مسئلہ قادیانیت: جدوجہد کے تیسرے مرحلے کی ضرورت!

محمد عرفان ندیم


آج سے تقریبا پچاس سال قبل 1974ء میں پاکستانی مقننہ نے تمام مذہبی مسالک اور ریاست کے باہمی اتفاق سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر مسلمانان ہند کا دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا تھا۔ نصف صدی پہلے کے حالات کے تناظر میں یہ اہم پیشرفت اور بڑی کامیابی تھی اور اس سے یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ قادیانیوں کا مسئلہ جو پچھلی ایک صدی سے مسلمانان ہند کے لیے باعث پریشانی بنا ہوا تھا حل ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے کچھ ہی سالوں بعد مذہبی طبقات اور خود ریاست کو احساس ہو گیا تھا کہ قادیانیوں کو صرف غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ اس کے کئی پہلو تاحال ادھورے اور حل طلب ہیں۔ معاملے کی اس تشنگی نے قادیانیوں کے حوالے سے مزید ریاستی بندوبست کے مطالبات پیدا کیے۔

قادیانیوں کے حوالے سے مذہبی طبقات کی اب تک ہونے والی جدوجہد کو تین مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔پہلا مرحلہ 1974ء میں انہیں ریاستی سطح پر غیر مسلم اقلیت قرار دینا تھا۔ دوسری مرحلہ 1984ء سے 1993ء تک کا ہے۔ اس مرحلے کا پس منظر اور تحرک یہ تھا کہ ریاستی سطح پر غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے باوجود قادیانی دھوکہ دہی سے اپنے مذہب کی ترویج و تبلیغ سے باز نہیں آئے ۔یہ خود کو مسلمان ظاہر کرنے اور سادہ لوح مسلمانوں کو قادیانی بنانے کی کوششوں میں مسلسل مصروف عمل رہے۔اس صورت حال کے پیش نظر مذہبی طبقات نے ایک بار پھر تحریک چلائی اور قادیانیوں کی اس طرح کی سرگرمیوں کو روکنے اور ان پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ اس کے نتیجے میں 1984ء میں امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہوا جس میں قادیانیوں کو پابند کیا گیا کہ آئندہ وہ خود کو مسلمان ڈکلیئر نہیں کر سکتے اور نہ ہی اسلامی شعائر کا استعمال کر سکتے ہیں۔

اس آرڈیننس کے اجراء کے بعد دو اہم کیسز سامنے آئے جن کی روشنی میں قادیانیوں کے حوالے سے آئندہ کی ریاستی حکمت عملی اور ان کی سماجی حیثیت کے تعین میں اہم پیشرفت ہوئی۔ ان میں پہلا کیس یہ تھا کہ امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہونے کے بعد قادیانی اس کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں چلے گئے اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ قانون اسلامی تعلیمات کے منافی ہے کیوں کہ مذہب اسلام تمام اقلیتوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے طویل غور و خوض کے بعد فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ امتناع قادیانیت آرڈیننس اسلامی احکام اور آئین میں درج بنیادی حقوق کے منافی نہیں ہے۔

دوسرا کیس نوے کی دہائی میں سامنے آیا جو مجیب الرحمان کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ 23 مارچ 1989ء کو قادیانیوں نے چناب نگر میں صد سالہ جشن منانے کا اعلان کیا۔ ایک صدی قبل 23مارچ 1889ء کو مرزا غلام قادیانی نے لدھیانہ (بھارت) میں اس مذہب کی بنیاد رکھی تھی۔ اس جشن کو منانے کے لیے چناب نگر میں خصوصی اور پرشکوہ انتظامات کیے گئے۔ چناب نگر اور گردونواح کی پہاڑیوں اور عمارتوں پر چراغاں کے لیے ڈیکوریشن پارٹیوں سے معاہدے کیے گئے۔ سو گھوڑے، سو ہاتھی اور سو ملکوں کے جھنڈے لہرانے کا انتظام کیا گیا۔ مقامی مسلمانوں نے اس جشن کے خلاف احتجاج کیا اور اس پر پابندی کا مطالبہ کر دیا۔ ڈپٹی کمشنر جھنگ نے حالات کو دیکھتے ہوئے اس جشن پر پابندی لگا دی۔

قادیانیوں نے اس پابندی کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر دی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس خلیل الرحمن نے 17 ستمبر 1991ء کو قادیانیوں کی رٹ خارج کر دی۔ قادیانیوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ چیف جسٹس محمد افضل نے پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا جو جسٹس شفیع الرحمن ،جسٹس عبدالقدیر چوہدری، جسٹس محمد افضل لون، جسٹس ولی محمد اور جسٹس سلیم اختر پر مشتمل تھا۔ جسٹس شفیع الرحمان اس بنچ کے سربراہ مقرر ہوئے۔ 3 فروری 1993ء کو مقدمہ کی سماعت مکمل ہوئی اور 3 جولائی 1993ء کو سپریم کورٹ نے ایک چار کی اکثریت سے فیصلہ سنایا دیا۔ اس فیصلے کے اہم مندرجات یہ تھے:

امتناعِ قادیانیت آرڈیننس آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہے۔

یہ قانون قادیانیوں کو ایسے القابات و خطابات استعمال کرنے سے روکتا ہے جو مسلمانوں کے لیے خاص ہیں اور ان پر قادیانیوں کا کسی قسم کاک وئی حق نہیں ہے۔ البتہ ان پر نئے القابات و اصطلاحات وضع کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔

قادیانیوں پر لازم ہے کہ وہ آئین و قانون کا احترام کریں اور اسلام سمیت کسی دوسرے مذہب کی مقدس ہستیوں کے لیے مخصوص خطابات، القابات و اصطلاحات کے استعمال سے گریز کریں۔

قادیانیوں کو اپنی شخصیات، مقامات اور معمولات کے لیے نئے خطاب، القاب یا نام وضع کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ آخر ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر مذاہب نے بھی اپنی مقدس شخصیات کے لیے القاب و خطاب وضع کر رکھے ہیں اور وہ اپنے تہوار امن و امان کا کوئی مسئلہ یا الجھن پیدا کیے بغیر پرامن طور پر مناتے ہیں۔

انتظامیہ جو امن و امان قائم رکھنے اور شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی ذمہ دار ہے مذکورہ بالا اقدار میں سے کسی کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں مداخلت کر سکتی اور مناسب پابندیاں لگا سکتی ہے۔

عدالت نے واضح کیا کہ دستور کی دفعہ 20 کے تحت ’’مذہبی آزادی ‘‘کی جو ضمانت دی گئی ہے اس کا تحفظ صرف ان مذہبی افعال کو حاصل ہے جو مذہب کا لازمی اور ضروری حصہ ہیں جبکہ اس مقدمے میں اپیل کنندگان یہ دکھانے میں ناکام رہے ہیں کہ صد سالہ تقریبات ان کے مذہب کا لازمی اور ضروری حصہ ہیں اور یہ افعال صرف عوامی سطح پر اور عوام کی نظروں کے سامنے سڑکوں اور گلیوں میں یا عوامی مقامات پر سرانجام دیے جانے تھے۔

1984ء اور 1993ء کے ان کیسز کے فیصلوں کی بنیاد دو اصولوں پر تھی۔ ایک ،کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ کسی کو دھوکا دے اس لیے قادیانیوں کو بھی یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ خود کو مسلمان ڈکلیئر کر کے دوسروں کو دھوکا دیں۔ دو، قادیانیوں کی ایسی سرگرمیوں سے امن و امان کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اس لیے حکومت امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے حقوق پر مناسب قیود عائد کر سکتی ہے۔ قصہ مختصر !دوسرے مرحلے کی یہ جد وجہد 1993ء میں مجیب الرحمان کیس کے فیصلے کی صورت میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ ان دو مرحلوں کی جدوجہد میں مسلمانوں کو دو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں، ایک قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت ڈکلیئر کر دیا گیا۔ دو، انہیں دھوکہ دہی کی روش اپنانے اور مسلمانوں کے شعائر استعمال کرکے خود کو مسلمان ظاہر کرنے اور اس کے نتیجے میں اپنی تبلیغ سے روک دیا گیا۔

تیسرے مرحلے کی جدوجہد 1993ء کے بعد شروع ہوتی ہے جو تاحال جاری ہے۔ اس مرحلے کا دائرہ کار کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں ہے یہ اہم سوال ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ دھوکہ دہی کی روش قادیانیوں کی سرشت میں داخل ہے۔ جب انہیں سرے عام اسلامی شعائر کے استعمال اور اس کے نتیجے میں اپنی تبلیغ سے روک دیا گیا تو انہوں نے اپنی عبادت گاہوں، تعلیم گاہوں اور گھروں کے اندر اسلامی شعائر کا استعمال اور اس کے نتیجے میں اپنی تبلیغ اور سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ اس تبلیغ اور ان کی چار دیواری کے اندر کی سرگرمیوں کے نتیجے میں سینکڑوں سادہ لوح مسلمان ان کے دام تزویر میں آ کر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ان سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے وقتا فوقتا مذہبی طبقات ان کے مکر و فریب اور دھوکہ دہی کی روش کو عدالتی اور سماجی سطح پر واضح کرتے رہے۔ لیکن عدالتی سطح پر جب بھی یہ کیس ڈسکس ہوا تو مذہبی طبقات اور خود عدالت کو ایک تضاد کا سامنا کرنا پڑا۔ مذہبی طبقات کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ قادیانی اپنی عبادت گاہوں، تعلیم گاہوں اور گھروں کے اندر بھی اسلامی شعائر استعمال نہیں کر سکتے۔ جو چیز باہر جرم ہے وہ اندر بھی جرم ہے۔ مزید یہ کہ قادیانی چاردیواری کی آڑ لے کر اب تک سینکڑوں مسلمانوں کو اپنے دام تزویر میں پھنسا کر ان کی آخرت برباد کر چکے ہیں۔ جبکہ عدالت کا مؤقف یہ ہوتا ہے کہ آئینی و قانونی طور پر دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کو بھی اپنی عبادت گاہوں، تعلیم گاہوں اور چار دیواری کے اندر اپنی مذہبی رسومات اور دیگر سرگرمیوں کی اجازت حاصل ہے کہ یہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کا مطالبہ ہے۔

اس ضمن میں عدالت اپنے پیش رو شریعہ کورٹ 1984ء اور سپریم کورٹ 1993ء کے فیصلوں کو بنیاد بناتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ دونوں فیصلوں میں بھی تضاد موجود تھا۔ وہ تضاد یہ ہے کہ عدالتیں یہ تو تسلیم کرتی ہیں کہ مرزائی کھلے عام اسلامی شعائر استعمال نہیں کر سکتے، مسلمانوں کو دھوکہ نہیں دے سکتے لیکن ساتھ ہی انہیں یہ اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہ، تعلیم گاہ اور چار دیواری کے اندر اپنی مذہبی رسومات کے نام پر اسلامی شعائر بھی استعمال کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کو دھوکہ دے کر منحرف بھی کر سکتے ہیں۔ یعنی دونوں فیصلوں میں اس بنیادی مستدل کو تو مانا گیا کہ مرزائی دھوکہ دہی کی روش سے باز نہیں آتے لیکن اس مستدل سے متفرع ہونے والے حکم کو مقید کر دیا گیا کہ قادیانی عبادت گاہ اور چار دیواری کے اندر دھوکہ بھی دے سکتے ہیں، سادہ لوح مسلمانوں کو منحرف بھی کر سکتے ہیں اور اسلامی شعائر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس متضاد اصول کو بنیاد بنا کر عدالتیں نئے تضادات پیدا کرتی ہیں اور یہ وہ مسئلہ ہے جو سالوں سے حل نہیں ہو رہا۔ اصولی طور پر اس تضاد کو ختم ہونا چاہئے تھا اور عبادت گاہ کے اندر بھی قادیانیوں کو اسلامی شعائر اپنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے تھی کہ مگر عملا ایسا نہیں ہوا اور اس تضاد کا فائدہ قادیانیوں نے اٹھایا اور مسلسل اٹھایا ہے۔

مذہبی طبقات اپنے مؤقف کے حق میں عقلی و نقلی دونوں طرح کا استدلال پیش کرتے ہیں۔ نقلی استدلال یہ ہے کہ قرآن میں مسجد ضرار کا ذکر موجود ہے، مسجد ضرار منافقین کی پرائیویٹ جگہ اور پراپرٹی تھی۔ اس کی علیحدہ چاردیواری تھی اور وہ اپنے کفر و نفاق کو اسلام کے نام پر وہاں استعمال کرتے تھے۔ مگر قرآن مجید نے مسجد ضرار کو گرانے کا حکم دیا۔ اسی طرح مسیلمہ کذاب کا گروہ اپنے علاقے میں پرائیویٹ طور پر اذان، نماز، ذبیحہ، کلمہ اور قرآن کا نام استعمال کرتا تھا۔ مگر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کی سازشوں کا قلع قمع کیا۔ اس کے علاوہ اور بھی روایت میں ایسے بہت سے استدلال مل جاتے ہیں۔

عقلی استدلال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جیسا فعل ہونے کے باوجود ایک چیز باہر جرم ہے لیکن اندر جرم نہیں ہے۔ مثلاً‌ چرس اور ہیرون بیچنا جرم ہے تو کیا کسی کو یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ گھر کے اندر یہ جرم کر لے۔ شراب نوشی اور Adultery باہر جرم ہے کیا کسی کو یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ گھر کے اندر ان جرائم کا ارتکاب کر لے۔ ان دونوں معقول استدلالات کے ساتھ مذہبی طبقات کی پوزیشن بالکل واضح ہے۔

مذہبی طبقات کے اس استدلال پر عدالت اور خود مذہبی طبقات میں سے کچھ لوگ آئین کا حوالہ دیتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل بیس کی شق اے کہتی ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا۔ شق بی کہتے ہے کہ ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، برقرار رکھنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہو گا۔ آرٹیکل بائیس کی شق کہتی ہے کہ کسی مذہبی فرقے یا گروہ کو کسی تعلیمی ادارے میں جو کلی طور پر اس فرقے یا گروہ کے زیر اہتمام چلایا جاتا ہو اس فرقے یا گروہ کے طلباء کو مذہبی تعلیم دینے کی ممانعت نہ ہوگی۔ آئین کی ان شقوں کا حوالہ دے کر عدالت اپنا دامن صاف کر لیتی ہے۔

مذہبی طبقات کا مطالبہ ہے کہ شعائر اسلام کا استعمال اگر باہر جرم ہے تو اندر بھی جرم ہے۔ عدالت کہتی ہے اگر ان افعال کی قادیانیوں کی عبادت گاہ کے اندر بھی اجازت نہ دی جائے تو اس سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ مذہبی طبقات کا استدلال ہے کہ اسلام کے نام رجسٹرڈ حقوق کو، اگر کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے استعمال پر پابندی سے اگر کسی کے بنیادی حقوق کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ۔مذہبی طبقات اور عدالت کے فہم کے مابین یہ وہ خلا ہے جو دونوں کو ایک دوسرے کا نکتہ نظر سمجھنے نہیں دے رہا اور قادیانی اس خلا کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مذہبی طبقات اپنے استدلال کو لے کر پر اعتماد ہیں اور عدالت آئین کا حوالہ دے کر خاموش ہو جاتی ہے۔

فہم کے اس اختلاف کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے یہ عدالت اور مذہبی طبقات کے سامنے اہم سوال ہے اور جب تک فہم کا یہ اختلاف ختم نہیں ہوتا قادیانی مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ فہم کے اس اختلاف کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے اس کے لیے ہم بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

کچھ باتیں طے شدہ ہیں اور اس پر قادیانیوں کا ماضی اور عدالتی فیصلے گواہ ہیں۔ مثلا:

  • عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں تسلیم کیا ہے کہ قادیانی دھوکہ دہی کی روش سے باز نہیں آتے۔
  • یہ شعائر اسلام کے استعمال سے بھی باز نہیں آتے۔
  • یہ شعائر اسلام کی آڑ میں خود کو مسلمان ثابت کرنے اور تبلیغ سے باز نہیں آتے۔
  • اپنے مذہب کی تبلیغ ان کے عقائد کا حصہ ہے۔
  • تبلیغ کے لیے یہ تحریف عقائد، توہین رسالت اور تحریف قرآن کے مرتکب ہوتے ہیں۔
  • یہ اب تک ہزاروں مسلمانوں کو قادیانی بنا چکے ہیں۔
  • ان سب اعمال کی صورت میں مسلمان اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔

ان طے شدہ امور کے علاوہ کچھ سوالات بھی اہم ہیں۔ مثلا :

  • اگر انہیں چاردیواری کے شعائر اسلام کے استعمال اور اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت ہے تو یہ تبلیغ کس کو کر رہے ہیں؟ یقینا عام مسلمانوں کو کی جاتی ہے تو یہ جرم کیوں نہیں ہے؟
  • اگر انہیں چار دیواری کے اندر تبلیغ کی اجازت ہے تو دیگر مذاہب مثلا عیسائی اور سکھوں کو اس چیز کی اجازت کیوں نہیں ہے؟
  • اگر مسلمانوں کے مختلف مسالک کے نفرت انگیز لٹریچر پر پابندی لگائی جا سکتی ہے تو قادیانیوں کا سارا لٹریچر مسلمانوں کے نزدیک نفرت انگیز اور توہین آمیز ہے تو اس پر کیوں پابندی نہیں لگائی جاتی؟
  • اگر مسلمانوں کے مختلف مسالک کے لٹریچر کے خلاف 23000 ایف آئی آر درج ہو سکتی ہیں تو قادیانیوں کے تحریف شدہ اور نفرت انگیز لٹریچر پر کیوں نہیں؟
  • کیا مختلف مسالک کے نفرت انگیز لٹریچر کو چار دیواری کے اندر جائز قرار دیا جا سکتا ہے ؟
  • کیا آئین پاکستان کی خلاف ورزی کو چاردیواری کے اندر جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟

مذکورہ طے شدہ امور اور سوالات کے علاوہ ایک اور پہلو بھی اہم ہے۔ وہ یہ کہ اگر 1974ء کے بعد کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے اور یہ تحقیق کی جائے کہ اب تک قادیانی دھوکہ دہی اور تبلیغ کے ذریعے کتنے سادہ لوح مسلمانوں کو قادیانی بنا چکے ہیں تو یہ حقائق چشم کشا اور ہوش ربا ہیں۔ قادیانیوں کی اپنی رپورٹس کے مطابق پچھلے چند سالوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں نے قادیانیت کو بطور مذہب قبول کیا ہے اور ان میں اکثریت سادہ لوح مسلمانوں کی ہے۔ یہ ہزاروں مسلمان قادیانیوں کی ’’چار دیواری‘‘ کے اندر کی آزادی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ کیا بطور سربراہ ریاست، بطور سربراہ عدالت اور بطور عام مسلمان میں چاردیواری کے اندر کا جواز پیش کر سکتا ہوں۔ کیا کل قیامت کے دن بطور سربراہ ریاست اور بطور سربراہ عدالت مجھ سے سوال نہیں ہو گا ؟جو نبی ایک ایک امتی کے لیے فکر مند رہا آج اس کے ہزاروں امتی چار دیواری کی بھینٹ چڑھ کر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہم، ہماری عدالتیں اور ہماری ریاست چاردیواری کا استدلال پیش کر کے خاموش ہے۔

پھر آئین میں چار دیواری کے اندر بنیادی حقوق کی جو ضمانت فراہم کی گئی ہے وہ مطلق نہیں بلکہ آئین ، قانون، اخلاقیات اور امن عامہ کے تابع ہے۔ اسی طرح کسی مذہب و مسلک کے تعلیمی اداروں کے اندر اسی مذہب و مسلک کی تعلیم کے حق کی جو ضمانت فراہم کی گئی ہے وہ خالص مذہبی اداروں کے اندر ہے۔ جبکہ قادیانیوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ انہوں نے مختلف عصری تعلیمی ادارے قائم کیے ہوئے ہیں جہاں قادیانیوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے بچے بھی زیر تعلیم ہوتے ہیں اور قادیانی دیگر مذاہب کے بچوں کو تبلیغ سے باز نہیں آتے ۔

حالیہ دنوں میں مبارک ثانی کیس اس کی بہترین مثال ہے۔ مبارک ثانی نصرت جہاں کالج فار ویمن میں قادیانیوں کی تفسیر صغیر کو، قرآن کی تفسیر کہہ کر تقسیم کر رہا تھا جو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 سی اور 295 سی کی تحت صریح جرم تھا لیکن عدالت نے اسے جرم اس لیے تسلیم نہیں کیا کہ آئین کے آرٹیکل 22 کی شق کے تحت ہر مذہب و مسلک کو اپنے مذہبی تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان میں تعلیم دینے کا حق ہے۔ (یہاں پھر اسی تضاد کا سہارا لیا گیا جس کا حوالہ ہم نے اوپر دیا ہے کہ شعائر اسلام کا استعمال اگر باہر جرم ہے تو اندر جرم کیوں نہیں ہے، لیکن یہاں ہمارا موضوع بحث آرٹیکل بائیس کی شق ہے) حالانکہ مبارک ثانی نے جس جرم کا ارتکاب کیا وہ مذہبی تعلیمی ادارے میں نہیں بلکہ عصری تعلیمی ادارے میں ہوا اور اس تعلیمی ادارے پر آئین کے آرٹیکل 22 کی شق کا اطلاق نہیں ہوتا۔

ان تمام حقائق کی روشنی میں مسلمانان پاکستان کا یہ مطالبہ جائز اور صائب ہے کہ اگر کوئی گروہ ان کے نام پر رجسٹرڈ حقوق کو، اپنی چاردیواری کے اندر یا باہر دھوکہ دہی کے لیے استعمال کرتا ہے اور ان کے ہم مذہبوں کی دنیا و آخرت تباہ کرتا ہے اور اس پر مسلمان عدالت جاتے ہیں تو انہیں انصاف ملنا چاہیے۔ یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ اس میں جذباتیت ہے نہ ہی کسی کے بنیادی حقوق کے متاثر ہونے کا معاملہ ہے۔ نہ ہی کوئی مذہبی و سیکولر قانون مسلمانوں کے اس بنیادی حق کی مخالفت کرتا ہے۔ بلکہ اگر مسلمان اس دھوکہ دہی اور اپنی شناخت کے غلط انتساب پر سوال نہیں اٹھاتے تو یہ ان کے عقل و شعور اور ان کے ایمان پر سوالیہ نشان ہے۔

اگر مسلمان یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کسی چاردیواری کے اندر بھی ان کے نام رجسٹرڈ حقوق اور ان کی شناخت کو غلط طور استعمال نہ کیا جائے تو ان کے اس مطالبے سے اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار وہ نہیں ہیں۔ یہ مسئلہ جس فریق کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اس کا حل ڈھونڈنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ کوئی گروہ میرے رجسٹرڈ حقوق اور میری میراث کو دھوکہ دہی سے اپنی طرف منسوب کرے اور میں اس کے خلاف آواز بلند کروں تو الٹا مجھے ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے۔ اس سے تو میرے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ مجھ سے میری شناخت چھینی جا رہی ہے۔ بلکہ مجھ سے چھین کر کسی اور کو دی جا رہی ہے اور الٹا مجھے مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ جس شناخت کی حفاظت و اشاعت کے لیے میرے پرکھوں نے ہر عہد میں قربانیاں دی آج اس کے حقوق عدالتی چھتری تلے مجھ سے چھین کر کسی اور کے نام کیے جا رہے ہیں۔ مجھ سے میرے بنیادی حقوق اور میری بنیادی شناخت چھین کر میرے ہی خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ میں کسی اور کے بنیادی حقوق چھین رہا ہوں۔

اگر کل قادیانیوں میں سے کوئی گروہ اٹھ کر مرزا کے بعد نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور قادیانیت کی نئی تشریح کرتا ہے اور کہتا ہے جو اس نئی تشریح کو قبول نہیں کرتا وہ کافر ہے تو کیا قادیانی اس نئے گروہ کو یہ سب کرنے کی اجازت دیں گے؟ اگر قادیانی اس گروہ کے خلاف عدالت جائیں اور عدالت فریق مخالف کے بنیادی حقوق کا حوالہ دے کر انہیں خاموش کروا دے تو کیا قادیانی اس فیصلے کو تسلیم کریں گے؟ کیا یہ پریکٹس دنیا کے دیگر مذاہب پر بھی اپلائی کی جا سکتی ہے۔ مثلاً‌ عیسائیوں یا یہودیوں میں کوئی گروہ اٹھ کر نبوت کا دعویٰ کرے اور عیسائیت یا یہودیت کی نئی تشریح کرے اور یہ دعویٰ کرے کہ اصل عیسائیت اور یہودیت یہ ہے اور جو اس نئی عیسائیت یا یہودیت کو تسلیم نہیں کرتا وہ کافر ہے، تو کیا یہودیت اور عیسائیت اس دجل کو تسلیم کر لیں گے۔ یقیناً‌ دنیا کا کوئی بھی مذہب اس دجل کا روادار نہیں ہو سکتا تو پھر مجھ سے یہ مطالبہ کیوں ہے کہ میں اس دجل کو قبول کر لوں اور اپنے رجسٹرڈ حقوق اور اپنی میراث پر کسی اور کا حق تسلیم کر لوں۔

اپنے ان بنیادی اور رجسٹرڈ حقوق اور اپنی میراث کی حفاظت کے لیے میرے عدالت جانے سے اگر کسی کے بنیادی حقوق کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ جس فریق کا پیدا کردہ ہے یہ اسی کا مسئلہ ہے اور اس کا حل تلاش کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں اگر مجھے کوئی جذباتی کہتا ہے تو وہ خود غلط فہم پر کھڑا ہے۔مجھے کوئی آئین کا حوالہ دیتا ہے تو وہ آئین کی غلط تشریح کر رہا ہے۔ مجھے کسی کے بنیادی حقوق کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے تو وہ غیر شعوری طور پر میرے بنیادی حقوق سلب کر کے کسی اور کو دینے کی بات کر رہا ہے۔

اس مسئلے کا صرف ایک اور واحد حل یہ ہے کہ میرے نام رجسٹرڈ اور میرے بنیادی حقوق متاثر نہ کیے جائیں۔ میری میراث میرے نام منسوب کی جائے اور کسی اور کو یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ دھوکہ دی سے اسے اپنی طرف منسوب کرے۔ اگر کسی نے میرے حقوق اور میری میراث پر ڈاکہ ڈالا ہے تو میں اگر اس کے خلاف عدالت جاؤں تو مجھے انصاف دیا جائے۔ دھوکہ دہی کے مجرم کے لیے لازم قرار دیا جائے کہ وہ اپنے لیے نئے حقوق اور نئی میراث وضع کرے۔ اپنے پہچان اور شناخت کے لیے نئے نام سامنے لے کر آئے اور اپنے مذہب کا نیا نام اور نئی اصطلاحات وضع کرے۔

قادیانیت کے حوالے سے تیسرے مرحلے میں کرنے کا یہ کام ہے اور جس دن یہ مرحلہ سر ہو گیا قادیانیت کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا۔ اس مرحلے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالت کے سامنے مذہبی و عقلی استدلال کے ذریعے یہ ثابت کیا جائے کہ کس طرح قادیانی چار دیواری کا سہارا لے کر دھوکہ دہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کس طرح یہ گروہ چاردیواری اور عبادت گاہ کی آڑ کا سہارا لے کر ہزاروں لاکھوں لوگوں کا ایمان لوٹ چکا ہے۔ عدالت کو یہ باور کرایا جائے کہ جرم اگر چار دیواری سے باہر جرم ہے تو وہ اندر بھی جرم ہے۔ اگر میرے نام رجسٹرڈ حقوق سے کسی کے بنیادی حقوق کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ اس کی طرف سے پیدا کردہ ہے اور اس کا حل ڈھونڈنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ جس دن ہم عدالت کو ان سب حقائق پر قائل کرنے کے قابل ہو گئے اور عدالت نے بھی آنکھیں بند نہ کی ہوئی ہوں تو اس دن یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے بحر ہند میں دفن ہو جائے گا۔

ختم نبوت اور قادیانیت پر کام کرنے والی جماعتوں ، افراد اور اداروں کو اپنی جدوجہد اور حکمت عملی کو اس رخ پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے آباء نے اپنے عہد کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق جدوجہد کے پہلے دو مراحل کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اس مسئلے کو اون کریں اور صحیح رخ پر جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ اس کے لیے گرینڈ ڈائیلاگ کرنے اور مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں، افراد اور اداروں کو مل بیٹھ کر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام الناس کی ذہن سازی ، مقننہ اور عدلیہ کو مذہبی و عقلی استدلال کے ذریعے مسئلے کی تفہیم، مذہبی و سماجی دانش، سوشل میڈیا سمیت مین اسٹریم میڈیا ،با اثر حلقوں تک رسائی اور ریاستی مشینری کو اس جدوجہد میں شامل کرنے سے اس مسئلے کے حل کے امکانات بہت زیادہ حد تک بڑھ جائیں گے۔

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(الشریعہ — اگست ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — اگست ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۸

صحابہ کرامؓ کے باہمی تنازعات کے بارے میں ائمہ اہلِ سنتؒ کے ارشادات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی

متنِ قرآن کی حفاظت و استناد
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

پاکستان قومی اتحاد کے صدر مولانا مفتی محمود سے ایک اہم انٹرویو
مجیب الرحمٰن شامی

مسئلہ قادیانیت: جدوجہد کے تیسرے مرحلے کی ضرورت!
محمد عرفان ندیم

تصوف ایک متوازی دین — محترم زاہد مغل صاحب کے جواب میں
ڈاکٹر عرفان شہزاد

عہدِ اسلامی کی اولین خاتون آرتھوپیڈک سرجن
مولانا محمد جمیل اختر ندوی

مولانا ولی الحق صدیقی افغانی کی رحلت
شاہ اجمل فاروق ندوی

کتائب القسام کے ترجمان ابوعبیدہ کا تاریخی خطاب
ابو عبیدہ

اسرائیل و صہیون مخالف ناطوری یہود (۱)
محمود الحسن عالمیؔ

گزشتہ دہائی کے دوران عالمی فوجداری عدالت کے ساتھ اسرائیل کی جھڑپیں
الجزیرہ

اہلِ عرب کی غزہ سے لا پرواہی اور اس کی وجوہات
ہلال خان ناصر

خلیفۂ ثانی سیدنا فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سید سلمان گیلانی

’’شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ: شخصیت و افکار‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’علم کے تقاضے اور علماء کی ذمہ داریاں‘‘
مولانا زبیر اشرف عثمانی

سپریم کورٹ مبارک ثانی کیس کا ایک بار پھر جائزہ لے
متحدہ علماء کونسل پاکستان

The Environment of the Judicial System and Our Social Attitudes
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter