استہزاء کی بیماری اب یہود و نصارٰی سے نکل کر مسلمانوں میں بھی آ چکی ہے۔ مختلف موضوعات پر کارٹون بنانا، ڈرامے پیش کرنا، نمازیوں کا تمسخر اڑانا اور عبادت کو کھیل کے طور پر پیش کرنا اس کے سوا کیا ہے کہ دین کے ساتھ استہزاء ہے۔ حج جیسی بلند عبادت کو فلم کے طور پر پیش کرنا شعائر اللہ سے تمسخر ہی تو ہے۔ صدر ایوب کے زمانے میں روزنامہ مشرق میں پڑھا تھا کہ مظفر نرالا نامی فلم ایکٹر کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو اس نے اس بچے کے کان میں مرغ کی اذان دلوائی۔ نومولود کے کان میں اذان کہنا سنت ہے مگر اس شخص نے اس سنت کا مذاق اڑایا۔ اسی طرح لافنگ گیلری والوں نے ڈاڑھی کو استہزاء کا نشانہ بنایا ہے حالانکہ ڈاڑھی سنتِ انبیاءؑ ہے۔ جو خود تارکِ سنت ہے اسے خود کم از کم سنت کا مذاق تو نہیں اڑانا چاہیے۔
پہلی صدی ہجری کا واقعہ ہے کہ گورنر عباد خراسان کے سفر پر روانہ ہوا تو اس کے ساتھ ایک منہ پھٹ شاعر بھی تھا۔ چلتے وقت عباد کی لمبی ڈاڑھی خوب ہلتی تھی، اس پر شاعرنے مزاحیہ شعر کہہ دیا۔ گورنر کو علم ہوا تو اس نے شاعر کو سخت سرزنش کی اور اسے پانچ ماہ تک پنجرے میں بند رکھنے کی سزا دی۔ گورنر اگرچہ خود زیادہ عادل تو نہیں تھا لیکن اس نے ڈاڑھی کی توہین کو برداشت نہ کیا۔ وہ شعر یہ تھا:
الا لیت اللحی کانت حشیشًا
فنعلفھا خیـــول المسلمین
ترجمہ: ’’کاش یہ ڈاڑھیاں گھاس ہوتیں تو ہم انہیں مسلمانوں کے گھوڑوں کو کھلاتے۔‘‘
یہودیوں کا یہ خاص شیوہ ہے کہ وہ اسلام اور اہلِ اسلام کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانتے دیتے۔ انہوں نے سیمسن اینڈ ڈیلائلہ کے نام سے پیغمبروں کی فلم بنا دی۔ کہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کو فلم میں پیش کر دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کے ساتھ استہزاء ہے جو کہ بہت ہی قبیح حرکت ہے۔ بدر کی جنگ کو فلم کے ذریعے پیش کیا۔ ارکانِ حج فلمائے گئے اور لوگ خوش ہیں کہ یہ بہت اچھی چیز ہے اس سے ٹریننگ ہوتی ہے اہلِ اسلام کے لیے رغبت پیدا ہوتی ہے۔ مگر یہ سب یہود و نصارٰی کے نقشِ قدم پر شعائر اللہ کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ کام خود مسلمان انجام دے رہے ہیں جو کہ دین کے ساتھ ٹھٹھا کرنے والی بات ہے۔
تو فرمایا کہ جب تم نماز کی طرف بلاتے ہو تو یہ اس کو ٹھٹھا اور کھیل بناتے ہیں ’’ذلک بانھم قوم لا یعقلون‘‘ یہ اس وجہ سے کہ یہ بے عقل لوگ ہیں۔ یہ اچھے اور برے میں تمیز کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے وگرنہ دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جو شعائر اللہ کی تعظیم نہ کرتا ہو۔ اذان، نماز، حج وغیرہ تو شعائر اللہ ہیں، ان کی بے حرمتی تو احمق لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ دوسرے مقام پر فرمایا ’’من یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب‘‘ جو اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے اس کا دل تقوٰی سے لبریز ہے۔ اور ظاہر ہے جو تمسخر کرے گا وہ تقوٰی سے بالکل عاری ہو گا۔
امریکہ اور کینیڈا کے یہودیوں نے اسلامی شعائر کو بہت حد تک تضحیک کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کپڑے پر کلمہ طیبہ پرنٹ کر دیا۔ ماچس کی ڈبیہ پر لکھ دیا تاکہ اس کی بے حرمتی ہو۔ قمیص کے پچھلے حصے پر آیت الکرسی چھاپ دی جو بیٹھنے کے وقت نیچے آجائے۔ ایک بدبخت نے اونٹ کا نام محمدؐ رکھ دیا۔ ایک انگریز نے حضرت علیؓ کو لنگور کے نام سے موسوم کیا۔ غرضیکہ یہ لوگ اسلام اور اہلِ اسلام کی توہین، تمسخر اور ٹھٹھا کرنے سے باز نہیں آتے اور مسلمان بھی ان کی دیکھا دیکھی اس روش پر چل نکلے ہیں، یہ بے عقل لوگ ہیں۔