پروانہ جمعیت صوفی خدا بخش چوہانؒ

ابو محمد سلیم اللہ چوہان سندھی

میرے مربی، میرے محسن اور میرے والد گرامی پروانہ جمعیت صوفی خدا بخش بن اللہ بخش بن خدا بخش چوہان (بانی مدرسہ دارالتعلیم حمادیہ) ان شخصیات میں سے تھے جنہوں نے اپنے اعمال صالحہ، کریمانہ اخلاق اور بے شمار خوبیوں کی وجہ سے اپنا نیک نام چھوڑا ہے۔ 

ان کی ولادت 1944 میں گوٹھ راجو چوہان، تحصیل لکھی غلام شاہ، ضلع شکارپورمیں ہوئی۔ دنیوی تعلیم پانچ جماعتوں تک اپنے گاؤں راجو گوٹھ میں حاصل کی۔ قرآن پاک ناظرہ کی تعلیم بھی اپنے اسی گاؤں میں حاصل کی۔ والد محترم باضابطہ عالم نہ تھے، البتہ علماء صلحاء کے صحبت یافتہ ضرورتھے۔ فقط ناظرہ قرآن اور اسکول کی پانچ جماعتیں پڑھ کر قابل رشک خدمات سرانجام دیں۔ اپنے رب سے قوی امید ہے کہ ان خدمات کی وجہ وہ بخشے جائیں گے۔ 

اللہ پاک نے بہت خوبیوں سے نوازا تھا۔ صوم وصلاۃ کے پابند تھے اور تہجد کی ادائیگی ان کا معمول تھی۔ جب سے ہوش سنبھالا، والد محترم کو رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتے دیکھا۔ قادری طریقہ سے ذکر اذکار کرتے، اپنے رب کے حضور میں دعائیں مانگتے دیکھا۔ مستجاب الدعوات تھے، کسی بھی مسئلہ میں پریشان ہوتے تو اللہ رب العالمین کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ ان کا اصلاحی تعلق قطب الاقطاب حضرت مولانا حماداللہ ہالیجویؒ کے جانشین حضرت مولانا حافظ محمود اسعد سے تھا۔ ان سے خوب کسب فیض کیا۔ اسی فیض وصحبت کی برکت تھی کہ خود تو کسی سبب سے عالم نہ بن سکے، لیکن اپنی اولاد کو دینی تعلیم کے لیے وقف کیا۔ 

آپ نے مجاہدانہ زندگی گذاری۔ اخلاص اور راست گوئی میں ضرب المثل تھے۔ ان کے اندر دینی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ جمعیت علماء اسلام کے فعال کارکن تھے۔ 2007 کے بلدیاتی الیکشن میں جمعیۃ علماء اسلام یوسی طیب ضلع شکار پور تحصیل لکھی غلام شاہ میں جنرل کاؤنسلر کے امیدوار بھی بنے جس کی وجہ وڈیروں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ والد صاحب کو ڈرایا دھمکایا گیا لیکن وہ اپنے مشن وپروگرام سے دستبردار نہیں ہوئے۔ جتنے بھی جماعتی، سماجی، اور مذہبی کام کیے، ان میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن تمام کام مخالفت کے باوجود استقامت اور خوش اسلوبی سے سرانجام دیے۔

ان کی زندگی کا سب سے اہم ترین مقصد مساجد ومدارس کی تعمیر تھا۔ اپنے گاؤں میں دو مساجد اور ایک مدرسہ تعمیر کرایا جو ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ جامع مسجد اقصیٰ، یہ مسجد ہمارے گاؤں کی سب سے پرانی مسجد ہے جو گاؤں کے بالکل اندر ہے۔ جیسے جیسے گاؤں کے مکانات کی تعمیرات ہوتی گئی، مسجد کی سطح نیچی ہوتی گئی اور برسات وغیرہ کا پانی مسجد میں آنے لگا۔ والد گرامی کو خیال ہوا کہ مسجد کی از سر نو تعمیر کی جائے۔ گاؤں والوں سے مشورہ کیا کہ مسجد کی نئی تعمیر کی جائے۔ اخراجات کی وجہ سے کسی نے بھی حمایت نھیں کی۔ کسی نے کہا کہ آپ کے پاس اگر ایک لاکھ کی رقم ہے تو پھر مسجد کا کام شروع کریں۔ والد صاحب نے فرمایا کہ میرے پاس اتنی رقم تو نہیں البتہ مجھے اپنے خالق حقیقی اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے۔ اسی کا نام لے کر کام شروع کروں گا، وہی ذات اس کام کو پایہ تکمیل تک پھچائی گی۔ چنانچہ اللہ رب العالمین کا نام لے کر کام شروع کر دیا اور دس بارہ سال کی محنت اور لگن سے ایک شاندار مسجد بن گئی۔ اسی مسجد میں بندہ نے دینی تعلیم کا آغاز کیا ۔

مچ والی مسجد بھی بہت پرانی تھی۔ (مچ سندھی زبان میں آگ کو کہتے ہیں اس مسجد کے قریب لوگ آگ جلا کر مجلس کیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے اس کا نام ہی "مچ والی مسجد" پڑ گیا)۔ زمانے کی گردش سے منہدم ہو گئی تھی۔ اس مسجد کو بھی نئی سرے سے والد صاحب نے تعمیر کروایا۔ یہاں وہ امامت بھی خود ہی کراتے تھے۔ 

مساجد کی تعمیر کے بعد والد صاحب کو فکر لاحق ہوا کہ گاؤں میں ایک دینی مدرسہ بھی ہونا چاہیے جو نئی نسل کی دینی و مذہبی تربیت کر سکے اور لوگوں کے عقائد کی اصلاح ہوسکے۔ مدرسہ کے لئے ایک موزوں جگہ والد گرامی کی نظر میں تھی، لیکن اس میں کچھ رکاوٹ تھی۔ جگہ کے مالکان جگہ دینے پر راضی نہ تھے۔ والد گرامی نے رات کو اٹھ اٹھ کر تہجد میں دعائیں مانگیں۔ اللہ تعالیٰ نے وہ دعائیں قبول کیں اور جگہ کے مالکان میں سے مرحوم بنگل فقیر خود والد صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ ہم یہ جگہ آپ کو مدرسہ کے لیے وقف کرنے آئے ہیں۔ والد صاحب نے فرمایا کہ اب زندگی کا سورج غروب ہونے والا ہے، اب میرے اس کمزور جسم میں اتنی طاقت کہاں کہ مدرسہ تعمیر کراؤں۔ مرحوم بنگل فقیر نے بہت اصرار کیا کہ آپ کو جگہ لینی ہے اور مدرسہ تعمیر کرنا ہے۔ والد صاحب نے اللہ کا نام لے کر کام شروع کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک عظیم الشان ادارہ ’’مدرسہ عربیہ دارالتعلیم حمادیہ گلشن امام سندھی‘‘ تعمیر ہو گیا۔ یوں ان کی زندگی میں سب سے محبوب عمل ان آخری عمل اور "انما الاعمال بالخواتیم" کی عملی تصویر بن گیا۔ یہ بھی ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔

والد گرامی نے اپنے گاؤں میں دینی جلسے کرانے کا سلسلہ شروع کیا تھا جو 1981ء سے ان کی وفات تک جاری رہا۔ ان جلسوں میں سندھ اور پنجاب کے مشہور خطباء تشریف لاتے ہیں جن میں کچھ یہ قابل ذکر ہیں: امام المجاہدین حضرت مولانا سید محمد شاہ امروٹی، مناظر اسلام حضرت مولانا سید عبداللہ شاہ بخاری، شہید اسلام حضرت مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو، حضرت مولانا عبدالغفور حقانی شجاع آباد پنجاب، حضرت مولانا سید سراج احمد شاہ امروٹی مدظلہ، حضرت مولانا میر محمد میرک والے حضرت مولانا عبدالغنی پنجاب، وغیرہ۔

وفات حسرت آیات: جس طرح آپ نے زندگی شاندار اور مجاہدانہ گذاری، وفات بھی قابل رشک تھی کہ نماز پڑھتے اپنا سر سجدے میں رکھتے ہوئے جان جان آفریں کے حوالے کر دی۔ وفات ۲؍ اگست ۲۰۱۵ء کو مغرب کی نماز پڑھتے ہوئے پہلی رکعت کے سجدے میں ہوئی۔ حضرت والد گرامی کے غسل میں راقم الحروف اور میرے چھوٹے بھائی عطاء اللہ شریک تھے۔ نماز جنازہ ان کے قائم کردہ ادارہ مدرسہ عربیہ دارالتعلیم میں حضرت مولانا حافظ سعید احمد شاہ بخاری نے پڑھائی۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت انہیں اپنی جوار رحمت جگہ دے آمین۔

مشاہدات و تاثرات

(جنوری ۲۰۱۶ء)

جنوری ۲۰۱۶ء

جلد ۲۷ ۔ شمارہ ۱

ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کی ادارتی ذمہ داریوں کی منتقلی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بھارتی وزیر اعظم کا دورۂ پاکستان
محمد عمار خان ناصر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۴)
ڈاکٹر محی الدین غازی

اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق‘‘
محمد زاہد صدیق مغل

بیل ۔ سینگوں کے بغیر؟
خورشید احمد ندیم

جدید علم الکلام
مولانا مفتی منیب الرحمن

بین المذاہب مکالمہ کی ایک نشست کے سوال و جواب
محمد عمار خان ناصر

حسینہ واجد کی انتقامی سیاست
محمد اظہار الحق

رفیق احمد باجوہ ۔ ایک بھولا بسرا کردار
محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ

پروانہ جمعیت صوفی خدا بخش چوہانؒ
ابو محمد سلیم اللہ چوہان سندھی

سود، کرایہ و افراط زر: غلط سوال کے غلط جواب کا درست جواب
محمد زاہد صدیق مغل

سید احمد شہید کی تحریک اور تحریک طالبان کا تقابلی جائزہ
مولانا محمد انس حسان

ممتاز قادری کی سزا ۔ ڈاکٹر شہباز منج کے خیالات پر ایک نظر
مولانا قاضی نثار احمد

مکاتیب
ادارہ

ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان : بین المذاہب اور بین المسالک تناظرات کی نئی تشکیل
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

سانحہ ہائے ارتحال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک سفر کی روداد
محمد بلال فاروقی

تلاش

Flag Counter