صحابہ کرامؓ کے باہمی تنازعات کے بارے میں ائمہ اہلِ سنتؒ کے ارشادات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی تنازعات و مشاجرات کے حوالہ سے راقم الحروف کا ایک مضمون ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کے مئی ۱۹۶۸ء کے دو شماروں میں شائع ہوا تھا جسے تھوڑے بہت ردوبدل کے ساتھ دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔   (ابوعمار زاہد الراشدی ۔ ۸ جولائی ۲۰۲۴ء)



مشاجراتِ صحابہؓ کا موضوع اس قدر نازک اور پیچیدہ ہے کہ اسے زیر بحث لاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ایک طرف صحابہ کرامؓ کا وہ مقدس گروہ ہے جس کی عدالت و دیانت، صداقت و امانت، اور شجاعت و استقامت بحث و تمحیص سے بالاتر ہے، اور بارگاہِ رسالتؐ سے اس قدوسی گروہ کا تعلق کچھ اس نوعیت کا ہے کہ مجموعی حیثیت سے پورے گروہ یا اس میں کسی خاص طبقہ کی، یا انفرادی طور پر کسی ایک فرد کی عدالت و دیانت اور صداقت و شجاعت کو زیر بحث اور محلِ نظر قرار دینے سے براہ راست بارگاہِ رسالت کی صفتِ تزکیہ و تطہیر اس کی زد میں (خاکم بدہن) آ جاتی ہے۔ اور دوسری طرف تاریخِ اسلام کے نام سے ہمارے سامنے اس گروہ کے باہمی مناقشات و مشاجرات کے بارہ میں روایات و قصص کا جو مواد پیش کیا گیا ہے اس کی روشنی میں اس جماعت پر صداقت و دیانت اور عدالت و دیانت جیسے الفاظ کا اطلاق ایک خوبصورت فریب سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتا۔

یہی وجہ ہے کہ ائمہ اہل السنۃ والجماعت نے مشاجراتِ صحابہؓ کی بحث میں ایک مبنی بر صداقت اور معقول موقف متعین کر کے اس سے زیادہ اس بحث میں غور و خوض کی ممانعت کر دی ہے، اور اس موقف کی حدود سے تجاوز کرنے کو ’’ضلال‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ آج جب گلشنِ تاریخ سے گلچینی کے بلند بانگ دعویداروں کے دامن ابن سبا کی ملعون ذریت کے بوئے ہوئے کانٹوں کی بدتمیزی کا شکار ہو کر تار تار ہوتے نظر آتے ہیں اور بڑے بڑے شہسواران رہوارِ قلم کی شیخی اس سنگلاخ وادی میں کرکری ہوتی دکھائی دیتی ہے تو صحیح معنوں میں ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کی طرف سے مسلک اہل السنۃ والجماعۃ کی حدود سے تجاوز کی ممانعت کا پس منظر اور اس کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اہل السنۃ والجماعۃ کا مسلک اس قدر معقول اور معتدل ہے کہ اس کے بعد کسی مزید غور و خوض اور بحث و تمحیص کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ اور جن لوگوں کو معتزلہ کے ہشامیہ فرقہ اور خوارج و روافض کی باہمی نظریاتی جنگ کا علم ہے کہ ایک طرف ہشامیہ فرقہ مشاجراتِ صحابہؓ یعنی سیدنا عثمانؓ کے خلاف بغاوت، جنگِ جمل اور محاربہ صفین کے وقوع ہی سے انکار کر کے تمام تر تاریخی روایات کو دیا برد کرنے کے درپے تھا (بحوالہ شرح مواقف سید شریفؒ ص ۷۴۵ والنبراس علی شرح العقائد للفرہاروی ص ۵۰۴) اور دوسری طرف روافض و خوارج کے بیشتر گروہ صحابہ کرامؓ کے بغض و عناد کی وجہ سے ہر قسم کی رطب و یابس روایات کو سینے سے لگائے بیٹھے تھے۔ وہی لوگ اہل السنۃ والجماعۃ کے مسلک اعتدال کی حقیقی قدر و قیمت کو جان سکتے ہیں۔

آج چونکہ مشاجرات صحابہؓ کا موضوع ایک بار پھر زیر بحث لایا جا رہا ہے اور تاریخ کی رطب و یابس روایات کا سہارا لے کر نئی پود کے اذہان و قلوب کو مسموم کرنے کی کوششیں جاری ہیں، اس لیے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس موضوع پر ائمہ کرام اور محققین اہل السنۃ والجماعۃ کے ارشادات کو قوم کے سامنے لایا جائے تاکہ پاکستان کے سواد اعظم اہل السنۃ والجماعۃ کے ’’توارثی عقائد و نظریات‘‘ کی جڑوں پر کلہاڑے چلانے والوں کی مذموم کوششیں بے نقاب ہو سکیں۔

مشاجرات کے باب میں بنیادی طور پر تین امور بحث طلب ہیں اور تینوں امور پر ائمہ نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے:

    ۱۔ پہلے نمبر پر یہ کہ مشاجراتِ صحابہؓ میں مابہ النزاع کونسا سوال تھا؟

    ۲۔ دوسرے نمبر پر یہ کہ فریقین کی اصولی حیثیت کیا تھی؟

    ۳۔ اور تیسرے نمبر پر یہ کہ مشاجرات کے بارے میں تاریخ کی پیش کردہ روایات کی کیا حیثیت ہے؟

اب ہم شق وار تینوں امور پر ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کے ارشادات پیش کریں گے۔

(۱) مشاجراتِ صحابہؓ میں مابہ النزاع کیا امر تھا؟

(۱) عقائد اہل السنۃ والجماعۃ کے نامور امام علامہ کمال بن ہمامؒ اور ان کی مایہ ناز تصنیف ’’المسایرہ‘‘ کے شارح علامہ کمال بن شریف فرماتے ہیں کہ:

’’حضرت معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے مابین جو محاربہ واقع ہوا، وہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو ان کے ورثاء کے سپرد کرنے کے سوال پر تھا، اور اس کی بنیاد اجتہاد پر تھی، یہ حضرت معاویہؓ کی طرف سے خلافت کی جنگ نہ تھی۔  کیونکہ حضرت علیؓ کی رائے یہ تھی کہ قاتلینِ عثمانؓ اس وقت بہت زیادہ ہیں اور لشکرِ اسلامی میں خلط ملط ہو چکے ہیں، اس لیے اگر ان پر فوری طور پر ہاتھ ڈالا گیا اور انہیں ورثائے عثمانؓ کے سپرد کیا گیا تو امارت و خلافت کا سوال نئے سرے سے اضطراب میں پڑ جائے گا۔ اس واسطے حضرت علیؓ اس سپردگی میں اس وقت تک مہلت اور تاخیر چاہتے تھے جب تک انہیں نظم و نسق پر پورا کنٹرول حاصل نہیں ہو جاتا۔‘‘ (المسایرہ ص ۱۵۹)

(۲)      امام عبد الوہاب شعرانیؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین جو محاربہ رونما ہوا وہ خلافت کی جنگ نہ تھی جیسا کہ بعض لوگوں کو خواہ مخواہ اس کا وہم ہوا ہے۔ بلکہ یہ جنگ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو ان کی برادری کے سپرد کرنے کے سوال پر واقع ہوئی تھی۔ کیونکہ حضرت علیؓ اس سپردگی میں تاخیر چاہتے تھے اور ان کی رائے یہ تھی کہ اگر فی الفور ان پر ہاتھ ڈالا گیا تو امارت کا مسئلہ اضطراب میں پڑ جائے گا۔ اور اس چیز نے اس رائے کو اور زیادہ وزنی کر دیا تھا کہ جنگِ جمل کے موقع پر حضرت علیؓ نے قاتلینِ عثمانؓ کو لشکر سے نکل جانے کا حکم دیا تھا جس پر  یہ  لوگ آپ کے قتل کے درپے ہو گئے تھے۔ اور حضرت معاویہؓ کی رائے یہ تھی کہ قاتلوں کو ورثاء عثمانؓ کے سپرد کرنے میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہونی چاہیے تاکہ ورثاء جلد از جلد حضرت عثمانؓ کا قصاص لے سکیں۔ پس حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ دونوں اپنے اپنے اجتہاد پر تھے اور ان کی باہمی جنگ سے یہی مراد ہے۔‘‘ (الیواقیت والجواہر ص ۷۷ ج ۲)

(۳)    حجۃ الاسلام امام غزالیؒ المتوفی ۵۰۵ھ کا ارشاد ہے:

’’اور اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ یہ ہے کہ سب صحابہؓ کو پاک سمجھا جائے اور ان کی اسی طرح تعریف و ثناء کی جائے جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔ اور حضرت معاویہؓ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے درمیان جو جنگ ہوئی وہ خلافت کی جنگ نہ تھی بلکہ ان بزرگوں کی اجتہادی آراء میں اختلاف پر مبنی تھی۔ کیونکہ حضرت علیؓ کا اجتہاد اور ان کی رائے یہ تھی کہ قاتلینِ عثمانؓ کو اگر فی الفور ورثاء عثمانؓ کے سپرد کیا گیا تو امارت کا معاملہ مضطرب ہو جائے گا۔ کیونکہ قاتلین کا گروہ تعداد میں زیادہ ہونے کے علاوہ لشکر میں خلط ملط ہو چکا تھا۔ اس لیے حضرت علیؓ اس سپردگی میں تاخیر کو بہتر سمجھتے تھے۔ لیکن حضرت معاویہؓ کی رائے یہ تھی کہ اگر ان لوگوں کو کچھ بھی مہلت دی گئی تو اتنے بڑے گناہ کے ہوتے ہوئے ان سے قصاص لینے میں تاخیر کرنے سے خلفاء کے خون کی قدر و قیمت گھٹ جائے گی اور روز روز اس قسم کے لوگ خونریزی پر تلے رہیں گے۔‘‘ (احیاء العلوم ص ۹۹ ج۱)

(۴)    امام ابن حجر المکیؒ المتوفی ۹۷۴ھ فرماتے ہیں کہ

’’اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد میں سے یہ بات بھی ہے کہ حضرت معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے مابین جو جنگ ہوئی وہ خلافت کا جھگڑا نہیں تھا۔ اس لیے کہ حضرت علیؓ کی خلافت پر اجماع متحقق ہو چکا تھا۔ پس اس کے سوال پر فتنہ بپا نہیں ہوا، بلکہ اس لیے ہوا تھا کہ حضرت معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں نے حضرت علیؓ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ قاتلینِ عثمانؓ کو ہمارے سپرد کر دیا جائے۔ کیونکہ حضرت معاویہؓ حضرت عثمانؓ کے چچازاد بھائی تھے، لیکن حضرت علیؓ یہ خیال کر کے قاتلوں کو ان کے سپرد کرنے سے رک گئے کہ ابھی خلافت کا فیصلہ تازہ تازہ ہوا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ باغی کوئی اور شورش بپا کر کے امارت کے مسئلہ کو نئے سرے سے اضطراب میں ڈال دیں۔ اور اس وقت خلافتِ اسلامی اتحاد کا نشان تھی اور ابھی تک پوری طرح مستحکم بھی نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے حضرت علیؓ نے اس سپردگی کو اس وقت تک مؤخر کرنا مناسب سمجھا جب تک ان کے قدم پوری طرح جم نہیں جاتے اور مسلمان ایک پلیٹ فارم پر متحد نہیں ہو جاتے، تاکہ اس کے بعد وہ ایک ایک قاتل کو پکڑ کر ورثاء عثمانؓ کے سپرد کر سکیں۔‘‘ (الصواعق المحرقۃ ص ۲۱۶)

یہ چند حوالے معتمد ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کی عبارت سے پیش کیے گئے ہیں جن پر غور کرنے سے مندرجہ ذیل تین امور روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتے ہیں:

    ۱۔ مشاجرات کی بنیاد خلافت کا مسئلہ نہیں تھا اور نہ حضرت معاویہؓ اس وقت خلافت کے دعویدار تھے۔

    ۲۔ مشاجرات کی بنیاد قاتلینِ عثمانؓ کو حضرت عثمانؓ کے وارثین کے سپرد کرنے کا سوال بھی نہیں تھا، بلکہ خلیفۂ وقت حضرت علیؓ قاتلینِ عثمانؓ کو حضرت معاویہؓ کے مطالبہ کے مطابق ورثاء کے سپرد کرنے کو تیار تھے اور انہیں نفسِ سپردگی پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں تھا۔

    ۳۔ اصل تنازعہ اس سپردگی میں تعجیل اور تاخیر کے سوال پر تھا۔ حضرت معاویہؓ تاخیر کو ناروا سمجھتے ہوئے تعجیل کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اور حضرت علیؓ تعجیل کو خلافِ مصلحت خیال کر کے تاخیر کو اصوب (زیادہ صحیح) قرار دیتے تھے۔

جب ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کے ارشادات کی روشنی میں قاتلینِ عثمانؓ کو ورثاء عثمانؓ کے سپرد کرنے کا مسئلہ صحابہ کرامؓ کے درمیان ایک متفق علیہ امر تھا اور حضرت علیؓ خلیفۂ وقت کو بھی سپردگی پر اعتراض نہیں تھا، بلکہ تنازعہ صرف اور صرف تعجیل اور تاخیر کے سوال پر تھا، تو بعض حضرات کی طرف سے حضرت معاویہؓ کے اس مطالبہ کو غیر آئینی جاہلیت کے قبائلی نظام سے اشبہ اور غیر اسلامی مطالبہ قرار دینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ اس دعویٰ کو کہ حضرت معاویہؓ کو یہ مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ قاتلینِ عثمانؓ کو حضرت عثمانؓ کے ورثاء کے سپرد کر دیا جائے،  اگر ان کے ہاں کوئی وقعت حاصل ہو تو ہو، بہرحال ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ ان کے اس دعویٰ کو ماننے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔ کیونکہ جو مطالبہ تمام صحابہؓ کا متفق علیہ ہے، اور خلافتِ راشدہ کے منصب جلیلہ پر فائز سیدنا علیؓ بھی نفسِ مطالبہ کو مانتے ہیں، تو اس مطالبہ کو غیر آئینی اور جاہلیت کے قبائلی نظام سے اشبہ قرار دینے کی بات قابلِ قبول نہیں ہے۔ 

الغرض مشاجراتِ صحابہؓ میں ما بہ النزاع نہ تو خلافت کا مسئلہ تھا، جیسا کہ امام شعرانیؒ کے بقول بعض لوگوں کو خواہ مخواہ اس کا وہم ہوا ہے، اور نہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو ان کے ورثاء کے سپرد کرنے کا سوال تھا، کیونکہ یہ مطالبہ متفقہ علیہ تھا اور ائمہ عقائد کی تمام کتابوں میں مابہ النزاع ’’تسلیم قتلۃ عثمانؓ الی الورثاء‘‘ کو نہیں بلکہ ’’تاخیر تسلیم‘‘ اور ’’استعجال تسلیم‘‘ کو قرار دیا گیا ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ’’نفسِ تسلیم‘‘ میں اختلاف نہیں تھا بلکہ تعجیل اور تاخیر میں اور سپردگی کے وقت میں اختلاف تھا۔

قصاص کا مسئلہ قرآن پاک کا منصوص مسئلہ ہے، بھلا حضرت علی رضی اللہ عنہ (یا) اور کوئی صحابیؓ اس سے انکار کر سکتا تھا؟ اختلافِ رائے صرف یہ تھا کہ فی الحال ان قاتلوں کو حضرت عثمانؓ کے وارثوں کے سپرد کر دیا جائے یا مصلحتاً کچھ عرصہ بعد جبکہ امرِ خلافت مضبوط ہو جائے۔

(۲) فریقین کی اصولی حیثیت

جب اتنی بات واضح ہو گئی کہ مابہ النزاع صرف قاتلینِ عثمانؓ کی ورثاء کو سپردگی میں تعجیل و تاخیر کا سوال تھا، تو اب ہم نے ائمہ کرام کے ارشادات کی روشنی میں یہ دیکھنا ہے (کہ) ان دونوں فریقوں کی اصولی حیثیت کیا تھی؟

(۱)   امام اہل السنۃ والجماعۃ حضرت الامام ابو الحسن الاشعریؒ فرماتے ہیں کہ :

’’جو کچھ واقعات حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کے درمیان واقع ہوئے ہیں ان کی بنیاد اجتہاد اور تاویل پر تھی، سب کے سب اہلِ اجتہاد تھے۔ اور ان کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت اور شہادت کی خوشخبری دی تھی جو اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ وہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ اجتہاد میں حق پر تھے۔

اور اسی طرح جو  واقعات حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان واقع ہوئے ہیں وہ بھی اجتہاد اور تاویل پر مبنی ہیں اور سارے صحابہ کرامؓ مامون ہیں جن کے دین پر کوئی الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرامؓ کی تعریف و ثنا کی ہے اور ہم کو ان کی توقیر و تعظیم کرنے کا، ان سے محبت رکھنے کا، اور ان کے بارے میں ہر اس بات سے براءت ظاہر کرنے کا حکم دیا ہے جس سے ان میں سے کسی ایک کی تنقیص ہوتی ہو۔‘‘ (کتاب الابانۃ للاشعریؒ ص ۸۸)

(۲)   امام عبد الوہاب شعرانیؒ فرماتے ہیں کہ :

’’صحابہ کرامؓ سب کے سب باتفاق اہل السنۃ والجماعۃ عادل ہیں۔ جنگِ جمل و صفین واقعہ سے قبل بھی وہ عادل تھے اور بعد میں بھی عادل ہی رہے۔ یہ اعتقاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ان کے آپس کے جھگڑے اجتہاد کے سبب سے تھے۔ کیونکہ مختلف فیہ امور اجتہادی مسائل تھے اور دونوں فریقوں نے اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کیا۔ اب ’’کل مجتہد مصیب‘‘ (ہر مجتہد حق پر ہوتا ہے) کا قاعدہ مدنظر رکھ کر سب کو حق پر قرار دیا جائے۔ یا ’’المصیب واحد والمخطئ معذور بل ماجور‘‘ (درست فیصلہ ایک کا ہوتا ہے اور دوسرا معذور بلکہ ماجور ہوتا ہے) کے قاعدہ کے پیش نظر ایک فریق کو حق پر اور دوسرے کو خطا پر سمجھا جائے۔ اس سے عدالتِ صحابہؓ پر کوئی زد نہیں پڑتی۔‘‘ (الیواقیت والجواہر ص ۷۶ ج ۲)

(۳)   حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ کا ارشاد ہے کہ:

’’شیخ ابو شکور سالمیؒ نے اپنی کتاب ’’تمہید‘‘ میں تصریح کی ہے کہ حضرت معاویہؓ اور صحابہ کرامؓ میں سے ان کے وہ رفقاء جو جنگ میں ان کے ساتھ تھے، اگرچہ خطا پر تھے، لیکن ان کی یہ خطا اجتہادی تھی۔ اور ابن حجرؒ نے الصواعق المحرقۃ میں لکھا ہے کہ حضرت علیؓ سے حضرت معاویہؓ کا نزاع اجتہاد پر مبنی تھا۔ اور اس کو انہوں نے اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد میں شمار کیا ہے۔‘‘ (مکتوبات دفتر اول مکتوب ص ۲۵۱)

ایک اور مقام پر حضرت مجدد صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:

’’جمہور اہل السنۃ والجماعۃ کا دلائل کی روشنی میں یہ عقیدہ ہے کہ مشاجراتِ صحابہؓ میں حق حضرت علیؓ کے ساتھ تھا اور ان کے مخالفین نے خطا کا راستہ اپنایا تھا۔ لیکن چونکہ یہ خطا اجتہادی ہے اس لیے ملامت اور اعتراض سے مبرا اور بالاتر ہے اور اہلسنۃ والجماعۃ محاربینِ علیؓ کے حق میں صرف خطاء کے لفظ کا اطلاق کرتے ہیں، کیونکہ اس میں تاویل کی گنجائش ہے، اس کے بغیر ان پر کسی لفظ کا اطلاق روا نہیں رکھتے۔‘‘ (مکتوبات حصہ ششم دفتر دوم ص ۷۹)

(۴)   امام شرف الدین نوویؒ شارح مسلم شریف المتوفی ۶۷۶ھ فرماتے ہیں کہ

’’اور جو محاربات صحابہ کرامؓ کے دور میں رونما ہوئے ان میں ہر گروہ کے لیے ایسے شبہات موجود تھے جن کی بنا پر وہ گروہ اپنے آپ کو حق پر کہتا تھا اور سارے کے سارے عادل اور محاربات کے سلسلہ میں اپنے اپنے طرز عمل کے مؤدل تھے۔ اور ان محاربات میں سے کوئی چیز بھی ان صحابہ کرامؓ کی عدالت پر اثر انداز نہیں ہوتی، کیونکہ وہ سارے مجتہد تھے جنہوں نے اجتہادی مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا تھا۔‘‘ (شرح مسلم ص ۲۷۳ ج ۳)

ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات سے حسبِ ذیل امور واضح ہوتے ہیں کہ

    ۱۔ اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدہ کے مطابق حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو ان کے ورثاء کے سپرد کرنے میں تاخیر یا تعجیل کا مسئلہ ایک اجتہادی معاملہ تھا۔

    ۲۔ اس اجتہادی مسئلہ میں حضرت علیؓ نے اپنے اجتہاد کے مطابق ’’تاخیر تسلیم‘‘ کو اصوب سمجھا اور حضرت معاویہؓ نے اپنے اجتہاد کی روشنی میں ’’تعجیل تسلیم‘‘ کو مناسب خیال فرمایا۔

    ۳۔ دونوں بزرگوں کے پاس اپنے اپنے اجتہاد کو صحیح سمجھنے کے لیے شبہات کی کوئی نہ کوئی بنیاد ضرور موجود تھی، جس کی بنا پر ہر گروہ اپنے آپ کو حق پر کہتا تھا۔

    ۴۔ اس اجتہادی اختلاف میں حضرت علیؓ کا اجتہاد اپنے نتیجہ کے لحاظ سے صواب اور حضرت معاویہؓ کا اجتہاد خطاء تھا۔

    ۵۔ اس اجتہادی اختلاف اور حضرت معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں کی خطاء اجتہادی کے سلسلہ میں لفظ خطاء سے زیادہ اور کوئی لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی ان کو اس خطاء پر ملامت کی جا سکتی ہے اور نہ ان پر اعتراض کیا جا سکتا ہے۔

الغرض اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدہ کی رو سے جنگِ جمل کی ابتدا سے واقعہ تحکیم تک جو کچھ واقعات رونما ہوئے ان کی بنیاد اجتہاد پر تھی۔ اور اجتہادی مسئلہ میں اگر دو مجتہد مختلف رائے قائم کریں تو اپنے اپنے اجتہاد کی رو سے تو وہ دونوں حق پر ہوتے ہیں، لیکن نفس الامر میں ایک حق پر ہوتا ہے اور دوسرا خطاء پر، لیکن یہ خطاء بھی قابلِ ملامت نہیں ہوتی بلکہ اس پر اللہ تعالیٰ اجر عطا فرماتے ہیں۔

اس لیے صحابہ کرامؓ میں سے اجتہادی مسائل میں خطاء کر جانے والوں پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں، جیسے بعد کے چاروں امامانِ فقہ حضرت ابوحنیفہؒ، حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور حضرت امام مالکؒ میں بیسیوں مسائل میں اختلاف ہے، مگر چونکہ یہ اہلِ اجتہاد تھے اس لیے چاروں مذاہب کو اصولاً‌ حق پر سمجھا جاتا ہے۔ ایک کو حسنِ ظن کی وجہ سے حق پر سمجھا جا کر اس کی پیروی کی جاتی ہے، دوسرے کو اس کے اجتہادی خطاء پر ملامت نہیں کیا جاتا بلکہ مستحقِ اجر قرار دیا جاتا ہے۔

(۳) تاریخی روایات کی صحیح حیثیت

واقعاتی صورتحال یہ ہے کہ مشاجرات میں مابہ النزاع امور اجتہادی مسائل تھے، جن میں مجتہدین کا آپس میں اختلاف ہو گیا، اور اس اختلاف سے باغیوں کے گروہ نے سازشوں اور حیلوں کے ذریعہ پوری طرح فائدہ اٹھا کر صحابہ کرامؓ کے دو مقدس گروہوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرا دیا۔ یہ وہی سبائی گروہ تھا جس نے حضرت عثمانؓ کو شہید کرایا اور پھر حضرت علیؓ کے لشکر میں گھل مل گئے، اپنی سازشوں سے اسلام کو کمزور کرنے اور باہم لڑانے کے سوا ان کا کوئی مقصد نہ تھا۔  

البتہ ایک سوال یہ ہے کہ اس مسلک اور عقیدہ پر پختگی سے قائم رہنے کی صورت میں ان بے شمار تاریخی روایات کا کیا بنے گا جو اس عقیدہ کے بالکل الٹ ایک بالکل دوسرا ہی نقشہ پیش کرتی ہیں؟ اس کے جواب میں اب ہم ائمہ کرامؒ کی عبارات پیش کرتے ہیں تاکہ تاریخی روایات کی صحیح حیثیت واضح ہو سکے۔

(۱)   حجۃ الاسلام امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’پس ہمیں صحابہ کرامؓ کے حق میں نیک گمان رکھنا چاہیے اور ان کے بارے میں برا گمان نہیں کرنا چاہیے۔ اور جو واقعات اس قسم کے تاریخوں میں نقل کیے گئے ہیں جن سے اس حسنِ ظن پر زد پڑتی ہے تو اس کا بیشتر حصہ تعصب اور عناد کی وجہ سے ان مخالفوں نے خودبخود گھڑا ہے، جس کی کوئی اصل نہیں۔ اور اگر کوئی واقعہ نقل کے لحاظ سے ثابت ہو جائے تو بھی اس کی تاویل کی جائے گی، اور ایسی کوئی خبر نہیں جس میں خطاء اور سہو کا احتمال نہ ہو۔ اور صحابہ کرامؓ کے افعال کو نیک عمل اور قصدِ خیر پر محمول کرنا چاہیے اگرچہ کسی ایک آدھ معاملہ میں وہ صواب پر نہ ہوں۔ اور حضرت عائشہؓ اور حضرت معاویہؓ سے حضرت علیؓ کی جو جنگ مشہور ہے، اس میں حضرت عائشہؓ کے بارے میں تو یہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ وہ قاتلینِ عثمانؓ کے بپا کیے ہوئے فتنہ کو بجھانا چاہتی تھیں لیکن معاملہ ان کے ضبط اور کنٹرول سے نکل گیا، اور حضرت معاویہؓ کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ وہ تاویل اور اجتہاد کی بنا پر حضرت علیؓ سے اختلاف رکھتے تھے۔ اور اس کے سوا جو حکایتیں بیان کی جاتی ہیں ان میں صحیح اور باطل آپس میں خلط ملط ہو چکے ہیں۔ اور وہ روایات آپس میں بھی مختلف ہیں جن کا اکثر و بیشتر حصہ روافض، خوارج اور ان کے اربابِ فضول کی اختراع ہے جو ہر وقت من گھڑت اور جھوٹے قصے پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ پس مناسب بات یہ ہے کہ جب تک کوئی روایت اصولِ روایت و درایت کی روشنی میں صحیح ثابت نہ ہو جائے اس کی صحت کا صاف انکار کر دیا جائے۔ اور جو روایت اصول کی کسوٹی پر صحیح ثابت ہو جائے لیکن وہ بظاہر حسنِ ظن کے خلاف ہو تو اس کی تاویل و توجیہ کی جائے۔ اور اے مخاطب! اگر تو کسی روایت کی تاویل و توجیہ کرنے سے عاجز رہے اور تجھ کو کوئی راستہ تاویل و توجیہ کا نظر نہ آئے تو یہ کہہ دے کہ ہو سکتا ہے اس کی کوئی تاویل ہو جو میری سمجھ میں نہیں آ سکی۔‘‘ (الاقتصاد فی الاعتقاد للغزالیؒ ص ۱۰۱۰)

آپ نے دیکھا کہ امام غزالیؒ کا تقویٰ اور احتیاط کہ اپنی سمجھ کا قصور مان لو مگر صحابہ کرامؓ پر بدگمانی نہ ہو، کیونکہ انہوں نے جو کچھ کیا اللہ کے لیے کیا اور حق سمجھ کر کیا۔ 

(۲)   امام ابن حجر المکیؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ

’’کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مشاجراتِ صحابہؓ کے سلسلہ میں روایات پیش کر کے صحابہ کرامؓ میں سے کسی بزرگ پر تنقید و اعتراض کا دروازہ کھول دے اور عوام کو صحابہ کرامؓ سے بدظن کرنے کا باعث بنے۔ اور اس قسم کی حرکتیں وہ بدعتی اور جاہل قسم کے لوگ ہی کیا کرتے ہیں جو ہر وہ بات نقل کر ڈالتے ہیں جو تاریخ کے کسی حصہ سے ان کو دستیاب ہو جائے اور روایت کی سند وغیرہ پرکھے بغیر ہی اسے پیش کر دیتے ہیں۔‘‘ (تطہیر الجنان للمکیؒ ص ۳۱)

ایک دوسرے مقام پر امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ:

’’واجب اور ضروری امور میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص ’’مشاجراتِ صحابہؓ‘‘ کے بارے میں کوئی روایت سنے تو اسے قبول کرنے سے رک جائے اور محض کسی مؤرخ کی کتاب میں اس روایت کے موجود ہونے یا کسی شخص سے وہ روایت سن لینے ہی کی بنا پر اس روایت میں بیان کردہ قصہ کو صحابہ کرامؓ میں سے کسی کی طرف منسوب نہ کر دے۔ بلکہ یہ ضروری ہے کہ وہ اس روایت کی چھان بین کرے، اس کی اسناد پرکھے، اور جب تک وہ روایت پوری طرح صحیح ثابت نہ ہو جائے اسے تسلیم نہ کرے۔ اور جب وہ روایت صحیح ثابت ہو جائے تو اس میں تاویل کرے اور اس کی توجیہ بیان کرنے کی پوری کوشش کرے۔‘‘ (الصواعق المحرقۃ ص ۲۱۶)

(۳)   حضرت ملا علی القاریؒ المتوفی ۱۰۱۴ھ فرماتے ہیں کہ

’’علامہ ابن دقیق العیدؒ نے اپنے عقائد میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے، جو روایات مشاجراتِ صحابہؓ کے بارے میں نقل کی گئی ہیں ان میں باطل اور جھوٹی روایات بھی ہیں، ان کی طرف التفات نہیں جائے گا۔ اور جو روایت صحیح ثابت ہو جائے اس کی ہم کوئی مناسب تاویل کریں گے۔‘‘ (شرح فقہ اکبر ص ۸۷)

ان ارشادات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ

    ۱۔ مؤرخین کی کتابوں میں جو روایات بیان کی گئی ہیں ان میں غلط اور صحیح دونوں قسم کی روایات موجود ہیں۔

    ۲۔ غلط روایات رافضیوں، خارجیوں اور دوسرے گمراہ لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ کے تاریخ میں گھسیڑی ہیں۔

    ۳۔ غلط اور صحیح روایات میں تمیز کرنے کے لیے روایت کی سند کو پرکھ کر اصول و ضوابط کی روشنی میں اس کے راویوں پر باقاعدہ جرح و تنقید کی جائے گی۔

    ۴۔ جو شخص تاریخی روایت کو محض کسی کتاب میں موجود ہونے کی بنا پر قبول کر لیتا ہے اور اس کی سند کو پرکھنے اور راویوں پر جرح و تنقید کو ضروری خیال نہیں کرتا وہ جاہل اور بدعتی ہے۔

بحمد اللہ تعالیٰ ہم نے مشاجراتِ صحابہؓ کے سلسلہ میں تینوں بنیادی امور (۱) مابہ النزاع (۲) فریقین کی اصولی حیثیت اور (۳) تاریخی روایات کی اصل حقیقت پر ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کے واضح اور روشن ارشادات پیش کر دیے ہیں جن سے واضح ہو جاتا ہے، اور دو بزرگوں کے ارشادات پر اس مضمون کا اختتام کرتے ہیں: 

(۱)   امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’واعظوں اور ان جیسے دوسرے لوگوں پر حضرت حسینؓ کی شہادت اور مشاجراتِ صحابہؓ کے بارے میں ایسی روایات کا بیان کرنا حرام ہے جن سے صحابہؓ پر اعتراض و تنقید کا دروازہ کھلتا ہو اور عوام میں ان کے بارے میں برے خیالات پیدا ہونے کا احتمال ہو۔‘‘ (بحوالہ الصواعق المحرقۃ ص ۲۲۳)

(۲)  علامہ ابن عابدین شامیؒ المتوفی ۱۲۵۸ھ فرماتے ہیں کہ:

’’ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم صحابہ کرامؓ کا احترام اور ان کی تعظیم کریں، ان پر اعتراض و تنقید کو حرام سمجھیں اور ان کے باہمی مشاجرات کے بارے میں سکوت اختیار کریں، کیونکہ یہ سارے مشاجرات اجتہاد کی بنیاد پر تھے۔ یہ اہلِ حق اہل السنۃ والجماعۃ کا مذہب ہے، جس شخص نے اس راستہ کو چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کیا وہ یا تو ضال اور مبتدع ہے، اور یا زیادہ غلو کرنے کی وجہ سے کافر ہے۔‘‘ (رسائل ابن عابدین ص ۳۵۷)

سیرت و تاریخ

()

تلاش

Flag Counter