متحدہ علماء کونسل پاکستان کے زیر اہتمام دینی جماعتوں اور علمائے کرام کا مشترکہ اجلاس گزشتہ روز جامع مسجد آسٹریلیا میکلوڈ روڈ لاہور میں منعقد ہوا جس میں مبارک ثانی کیس کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے 24 جولائی 2024ء کے فیصلہ کا قرآن و سنت اور آئین و قانون کی روشنی میں تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں متحدہ علماء کونسل کے صدر مولانا زاہد الراشدی، سیکرٹری جنرل مولانا سردار محمد خان لغاری، ڈاکٹر فرید پراچہ، مولانا عبدالغفار روپڑی، ڈاکٹر حافظ محمد سلیم، پروفیسر غضنفر عزیز، طاہر سلطان کھوکھر ایڈووکیٹ، غلام مصطفیٰ چودھری ایڈووکیٹ، مولانا عبد الرؤف فاروقی، ڈاکٹر محمد امین و دیگر علمائے کرام نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ متحدہ علماء کونسل پاکستان اس امر پر افسوس کا اظہار کرتی ہے کہ عوام، دینی جماعتوں اور علمائے کرام کی طرف سے مبارک ثانی کیس کے 6 فروری 2024ء کے فیصلہ کے بارے میں جن تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا، 24 جولائی 2024ء کے فیصلہ میں ان کو دور نہیں کیا گیا۔ حالیہ فیصلہ میں سپریم کورٹ نے قادیانیوں کے حوالہ سے اگرچہ آئینی و قانونی پوزیشن کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ ایک سے زیادہ دفع ان کے حوالے سے اپنے موقف کا بھی اظہار کیا ہے، نیز وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے 1993ء کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود مبارک ثانی کیس کے فیصلہ کے تینوں حصوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
جیسا کہ سپریم کورٹ نے تحریفِ قرآن کے ایشو میں، جو کہ اس مقدمہ کی بنیاد ہے، خود ساختہ تکنیکی بنیادوں پر مبارک ثانی کو ریلیف دیتے ہوئے اسے برقرار رکھا ہے اور ازخود یقین کر لیا ہے کہ قرآن کریم کی کوئی بے حرمتی نہیں ہوئی۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ کے پیرا گراف 42 میں قادیانیوں کو سر عام تبلیغ کی مشروط اجازت دی ہے اور چار دیواری کے اندر ان کے گھروں، عبادت گاہوں اور نجی اداروں کو معقول قید کے ساتھ گھر کی خلوت کا حق دیا گیا ہے۔ حالانکہ امتناعِ قادیانیت قانون میں قادیانیوں پر مکمل مذہبی پابندی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس چیف جسٹس آف پاکستان سے ایک مرتبہ پھر اپیل کرتا ہے کہ وہ قادیانیوں کے سلسلے میں امت مسلمہ کے متفقہ موقف، آئین پاکستان کے واضح آئینی آرٹیکلز، امتناع قادیانیت آرڈیننس 1984ء، اشاعتِ قرآن سے متعلق قوانین، اور خود سپریم کورٹ کے سامنے تمام دینی جماعتوں، مدارس اور ملک کے معروف علمائے کرام کے دیے گئے تحریری بیان کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر نظر ثانی کریں تاکہ امت مسلمہ میں موجود اضطراب کا مداوا ہو سکے۔ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سڑکوں، چوراہوں سمیت ہر سطح پر پر امن احتجاج کیا جائے گا۔