عہدِ اسلامی کی اولین خاتون آرتھوپیڈک سرجن

مولانا محمد جمیل اختر ندوی


تاریخ ِاسلام کے خزاں دیدہ اوراق جس طرح باکمال مردوں سے بھرے ہوئے ہیں، اسی طرح باکمال خواتین سے بھی مملو ہیں اور یہ تاریخی خواتین ابتدائے آفرینش سے اپنا سکہ جمائی ہوئی ہیں، انھیں جیسوں کے متعلق تو قرآن نے کہا ہے: ولیس الذکر کالأنثی ’’مرد عورتوں کے مثل نہیں ہیں‘‘، پھر یہ خواتین کسی ایک فیلڈ میں ہی باکمال نہیں ہیں؛ بل کہ مختلف میادین میں انھوں نے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ بسا اوقات ان کے سامنے مرد بھی بونے نظر آتے ہیں، یہ خواتین صرف تاریخ اسلامی کے روشن صفحات کی زینت ہی نہیں بنی ہوئی ہیں؛ بل کہ آج بھی وہ مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔

انھیں باکمال خواتین میں ایک نام ’’حضرت رفیدہ‘‘ رضی اللہ کا ہے، جنھیں اولین خاتون آرتھوپیڈک اور ’’أول ممرضۃ فی الإسلام‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اس سلسلہ میں فلورنس نائی ٹنگیل (Florence Nightingale) کا نام بھی لیا جاتا ہے کہ وہ تاریخ کی پہلی نرس اور ممرضہ ہے؛ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ اس کی پیدائش ۱۸۲۰ء میں ہوئی ہے، جب کہ حضرت رفیدہؓ کی پیدائش ۶۲۰ء کی دہائی میں ہوئی ہے اور یہ بات جگ ظاہر ہے کہ انھوں نے جس طرح مریضوں کی دیکھ بھال کی، جس طرح میدان جنگ سے مریضوں کو اٹھا اٹھا کر اپنے خیمہ میں لاتیں اور ان کے زخموں کا علاج کرتیں، وہ کسی بھی طرح سے کسی جدید نرس؛ بل کہ آرتھوپیڈک سرجن سے کم نہیں ہے، اسی لئے خود ویکی پیڈیا میں اس کی صراحت موجود ہے کہ حضرت رفیدہؓ فلورنس سے ۱۲۰۰ سال قبل نرسنگ کی دنیا کی ماہر مانی گئیں ہیں۔

لیکن یہ عجیب بات ہے کہ تاریخ نویسوں نے ان پر کچھ لکھا ہی نہیں ہے، بس معمول کی چند سطریں ہی مل پاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ باوجود کوشش کے، ان کی زندگی کے کئی گوشے صیغۂ راز میں ہی رہ گئے ہیں، جو کچھ اہل سیر اور مؤرخین نے ان کے تعلق سے لکھا ہے، ان تمام کو مرتب انداز میں قارئین کے نذر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

پیدائش اور نام و نسب

آپ کے نام کے سلسلہ میں اہل سیر کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک آپ کا نام رُفیدہ بنت سعد بن عتبہ (إمتاع الأسماع:۹؍۲۵۴) ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کا نام کُعیبہ بنت سعد (یا سعید) ہے (ابن سعد اور حافظ ابن عبد البر نے اسی نام سے ان کا تذکرہ کیا ہے، دیکھئے: الطبقات الکبری:۱۰؍۲۷۶، نمبرشمار:۵۰۷۲، الاستیعاب، ص:۹۳۵، نمبرشمار: ۳۴۴۳)، آپ کا تعلق قبیلہ اسلم سے ہے، اس قبیلہ کی نسبت ان کے جد امجد اسلم بن اقصیٰ کی جانب ہے، ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ لوگ الیاس بن مضر سے تعلق رکھتے ہیں اور خزاعہ میں ضم ہوگئے تھے؛ تاہم اکثر اہل انساب کی رائے یہ ہے کہ یہ خزاعہ کے بھائی تھے اور بنو مزیقیاء سے تعلق رکھتے تھے، آج بھی یہ لوگ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے اطراف میں اپنے دیار میں آباد ہیں، بالخصوص وادی حجر میں۔

ڈاکٹر شوکت شطی کے مطابق رفیدہ اور کعیبہ دو الگ خواتین ہیں، رفیدہ طبیبہ تھیں اور سرجری میں مہارت رکھتی تھیں، جب کہ کعیبہ طبیبہ تھیں؛ لیکن سرجری میں مہارت نہیں رکھتی تھیں، انھیں نرسنگ میں مہارت تھی؛ البتہ دونوں ہی قبیلۂ اسلم سے تعلق رکھتی تھیں (دیکھئے: تاریخ العلوم الطبیۃ لاحمد شوکت الشطی، ص:۱۷۵-۱۷۶)۔

حضرت رفیدہؓ کی پیدائش راجح قول کے مطابق مدینہ منورہ (یثرب) میں (620ء کی دہائی میں) ہوئی، جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھیں اور ان کی نشوونما بھی یہیں ہوئی۔

والد

ان کے والد کے نام کے تعلق سے بھی دو قول ہیں: بعض مؤرخین نے ’’سعد‘‘ (دیکھئے: الطبقات الکبری: ۱۰؍۲۷۶)، جب کہ بعض نے ’’سعید‘‘ رقم کیا ہے (دیکھئے: الاستیعاب، ص۹۳۵)، یہ صحابی ہیں یا نہیں؟ اس تعلق سے کوئی حتمی بات مرقوم نہیں ملی؛ البتہ اہل سیر نے ’’سعد اسلمی عرجی‘‘ کا تذکرہ کیا ہے کہ ہجرت کے موقع پر مقام عرج میں نبی کریم ﷺ سے ان کی ملاقات ہوئی اور یہاں سے یہی آپ ﷺ کے رہبر و رہنما بن گئے، یہ دراصل اسلمیین کے ’’مولی‘‘ تھے، شرف صحابیت ان کو حاصل ہے (الاستیعاب، ص: ۲۷۶)؛ لیکن صراحت کے ساتھ کہیں یہ مذکور نہیں ہے کہ یہی حضرت رفیدہ کے والد ہیں؛ البتہ حکیم راجی عباس تکریتی کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رفیدہ کے والد بھی صحابی تھے، وہ لکھتے ہیں: کان أبوہا أنصاریاً من بنی أسلم، اسمہ سعد۔ (الإسناد الطبی فی الجیوش العربیۃ الإسلامیۃ، ص:۸۳) ’’ان کے والد بنو اسلم کے تھے اور انصاری تھے، نام سعد تھا‘‘، ظاہر ہے کہ انصاری ہونے کا خطاب مدینہ کے ان باسیوں کو ملا ہے، جو مسلمان تھے اور مہاجرین کے مددگار بھی۔

لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ وہ اپنی قوم کے ایک اچھے، ماہر اور تجربہ کار طبیب تھے، صالح عبد الغنی محمد لکھتے ہیں:

واکتسبت فی التمریض عن أبیہا سعد الأسلمی الذی کان کاہن قومہ بیثرب، وعرافہم وطبیبہم، وکان یجید فن التمریض والتطبیب۔ (الحقوق العامة للمرأة، ص:۱۳۷، نیز دیکھئے: عمل المرأة فی المملکة العربیة السعودیة، ص: ۹۷) ۔
’’انھوں (حضرت رفیدہؓ) نے اپنے والد سعد اسلمی سے علاج و معالجہ کی تعلیم حاصل کی، جو یثرب میں اپنی قوم کے کاہن، نجومی اور طبیب تھے، وہ نرسنگ اور طب کے فن میں ماہر تھے۔‘‘

اسلام

مدینہ میں حضرت مصعبؓ کی کوششوں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا، ان میں ایک حضرت رفیدہؓ بھی ہیں، پھر جب نبی کریم ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو انھوں نے براہ راست آپ ﷺ کے ہاتھوں پر بیعت کیا، یہ اہل مدینہ میں اولین اسلام قبول کرنے والوں میں ہیں؛ بل کہ ان خواتین میں ہیں، جنھوں نے آپ ﷺ کا والہانہ استقبال کیا تھا، صلاح عبد الغنی محمد لکھتے ہیں:

عند مشارف یثرب، ومع جموع الأنصار تقدمت بنت سعد الأسلمیة تنشد فرحة بقدوم الرسولﷺ وتبایعہ، وتؤکد عزمہا علی الجہاد فی سبیل اللہ بعد أن أسلمت علی ید مصعب بن عمیر۔ (الحقوق العامة للمرأة، ص: ۱۳۶)
’’یثرب کے مضافات میں، انصار کے ہجوم کے ساتھ، مصعب بن عمیرؓ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد، بنت سعد اسلمیہ رسول اللہ ﷺ کی آمد پر خوشی کے گیت گاتے، رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں پر بیعت کرتے اور جہاد فی سبیل اللہ کا عزمِ مصمم کرتے ہوئے آگے بڑھی۔‘‘

حکیم راجی عباس تکریتی لکھتے ہیں:

وکانت سباقة إلی الإسلام، وہی من بین نساء الأنصار اللائی استقبلن النبی محمدﷺ عند ہجرتہ من مکة إلی المدینة بالمزامیر والزغارید۔ (الإسناد الطبی فی الجیوش العربیة الإسلامیة، ص:۸۳)
’’وہ اولین مسلمانوں میں تھیں اور انصار کی ان خواتین میں تھیں، جنھوں نے مکہ سے مدینہ کی ہجرت کے وقت نبی کریم ﷺ کا استقبال نغمہ و راگ کے ساتھ کیا تھا۔‘‘

شادی

اہل تاریخ و سیر نے حضرت رفیدہ رضی اللہ عنہا کے حالات اس طرح تفصیل کے ساتھ نہیں لکھے ہیں، جس قدر تفصیل ہونی چاہئے، اسی لئے ان کے اکثر حالات صیغۂ راز میں ہیں، بس اندازہ سے ہی بات کی جاتی ہے، ان کی شادی کے تعلق سے بھی ایسا ہی کچھ معاملہ ہے، حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے؛ البتہ اندازہ لگا کر حافظ ابن حجرؒ کا کہنا ہے کہ ان کی شادی بنو غفار کے کسی فرد سے ہوئی تھی، وہ لکھتے ہیں:

قولہ: (خیمة من بنی غفار) تقدم أن ابن إسحاق ذکر أن الخیمة کانت لرفیدة الأسلمیة، فیحتمل أن تکون کان لہا زوج من بنی غفار۔ (فتح الباری:۷؍۴۷۹، حدیث نمبر: ۴۱۲۲)
’’(خیمۃ من بنی غفار کا قول)، یہ بات گزر چکی ہے کہ ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ یہ خیمہ رفیدہ اسلمیہ کا تھا، جس سے یہ احتمال ہوتا ہے کہ ان کا شوہر بنو غفار کا تھا۔‘‘

جہاد میں شرکت

حضرت رفیدہؓ کے اندر جذبۂ جہاد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، انھوں نے بیعت بھی اسی پر کیا تھا اور خوب نبھایا بھی، اسلام کے اولین غزوہ سے ان کی شرکت رہی، جس وقت غزوۂ بدر کے لئے بگل بج رہا تھا، یہ اس سوچ میں تھیں کہ کس طرح آج مجاہدین کی صفوں میں شمار ہونے کا موقع ملے؟ بس موقع ملتے ہی وہ اس میں شریک ہوگئیں، صلاح عبد الغنی محمد لکھتے ہیں:

ووراء جیش المسلمین، خرجت ثلة من النساء یحملن الماء للمحاربین تتقدمہن کعیبة، ثم دارت رحی المعرکة، وحمی وطیسہا، وجُرح فیہا بعض المسلمین، فأسرعت کعیبة تنتقل بین صفوف المسلمین تسعف المصاب منہم، وتشعرہ بالعنایة والعطف۔
’’مسلمان لشکر کے پیچھے، عورتوں کی ایک جماعت مجاہدین کے لئے پانی لے کر نکلیں، جن کی پیشوائی کعیبہ کر رہی تھیں، پھر معرکۂ کارزار گرم ہوا اور بعض مسلمان زخمی ہوگئے، بس کعیبہ پھرتی کے ساتھ ان زخمیوں کو مسلمانوں کے لشکر سے منتقل کرنے لگیں اور ان کی دیکھ ریکھ پر توجہ مرکوز کر دی۔‘‘

غزوہ احد میں بھی انھوں نے شرکت کی تھی اور بہتر طریقہ پر اپنا کام انجام دیا تھا، پھر جب سن پانچ ہجری میں غزوۂ خندق پیش آیا تو ان کی شرکت اس غزوہ میں نمایاں طور پر رہی، زخمیوں کا علاج اور ان کی مرہم پٹی میں نہ صرف یہ پیش پیش رہیں؛ بل کہ خندق کے قریب ہی اپنا طبی کیمپ بھی لگا دیا؛ چنانچہ جب حضرت سعد بن معاذؓ زخمی ہوگئے تو انھوں نے میدانِ کارزار میں ہی ان کا علاج کیا، صلاح عبد الغنی محمد لکھتے ہیں:

لقد أصیب سعد بن معاذ سید الأوس-من الأنصار-وأسرعت کعیبۃ إلیہ، وکشفت عن جراحہ حیث أصابہ سہم بأعلی الصدر، والدماء تنزف منہ، فأخذت تعالج جراحہ وترعاہ لتوقف نزیف الدمائ، وترکت سہم المستقر فی مکانہ لیحول دون انبثاق المزید من الدم۔ (الحقوق العامة للمرأة، ص: ۱۳۷)
’’انصار کے قبیلۂ اوس کے سردار سعد بن معاذؓ زخمی ہوگئے تو کعیبہ ان کی طرف تیزی سے گئیں اور ان کے اس زخم کا معاینہ کیا، جو سینے کے اوپری حصہ میں تیر لگنے کی وجہ سے تھا اور جہاں سے خون بہے جا رہا تھا، انھوں نے خون بند کرنے کے لئے ان کا علاج کیا اور تیر کو اس کی جگہ پر رہنے دیا؛ تاکہ مزید خون نہ بہے۔‘‘

غزوۂ خندق کے معاً بعد جب غزوۂ خیبر کا اعلان ہوا تو بنو غفار کی عورتیں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کناں ہوئیں: یارسول اللہ! قد أردنا أن نخرج معک إلی وجہک ہذا -وہو یسیر إلی خیبر- فنتداوی الجرحی ونعین المسلمین بما استطعنا۔ ’’اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کے ساتھ خیبر جانے کا ارادہ کیا ہے؛ تاکہ ہم زخمیوں کا علاج کر سکیں اور مسلمان مجاہدین کی بقدر استطاعت مدد کر سکیں‘‘، آپ ﷺ نے ’’علی برکۃ اللہ‘‘ کہہ کر ان کو اجازت دیدی (مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۷۱۸۰)، ان عورتوں میں حضرت رفیدہؓ بھی تھیں، وہ نہ صرف اس میں شریک ہوئیں؛ بل کہ اچھے طریقہ سے اپنے حصہ کا کام بھی انجام دیا، جس کی وجہ سے اللہ کے رسولﷺ نے ان کو مردوں کے برابر حصہ دیا، حافظ ابن عبدالبرؒ رقم طراز ہیں:

شہدت خیبر مع رسول اللہ ﷺ، فأسہم لہا سہم رجل۔ (الاستیعاب، ص: ۹۳۵، نمبرشمار: ۳۴۴۳، طبقات ابن سعد: ۱۰؍۲۷۶، نمبرشمار: ۵۰۷۲)
’’وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر میں شریک تھیں؛ چنانچہ رسول اللہﷺ نے ایک مرد کا حصہ ان کو بھی عطا کیا۔‘‘

طبابت

حضرت رفیدہؓ کا شمار ان خواتین میں نمایاں طور پر ہوتا ہے، جنھوں نے عہد نبوی میں طب کے میدان میں عملی طور پر خدمت انجام دی ہے، عمر رضا کحالہ لکھتے ہیں:

مجاہدة کانت تداوی الجرحی وتحتسب بنفسہا علی خدمة من کانت بہ ضیعة من المسلمین۔ (أعلام النساء فی عالمی والعرب والاسلام: ۱؍۴۵۱)
’’وہ ایک مجاہدہ تھیں، زخمیوں کا علاج کرتیں، انھوں نے اپنے آپ کو ان مسلمانوں کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا تھا، جن کے حالات دگرگوں تھے۔‘‘

یہ عمل جراحی (Orthopedic Surgery) میں ماہر تھیں، ان کی اسی مہارت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے خیمہ لگوایا تھا، شوکت شطی لکھتے ہیں:

رفیدة: طبیبة متمیزة بالجراحة، ولذلک اختارہا الرسول لتقوم بالعمل فی خیمة متنقلة۔ (تاریخ العلوم الطبیة، ص:۱۷۵)
’’رفیدہ: جراحت میں ممتاز طبیبہ تھیں، اسی سے وجہ سے رسول اللہﷺ نے ان کو ایک موبائل ٹینٹ میں خدمت کے لئے منتخب کیا۔‘‘

انتصاف عبد العزیز عبدالرحمن اقرع لکھتے ہیں:

اشتہرت ہذہ الصحابیة الجلیلة فی الجراحة وتجبیر العظام۔ (فقہ الطبیب المسلم وأخلاقہ فی المسائل الطبیة المستجدة، ص:۲۲)
’’یہ عظیم صحابیہ سرجری اور آرتھوپیڈکس کے لئے مشہور تھیں۔‘‘

حضرت رفیدہؓ کی طبی مہارت پر نبی کریم ﷺ کو اعتماد بھی تھا، اسی اعتماد کا نتیجہ تھا کہ حضرت سعد بن معاذؓ کو غزوۂ خندق میں تیر لگا اور زخم کے علاج کی ضرورت پیش آئی تو آپﷺ نے اُن کو انہی کے خیمہ میں منتقل کر دیا تھا، ابن اثیر جزری لکھتے ہیں:

أخبرنا عبیداللہ بن أحمد بإسنادہ عن یونس عن ابن اسحاق قال: وکان رسول اللہ ﷺ حین أصاب سعداً السہم بالخندق، قال لقومہ: اجعلوہ فی خیمة رفیدة؛ حتی أعودہ من قریب۔ (أسد الغابة فی معرفة الصحابة: ۷؍۱۱۱، نمبرشمار: ۶۹۲۵، الإصابة فی تمییز الصحابة: ۱۳؍۳۸۳، نمبرشمار: ۱۱۳۱۲)
’’عبید اللہ بن احمد نے اپنی سند بواسطہ یونس عن ابن اسحاق ہمیں بتایا کہ جس وقت سعدؓ کو خندق کے موقع سے تیرل گا، اس وقت رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: انھیں رفیدہ کے خیمہ میں منتقل کرو؛ تاکہ میں قریب سے عیادت کر سکوں۔‘‘

حضرت رفیدہؓ نے یہ علم طب اپنے والد سعد اسلمی سے حاصل کی تھی؛ کیوں کہ وہ اپنی قوم کے طبیب تھے، عربک پورٹل ’’الالوکۃ‘‘ میں ایک مضمون بہ عنوان: ’’الأطباء فی الجزیرۃ العربیۃ فی فجر الإسلام‘‘ ہے، اس میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:

سعد الأسلمی: کان کاہن قومہ بیثرب وعرافہم وطبیبہم، وکان ماہراً خبیراً بالتمریض التطبیقی، وہو والدة رفیدة الأسلمیة۔

 (https://www.alukah.net)

’’سعد اسلمی: یثرب میں اپنی قوم کے کاہن، نجومی اور طبیب تھے، وہ تطبیقی نرسنگ  (ٖPractical Nursing) کے ماہر اور واقف کار تھے، یہ رفیدہ اسلمیہ کے والد تھے۔‘‘

ڈاکٹر حنان ولید محمد سامراتی اور زینۃ ابراہیم خلیل اپنے مشترکہ مضمون ’’المرأۃ و تاریخ تطور مہنۃ الطب من العصر الجاہلی و حتی العصر الحدیث‘‘ میں لکھتے ہیں:

رفیدة نشأت فی عائلة لہا صلة قویة بالطب، وأن والدہا ’’سعد الأسلمی‘‘ کان طبیباً ومعلمہا الخاص حیث اکتسبت رفیدة منہ خبرتہا الطبیة، ولذلک کرست نفسہا للتمریض ورعایة المرضی، وأصبحت طبیبة متخصصة، وعلی الرغم من استحواذ الرجال وحدہم بعض المسؤولیات کالجراحة وبتر الأعضائ، مارست رفیدة الأسلمیة مہاراتہا فی خیمتہما التی کانت تقام فی العدید من الغزوات؛ حتی فی المسجد النبوی نفسہ حیث أمر النبی محمدﷺ بنقل الجرحی إلی خیتمہا، والتی توصف بأول مستشفی میدانی فی الإسلام۔ (مجلة التطویر العلمی للدراسات والبحوث، المجلد الثالث، العدد:۱۱، ۲۰۲۲ئ، ص:۲۸۳)
’’رفیدہ علم طب سے مضبوط تعلق رکھنے والے خاندان پروان چڑھی، ان کے والد سعد اسلمی ایک طبیب اور ان کے معلم خاص تھے، رفیدہ نے انہی سے طبی تجربات حاصل کئے اور اپنے آپ کو نرسنگ اور مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے وقف کر دیا اور اس طرح وہ ایک ماہر ڈاکٹر کے روپ میں ابھری، اگرچہ کہ تنہا مردوں نے سرجری اور اعضاء کے کاٹنے جیسی ذمہ داریوں سنبھال رکھا تھا؛ لیکن رفیدہ اسلمیہ نے اپنے اس خیمہ میں اپنی مہارتوں کی مشق کی، جو مختلف غزوات میں لگائے جاتے تھے؛ حتی کہ خود مسجد نبوی میں خیمہ موجود تھا، جہاں نبی کریم ﷺ زخمیوں کو منتقل کرنے کا حکم دیتے تھے اور جسے اسلام کا پہلا فیلڈ اسپتال ہونے کا شرف حاصل ہے۔‘‘

حضرت رفیدہؓ کے لئے تیار کردہ یہ طبی خیمہ اسلام کا پہلا ’’بیمارستان‘‘ یا ایسا ’’فوجی اسپتال‘‘ (موبائل کیئر یونٹس) تھا، جسے ایک جگہ سے دوسری جگہ وقت ضرورت منتقل کیا جا سکتا تھا، جس کا آغاز نبی کریم ﷺ نے کیا (تاریخ البیمارستان فی الإسلام ، ص:۹، أعلام الحضارۃ العربیۃ الإسلامیۃ فی العلوم الأساسیۃ لزہیر حمدان:۱؍۳۳) اور اس بیمارستان کے پہلے ممرضہ اور طبیبہ حضرت رفیدہ انصاریہ رضی اللہ عنہا تھیں۔

وفات

یہ عجیب بات ہے کہ جن کو تاریخ میں اولین خاتون آرتھوپیڈک ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کی زندگی کے اکثر گوشوں سے تاریخ کے صفحات خالی ہیں، انھیں گوشوں میں سے ایک ان کی وفات بھی ہے، اہل و سیر و تاریخ نے اس سلسلہ میں کچھ نہیں لکھا ہے؛ اس لئے ان کی تاریخ وفات کے بارے میں نہ کچھ لکھا جا سکتا ہے اور نا ہی کچھ کہا جا سکتا ہے، بس یہ ہے کہ ایک اللہ کی مخلص بندی، جس نے ایمان و اخلاص اور احتساب نیت کے ساتھ اپنے فن کے ذریعہ سے خدمت انجام دیتی رہی، جسے نبی کریمﷺ کا پورا اعتماد حاصل تھا، رحم اللہ علی ہذہ الصحابیۃ الجلیلۃ المخلصۃ التی تعد أول ممرضۃ فی الإسلام۔


سیرت و تاریخ

(الشریعہ — اگست ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — اگست ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۸

صحابہ کرامؓ کے باہمی تنازعات کے بارے میں ائمہ اہلِ سنتؒ کے ارشادات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

متنِ قرآن کی حفاظت و استناد
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

پاکستان قومی اتحاد کے صدر مولانا مفتی محمود سے ایک اہم انٹرویو
مجیب الرحمٰن شامی

مسئلہ قادیانیت: جدوجہد کے تیسرے مرحلے کی ضرورت!
محمد عرفان ندیم

تصوف ایک متوازی دین — محترم زاہد مغل صاحب کے جواب میں
ڈاکٹر عرفان شہزاد

عہدِ اسلامی کی اولین خاتون آرتھوپیڈک سرجن
مولانا محمد جمیل اختر ندوی

مولانا ولی الحق صدیقی افغانی کی رحلت
شاہ اجمل فاروق ندوی

کتائب القسام کے ترجمان ابوعبیدہ کا تاریخی خطاب
ابو عبیدہ

اسرائیل و صہیون مخالف ناطوری یہود (۱)
محمود الحسن عالمیؔ

گزشتہ دہائی کے دوران عالمی فوجداری عدالت کے ساتھ اسرائیل کی جھڑپیں
الجزیرہ

اہلِ عرب کی غزہ سے لا پرواہی اور اس کی وجوہات
ہلال خان ناصر

خلیفۂ ثانی سیدنا فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سید سلمان گیلانی

’’شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ: شخصیت و افکار‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’علم کے تقاضے اور علماء کی ذمہ داریاں‘‘
مولانا زبیر اشرف عثمانی

سپریم کورٹ مبارک ثانی کیس کا ایک بار پھر جائزہ لے
متحدہ علماء کونسل پاکستان

The Environment of the Judicial System and Our Social Attitudes
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter