فلسطین کے سوال کا حل
اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے نتائج نے فلسطین کے مسئلے کو خود اسرائیل کے لیے ایک موجودہ سوال کے طور پر دوبارہ تشکیل دیا ہے، جس سے اس کی تزویراتی ناکامیوں اور کمزوریوں کا پردہ فاش ہو گیا ہے جبکہ اس کے آباد کار استعماری صہیونی نظریے پر عالمی تشویش میں شدّت پیدا ہوئی ہے ۔ چونکہ یہ نظریہ نسلی بالادستی اور خارجیت پر مبنی ہے، اس لیے دو ریاستی حل ناقابل عمل ہے۔ اس کا واحد حل صہیونی منصوبے کو ختم کرکے انصاف اور فلسطینی عوام کی خودمختاری کے قیام کے میں مضمر ہے۔
یہ بات استنبول صباحتین زیم یونیورسٹی کے سینٹر فار اسلام اینڈ گلوبل افیئرز (سی آئی جی اے) کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر سمیع الآریان نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد میں منعقدہ امن کا راستہ: فلسطین کے سوال کا حل کے عنوان پر 24 جنوری 2025 کو ہونے والے ایک پالیسی ڈائیلاگ کے دوران کہی ۔ اس سیشن سے آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن نے بھی خطاب کیا۔
ڈاکٹر سمیع الآریان نے دلیل دی کہ صیہونیزم کنٹرول کرنے اور حکومت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کسی بھی ریاست کو کچھ ایسا کرنے سے روکتا ہے جس سے اسے خطرہ محسوس ہو۔ انہوں نے کہا کہ صیہونیت کو ختم کرنا یہودیوں کے مذہب کی مخالفت کرنا نہیں ہے۔ اس کے بجائے، یہ جارحانہ اور جابرانہ نظام کے خلاف مزاحمت سے متعلق ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ جدوجہد انصاف پر مرکوز رہے۔
اس تناظر میں انہوں نے 7 اکتوبر 2023 کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں طویل عرصے سے جاری ان جارحانہ پالیسیوں کے نتیجے کے طور پر سمجھنا چاہیے جنہوں نے غزہ کو 16 سال محاصرے میں رکھا ، اسے کنٹرول کرنے کے اقدامات کیے، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا ۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کھلے عام فلسطینیوں کو محکوم بنانے کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہی ہے، اور انہیں یا تو قبضہ قبول کرنے، بھاگ جانے یا موت کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ مزید برآں، اسرائیلی ریاست نے انتہا پسند دھڑوں کو مسلح کرکے، اور فلسطینی علاقوں پر یہودی دعووں کا ساتھ دینے والے اقدامات پرعمل دوآمد کرتے ہوئے آباد کاروں کے تشدد کی حمایت کی ہے۔
ڈاکٹر الآریان نے کہا کہ یہ فلسطینیوں کے لیے ان کی خود ارادیت اور آزادی کا معاملہ بن چکا ہے۔ تاہم مسلسل جاری فلسطینی مزاحمت نے اسرائیل کے دیرینہ یکطرفہ تسلط کو چیلنج کیا ہے۔ یہ خاص طور پر اس وقت واضح ہوا جب اسرائیل کی فوجی طاقت غزہ میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی، اوراب صیہونیت کو ایک آباد کار نوآبادیاتی نظریے کے طور پر اپنی قانونی حیثیت اور جارحانہ عزائم کے باعث چیلنجوں کا سامنا ہے۔
مزید برآں، انہوں نے کہا کہ حالیہ پیش رفت نے اسرائیل کی دفاعی حکمت عملیوں میں تیزی سے کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے، جن میں انٹیلی جنس کی ناکامیاں، ڈیٹرنس کی ناکامیاں، سیکورٹی کی خلاف ورزیاں، اور فوری حل حاصل کرنے میں ناکامی شامل ہیں۔
اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے نوٹ کیا کہ اس تنازعہ کے نتیجے نے روایتی طاقت کی حرکیات کو بھی چیلنج کیا ہے، جس سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے عالمی اداروں کی موروثی خامیاں بے نقاب ہوئی ہیں، جو کہ 1945 کے بعد کے ویٹو پاور والے بین الاقوامی نظام کی پائیداری کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔
انہوں نے مزید روشنی ڈالی کہ فلسطینی جدوجہد اب میدان جنگ سے آگے نکل کر بیانیوں تک پھیل چکی ہے۔ یہ بھی ایک نیاعنصر یہ ہے کہ اس تنازعہ پر پہلے سے کہیں زیادہ، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے بڑے پیمانے پر بحث کی گئی اور اس میں حصہ لیا گیا، اس کے اثرات کو بڑھایا اور یہ عالمی بیانیہ حقیقی وقت میں تشکیل پایا۔
مسلم امہ کی آزادی اور گفتگو کو فعال طور پر تشکیل دینے میں اس کے کردار پر زور دیتے ہوئے رحمٰن نے نوٹ کیا کہ جہاں ڈیجیٹل دور نے غالب بیانیے کو چیلنج کرنا آسان بنا دیا ہے، اصل امتحان مسلمانوں کے عالمی تاثرات پر اثر انداز ہونے کے اس موقع کا مؤثر طریقے سے فائدہ اٹھانے اور اپنی مزاحمت کےمقاصد کو مضبوط کرنےکے کی متحد ہ کوششوں میں ہے۔
(۲۴ جنوری ۲۰۲۵ء)
پاک افغان تعلقات کی ازسرِنو تعریف
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی تنظیم نو کے لیے قلیل مدتی پالیسیوں کی بجائے ایک جامع، اسٹریٹیجک اور گورننس پر مبنی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔ چونکہ قانون کی حکمرانی کی کمزوری اور تفرقہ انگیز بیان بازی سے بداعتمادی اور عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، اس لیے اس نقطہ نظر میں ایک دوسرے کی خودمختاری کو تسلیم کرنے، فرقہ وارانہ بیانیوں کی نفی، قانون کی حکمرانی کی بحالی، قانون کے نفاذ میں عوامی ملکیت اور اور ادارہ جاتی نظام کو ترجیح دینا ضروری ہے۔
ان خیالات کا اظہار افغانستان میں پاکستان کے سابق خصوصی نمائندے سفیر (ر) آصف درانی نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں 31 جنوری 2025 کو جیو پولیٹیکل امپریٹیوز: طالبان کے بعد کے دور میں پاکستان-افغانستان تعلقات کی ازسرِ نو تعریف کے عنوان سے ہونے والی ایک تقریب میں اپنے کلیدی خطاب کے دوران کیا۔
اس نشست سےچئیرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، ، دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سعد نذیر، جی آئی زی میں پالیسی ایڈوائیزر نورالعیٰن نسیم، یونیورسٹی آف ٹرومسو، ناروے کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فرحت تاج، ایمبیسیڈر (ر) سیّد ابرار حسین، ایمبیسیڈر (ر) ایاز وزیر، تجزیہ نگار ڈاکٹر لطف الرحمٰن ، اور دیگر تعلیمی ماہرین، سابق افسران اور پالیسی ماہرین نے خطاب کیا۔
سفیر (ر) آصف درانی نے اجاگر کیا کہ پاکستان-افغانستان تعلقات میں پیچیدہ قبائلی تعلقات، سرحدی تجارت کے مسائل اور پناہ گزینوں کے انتظام جیسے جغرافیائی سیاسی چیلنجز کو روایتی سفارتکاری یا فوجی نقطہ نظر سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بجائےاس کے حل کے لیے ایک حکومتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو باہمی خودمختاری کو تسلیم کرنے اور علاقائی پیچیدگیوں کے ایک جامع فہم پر مبنی ہو تاکہ اس دوطرفہ تعلقات میں دیرپا استحکام حاصل کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کا خاتمہ، جو 1990 کی دہائی کی جنگی معیشت کی وجہ سے ہوا تھا اور جس نے صدیوں پرانے تجارتی اور کمیونٹی تعلقات کو متاثر کیا، پاکستان-افغانستان تعلقات میں عدم استحکام کا ایک اہم عنصر ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ حکومتی ناکامیوں، بدعنوانی، اور مہاجرین کی پالیسیوں، سرحدی حفاظت، اور ٹرانزٹ ٹریڈ جیسے شعبوں میں بدانتظامی نے لاقانونیت کو مزید گہرا کر دیا ہے، جس سے ادارہ جاتی تنظیم نو ضروری ہو گئی ہے۔ استحکام بحال کرنے کے لیے انہوں نے ادارہ جاتی اصلاحات، پولیس فورس کو بااختیار بنا کر قانون نافذ کرنے میں بہتری، اور حکومتی میکانزم میں عوامی ملکیت کو فروغ دینے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
دورانی نے سیاسی بیانیوں کے منفی اثرات پر بھی روشنی ڈالی جو عدم اعتماد کو بڑھاتے ہیں، جس کے نمایاں اثرات عوامی تعلقات اور اقتصادی تعاون پر پڑتے ہیں۔ افغانستان کی پاکستان کے ذریعے تجارت پر انحصار کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے قیادت اور عوامی سطح پر ایک عملی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت پر زور دیا، جو فرقہ وارانہ بیانیوں کی نفی کرے اور دوطرفہ تعلقات کو ایک اسٹریٹیجک طاقت کے طور پر دیکھے۔
اس کی توثیق کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات طویل عرصے سے محاذ آرائی اور خوشامد کے درمیان اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، جن میں سے کسی نے بھی پائیدار استحکام نہیں دیا۔ اس کے لیے ایک زیادہ متوازن حکمت عملی کی ضرورت ہے جو ڈیٹرنس، ترقی اور روابط کو مضبوط کرے۔
پینلسٹس نے علاقائی نقطہ نظر کی اہمیت پر بھی زور دیا جس میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک تجارت، سرحدی انتظام اور عوامی رابطے میں زیادہ کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح یہ یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ افغانستان ایک وسیع تر علاقے کے ساتھ تعمیری طور پر منسلک رہے۔
مقررین نے پاکستان-افغانستان پالیسی پر منظم عوامی بحث کی کمی کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے تعلیمی مشغولیت اور تحقیق پر مبنی پالیسی سازی کی ضرورت پر زور دیا تاکہ طویل مدتی اور معلومات پر مبنی حکمت عملی تیار کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین کو کسی بھی پالیسی فریم ورک میں تاریخی پیچیدگیوں کو تسلیم کرنا چاہیے تاکہ ایک عوامی نقطہ نظر اپنایا جا سکے جو ردعمل کے سیاسی چالاکی سے آگے بڑھے اور باہمی اعتماد کو فروغ دے۔
اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ الزام تراشی کا کھیل غیر نتیجہ خیز ہے اور یہ طویل المدتی مسائل کو حل نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ خراب حکمرانی دوطرفہ چیلنجز کی جڑ ہے اور اگر اس بنیادی مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو پالیسی کے اقدامات غیر موثر رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ باہمی طاقتوں پر مرکوز ایک مثبت بیانیہ تشکیل دینا انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو اچھی حکمرانی، ادارہ جاتی استحکام اور واضح قومی بیانیہ کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ علاقائی استحکام اور تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔
(۳۱ جنوری ۲۰۲۵ء)