الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو واقع ہونے والے طوفان الاقصیٰ سے لے کر اب تک غزہ میں تقریباً ۳۸ ہزار اموات واقع ہو چکی ہیں جن میں سے ۱۵ ہزار سے زائد اموات بچوں کی ہے، زخمی ہونے والے افراد کی تعداد ۸۸ ہزار کے لگ بھگ، جبکہ غزہ میں فی الوقت موجود عوام کی تعداد ۱۳ سے ۱۵ لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ دن بدن اسرائیلی فوج کی بے رحمی بڑھتی چلی جا رہی ہے مگر اہلِ عرب کی طرف سے اہلِ غزہ کے حق میں کسی مؤثر ردعمل کا اظہار نہ تو فوجی اور نہ ہی معاشی طور پر نظر آرہا ہے۔ مزاحمت کی عدم موجودگی کے پیچھے حقیقت سمجھنے کیلیے یہ ضروری ہے کہ موجودہ عرب حکومتوں کے قیام اور ان کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے۔
جنگِ عظیم اول کے دوران خلافت عثمانیہ کا جرمن افواج کا ساتھ دینا برطانوی سلطنت کیلیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ اس رکاوٹ کو ختم کرنے کیلیے انگریز حکومت نے وقت کے شریفِ مکہ حسین بن علی کے ساتھ ایک عرب سلطنت کا وعدہ کر کے ان کو خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرنے پر اکسایا۔ ۱۹۱۶ء میں یہ بغاوت برطانوی افواج کی مدد سے شروع ہوئی اور ۱۹۱۸ء تک شام، عراق، اردن، فلسطین اور حجاز کا علاقہ خلافتِ عثمانیہ سے چھین لیا گیا۔ مگر جنگ ختم ہونے کے بعد برطانیہ نے شریفِ مکہ کے ساتھ وعدہ خلافی کرتے ہوئے فلسطین اور عراق کے علاقے پر خود قبضہ کر لیا اور شام اور اردن کا علاقہ فرانس کے حوالے کر دیا۔ شریفِ مکہ کو صرف حجاز کی حکمرانی دی گئی جو کچھ ہی عرصہ کے بعد ۱۹۲۵ء میں عبد العزیز السعود نے چھین کر موجودہ سعودی عرب قائم کر لیا۔ فلسطین میں برطانیہ نے یہودی آباد کرنے شروع کر دیے جبکہ عراق، شام اور اردن میں اپنی من پسند کے حکمران بٹھا کر ان کو بادشاہت دے دی۔ چند سال تو امن رہا مگر اپنا دائرہ اقتدار بڑھانے کیلیے جب جنگِ عظیم دوم کے بعد ان ممالک کی آپس میں جنگیں بڑھنے لگیں تو ہر ملک نے دوسرے کے خلاف امریکہ سے مدد حاصل کرنے کیلیے تیل کے بدلے فوجی اور معاشی معاہدے شروع کر دیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ امریکی افواج اور کمپنیوں نے اپنا اثر و رسوخ اتنا بڑھا لیا کہ آج عرب ممالک کا دفاعی نظام امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر منحصر ہے۔ جن ممالک نے امریکی فوج کو اپنے ہاں جگہ دی ان کو امریکہ نے تحفظ فراہم کیا۔ اس وقت امریکہ کے ۳۰ سے زائد فوجی اڈے عمان، قطر، بحرین، کویت، عراق ، متحدہ عرب امارات، اردن اور سعودی عرب میں موجود ہیں۔ عراق جیسے جن ممالک نے خود مختاری حاصل کرنے کی کوشش کی ان کی معیشت اور فوج کو تباہ کر دیا اور باقی ممالک کیلیے عبرت کا نشان بنا دیا۔
ان سب چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دو بڑی وجوہات سامنے آتی ہیں:
۱) عرب ممالک اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اسرائیل کا مقصد صرف غزہ کا حصول ہے۔ اسرائیلی حکومت کا ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا خواب جس میں اردن، شام، عراق اور سعودی عرب کا کافی حصہ شامل ہے، اب بھی ان کے ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا وقتا فوقتا ان کے وزراء اور افسران اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس ایجنڈے کے تحت یہ ممالک بھی اسرائیلی عزائم کے شر سے محفوظ نہیں۔
۲) عرب ممالک کے بادشاہ اپنی بادشاہت کو برقرار رکھنے کیلیے اور عراق ثانی بننے سے بچنے کیلیے خاموشی اختیار کیے بیٹھے ہیں۔ جو افواج آج ان کی حفاظت پر مامور ہیں، کل کو امریکہ کے کہنے پر ان کی بادشاہت کو با آسانی بربادی میں بدل سکتی ہیں۔
اہل عرب کی خاموشی پر جہاں ان کو بے حس کہا جا سکتا ہے وہاں ان کا بے بس ہونا بھی نظر آتا ہے۔ جو ملک اپنے دفاع اور معاش کے فیصلے خود کرنے کے قابل نہیں وہ کسی اور کیلیے کیسے آواز اٹھا سکتا ہے؟ معاشی اور فوجی طاقت کے ذریعے ملک کو بے بس کرنے کا یہی حربہ اور بھی مسلمان ملکوں میں استعمال ہوتا نظر آرہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائے، آمین۔