تصوف ایک متوازی دین — محترم زاہد مغل صاحب کے جواب میں

ڈاکٹر عرفان شہزاد

قرآن مجید میں نبی اور رسول کی اصطلاح مخاطبہ الہی سے سرفراز اس شخص کے لیے استعمال ہوئی ہے جو ایک خاص منصبِ ہدایت پر فائز ہوتا اور خدا کی مرضیات سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کی اطاعت اس کے مخاطبین پر فرض ہوتی ہے۔ اسی کا تقاضا سے اس کا انکار کفر قرار پاتا ہے۔

نبی اور رسول میں ان کی دعوت کے نتائج کے لحاظ سے ایک فرق البتہ کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ رسول کی دعوت کے ساتھ زمین ہی پر خدا کی عدالت کا ظہور بھی ہوتا ہے اور اتمام حجت کے بعد قوم کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ دعوت حق کے منکرین اور معاندین سزا یاب ہوتے ہیں اور مومنین نجات پاتے ہیں۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (یونس، ۱۰: ۴۷)

(اُس کا قانون یہی ہے کہ) ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آجاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔

نبی اور رسول کے درمیان اس فرق کی بنیاد قرآن مجید کی نصوص ہیں۔ تاہم، نبی اور رسول کی حقیقت میں کوئی فرق نہیں اور اس لحاظ سے دونوں مترادف ہیں۔

قرآن مجید میں نبیوں کی کوئی اقسام بیان نہیں ہوئیں۔ نبوت عامہ اور نبوت خاصہ، نبوت تشریعی اور نبوت غیر تشریعی کی کوئی تقسیم مذکور نہیں اور نہ ان تقسیمات کے استنباط کے لیے کوئی مضبوط بنیاد ہی دستیاب ہے۔ رسول کی طرح نبی کے لفظ کو لغوی مفہوم میں استعمال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں، مگر اس سے آگے بڑھ کر اسے ایک مختلف مفہوم کی نئی اصطلاح بنانا التباس پیدا کرتا اور ایک مفہوم کو دوسرے میں ملانے کی راہ کھولتا ہے۔ اور یہ ہوا بھی۔ نبوت عامہ میں نبوت خاصہ کے خصائص شامل کر دیے گئے۔ یہی نہیں، بلکہ نبوت عامہ کے حامل اولیائے انبیا نبوت خاصہ کے حامل انبیا سے برتر قرار پائے۔ یہ ہونا ہی تھا کیوں کہ انبیا کے ہوتے ہوئے دوسری قسم کے انبیا کے وجود تبھی جواز پا سکتا تھا جب کوئی وجہ امتیاز بتائی جا سکے۔ چناں چہ بتایا گیا کہ حضرت موسی علیہ السلام جیسا پیغمبر بھی خضر کے در پر پہنچ کر فیضانِ علم باریاب ہوتا ہے۔ یہ اولیائے انبیا کائنات کے ستون ہیں۔ نظم کائنات چلانے میں یہ خدا کے ساتھ شامل ہیں۔ خدا کا کوئی تکوینی فیصلہ ان کے علم میں لائے بغیر نہیں ہوتا۔ بلکہ انھیں کے ذریعے سے نافذ ہوتا ہے۔ چناں چہ یہ وہ مقام ہے کہ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے گروہِ انبیا تمھیں تو بس نبی کا لقب ہی ملا اور ہمیں وہ کچھ ملا جو تمھیں نہیں ملا۔ یہ سب وہ نظریات ہیں جو دوسرے ادیان میں دیوتاؤں اور اوتاروں کے تصور کے ذریعے سے پیش کیے گئے۔ یہاں یہ قطب ، ابدال اور غوث وغیرہ کے ناموں سے متعارف کروائے گئے ہیں۔

فنون سے متعلق اصطلاحات انسان بناتے ہیں۔ وہاں یہ اعتراض پیدا نہیں ہوتا یا نہیں ہونا چاہیے کہ مختلف ماہرین فن نے ایک ہی اصطلاح کو دو مختلف مفاہیم میں استعمال کر لیا۔ التباس وہاں بھی پیدا ہوتا ہے مگر علم کی روایت میں اسے گوارا کیا گیا ہے، التباس کے سبب وضاحت بہرحال وہاں بھی کرنی پڑتی ہے۔ مگر دینی اصطلاحات کی نزاکت کے پیش نظر اصطلاحات کا اشتراک گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ مثلا کسی بھی دوسری عبادت یا کسی خاص دعا کو 'الصلواۃ' یعنی نماز نہیں کہا جا سکتا، خواہ لفظ کے لغوی مفہوم، یعنی، دعا میں اس کی گنجایش موجود ہو۔ اسی طرح نبی اور رسول کے اصطلاحی مفہوم کے متوازی ایک نئی اصطلاح بنا کر کوئی نیا یا مختلف مفہوم پیدا نہیں کیا جا سکتا، خواہ لغوی معنی میں اس کی گنجایش موجود ہو۔

محترم زاہد مغل صاحب نے صوفیا کی نبوت عامہ کی اصطلاح سازی کے لیے جو جواز پیدا کیے ہیں ان کا تجزیہ کیجیے تو معلوم ہو گا کہ انھوں نے لفظ 'نبا' یعنی خبر اور 'نبی' یعنی حاملِ خبر کے لغوی مفہوم میں گنجایش پا کر ہر چیز جس کی طرف خدا کا امر یا تکوینی الہام ہو، اسے نبی قرار دے دیا ہے۔ تکوینی نوعیت کے الہامات جو مثلا شہد کی مکھی کو ہوتے ہیں، غیر متعین قسم کے عمومی الہامات جو گاہ گاہ انسانوں کو ہو جاتے ہیں، سچے خواب جو مسلم اور غیر مسلم، مومن اور مشرک سبھی کو آ جاتے ہیں اور دور نبوت میں نبی کی کسی ضرورت کے تحت فرشتوں کا کسی غیر نبی کو مخاطب کر لینا، جیسا کہ مریم علیھا السلام سے فرشتے کا کلام، جیسے استثنائی واقعات کے مجموعے کونبوت عامہ کا مفہوم پہنا دیا۔ اس کے بعد انھوں نے مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کی رو سے ان پر آنے والی وحی کو نبوت کے اجرا کے ثبوت کے طور پر پیش کر کے اسے بھی نبوت عامہ میں شامل کر دیا اور اس کے ساتھ ہی نبوت خاصہ کے خصائص بھی نبوت عامہ میں منتقل کر دیے۔ گھپلا یہاں ہی کیا گیا ہے۔ مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی ان کی اصطلاحی تقسیم کے مطابق وہ نبوت خاصہ کے حامل ہیں۔ ان کی نبوت کو نبوت عامہ میں کیسے شامل کر دیا گیا؟ یہی وہ درز ہے جس کے ذریعے سے نبوت عامہ سے نبوت خاصہ میں نقب لگائی گئی ہے۔

نبوت عامہ کا سارا قصر درج بالا اس تخیل پر استوار ہے۔ یہی نکتہ اعتراض ہے کہ اللہ تعالی نے ایسا نہیں کیا۔ نہ شہد کی مکھی نبی ہے نہ مریم علیھا السلام کو نبییہ کہا گیا ۔ مریم علیھا السلام سے نبی کی پیدایش سے متعلق ایک وقتی ضرورت کی وجہ سے مخاطبت کی گئی تھی۔ یہ ضرورت پوری ہو جانے کے بعد پھر مخاطبت نہیں کی گئی۔ استثنائی واقعات سے کوئی عمومی کلیہ نہیں بنایا جا سکتا۔ غیر متعین الہامات کو نبوت قرار دے دیا جائے تو ہر فکر و فن کے بعض ماہرین نبی قرار پائیں گے جن کے اپنے میدان تحقیق میں بعض انکشافات الہامی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں میں اس کی بہت سے مثالیں موجود ہیں۔ اس سب کے باوجود اولیائے انبیا کے لیے مخاطبہ الہی کی خصوصیت شامل کرنے کےلیے جواز پھر نبوت خاصہ ہی لیا گیا ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔

نبوت عامہ کی اصطلاح سازی کے بعد اب یہ بھی ضروری تھا کہ نبوت عامہ اور نبوت خاصہ میں کوئی فرق اور امتیاز بھی دکھایا جائے۔ اس کے لیے دو معیارات پیش کیے گئے۔ ایک یہ کہ یہ فرق تشریعی اور غیر تشریعی نبوت کا ہے۔ نبوت عامہ کا حامل غیر تشریعی نبی ہوتا ہے۔ وہ لوگوں پر کوئی شرعی ذمہ داری عائد نہیں کرتا۔ دوسرا معیار پہلے معیار سے پیدا ہوتا ہے کہ نبوت عامہ کا حامل خود کو نبی نہ ماننے والوں کی تکفیر نہیں کرتا، اس لیے ان میں سے جو تکفیر کرے، وہ غلط ہے۔ یہاں پہنچ کر مرزا غلام احمد قادیانی کی الہامی نبوت کا انکار ممکن ہو پاتا ہے۔ لیکن یہیں سے مرزا قادیانی کا استدلال پیدا ہو جاتا ہے کہ نبی کا انکار اگر کفر ہے تو نبی تشریعی ہو یا یا غیر تشریعی اس کا انکار کفر ہی ہو گا۔ بنی اسرائیل میں تشریعی نبی صرف موسی علیہ السلام تھے، مگر منصب رہنمائی پر فائز غیر تشریعی انبیا کا انکار بھی کفر ہی تھا۔ یوں صوفیا اور زاہد مغل صاحب کے استدلال کی ساری پیش کاری در حقیقت قادیانیت کو استدلال مہیا کرتی ہے اور ختم نبوت کا خاتمہ کر دیتی ہے۔

جہاں تک تشریعی اور غیر تشریعی نبوت کی تقسیم کا مسئلہ ہے تو یہ بھی قرآن مجید نے نہیں بتائی۔ قرآن مجید کے مطابق ہر نبی خدا کی ہدایت اور اس کی شریعت کا تابع اور پابند تھا، خواہ یہ شریعت اس کے ذریعے سے دی گئی یا اس سے پہلے کے نبی کے ذریعے سے۔ اس لحاظ سے محمد رسول اللہ ﷺ بھی تابع نبی تھے۔ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ حضرت ابراہیم کی ملت اور گزشتہ انبیا کی ہدایت کی پیروی کریں اور جو شریعت انھیں ملی وہ اس کے بھی پابند تھے۔

قرآن مجید میں ختم نبوت کے ذکر پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ یہاں دراصل بغیر شریعت کے نبی نہ آنے کی نفی بدرجہ اتم مراد ہے۔ وہ یوں کہ شریعت کی تکمیل کا اعلان تو خود قرآن نے کر دیا تھا۔ اس سے واضح تھا کہ نئی شریعت نہیں آ سکتی تھی۔ اب کوئی امکان ہو سکتا تھا تو یہی کہ نبی انذار، اخلاقی ہدایات اور رہنمائی کے لیے آتے، جیسے کہ بنی اسرائیل میں نزول تورات کے بعد آتے رہے۔ لیکن نبیوں کے سلسلے پر مہر لگنے کے اعلان سے انبیا کی آمد کے اس امکان کا خاتمہ ہوگیا۔

کسی غیر نبی کو خدا سے مخاطبت کا شرف حاصل نہیں۔ نہ غیب کی طرف کوئی کھڑکی کھلتی ہے جس کے ذریعے سے جب چاہیں جھانک کر عالم بالا کے احوال معلوم کر لیے جائیں۔ بلکہ نبی کا معاملہ بھی یہ ہوتا ہے کہ کسی مسئلے کے بارے میں وحی نہ آتی تو رسول اللہ ﷺ بے تابی سے منتظر رہتے مگر ایسا نہ ہوتا کہ آپؐ کی روحِ مبارک خود صعود کر کے عالم بالا سے خبر لے آئے۔ صحابہ کرام کو دینی اور دنیاوی امور میں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے حل کے لیے وہ اجتہاد اور مشاورت سے کام لیتے تھے۔ اس عمل میں ایک دوسرے سے اختلاف اور مباحثہ کرتے ، مگر الہام اور کشف کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہ کرتے تھے۔ ایسا کوئی طریقہ ہوتا تووہ اسے اختیار کرتے۔ صحابہ کے ہاں اس قسم کے خیالات اور دعاوی کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا ۔ مسلمانوں میں تصوف اہل عجم کے متصوفانہ حلقوں اور فلسفے کی اشراقی روایت سے در آیا اور انھیں کے اوہامات کو الہامات کے نام سے مسلمانوں میں رائج کر دیا گیا۔

صوفیا کی اس آزادانہ باطنی سیر کے نتائج دیکھیے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کے الہامات اور مکاشفات کا منبع خدا نہیں ہو سکتا۔ یہ دین اسلام کے متوازی تعلیمات کا ایک مجموعہ ہے۔ تصوف میں اصل چیز مشاہدہءِ حق ہے، جو باطنی حواس کے ذریعے سے حاصل کیا جاتا ہے جب کہ دین میں یہ ایمان بالغیب، یعنی بن دیکھے ایمان ہے، جس کے لیے علم و استدلال کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ دین میں خدا سے تعلق بیم و رجا کا ہے۔ تصوف میں یہ عاشق و معشوق کا ہے۔ اسلام کا منتہائے مقصود بندگی اور عاجزی ہے۔ تصوف میں یہ خدا کی ذات میں شامل ہو کر خود خدا ہو جانے کا فخر ہے۔ ہندو مت یا سناتن دھرم میں اسے آتما کا پرماتما میں مل جانا کہتے ہیں۔ قرآن میں بیان ہونے والی توحید ان کے مطابق عوامی قسم کی ہے۔ صوفیا کو خدا کا عرفان جب حاصل ہوتا تو انھیں معلوم ہوتا کہ خدا کے سوا کوئی دوسرا وجود موجود ہی نہیں ہے۔ خالق اور مخلوق ایک ہیں۔ ساجد اور مسجود کی دوئی محض وہم ہے۔ توحید کی حقیقت ان کے نزدیک یہی ہے۔ یہ درحقیقت وحدت الوجود یا ہمہ اوست کا فلسفہ ہے جو قدیم مصر، یونان کے فلاسفہ اور ہندو مت یا سناتن دھرم کے پرچارکوں نے پیش کیا تھا۔ عقیدہءِ تثلیث اسی نظریے پر مبنی ہے، جس میں بتایا جاتا ہے کہ خدا نے تین اشخاص میں ظہور کیا۔ اس کی رو سے مسیح علیہ السلام خدا ہی کا جسدی ظہور تھے۔ اللہ تعالی نے اس فلسفے کو تسلیم نہیں کیا اور اسے کفر اور شرک قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (مائدہ، ۵ : ۷۲)

اُن لوگوں نے بھی یقینا کفر کیا ہے جنھوں نے کہا کہ خدا تو یہی مسیح ابن مریم ہے۔

ساری کائنات کو خدا کا ظہور مان لینا وہی کفر اور شرک ہے۔ صوفیا کا یہ مشاہدہء حق اگر کسی حقیقت کا انکشاف ہوتا تو اس میں تضاد اور تخالف نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مگر صوفیا ایک دوسرے کے نتائجِ کشف کو تسلیم نہیں کرتے۔

تصوف میں انسانِ کامل (روح محمدی) صوفیا میں حلول کر جاتا ہے۔ وحدت الوجود کے نتیجے میں صوفیا پہلے خود خدا ہوئے تھے، اب روح محمدی کے حلول کے بعد نبی بھی ہوگئے ۔ خود کو کمالات نبوت اور نبوت عامہ کا حامل سمجھنے کا منبع یہی خیال ہے۔ اس پر استدلال بعد میں وضع کیا گیا ہے۔ حلول کا یہ عقیدہ بھی خارجی فلسفوں سے در آیا ہے۔ مسیح علیہ السلام میں روحِ خدا کے حلول کا نظریہ اسی کا ایک مظہر ہے ،جسے خدا نے تسلیم نہیں کیا اور اسے بھی کفر قرار دیا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہوتا ہے:

لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ (مائدہ، ۵: ۷۳)

اِسی طرح اُن لوگوں نے بھی یقینا کفرکیا ہے جنھوں نے کہا کہ اللہ تین میں سے تیسرا ہے۔

خدا تک رسائی پا کر صوفیا خدا سے حصول ہدایت کے لیے نہ نبی کے محتاج رہتے ہیں نہ فرشتوں کے۔ یہ براہ راست خدا سے ہدایت لیتے ہیں۔ شریعت کی ظاہری پابندی اس لیے کرتے ہیں کہ خدا ہی کی طرف سے انھیں اس کا پابند کیا جاتا ہے، ورنہ خود نبی کے کہنے سے ان پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی۔ ان کے مطابق شریعت کی پابندیاں اصلاً عوام کے لیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیا کے ہاں ترکِ شریعت یا اس میں تساہل کا رجحان نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ خود کو شریعت کا تابع نہیں سمجھتے، مگر نظم اجتماعی میں خلل یا خوفِ فسادِ خلق سے اس پر عمل پیرا رہتے ہیں۔

خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لیے جو شریعت انھوں نے ایجاد کی ہے اس کا بھی کوئی شائبہ اسلام میں نہیں ہے۔ چِلّے، ریاضیتں اور ذکر و اشغال کی کثرت میں خود کو گم کر دینا، اور اس سب کے لیے ترکِ علائق ، یہ رہبانیت ہے جس کی دین مذمت کر چکا ہے۔ دنیا کی خواہشیں اس دینِ صوفیا کے مطابق روح کی آلودگی کا سبب بنتی ہیں۔ اسی کا اثر ہے سادگی کو ایک قابل ترجیح قدر کے طور پر اپنانے کی تلقین عام ہوئی۔ اس کے برعکس قرآن مجید بتاتا ہے کہ دنیا کی زینتیں خدا نے اپنے مومن بندوں کے لیے پیدا کی ہیں۔ تو کون ہے جو ان کو حرام قرار دے؟

ارشاد ہوتا ہے:

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (اعراف، ۷ : ۳۲)

اِن سے پوچھو، (اے پیغمبر)، اللہ کی اُس زینت کو کس نے حرام کر دیا جو اُس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی تھی اور کھانے کی پاکیزہ چیزوں کو کس نے ممنوع ٹھیرایا ہے؟ اِن سے کہو، وہ دنیا کی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں، (لیکن خدانے منکروں کو بھی اُن میں شریک کر دیا ہے) اور قیامت کے دن تو خاص اُنھی کے لیے ہوں گی، (منکروں کا اُن میں کوئی حصہ نہ ہو گا)۔ ہم اُن لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں، اپنی آیتوں کی اِسی طرح تفصیل کرتے ہیں۔

ابلیس کی طرف داری اور وکالت کی جسارت بھی تصوف کی راہ سے مسلمانوں کے لٹریچر میں آئی۔ قرآن مجید میں ابلیس کا موقف خود اس کی زبانی نقل ہوا ہے کہ اس کی سرتابی کی وجہ اس کا احساس برتری تھا۔ اس سے جب باز پرس کی گئی تو اس نے کسی ندامت کا اظہار کرنے کی بجائے آگے بڑھ کر اعلان کیا وہ خود تو گم راہ ہوا ہی ہے، اب وہ خدا کے بندوں کو بھی آخری دم تک گم راہ کرتا رہے گا۔

اس کے برعکس صوفیا کے ہاں ابلیس ایک سچا موحّد تھا جو خدا کے سوا کسی دوسرے کے آگے سجدہ کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس نے لوح محفوظ پر لکھا دیکھا تھا کہ کوئی ایک ایسا ہو گا جو خدا کی نافرمانی کرے گا۔ آدم علیہ السلام کو سجدے کا حکم ہوا تو اس نے دیکھا کہ سبھی سربسجود ہیں تو اس نے مشیئت الہی کو غلط ہونے سے بچانے کے لیے خود کو پیش کر دیا اور سجدہ نہ کیا۔ صوفیا کے اس مکاشفے کو مبارک شاہ صاحب نے اپنی نظم 'الّا ابلیس' میں یوں منظوم کیا ہے:

جس نے مٹّی کے بُت کو نہ سجدہ کیا

روزِ اوّل سے جو مُنکرِ شِرک تھا

جُز تِرے جس کی نظروں میں کوئی نہ موجُود تھا

تیرا مردُود تھا ؟

جس کے پیشِ نظر تیری تقدیس تھی

کس قدر وُسعت ظرفِ ابلیس تھی

سینۂ آدمی کا ہر اک وسوسہ

جس سے منسُوب ہے

تیرا معتُوب ہے ؟

ہے تو ہو گا ، مگر مُنصفِ دو جہاں !

اُس کے دِل کی خَلِش کس کے سَر جائے گی

جس نے ہر حال میں تیری لوحِ ازل کا بھرم رکھ لیا

جس نے تیرے لیے بے طلب راستوں پر قدم رکھ لیا

اب قرآن مجید ابلیس کے بارے میں جو کہتا رہے، صوفی کا یقین اس الہام اور مکاشفے پر ہے، اس لیے کہ دین تصوف میں اصل سند قرآن یا نبی نہیں بلکہ صوفی کا الہام ہے۔ یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ابلیس کی براءت کے بارے میں یہ الہام اور مکاشفہ انھیں کس کی طرف سے انھیں پیش آیا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں اس ربط کے بارے میں قرآن مجید میں مطلع کیا گیا ہے:

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ‎(انعام، ۶ : ۱۲۸)

اُس دن کو یاد رکھو، جب وہ اِن سب (مجرموں) کو اکٹھا کرے گا، (پھر فرمائے گا): ا ے جنوں کے گروہ، تم نے تو انسانوں میں سے بہتوں کو اپنا لیا اور انسانوں میں سے اُن کے ساتھی (فوراً) کہیں گے: پروردگار، ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے سے خوب حظ اٹھایا اور (آج) اپنی اُس مدت کو پہنچ گئے ہیں جو تو نے ہمارے لیے مقرر کر دی تھی۔ اللہ فرمائے گا: اب آگ تمھارا ٹھکانا ہے، تم اُس میں ہمیشہ رہو گے، مگر جو اللہ چاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار حکیم و علیم ہے۔

اہل تصوف سے مکالمہ کے لیے کوئی مشترک علمی اور عقلی بنیاد دستیاب نہیں۔ قرآن کے الفاظ کی ظاہری اور باطنی معانی میں تقسیم کے نظریے سے انھوں نے قرآن سے اپنے لیے باطنی معانی اخذ کرنے کا جواز بنا لیا ہے جو لسانی قواعد کو ملحوظ نہیں رکھتا۔ ان سے یہ بات نہیں کی جا سکتی کہ دینی اختلافات میں فیصلہ قرآن سے ہوگا۔ الفاظ اور جملوں کے متبادر معانی ان کے نزدیک محض ظاہری معانی ہوتے ہیں، جب کہ ان کے فیصلے ان کے الہام یا کسی دوسرے صوفی کے الہام پر اعتماد پر مبنی ہوتے ہیں اور اس کی تائید قرآن کے باطنی معانی سے ہوتی ہے جو صرف ان پر کھلتے ہیں۔

اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کیوں تصوف ایک متوازی دین ہے۔ اس کی سند دین محمدی نہیں ہے، باطنیت ہے۔ مسلمانوں میں باطنیت کی یہ تحریک اہل تشیع کے بعض گروہوں میں پیدا ہوئی تھی۔ انھیں کی طرف سے یہ خیال بھی تصوف میں رائج ہوا کہ علم تصوف کا منبع حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان سے اِس علم کا صدور عالم روحانیت میں کہیں ہوا۔ اس لیے اس واقعہ کی کوئی سند بھی طلب نہیں کی جا سکتی ہے اور نہ اسے تلاش کرنا ممکن ہے۔

تصوف بادشاہت کے متوازی ایک روحانی بادشاہت کا خیالی جہان بھی ہے ۔ مسلمانوں میں بادشاہ کے لیے رائج لقب، خلیفہ انھوں نے اسی وجہ سے اختیار کیا ایک مخصوص علاقے میں ان کی روحانی بادشاہت یا خلافت قائم ہوتی ہے۔ ۔ پھر خلفا کی طرح ہی خلعت خلافت دے کر یہ اپنے نائبین مختلف علاقوں میں تعینات کرتے ہیں جو ان کے خلیفہ کہلاتے، ان کی روحانی سلطنت کو پھیلاتے اور مضبوط کرتے ہیں۔ ان نائبین سے یہ خفا ہو جائیں تو خلعت خلافت چھین کر انھیں معزول بھی کر دیتے ہیں۔ اپنی روحانی سلطنت کا تاثر انھوں نے اس طرح مضبوط کیا ہے کہ حکمران اور سیاسی زعما بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اپنی سلطنت کی سند یا حکومت کے حصول اور بقا کے لیے ان کے آشیرباد یا دعاؤں کے لیے ان کے در پر حاضری دیتے رہے۔

عام لوگوں کے نزدیک تصوف اصلاحِ باطن یا اصلاحِ اخلاق کا ایک ادارہ اور ذریعہ ہے، لیکن اپنی اصل میں یہ درحقیقت کچھ اور شے ہے۔ یہاں مرشد کی ذات، اس کا حکم اور اس کی تعبیرات دین کا ماخذ ہیں۔ اس کا حکم خلاف دین بھی معلوم ہو تو بجا لایا جائے گا۔

اصلاح تصوف کی تمام تحریکیں ظاہری طور پر شریعت کی پابندی کی تلقین تک محدود ہی رہ سکتی ہیں، نظریاتی سطح پر کوئی تبدیلی اس میں ممکن نہیں، ورنہ تصوف کی عمارت ڈھے جائے گی۔


آراء و افکار

()

تلاش

Flag Counter