلام ایک دین اعتدال ہے جو ہر مزاج کے لوگوں کے لیے ہے، چاہے فطرتاً سخت مزاج کے ہوں یا نرم مزاج کے۔ دونوں طبائع کے لحاظ سے اسلام نے کچھ جرائم کو قابل معافی رکھا ہوا ہے اور کچھ کو ناقابل معافی۔ اگر دین اسلام میں ہر جگہ ہی عفوو درگزر کی تعلیم ہوتی تو یہ ان طبایع کے لیے ناقابل قبول ہوسکتا تھا جن کو اللہ تعالیٰ نے خلق سختی کی طرف مائل پیدا فرمایا ہے اور اگر ہر جگہ سزا ہی سزا ہوتی تو یہ ان طبایع کے لیے گراں گزرسکتا تھا جن کو اللہ تعالیٰ نے نرم مزاج پیدا فرما یا ہے۔ اس لیے اسلام میں سزا و جزا ، معافی و نامعافی دونوں کا تصور ہے۔ سلمان تاثیر کے جرم کا تعلق ناقابل معافی سزا سے تھا چنانچہ اس پر خوش ہونے کی بجائے افسوس کا اظہار کرنا نادانی اور حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مگر ہماری بدقسمتی اور المیہ یہ ہے کہ کنویں کے مینڈک کی طرح اسی کنویں کو دنیا سمجھ بیٹھے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جو چیز ہماری سمجھ کو صحیح لگے، وہ صحیح ہے اور جو غلط لگے، وہ غلط ہے حالانکہ دنیا بہت وسیع ہے اور یہاں ہر طرح کے مزاج کے لوگ ہیں۔ کبھی اپنے ذاتی خول، پسند اور ناپسند سے باہر نکل کر بنظر انصاف شرعی حدود اور سزاؤں اور ان کی حکمتوں میں غور کرلیا ہوتا تو یہود و نصاریٰ کے پروپیگنڈے کے اثر سے آزاد ہوکرہمیں حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملتی۔
مگر ایسا نہ کرنے کی وجہ سے موصوف جیسے حضرات آخر میں یہ لکھتے نظر آتے ہیں کہ ’’ذاتی حیثیت میں ایسے قتل کو سند جواز عطاکرنا سوسائٹی کو انارکی اور تباہی کی طرف دھکیلنا ہے۔ کیا دینی قوتوں کو سامنے کی یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ یہ چیز تو ان کے اپنے کاز کو نقصان پہنچانے والی ہے؟ اس نوع کے مواقف کو اپنانے کے نتیجے میں اہل مذہب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔۔۔۔قانون توہین رسالت کے خاتمے کے لئے آواز اٹھائی جاتی ہے۔‘‘ اس کے جواب میں ہم اتنا عرض کر سکتے ہیں کہ تحفظ شریعت کانفرنس کی طرف سے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی حمایت ذاتی حیثیت سے نہیں بلکہ شرعی حیثیت سے کی گئی ہے اور اگر یہ شرعی حیثیت موصوف کو سمجھ نہ آسکی تو ہم اس کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں۔ نیز اس طرح کا قتل سوسائٹی کو انارکی اور تباہی سے نکالنا ہے تاکہ ایسے جرائم کا آئندہ سد باب ہوسکے۔
موصوف نے اہل مذہب کو جس شدیدتنقید کا نشانہ بنانے کے ڈر کا اظہار کیاہے اور اس قانون توہین رسالت کے خاتمے کی آواز اٹھائے جانے پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا ہے جس کے بقول ان کے وہ خود بھی حمایتی ہیں تو اس طرح کامضمون لکھ کر وہ اسلام اورمسلمانوں پر اغیار کی طرف سے متوقع تنقید سے کبھی نہ خود بچ سکتے ہیں اور نہ ہی مسلمان ممتاز قادری کو سنائی جانے والی سزائے موت کے فیصلے کی حمایت کرکے نکل سکتے ہیں۔اگر اس تنقید سے شدید گھبراہٹ ہورہی ہے جس سے نکلنا بہت ضروری ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ معاذ اللہ یہود ونصاریٰ کی پیروی کر لی جائے تاکہ وہ خوش ہوسکیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق یہود ونصاریٰ کی تنقید سے بچنے اور ان کو خوش کرنے کا کوئی اور طریقہ کامیاب نہیں ہے۔ وَلَنْ تَرْضَی عَنْکَ الیَھُودُ وَلَا النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ۔