باجماعت نماز، قرآن و سنت کی روشنی میں

اسلام ایک جامع دین ہے، جو نہ صرف انسان کی انفرادی اصلاح کرتا ہے بلکہ اجتماعی زندگی کے بھی بہترین اصول وضع کرتا ہے۔ اس میں عبادات کو نہ صرف انفرادی ذمہ داری کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ انہیں اجتماعی طور پر ادا کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ نماز، جو دین کا ستون ہے، اگر باجماعت ادا کی جائے تو اس کے روحانی، اجتماعی اور اخلاقی اثرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔

باجماعت نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہ صرف فرض نمازوں کی بہترین ادائیگی قرار دیا بلکہ اس کے ذریعے گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کی بھی خوش خبری دی۔ احادیثِ مبارکہ میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ باجماعت نماز میں شریک ہونے والے شخص کے پچھلے گناہوں کی بخشش کی جاتی ہے اور اس کا مقام اللہ کے نزدیک بلند کر دیا جاتا ہے۔ یہ عبادت نہ صرف گناہوں کا کفارہ بنتی ہے بلکہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد، محبت اور بھائی چارے کو بھی مضبوط کرتی ہے۔

با جماعت نماز کی اہمیت

قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالی نے اور سینکڑوں احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور پابندی کے ساتھ نمازِ باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ نماز میں کوتاہی اور سستی کرنے والوں کو منافقین کی صف میں شمار کیا گیا ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

’’نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالی کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو۔‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۲۳۸)

دوسری جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘ (سورۃ البقرۃ: ۴۳)

یہ آیات نمازِ باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح اور صریح دلائل ہیں۔ اگر مقصود صرف نماز قائم کرنا ہی ہوتا تو آیت کے آخر میں ’’اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘ کے الفاظ نہ ہوتے، جو نمازِ باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح نص ہیں۔

میدانِ جنگ میں با جماعت نماز

اللہ تعالیٰ نے میدانِ جنگ میں بھی نمازِ باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حالتِ امن میں بالاولیٰ نمازِ باجماعت فرض ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’جب تم ان میں ہو اور ان کے لئے نماز کھڑی کرو تو چاہیئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آجائے اور تمہارے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لئے رہیں۔‘‘ (سورۃ النساء: ۱۰۲)

اگر کسی کو نمازِ باجماعت نہ ادا کرنے کی اجازت ہوتی تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ان مجاہدین کو اجازت دیتے جو میدانِ جنگ میں دشمن کے سامنے صفیں بنائے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میرا ارادہ ہوا کہ میں لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کے لیے اذان دینے کا، پھر کسی سے کہوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اس کے بجائے ان لوگوں کے پاس جاؤں (جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے) اور انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔ (بخاری: ۲۴۲۰، مسلم: ۶۵۱)

نابینا شخص اور با جماعت نماز

نابینا شخص کے لیے بھی جماعت سے غیر حاضری کی اجازت نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: ’’اللہ کے رسول! (صلی اللہ علیہ وسلم) مدینہ میں کیڑے مکوڑے (سانپ بچھو وغیرہ) اور درندے بہت ہیں، (تو کیا میں گھر میں نماز پڑھ لیا کروں)؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا تم حی علی الصلاۃ، اور حی علی الفلاح کی آواز سنتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’جی ہاں، (سنتا ہوں)‘‘۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر تو مسجد آ‘‘۔ اور آپؐ نے انہیں جماعت سے غیر حاضر رہنے کی اجازت نہیں دی۔ (صححہ الالبانی فی صحیح النسائی: ۸۵۰)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ہم نے ایسے وقت بھی دیکھے ہیں جب صرف وہی شخص نماز سے پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق معلوم ہوتا یا بیمار ہو۔ اور (بسا اوقات) بیمار بھی دو آدمیوں کے سہارے سے چل کر آ جاتا یہاں تک کہ نماز میں شامل ہو جاتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کے طریقوں کی تعلیم دی اور ہدایت کے طریقوں میں سے ایسی مسجد میں نماز پڑھنا بھی ہے جس میں اذان دی جاتی ہو۔‘‘ (صحیح مسلم: ۱۴۸۷)

لہٰذا کسی مسلمان کے لئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نماز جیسے عظیم الشان اور اہم ترین فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی یا سستی کرے۔

نمازِ با جماعت گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ

اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان پر بہت بڑا احسان کیا کہ انسان سے سرزد ہونے والے گناہوں کی معافی کے لیے ایسے نیک اعمال کی ترغیب دلائی ہے کہ جس کے کرنے سے انسان کے زندگی بھر کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا ایک مسلمان کے لئے اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کے حصول کے ذرائع اور اسباب اختیار کرنا نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ اصل محروم تو وہی ہے جو ایمان اور اللہ کی مغفرت و رحمت سے محروم رہ گیا۔ اور جو گناہوں کی مغفرت اور برائیوں کے کفارے کے اسباب اپنانے سے محروم رہا وہ بھی محروم ہے۔

درج ذیل سطور میں با جماعت نماز اور گناہوں کی مغفرت کے عنوان پر چند احادیث پیش کی جا رہی ہیں تاکہ مسلمانوں کو باجماعت نماز ادا کرنے میں رغبت و دلچسپی ہو اور باجماعت نماز میں کوتاہی کرنے والوں کو تنبیہ ہو۔

(۱) وضو اور نماز کی تیاری

وضو کر کے نماز کی تیاری کرنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جس نے وضو کیا اور خوب اچھی طرح وضو کیا، تو اس کے جسم سے اس کے گناہ خارج ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم : ۵۷۸)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:

’’جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرے، پھر نماز پڑھے، تو اس کے اس نماز سے لے کر دوسری نماز پڑھنے تک کے دوران ہونے والے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (صحیح مسلم: ۲۲۷)

(۲) با جماعت نماز کا اہتمام کرنا

جماعت کے ساتھ نماز کی پابندی کرنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میں حد (سزا) کا مرتکب ہوگیا ہوں، مجھ پر حد قائم فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا بھلا تو نے آتے وقت وضو کیا تھا؟‘‘ اس نے کہا: ’’جی ہاں!’’ آپؐ نے فرمایا: ’’کیا تو نے ہمارے ساتھ مل کر نماز پڑھی ہے؟’’ اس نے کہا: ’’جی ہاں!’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ اللہ نے تجھے معاف کر دیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم: ۲۷۶۵)

(۳) با جماعت نماز کی نیت بھی باعثِ ثواب

باجماعت نماز کی نیت بھی باعثِ ثواب ہے۔ یعنی کوئی شخص جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی نیت کے ساتھ مسجد آیا لیکن پھر بھی جماعت نہ مل سکی تو اس کی نیت اور کوشش کی وجہ سے اسے جماعت کے ساتھ نماز کا ثواب ملے گا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا، پھر مسجد کی طرف چلا تو دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں تو اسے بھی اللہ تعالیٰ جماعت میں شریک ہونے والوں کی طرح ثواب دے گا، اس سے جماعت سے نماز ادا کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔‘‘ (صححہ الالبانی فی صحیح النسائی: ۸۵۴)

(۴) خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا

نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’کوئی بھی مسلمان فرض نماز کا وقت پائے پھر وہ اس کے لیے اچھی طرح وضو کرے، اچھی طرح خشوع سے اسے ادا کرے اور احسن انداز سے رکوع کرے، تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو گی جب تک وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا اور یہ عمل ہمیشہ کے لیے ہے۔’’ (صحیح مسلم: ۲۲۸)

(۵) با جماعت نماز کے لئے چل کر جانا

با جماعت نماز کے لیے چل کر جانے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

’’جس نے نماز کے لیے وضو کیا اور وضو کی تکمیل کی، پھر فرض نماز کے لیے چل کر گیا اور لوگوں کے ساتھ یا جماعت کے ساتھ نماز ادا کی یا مسجد میں نماز پڑھی، اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دے گا۔‘‘ (صحیح مسلم: ۲۳۲)

(۶) مسجد سے واپسی بھی کارِ ثواب

جس طرح با جماعت نماز کے لئے مسجد کی طرف چل کر جانا باعثِ مغفرت و کارِ ثواب ہے اسی طرح مسجد سے واپسی بھی باعثِ مغفرت اور کارِ ثواب ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص جماعت کی نماز کے لیے مسجد جاتا ہے، اس کا ایک قدم اس کا گناہ مٹاتا ہے اور دوسرا قدم اس کے لیے نیکی لکھتا ہے، یہ اجر مسجد جاتے اور مسجد سے واپس آتے دونوں وقت حاصل ہوتا ہے۔ (حسنہ الالبانی فی صحیح الترغیب: ۲۹۹)

یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کی وسعت کا نتیجہ ہے، اگرچہ اس (شخص) نے جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھی لیکن چونکہ وہ شخص جماعت کے ساتھ نماز کی نیت سے چل کر مسجد آیا تھا تو اس کے لیے جماعت کے برابر اجر ملے گا۔ ایک مسلمان نمازی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہو سکتا ہے۔ (بخاری: ۴۷۷، مسلم: ۶۴۹)

(۷) مسجد میں با جماعت نماز کا انتظار

مسجد میں با جماعت نماز کے لئے انتظار کرنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ کیونکہ زیادہ دیر بیٹھنے اور انتظار کے دوران فرشتے انتظار کرنے والے کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا گھر کے اندر یا بازار میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا ثواب زیادہ ملتا ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرے اور اس کے آداب کا لحاظ رکھے پھر مسجد میں صرف نماز کی غرض سے آئے تو اس کے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ اس کا بلند کرتا ہے اور ایک گناہ اس سے معاف کرتا ہے۔ اس طرح وہ مسجد کے اندر آئے گا، مسجد میں آنے کے بعد جب تک نماز کے انتظار میں رہے گا اسے نماز ہی کی حالت میں شمار کیا جائے گا۔ اور جب تک اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے اس کے لیے رحمتِ خداوندی کی دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ! اس کو بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم کر۔ (فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں) جب تک وہ بے وضو نہ ہو جائے۔‘‘ (بخاری: ۶۵۱، مسلم: ۶۶۲)

اجر و ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا انسان

با جماعت نماز ادا کرنے والا اجر و ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا انسان ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’نماز میں ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا وہ شخص ہوتا ہے جو (مسجد میں نماز کے لیے) زیادہ سے زیادہ دور سے آئے۔ اور جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے اور پھر امام کے ساتھ پڑھتا ہے اس شخص سے اجر میں بڑھ کر ہے جو (پہلے ہی) پڑھ کر سو جائے۔‘‘ (بخاری: ۶۵۱، مسلم: ۶۶۲)

(۸) امام کے پیچھے آمین کہنا

نمازِ جہری میں امام کے پیچھے آمین کہنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب امام ’’غیر المغضوب علیہم ولا الضالین‘‘ کہے تو تم ’’آمین‘‘  کہو کیونکہ جس کا آمین کہنا ملائکہ کے آمین کہنے کے ساتھ ہو جائے اس کی تمام پچھلی خطائیں معاف ہو جاتی ہیں۔‘‘ (الترغیب والترہیب، کتاب الصلوٰۃ، ج: ۱، ص: ۱۳۰)

(۹) رکوع سے اٹھنے کے بعد اللہم ربنا لک الحمد کہنا

رکوع سے اٹھنے کے بعد امام کے ساتھ ذکر میں شریک ہونے کی وجہ سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب امام ’’سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ کہے تو تم ’’اللہم ربنا ولک الحمد‘‘  کہو۔ کیونکہ جس کا یہ کہنا فرشتوں کے کہنے کے ساتھ ہوگا، اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘ (صححہ الالبانی فی صحیح الترمذی: ۲۶۷)

(۱۰) نماز میں پہلی اور دوسری صف میں کھڑا ہونا

نمازِ با جماعت میں پہلی اور دوسری صف میں کھڑے ہونے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: 

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے پہلی صف والوں کے لیے تین بار اور دوسری صف والوں کے لیے ایک بار مغفرت طلب کرتے تھے۔‘‘ (صححہ الالبانی فی صحیح ابن ماجہ: ۸۲۲)

جب ایک مومن مسلمان کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بخشش طلب کریں تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور بخش دیتے ہیں۔ لہٰذا پہلی صف میں کھڑا ہونا چاہیے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو دوسری صف میں کھڑا ہو کر بخشش کا مستحق بننا چاہئے کیونکہ پہلی صف کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ حضرت برا بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

’’بیشک اللہ تعالیٰ پہلی صف والوں پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے اس کے حق میں دعا کرتے ہیں۔‘‘ (صححہ الالبانی فی صحیح ابن ماجہ: ۹۹۷)

(۱۱) تشہد میں مغفرت طلب کرنا

تشہد میں دعائے مغفرت مانگنے سے گناہوں کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ حضرت محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو ایک شخص (کو دیکھ کر) جس کی نماز ختم ہونے کے قریب تھی اور وہ تشہد میں یہ دعا کر رہا تھا:

’’اے اللہ! بے شک میں آپ سے سوال کرتا ہوں، اے اللہ! تو ایک ہے، تو بے نیاز ہے، تو وہ ذات ہے جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ ہی وہ جنا گیا اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ (یہ کہ) تو میرے گناہوں کو معاف کر دے، بے شک تو بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔‘‘

محجن بن ادرع کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا:

’’اس کو بخش دیا گیا، اس کو بخش دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ تین بار فرمایا۔‘‘ (صححہ الالبانی فی صحیح النسائی: ۱۳۰۰)

قارئین کرام! درج بالا احادیث سے یہ معلوم ہوا کہ جو مسلمان اپنے گھر میں اکیلا نماز پڑھتا ہے، اس نے جماعت چھوڑ کر کس عظیم فضیلت سے خود کو محروم کر دیا ہے۔ اور نمازِ باجماعت کے ذریعے جو گناہوں کی مغفرت نصیب ہوتی ہے، اس سے وہ کس قدر دور ہے۔ وہ یہ بھی سوچے کہ یہ عبادت روزانہ پانچ مرتبہ دہرائی جاتی ہے۔ ہر نماز میں ان فضائل کا سلسلہ جاری رہتا ہے، کیونکہ وہ پانچ بار مسجد جاتا ہے اور سترہ رکعات پڑھتا ہے۔ تو ہفتے، مہینے اور سال میں کتنی رکعات بن جائیں گی؟ ہر رکعت میں امام کے ساتھ سورۃ الفاتحہ اور رکوع کے بعد ذکر میں شامل ہو کر اس کے لیے مغفرت کا ایک نادر موقع موجود ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ فرشتوں کی دعاؤں کا بھی مستحق بن سکتا ہے اور اس طرح اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ مسلسل ایسی حالت میں رہے تو ممکن ہے کہ جب وہ اللہ سے ملے تو گناہوں سے پاک ہو۔

اس طرح مسلمان کے لیے مؤذن کے الفاظ ’’حی علی الفلاح‘‘ (آؤ کامیابی کی طرف) کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان کا بھی مطلب سمجھ آتا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’بھلا بتاؤ تو سہی، اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ اس نہر میں ہر دن پانچ بار نہائے تو کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل کچیل رہے گا؟ صحابہؓ نے کہا: اس کے جسم پر تھوڑی بھی میل نہیں رہے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی مثال ہے پانچوں نمازوں کی، ان نمازوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ (بخاری: ۵۲۸، مسلم: ۶۶۷)

بہت افسوس کی بات ہے کہ آج کل بہت سے مسلمان جماعت کی نماز سے غافل رہتے ہیں اور اس عظیم اجر کو ضائع کرتے ہیں۔ درحقیقت بغیر کسی عذر کے جماعت کی نماز چھوڑنا ایک گناہ ہے۔ بغیر عذرِ شرعی باجماعت نماز نہ پڑھنے کو منافقت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

’’جس گاؤں یا بستی میں تین آدمی ہوں اور جماعت نہ قائم کریں تو شیطان ان پر مسلط ہو جاتا ہے، لہٰذا جماعت کو ضروری سمجھو کیونکہ بھیڑیا بچھڑی ہوئی بکری کو کھاتا ہے۔‘‘ (حسنہ الالبانی فی صحیح ابی داؤد: ۵۴۱)

قارئین کرام! احادیثِ مبارکہ سے نمازِ باجماعت کی اہمیت اور فوائد معلوم ہوگئے، لہٰذا ہمیں با جماعت نماز سے غائب اور پیچھے رہنے سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔ اللہ سے ڈرتے ہوئے پانچ وقت کی نماز جماعت کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ مساجد میں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے بچوں اور جن لوگوں کی ذمہ داری ہم پر ہے، ان کی بھی اس بارے میں تربیت کرنی چاہیے، کیونکہ ہم ان کے بارے میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔

نیز اللہ پاک کا پیارا بننے کے لئے، درجات کی بلندی کو پانے کے لئے، جنت میں داخلے کے لئے، جہنم سے آزادی کے لئے، منافقت سے نجات پانے کے لئے، شیطان سے حفاظت کے لئے، اور اسی طرح اللہ پاک کی رحمت، مغفرت اور بہت سے فوائد حاصل کرنے کے لئے، نمازِ باجماعت کی پابندی کیجئے اور دوسروں کو بھی نیکی کی دعوت دے کر باجماعت نماز پڑھنے کی ترغیب دلایئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نمازِ باجماعت کا پابند بنائے اور ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے نیک اعمال کو قبول فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

اسلامی شریعت

(الشریعہ — مارچ ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — مارچ ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۳

مسئلہ رؤیتِ ہلال کے چند توجہ طلب پہلو
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

رویتِ ہلال میں اختلاف پر شرمندگی کا حل اور قانون سازی کی ضرورت
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

مسئلہ رؤیتِ ہلال، فقہ حنفی کی روشنی میں
مولانا مفتی محمد ایوب سعدی

مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی پر اعتراضات کا جواب
اویس حفیظ

نظام ہائے کیلنڈر: ایک جائزہ
ترجمان

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۲)
ڈاکٹر محی الدین غازی

باجماعت نماز، قرآن و سنت کی روشنی میں
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۱)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

فحاشی و عریانی اور لباس و نظر کا نفسیاتی مطالعہ!
محمد عرفان ندیم

مسجد اقصیٰ کے ایک مسافر کی تڑپ
عقیل دانش

ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ وہائٹ ہاؤس میں: مشرق وسطیٰ اور دنیا پر اس کے متوقع اثرات؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطین کی جنگ بندی اور پیکا ایکٹ کی منظوری
مولانا فضل الرحمٰن

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن کی گوجرانوالا آمد
مولانا حافظ خرم شہزاد

پاکستان شریعت کونسل کی تشکیلِ نو
پروفیسر حافظ منیر احمد

Pakistan and Turkiye: The Center of Hope for the Muslim Ummah
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہانہ بلاگ

حضرت لیلٰی غفاریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

شورائیت اور ملوکیت
ڈاکٹر عرفان شہزاد

اصول سازى اور غامدى صاحب
حسان بن علی

جب احراری اور مسلم لیگی اتحادی بنے
عامر ریاض

غزہ میں رمضان: تباہی اور غیر متزلزل ایمان
الجزیرہ

مولانا حامد الحق حقانی کی المناک شہادت
مولانا عبد الرؤف فاروقی

فلسطین کے سوال کا حل اور پاک افغان تعلقات کی ازسرِنو تعریف
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

مطبوعات

شماریات

Flag Counter