"ناطوری کارتا"یہودیوں کا وہ مذہبی مکتب فکر ہے کہ جو قیام اسرائیل 1948ء سے لے کر آج تک نہ صرف یہ کہ ریاست و حکومت اسرائیل کا سخت مخالف ہے۔بلکہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے تقریباً عین وہی موقف رکھتا ہے کہ جو اِس وقت پوری اُمت مسلمہ کا ہے۔یعنی اہل فلسطین مسلمانوں کا نہ صرف یروشلم،مسجد اقصٰی و گنبد صخرہ پر حق ہے بلکہ تمام فلسطینی مسلمان اُس ساری سرزمین فلسطین پر بھی عین حق ملکیت رکھتے ہیں کہ جو تقسیم فلسطین1948ء سے پہلے اپنی وسیع سرحدی حدبندیوں کے ساتھ قائم ودائم تھی۔
ناطوری یہود کا مسئلہ فلسطین کے حوالے یہ موقف اپنے فکری پس منظر میں یہ دو بنیادی عقائد رکھتا ہے۔اول یہ کہ اِس ناطوری فرقے کے مذہبی عقیدے کے مطابق یہودی مذہبی کتب کی مستند آیات و اقوال سے یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہودی مسیحا کے آنے سے پہلے تک کسی بھی سطح پر یہودیوں کا ایک قومی یا اجتماعی نظم قائم کرتے ہوئے یہودی ریاست بنانا سخت حرام ہے کیونکہ خدا نے قرب قیامت میں مسیحا کی آمد سے پہلے تک یہودیوں کے مقدر میں بطورِ سزا در بدر کی خاک نشینی لکھ دی ہوئی ہے۔لہذا اِسی سارے مقدمے کی بنیاد پر صہیونیت نواز مملکتِ یہود ”اسرائیل“ کا قیام اصل میں خداوند یکتا کے خلاف اعلانِ جنگ، نافرمانی اور صریح بغاوت ہے۔
دوم یہ کہ یہ یہودی فرقہ"ناطوری کارتا" اسرائیلی حکومت و اقتدار کی حامل قومی تحریک"صہیونیت" کا بھی سخت نظریاتی مخالف اؤر عملی دشمن ہے حتیٰ کہ یہودی مذہبی کتب کی تعلیمات کی روشنی میں صہیونیت کو سرے ہی سے مذہبِ یہودیت سے خارج و مُرتد سمجھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ اپنی اِسی ایجنڈے کی تحریک تلے صہیونی اسرائیل کی طرف سے کیے جانے مظالم اور پورے صہیونی مکتب کی نہ صرف سخت ترین مذمت کرتا ہے بلکہ مختلف ذرائع جیسے اسرائیل مخالف اسلامی ممالک خصوصاً خطہء ایران و عرب کے مسلم رہنماؤں سے ملاقاتوں، پریس کانفرنسز ، لیکچرز ، انٹرویوز ، کتب و مضامین ، مغربی ممالک میں پُرزور احتجاجی مظاہروں اور سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کے ذریعے پُرزور عملی مزاحمت بھی کرتا ہے۔مُسلم ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتوں اور عالمی کانفرسزز میں شراکت کے حوالے سے خصوصاً " بین الاقوامی کانفرس برائے تجزیہ ہولوکاسٹ عالمی نقطہء نظر 2006ء "سے لے کر سابقہ سال 2023ء میں فلسطینی اسلامی جہاد (پی-آئی-جے) کے ممتاز عہدیداروں اور فلسطینی عسکریت پسندوں کے اہل خانہ سے ملاقاتیں قابلِ ذکر ہے کہ ان تمام تر ملاقاتوں اور کانفرنسز میں شراکت کے ردعمل کے طور پر ہر بار صہیونی اسرائیلی حکومت نے ناطوری یہود کے خلاف سخت ترین کاروائیاں عمل میں لائی ہیں۔بہرحال مغربی ممالک میں احتجاجی مظاہروں کے حوالے سے اسرائیلی ایامِ مظالم سے لے کر اسرائیل کے یوم آزادی تک اسرائیل و صہیونیت مخالف سخت نعرے ، تقریریں اور خصوصاً اسرائیلی و صہیونی نمائندہ پرچموں کو جلانا خاص طور پر قابل ذکر ہے۔جبکہ سوشل میڈیا کے حوالے سے یوٹیوب ، فیس بُک ، انسٹا گرام اور ٹویٹر وغیرہ پر "ناطوری کارتا" نامی پلیٹ فارمز اور خصوصاً گوگل آفشل ویب سائٹس: https://www.nkusa.org قابلِ توجہ ہے۔
قارئین محترم ! شاید اب آپ اِس یہودی فرقے کے یہ حالات و واقعات ملاحظہ فرما کر سخت متجسس و حیران ہوگئے ہونگے۔لہذا آپ کی اِسی متجسس حیرت کے پیشِ نظر آئیے یہودیوں کے اِس "ناطوری فرقے" کے نظریاتی اور تاریخی وجود کو ٹٹولتے ہیں۔
یہود کے اِس فرقے"ناطوری کارتا"کی بطورِ ایک باقاعدہ عالمی تحریک کے بنیاد یہودی ربی(علامہ)"عمرام بلاؤ"اور ربی(علامہ )"ہارون کٹزینی-لبوگن" نے 1938ء میں رکھی۔تب سے لے کر آج تک یہ اپنے اسرائیل و صہیونیت مخالف ایجنڈے اور سرگرمیوں کے حوالے سے پوری دنیا میں مصروفِ عمل رہتی ہے۔اِس تنظیم کے موجودہ ترجمان”یسرائیل ڈاوِد وائس" ہیں۔ناطوری یہود کے ارکان پوری دنیا بالخصوص اسرائیل ، امریکہ و برطانیہ اور دیگر کئی اہم یورپی ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔اِن کی درست تعداد کے بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کیونکہ مختلف ممالک میں منتشر ہونے کے باعث کھبی اِن کی باقاعدہ کوئی مردم شُماری ہی نہیں ہو پائی البتہ ناطوری کارتا اپنی آبادی کے حوالے سے اپنے ارکان کی تعداد اچھی خاصی بتاتے ہیں اور یہ پُر زور موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ اسرائیلی کٹ پتلی مغربی ذرائع ابلاغ"میڈیا" جان بوجھ کر اِن کے نقطہء نظر کو دبانے کے لیے اِن کی زیادہ تعداد کو کم کر دیکھاتے ہیں۔
"ناطوری کارتا یہود" نے درج ذیل بالا اپنی آفشل ویب سائٹ پر سوالات جوابات پر مبنی انٹرویوز کو انگریزی مضامین کی شکل میں شائع کیا ہوا ہے۔اِن انٹرویوز میں چند بنیادی اور اہم سوالات و جوابات کا اُردو ترجمہ ذرا دِلوں کو تھام کر غور سے ملاحظہ فرمائیے:
(1) آپ کون لوگ ہیں ؟
ہم وہ بنیاد پسند یہودی ہیں کہ جو اصل یہودی قدیم عقائد اور تورات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
(2)آپ کا مقصد کیا ہے؟
ہمارا مقصد دنیا کو اُس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ جو ہر کوئی نہیں جانتا،یعنی یہ حقیقت کہ اصل یہودیت صہیونیت کے تصور اور صہیونی ریاست دونوں سے ہرگز متفق نہیں ہے۔بلکہ یہودیت اور صہیونیت دونوں ایک دوسرے سے ایسے ہی متضاد ہیں جیسے دن اور رات۔
(3) کیا یہ سچ ہے کہ سر زمین مقدس( یعنی فلسطین ) کے حوالے سے ناطوری کارتا نامی عالمی تنظیم فلسطینیوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتی ہے؟
بالکل، کہ ہمارا جواب واضح طور پر "ہاں" ہے۔البتہ اِس جواب کے سلسلے میں حفظ ما تقدم کچھ پیشگی وضاحت درکار ہے۔ ہم بنیادی طور پر ایک صہیونیت مخالف بنیاد پسندانہ تنظیم ہے۔لہذا ہمارا صہیونیت کے ساتھ تنازعہ بھی کئی سطحوں پر ہے:
1۔ سب سے پہلے یہ کہ صہیونیت اصل یہودی مذہب و روحانیت سے یہودی وطن پرستی اور مادیت پرستی کی طرف ایک ہجرت کا نام ہے۔
2۔صہیونیت نے فلسطینی عوام کے ساتھ انتہائی بُرا سلوک برتتے ہوئے سنگین اخلاقی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
3۔ خداوند یکتا نے ہمیں یہودی مسیحا کے آنے تک جلا وطنی کا حکم دیتے ہوئے یہ پہلے ہی فرما دیا تھا کہ اب دوبارہ کوئی یہودی ریاست بنانا ہم پر عین حرام ہے۔
4۔"نظریہء صہیونیت الٰہی آزمائش و سزا سے بغاوت کرتے ہوئے سرزمینِ فلسطین پر یہودی ریاست کا قیام عمل میں لاتا ہے۔تو آپ اِسی بات سے یہ اندازہ لگائیے کہ اِس خدائی نافرمانی و بغاوت کے مرتکب اِس صہیونی گروہ کی روحانی حالت کیا ہوگئی کہ اُنھوں نے یہودیوں کی جلاوطنی کے الہامی حکم کو محض چند دنیاوی مفادات کی خاطر کُچل ڈالا۔
5۔ " صہیونیت" نے اصل یہودی روایتی عقائد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایڑی سے لے کر چوٹی تک کا زور لگایا ہے۔
(4)آپ کس چیز کی وکالت کرتے ہیں؟
ہم بغیر کسی سمجھوتے و مصالحت پسندی کے"اسرائیل" کی ریاست کا پُرامن خاتمہ چاہتے ہیں کہ جب ایک بار ریاست اسرائیل کا خاتمہ ہوجائے تو پھر یہ بات مکمل طور پر ہم فلسطینی رہنماوں اور عوام پر چھوڑتے ہیں کہ وہ وہاں کتنے یہودیوں کو رہنے کی اجازت دیتے ہیں۔
(5) کیا آپ اِپنی اس تجویز سے ڈرتے نہیں کہ آپ کی اِس تجویز سے سرزمین مقدس پر رہنے والے یہودیوں پر کیا نتیجہ اثر انداز ہوگا؟
واقعی ہی ہم ڈرتے ہیں لیکن اِس موجودہ مایوسانہ صورت حال میں(اپنی ہی آستینوں کے سانپ)اِن صہیونی یہودیوں سے کہ جنھوں نے سابقہ تقریباً 7 دہائیوں میں لاتعداد جنگوں اور نہ ختم ہونے والی دہشت گردی کے ذریعے دونوں اطراف میں بے گناہ شہریوں کو مارنے کے باوجود"مسلہء فلسطین" کا کوئی حل نہیں سُلجھایا کہ دائیں اور بائیں دونوں ہاتھ کے اسرائیلی(یعنی موجودہ سیاسی حکومت اسرائیل و سیاسی حرب اختلاف اسرائیل) دونوں اِس صورتحال کو سُلجھانے میں انتہائی بُرے طریقے سے ناکام رہے ہیں۔لہذا ہم اِن کی اِسی ناکامی کے پیشِ نظر یہ متبادل حل پیش کر رہے ہیں کہ جو بے شک (اسرائیلی عام یہودیوں کے لیے عارضی طور پر ) ایک الم ناک تجربہ ہوسکتا ہے۔
(6)لیکن کیا یہودی ایک وطن کے مستحق نہیں ہے ؟
ہرگز نہیں، کہ تقریباً ایک ہزار نو سو سال تک یہ عقیدہ یہودی مذہب کا ایمان کامل تھا کہ ہمیں کسی بھی قسم کی عسکری قوت کے ذریعے کسی بھی خطہء زمین پر دعویٰ ملکیت ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔مطلب یہودی اِس عقیدے پر یقین رکھتے تھے کہ دنیا کے آخری دِنوں (یعنی قرب قیامت میں) جب خالق کائنات تمام بنی نوع انسانی کی نجات کا ارادہ فرمائے گا تو تب تمام بنی نوع انسانی اِس کی عبادت میں شریک ہوجائے گئی۔لہذا اِس عبادت کے اہتمام میں ہمیں کسی بھی قسم کے لوگوں کو بے دخل کرنے یا محکوم بنانے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے۔پس یہی وہ وقت ہوگا کہ جب سرزمین مقدس"فلسطین "میں عالمی بھائی چارے کا ایک روحانی مرکز قائم ہوگا۔ اُس وقت سے پہلے یہودیوں کو اپنی جلا وطنی کے عرصے میں خاص اعمال سونپے گئے ہیں۔
(7)اور وہ حاض اعمال کیا ہیں ؟
یہی کہ یہودی اپنے پورے ایمان و خلوص کے ساتھ اپنی جلاوطنی کا اقرار کرئے اور اپنے قول و فعل سے ، خاموشی و انکساری کی روش اپنائے۔اخلاقی اور روحانی مقام و مرتبہ حاصل کرنے کی کوشش کرئے اور عام طور پر تورات کی تلاوت کرتے ہوئے خداوند یکتا کے حضور بندگی بجا لاتے نمازیں پڑھے اور دیگر نیک اعمال بجا لائے۔
(8)آپ نے اِس مقصد کے لیے کیا کیا کوششیں کی ہیں؟
خداوند قادر مطلق کی مدد و نصرت سے ہم نے فلسطینی دعووں کی حمایت اور اُن کے دکھ درد میں اظہار ہمدردی کے لیے اکثر کئی بیانات شائع کیے ہیں۔ہم ہمیشہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کے طور پر شریک ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں خصوصی طور پر یہودی اور اسلامی دنیا میں عوامی رابطے برقرار رکھنے کی کوششیں کی گئی ہے۔تاکہ خداوند قادر مطلق کی مدد سے عملی طور پر یہودیوں کی مقدس روایات اور صہیونیت مخالف تورات کو فراموش نہ کیا جاسکے۔پس خداوند یکتا کی مدد سے ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل قریب میں تورات کی صحیح تعلیمات پر مبنی راستے کا دُوبارہ احیاء ہو جائے گا۔
(9)امن و امان کے قیام کے لیے (فلسطین و اسرائیل کے مابین)اوسلو معاہدے،سڑکوں کے نقشے اور انیپولس معاہدے کو آپ کس زاویہء نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟
مصیبت زدہ فلسطینیوں کے لیے کسی بھی قسم کی کوئی مدد اُس اخلاقی ضمیر کی چھوٹی سی فتح کا ثبوت ہے کہ جس(اخلاقی ضمیر) کا حامل ہر یہودی کو ہونا چاہیے۔تاہم قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تمام تر منصوبے نیک نیتی پر قیاس کرنے کے باوجود آخرکار عمل کرنے کے وقت برباد ہو جاتے ہیں۔
یہودیوں کو سرزمینِ مقدس پر سیاسی حاکمیت کے حوالے سے زور آزمائی کرنے سے منع کیا گیا تھا۔تمام انسانوں کے ساتھ امن و امان قائم رکھنے اور کسی بھی انسان پر ظلم کرنے سے منع کیا گیا تھا۔لہذا اِن احکام کی روشنی میں تمام یہودیوں پر اب یہ لازم ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کی مکمل بحالی کرتے ہوئے سارے فلسطین کو آزاد کر دئے۔کہ یہی آزادی صہیونی تحریک کی بد نامی اور عملی ناکامی کا مقدر بنے گئی۔
(10)اسلامی دنیا کے لئے یہودی نقطہ نظر کیا ہونا چاہیے؟
یہودیوں کو تمام انسانوں کے ساتھ اخلاق اور ایمانداری کے ساتھ نمٹنے کے لیے کہا گیا ہے۔اگرچہ صہیونیت نے بہت سے یہودیوں کو فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت پر مبنی کاروائیوں میں گمراہ کیا ہے۔لہذا اِس بات کا اہتمام تمام یہودیوں کو بہترین طور پر کرنا چاہیے کہ وہ اپنی اِس قومی صورتحال کی اصلاح کے پیشِ نظر تمام اسلامی اقوام اور(بالخصوص) فلسطینی عوام سے امن ، مفاہمت اور مذاکرات کے لیے ذریعے رابطے قائم کرئے۔کہ یہ بات یہودیوں کے سامنے یہ ایک عظیم روحانی آزمائش کا درجہ رکھتی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ کتنے اچھے اخلاقی تعلقات قائم کر کے دیکھاتے ہیں۔
(11)حقیقت پسندی کے تناظر میں بات کرتے ہوئے یہ بتائیے کہ کیا آپ کے اِس سارے پروگرام میں عمل درآمد کا بھی کوئی امکان ہے؟
اول تو یہ کہ بےشک خالق کائنات ہی اِس دنیا کو چلاتا ہے، پس یہ اُسی کی حمایت و نصرت کے ساتھ سب کچھ ممکن ہے کہ حق و انصاف بالآخر غالب آجائے۔
دوم یہ کہ دنیا بھر کے یہودیوں میں اسرائیلی ریاست اور صہیونیت دونوں کے لیے بالعموم بیزاری اور تھکن کے شدید احساسات و جذبات پائے جاتے ہے کہ بہت سے یہودی سمجھتے ہیں کہ(روحانی و اخلاقی سطح پر) صہیونیت کی پیروی کے اصول اُنھیں بارہا ایک کے بعد دوسری موت جیسی کڑی اذیت میں مبتلا کر رہے ہیں۔لہذا وہ کسی دوسرے (برحق) راستے کے لئے در در بھٹک رہے ہیں۔( پس یہ وہی برحق راستہ ہے) کہ جو ہمارا راستہ ہے۔ہمارا راستہ خالصتاً یہودیت کی قدیم روایت سے ملحق بہت سے یہودیوں میں تیزی سے ایک معقول دلیل کے طور پر اُبھر کر سامنے آرہا ہے۔ پس وہ دن بھی نوٹ فرما لیجیے کہ شاید یہ دن اب بہت دُور مستقبل نہیں کہ خالق کائنات کی مدد سے ہم یہ دعا اور اُمید رکھتے ہیں کہ جب نہ ہی کسی یہودی کا خون بہایا جائے گا اور نہ ہی کسی عرب کا۔یقین جانیے! کہ ہم اُس دن کے سچ ہونے کے انتظار میں تڑپ رہے ہیں۔کہ جب بہت سے یہودیوں کو یہ احساس ہوگا کہ یہودیوں کے لیے امن و امان کا واحد اصل راستہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے تفویض کردہ(اخلاقی و روحانی)اعمال کی طرف لوٹنے ہی سے خاص ہے اور اخلاقیات،سلامتی و ایمانداری کی بحالی کے لیے خالق کائنات کی شرک سے بالکل پاک عبادت اور عقیدت سے ہی مشروط ہے۔
بالآخر ہم یہی چاہتے ہیں اور اُس دن کے لئے دعاگو بھی ہیں کہ جب سارے عالم کے لیے کی گئی ہماری دعائیں رنگ لاتے ہوئے ہمیں وحدت کا وہ منظر دیکھائی گئی کہ جب تمام اقوام عالم پورے خلوصِ دل کے ساتھ ایک ہوگئی۔" جیسا کہ زبور مقدس میں فرمایا گیا ہے "تمام قومیں اور حکومتیں مل کر حق تعالیٰ کی عبادت کے لیے جمع ہوںگی۔"(102:23)۔خدا ہم سب کو یہ دن جلد دیکھائے۔آمین۔
(12)صہیون کیا ہے اور صہیونیت کیا ہے؟
صہیون ایک نام ہے جو تورات میں یروشلم کے لیے استعمال ہوا ہے۔جبکہ صہیونیت وہ نام ہے جسے 1890ء کی دہائی میں قائم ہونے والی غیر مذہبی یہودیوں کی ایک تحریک نے اپنایا۔اِس تحریک کا مقصد یہودیت کے معنی کو بدلنا اور یہودی تاریخ کے دھارے میں انقلاب لانا تھا۔ عرض یہودیت کے مفہوم کو روحانیت، مذہب اور تقدس سے مادیت پسندی اور قوم پرستی میں تبدیل کرنا اور خداوند مطلق کو مکمل طور اپنی ترجیحات سے ہٹانا تھا۔ انہوں نے یہودیوں کی جلا وطنی کے مسئلے کے لیے بدعت پر مبنی ایک عسکری اور سیاسی نوعیت پر مبنی حل پیش کیا اور پھر فلسطین کی غیر یہودی مسلم آبادیوں کے حقوق کی پرواہ کیے بغیر ایک بڑے پیمانے پر یہودی آبادیوں کو فلسطین میں لا کر آباد کر دیا۔فلسطینی مسلم آبادیوں کی بیح کنی کرنے کے لیے فوجی حکمت عملی سے کام لیا گیا۔
حتیٰ کہ یہ جھوٹا دعویٰ تک کر ڈالا کہ صرف اُن کی تحریک یعنی صہیونیت پر قائم رہنا ہی یہودی ہونے کا معیار ہے آگر کوئی اس تحریک سے بغاوت کرئے گا تو وہ یہودی قوم اور یہودیت دونوں سے بغاوت کرنے کا مرتکب ہوگا یعنی اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیا کوئی شخص خداوند یکتا اور اس کی تورات پر ایمان رکھتا ہے کہ نہیں ؟ فرق بس اِس سے پڑتا ہے کہ وہ صہیونیت سے وفادار ہے کہ نہیں؟
1948ء میں صہیونیوں نے اپنا مقصد حاصل کرتے ہوئے فلسطین میں ایک ریاست کی بنیاد رکھی اور تقریباً 750,000 فلسطینیوں کو یوں اکھاڑ پھینکا گیا کہ ان کی زمینیں تک ضبط کرلی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت صہیونیوں کے ہاتھوں 12000 کے قریب عرب ہلاک ہوئے، اور کئی فلسطینی قصبوں اور دیہاتوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ظلم و بربریت کی آخری حدوں کا اندازہ آپ اِس بات سے لگائے کہ اُس وقت کے ایک فوجی کمانڈر” موشے دیان“ نے عرب فلسطینیوں کو اُن کے گاؤں سے نکالنے کے لیے اُن کے گھروں کو بلڈوز کرنے، اور پانی کے کنوؤں کو ٹائفس اور پیچش جراثیموں(مہلک امراض) کے ساتھ ناقابل استعمال بنانے کا حکم دئے دیا۔
نئے تارکین وطن(یہودیوں ) کو اپنے نئے صہیونی نظام کے ساتھ جذب کرنے کے لیے طرح طرح کے جال بچھاتے ہوئے برین واشنگ کی گئی۔ یہاں تک کہ مذہبی برادری میں بھی صہیونیت نے قدم جماتے ہوئے کچھ یہودیوں کو اِس بات پر قائل کیا کہ یہودیوں کی جلاوطنی کو فوجی طاقت سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ برین واشنگ کی تکنیک سے یہودیوں کو یہاں تک باور کرواتے ہوئے خوف زدہ کیا گیا کہ عرب نازیوں کی طرح یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں اور عرب تمام یہودیوں کو سمندروں میں غرق کردئے گے،یعنی بنیادی طور پر دوسرے ہولوکاسٹ کا جعلی فوبیا پھیلایا گیا۔
خداوند یکتا کا شکر ہے کہ یہودیوں کا ایک اہم طبقہ صہیونیت کا شکار نہیں ہوا اور وہ تورات کے قوانین کو برقرار رکھتے ہوئے صہیونیت اور ریاست "اسرائیل" کی مکمل مخالفت میں کھڑے ہیں۔
آج تک فلسطین پر صہیونیوں کا قبضہ جاری ہے۔ ان کی جنگجوانہ پالیسیوں نے پوری دنیا میں یہودیوں اور غیر ملکی تعلقات پر دباو ڈالا ہے۔ صہیونیت آج عالمی سطح پر سامیت دشمنی(یہود دشمنی) کو بڑھانے کا سب سے بڑا محرک ہے۔
(جاری)