علاقائی امن اور ممالک کے مابین دوستانہ تعلقات، اس خطے کی ضرورت ہیں۔ سیاست دانوں اور افواج اور انتہا پسند پریشر گروپس کی نہ سہی، عوام کی بہرحال ضرورت ہیں۔ انسانی قدریں بھی اسی کا تقاضا کرتی ہیں اور مسلمانوں کی مذہبی ودعوتی ذمہ داریاں بھی۔
تنازعات پرامن تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ہوا کرتے ہیں۔ تاہم پر امن تعلقات کی طرف بڑھنے کو تنازعات کے پیشگی حل سے مشروط کرنا ایک غیر عملی سوچ ہے۔ تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ اگر آپ کے پاس طاقت سے تنازع کو حل کرنے کا آپشن موجود نہیں تو پھر پہلے وہ سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں فریقین کے پاس سیاسی لین دین کی گنجائش اور لچک موجود ہو۔
پاکستان اور بھارت، طاقت کے راستے سے تنازعات کے حل کا آپشن بار بار آزما چکے ہیں اور اب یہ طریقہ واضح طور پر ’’نو آپشن’’ کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ مذاکرات اور سیاسی مکالمہ کے ذریعے سے حل تلاش کرنے کے لیے جس ماحول کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے موجودہ صورت حال میں وہ میسر نہیں۔ سو اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ تنازعات کو اپنی جگہ تسلیم کرتے ہوئے وہ ماحول بنانے کی کوشش کی جائے جس میں خطے کی عمومی ذہنی فضا خود یہ تقاضا کرے کہ تنازعات کا تصفیہ کیا جائے (اور تقاضا نہ بھی کرے تو کم سے کم اس کی راہ میں حائل نہ ہو)۔
سازگار ماحول بنانے کے لیے ان دائروں میں باہمی تعلقات کو آگے بڑھانا ہوگا جن میں دونوں ملکوں کے مفادات مشترک ہیں۔ پون صدی سے جاری دائرے کے سفر سے اگر باہر نکلنا ہے تو یہ قدم اٹھانا ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی امید افزا پیش رفت کا خیر مقدم کرنا ہمارے نزدیک سیاسی فکر کی پختگی کی علامت ہے۔ خطے کی تاریخ اہل سیاست اور اہل صحافت، دونوں سے مثبت اور تعمیری کردار کی توقع کر رہی ہے۔