حد رجم اللہ کا حکم ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ نے تو واضح الفاظ میں اپنے پیغمبر کے بارے میں فرمایا ہے:
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیْلِ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ (الحاقہ: 44۔46)
’’اگر وہ ہم پر کچھ باتیں گھڑ کر لگا دیتا تو ہم اسکے دائیں ہاتھ کو پکڑ لیتے ،پھر ہم اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔‘‘
یہ اللہ نے کوئی اصول بیان نہیں کیا بلکہ خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت بتلایا ہے کہ اگر یہ کوئی بات اپنی طرف سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیتے توہم سخت مواخذہ کرتے؛ اس آیت میں گویا اس بات کی وضاحت ہے کہ آپ نے اپنی طرف سیکوئی بات بنا کر اللہ کے ذمے نہیں لگائی۔
اس آیت کی روشنی میں آپ رجم کی احادیث دیکھ لیں؛ ان میں آپ نے ایک تو اس بات کو واضح فرمایا ہے کہ رجم کی یہ حد ان زانیوں کے لیے ہے جو شادی شدہ ہونے کے باوجود اس فعل شنیع کا ارتکاب کرتے ہیں۔ دوسرے،یہ بھی واشگاف الفاظ میں فرمایاکہ یہ سزا میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے دے رہاہوں؛جب سورۂ نساء کی آیت وَاللاَّتِی یَاتِینَ الفَاحِشَۃَ میں بیان کردہ عبوری سزاے زنا ختم کرکے زنا کی مستقل سزا مقرر کی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خذوا عنی، خذوا عنی فقد جعل اللہ لھن سبیلا (صحیح مسلم،رقم۱۶۹۰)
مجھ سے لے لو ؛مجھ سے لے لو؛مجھ سے لے لو!اللہ نے ان زانی عورتوں کے لیے راستہ بنا دیا ہے،یعنی مستقل سزا مقرر کر دی ہے۔
اور پھر آپ نے یہی دو سزائیں ،ایک غیر شادی شدہ کے لیے سوکوڑے اور شادی شدہ کے لیے رجم بیان فرمائیں؛نیز اسے ’کتاب اللہ‘کے فیصلے سے بھی تعبیر فرمایاجیسا کہ پہلے گزرچکااور مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔
اگرہمارے پیغمبر کی یہ سزائیںیا صرف ایک سزا یرجماپنی طرف سے گھڑی ہوتی تو آپ یقیناًمواخذہ الٰہی سے محفوظ نہ رہتے؛ آپ کا اس مواخذے سے محفوظ رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ حد رجم کی یہ سزا وعدہ الٰہی کے مطابق عبوری سزا کے بعد مستقل سزا اللہ تعالیٰ ہی نے وحیِ خفی کے ذریعے مقرر فرمائی ہے؛اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نئے حکم کو بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کیا ہے۔ اور بھی بعض مواقع پر آپ نے شادی شدہ زانیوں کے لیے یہ حد رجم بیان فرمائی اور اسے کتاب اللہ کا فیصلہ قرار دیا جیسے حدیث میں ایک مزدور کے والد ایک عورت کے خاوند کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ اس کے بیٹے اس کی بیوی سے زنا کر لیاتھا؛ دونوں نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ یک زبان یہ کہا کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ ہمارے درمیان فیصلہ فرمائیے! ایک نے کہا : انشدک باللہ الا قضیت لی بکتاب اللہ (میں آپ کو اللہ کی قسم دلاتا ہوں کہ آپ صرف اللہ کی کتاب کے ساتھ میرا فیصلہ فرمائیں)دوسرے نے کہا: نَعَم، فَاقضِ بَینَنَا بِکِتَابِ اللَّہ ( ہاں ،ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے ساتھ فیصلہ فرمائیں)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی باتیں سن کر فرمایا:
والذی نفسی بیدہ لاقضین بینکما بکتاب اللہ
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،میں یقیناًتم دونوں کے اللہ کی کتاب کے ساتھ ہی فیصلہ کروں160گا۔
پھر آپ نے فیصلہ کیا فرمایا؟ یہی کہ ’’تیرے بیٹے کو سوکوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا ہے اور عورت کے لیے اگر وہ اعتراف جرم کرلے تو رجم کی سزا ہے۔‘‘
چنانچہ آپ نے حضرت انس کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ جا کر پوچھو؛ اگر عورت اعتراف کرلے تو اس کورجم کردو !حضرت انس گئے ،پوچھا تواس نے اعتراف کرلیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اس کو رجم(سنگ سار)کردیاگیا۔(صحیح مسلم، الحدود، رقم ۱۶۹۸ )
اس واقعے کو دیکھ لیجیے اور عہد رسالت اور خلافت راشدہ کے عہد کے واقعات رجم کو دیکھ لیجیے!کسی واقعے میں بھی آپ کو یہ بات نہیں ملے گی کہ یہ تفتیش و تحقیق کی گئی ہو کہ زنا کا ارتکاب کرنے والا مرد یا عورت قحبہ(زناکی عادی مجرم،پیشہ ور زانی) اور غنڈہ ،اوباش (زناکا عادی مجرم)ہے؟ صرف اس امر کی تحقیق کی گئی کہ مجرم کنواراہے یا شادی شدہ؟ اس کے مطابق کوڑوں کی یا رجم کی (اگروہ شادہ شدہ ہوتا یا ہوتی)سزادی گئی۔
فراہی گروہ کی جراَت رندانہ یا شوخ چشمانہ جسارت
اب یہ کہنا کہ سزایرجم الفاظ قرآن کی دلالت سے ثابت نہیں ہوتی اور ایسا کوئی استنباط یا استدلال جس کے الفاظ قرآن متحمل نہ ہوں، قطعاً جائز نہیں ہے حتیٰ کہ پیغمبر بھی ایسا کرنے کا مجاز نہیں ہے اور پیغمبر کا یہ فعل تبیین قرآنی میں نہیں آتا بلکہ یہ (نعوذ باللہ) قرآن میں تغیر اور تبدل ہے جس کا حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں ہے۔
یہ فراہی ، غامدی یا اصلاحی گروہ کا موقف ہے جس کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رجم کی حد نافذ کرنا اور اسے اللہ کا حکم قرار دینا، قرآن کے خلاف اور اس سے تجاوز ہے۔
اسی طرح خلفاے راشدین سمیت پوری امت کے علما و فقہا ، ائمہ و محدثین جو شادی شدہ زانی کی حد سزاے رجم سمجھتے آئے ہیں ، غلط ہیں؛ نہ انھوں نے قرآن کو سمجھا ہے اور نہ اس سے متعلقہ حدیثی روایات کو؛اس رجم کی حقیقت کو چودہ سو سال بعد اگر کسی نے سمجھا ہے تو سب سے پہلے مولانا حمید الدین فراہی ہیں جن کی ولادت ۱۸۶۳ء اور وفات ۱۹۳۰ء کو بھارت میں ہوئی اور دیدہ دلیری کی انتہا یہ دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس سزاے رجم کا ماخذ قرآن سے تلاش کیا ہے؛ یعنی قرآن اللہ کے پیغمبر پر نازل ہوا لیکن پیغمبر بھی یہ نہ سمجھ سکاکہ رجم کا حکم کس آیت یا آیت کے کس لفظ سے نکلتا ہے؟ صحابہ کرام بھی اس کا مبنیٰ نہ سمجھ سکے؛چودہ سو سال سے قرآن کی تفسیریں مختلف اندازسے بڑے بڑے ائمہ تفسیر و حدیث لکھتے آرہے ہیں حتیٰ کہ احکام قرآن پر بھی متعدد کتابیں لکھی گئیں جیساکہ احکام القرآن للقرطبی ، احکام القرآن لابن العربی ، احکام القرآن للجصاص ، احکام القرآن للتھانوی اور نیل المرام فی تفسیر آیات الاحکام (نواب صدیق حسن خان ) وغیرہ ہیں۔
عام تفاسیر میں بھی آیات احکام سے متعلقہ احکام ومسائل کا استنباط ہے لیکن احکام القرآن نامی تفاسیر کا تو تمام تر موضوع ہی وہ آیات ہیں جن سے احکام شرعیہ کا اثبات یا استنباط ہوتاہے ؛ان کے مفسرین و موَلفین ایک ایک آیت سے دسیوں مسائل کا استنباط و استخراج کرتے ہیں لیکن کسی عالم، فقیہ ، امام ، محدث نے آج تک یہ نہیں بتایا کہ حکم رجم کا ماخذ یہ احادیث نہیں ہیں بلکہ یہ تو غیر معتبر ہیں،رجم کا اصل ماخذ تو فلاں آیت قرآنی کا فلاں لفظ ہے حتیٰ کہ قرآن فہمی کا یہ ملکہ جو مولانا فراہی کو ملا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی (نعوذ باللہ) نصیب نہیں ہوا؛اس لیے آپ یہ تو فرماتے رہے کہ رجم کا یہ حکم اللہ کی کتاب کا فیصلہ یا اس کا حکم ہے لیکن آپ نے مولانا فراہی یا اصلاحی اور غامدی کی طرح یہ نہ بتایا کہ اس کا ماخذ قرآن کی فلاں آیت اور اس کا فلاں لفظ ہے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ امریکا کولمبس کی دریافت ہے ،اسی طرح رجم کے ماخذ قرآنی کی دریافت ، حمید الدین الدین فراہی کا’کارنامہ‘ ہے۔
بتلائیے! اس جراَت رندانہ یا شوخ چشمانہ جسارت کو کیا کہا جائے؟ ع کاش کرتا کوئی گستاخ کا منہ بند!
عجیب و غریب تضاد یا منصب رسالت کے ساتھ مذاق؟
ہم یہ باتیں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے ہیں؛ الفاظ ضرور ہمارے ہیں لیکن غامدی صاحب نے جو خامہ فرسائی کی ہے او ر لالہ و گل بکھیرے ہیں ، ان کا خلاصہ یہی ہے ؛ان کے اپنے الفاظ ملاحظہ فرمائیے:
’’سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۳۳۔۳۴ میں اللہ تعالیٰ نے فساد فی الارض کے مجرموں کی یہ سزا بیان کی ہے کہ انھیں بد ترین طریقے سے بھی قتل کیا جاسکتا ہے؛ سولی بھی دی جاسکتی ہے ؛ان کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب بھی کاٹے جاسکتے ہیں اور انھیں جلا وطن بھی کیا جاسکتاہے؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کا اطلاق اپنے زمانے کی عورتوں پر کیااور فرمایا:
مجھ سے لو ، مجھ سے لو ، مجھ سے لو ؛ اللہ نے ان عورتوں کے لیے راہ نکال دی ہے ؛اس طرح کے مجرموں میں کنوارے کنواریوں کے ساتھ ہوں گے اور انھیں سو کوڑے اور جلا وطنی کی سز ا دی جائے گی؛ اسی طرح شادی شدہ مرد وعورت بھی سزا کے لحاظ سے ساتھ ساتھ ہوں گے اور انھیں سو کوڑے اور سنگ ساری کی سزا دی جائے گی۔ (مسلم، رقم ۴۴۱۴)
آپ کا منشا یہ تھا کہ یہ عورتیں محض زنا ہی کی مجرم نہیں ہیں بلکہ اس کے ساتھ آوارہ منشی اور جنسی بے راہ روی کو اپنا معمول بنا لینے کی وجہ سے فساد فی الارض کی مجرم بھی ہیں؛ اس لییان میں سے جواپنے حالات کے لحاظ سے نرمی کی مستحق ہیں، انھیں زنا کے جرم میں سورہ ۂ نور کی آیت ۲ کے تحت سو کوڑے اور معاشرے کوان کے شر وفساد سے بچانے کے لیے ان کی اوباشی کی پاداش میں مائدہ کی آیت ۳۳ کے تحت نفی، یعنی جلاوطنی کی سزا دی جائے۔ اس طرح جن کے ساتھ کوئی نرمی برتنا ممکن نہیں ہے ، وہ اس آیت کے حکم ان یقتلوا کے تحت رجم کر دی جائیں۔‘‘
سزاے رجم کے بارے میں یہ غامدی کا موقف ہے جسے ہم نے بعینہ مکمل شکل میں پیش کردیا ہے۔ اس میں سب سے پہلے غامدی صاحب کی جراَت رندانہ کی داد دیجیے کہ انھوں نے صحیح مسلم کی حدیث ا پنے استدلال میں پیش کی ہے جس میں واضح طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کنواریاور شادی شدہ دونوں کی الگ الگ سزائیں بیان فرمائی ہیں، یعنی دو قسم کے مجرموں کے لیے ایک دوسرے سے مختلف دو سزائیں تجویز کی ہیں (جس کی تائید آپ کے عمل سے بھی ہوتی ہے) اور ان مجرموں کی نوعیت بھی واضح کردی ہے کہ ایک نوعیت کنوارے کی ہے اور دوسرے کی نوعیت شادی شدہ کی ہے۔حدیث میں کوئی ابہام یا خفا نہیں ہے اور جرم کی نوعیت میں بھی کوئی ابہام نہیں ہے، یعنی وہ صرف اور صرف زنا ہے؛ اس کے علاوہ حدیث میں کوئی اشارہ ایسا نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ زنا کرنے والی عورت اگر زنا کی عادی اور پیشہ کرانے والی، یعنی قحبہ ہوتو پھر رجم کی سزا دی جائے گی اوراگر وہ قحبہ نہ ہو ، یعنی آوارہ منش اور اوباش نہ ہو تو اس کو صرف کوڑوں کی سزا دی جاے گی۔لیکن غامدی صاحب بیان تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کر رہے ہیں لیکن آپ کے ذمے وہ بات لگا رہے ہیں جو اس فرمان کے کسی لفظ سے نہیں نکلتی ؛اسی طرح حدیث میں زانی مرد ہو یا عورت ، دونوں کے لیے سزا کا بیان ہے لیکن غامدی صاحب اس کا اطلاق صرف زانیہ پرکر رہے ہیں،یعنی آپ نے اس میں زانیہ کی سزا بیان کی ہے۔
نبی نے تو کوئی حدیث اپنی طرف سے گھڑ کر آپ کی طرف منسوب کرنے پر جہنم کی شدید وعید بیان فرمائی ہے ؛غامدی صاحب کا جرم تو اس سے بھی شدید تر ہے کہ آپ کی حدیث بیان کر کے اپنا من گھڑت نظریہ آپ کے ذمے لگا رہے ہیں جس کا اس حدیث میں کوئی اشارہ تک موجود نہیں ہے: ع چہ دلاور است د زدے کہ بہ کف چراغ دارد
وہ بات ان کو بہت اچھی لگی ہے
’ساری حدیث ‘میں جس کا کوئی ذکر نہیں ہے
موصوف حدیث مذکورہ بیان کر کے کتنی بے باکی سے کہتے ہیں:
’’آپ کا منشا یہ تھا کہ یہ عورتیں چوں کہ محض زنا ہی کی مجرم نہیں ہیں بلکہ آوارہ منشی اور جنسی بے راہ روی کو اپنا معمول بنالینے کی وجہ سے فساد فی الارض کی مجرم بھی ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
سوال یہ ہے کہ نبی کایہ منشا آپ کو کس طرح معلوم ہوا؟ حدیث میں تو اس کا کوئی قرینہ اور اشارہ نہیں ہے؛کیا آپ کو وحی کے ذریعے بتلایا گیاہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اوباشی، آوارہ منشی ،غنڈہ گردی یا جنسی بے راہ روی کی کوئی الگ سزا کااسلام میں کوئی تصور ہے؟ اسلامی لٹریچر میں حدود وتعزیرات پرجو کتابیں تحریر کی گئی ہیںیا احادیث کی کتابوں میں حدود کے ابواب ہیںیا مفسرین نے آیات حدود کی جو تفسیریں کی ہیں، کیا کہیں بھی اوباشی وآوارہ منشی کی کوئی سزا کسی نے بیان کی ہے؟
قرآن مجید میں یقیناًآیت محاربہ موجود ہے اور اس کے مرتکبین کو جمع کے صیغے کیساتھ ذکر کیا گیا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس میں ایسے منظم جتھے یا ٹولے کا ذکر ہے جو اسلامی حکومت کے خلاف باغیانہ سر گرمیوں میں ملوث ہو یا لوگوں کے جان و مال کے لوٹنے اورقتل و غارت گری کے مرتکب ہوں ، ان کے لیے یہ چارسزائیں بیان کی گئی ہیں کہ خلیفہ وقت اس ٹولے کے جرائم کے مطابق ان میں سے کوئی بھی ایک سزا ان کو دے سکتا ہے لیکن فراہی گروہ سے پہلے کسی مفسر، کسی فقیہ ،کسی امام اور عالم نے اس محاربہ کے مرتکبین میں زنا کے مرتکبین کو بھی شامل نہیں کیا ؛کیوں؟اس لیے کہ زنا کاری تو ایک خفیہ کاروائی ہے؛اس سے فساد فی الارض کس طرح برپا ہوگا؟فسادفی الارض تو ایسے منظم جتھے سے پھیلتا ہے جس کے پاس کچھ قوت و طاقت ہوجس کی وجہ سے وہ حکومت کے لیے یا عوام کے جان و مال کے لیے چیلنج بن جائے۔ ہمارے ملک میں قحبہ خانے کھلے ہوئے ہیں ؛وہاں پیشہ ور عورتیں بدکاری کرواتی ہیں؛مرد بھی وہاں جاکر اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں؛ایسے لوگوں کو نہ اوباش اور آوارہ منش کہا جاتا ہے اور نہ ان سے زمین میں فساد پھیلتا ہے ؛پھر ان کو محاربین قرار دے کر کس طرح ان پر محاربہ کی سزا نافذ کی جاسکتی ہے؟
خیال رہے قحبہ عورتیں غارت گر دین و ایمان یقیناًہیں؛ رہ زن تمکین وہوش بھی ہیں؛علاوہ ازیں اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے ان کا عملِ بدکاری زمین میں فساد اور بگاڑ کا بھی یقیناًباعث ہے جس کی اجازت ایک اسلامی ملک میں نہیں دی جاسکتی لیکن محاربین کا فساد فی الارض اور نوعیت کا ہے ؛اس سے ملک میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوجاتا؛راستے پرخطر ہو جاتے ہیں؛حکومت کم زور ہو توملک کی سالمیت و بقا بھی داو پر لگ جاتی ہے؛اسی لیے اس جرم کی سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔ اس کے برعکس گناہوں اور معصیت کاری سے جو فساد فی الارض رونما ہوتا ہے،اس کی نوعیت حرابے کے فساد سے یک سر مختلف ہے ؛اسی لیے شریعت نے اندونوں فسادوں کا حکم ایک ہی بیان نہیں کیا ہے۔
پھر سب سے بڑھ کر سوال یہ ہے کہ محاربہ کی سزا رجم آج سے پہلے کس نے بیان کی ہے؟یہ کہنا کہ ’تقتیل‘مبالغے کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے :برے طریقے سے قتل کرنا ،اس لیے رجم بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے لیکن یہ گروہ عرب کے جاہلی ادب کو قرآن فہمی میں سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے ؛جاہلی ادب سے کوئی ایک مثال پیش کر کے دکھائے کہ کسی شاعر نے یا کسی بڑے ادیب نے ’تقتیل‘کو رجم کے معنی میں استعمال کیا ہے۔
محض ایک گروہ کے تحکم اور دھاندلی سے تو ’تقتیل‘کا معنی رجم نہیں ہو سکتا؛یہ قرآن کا لفظ ہے جسے چودہ سو سال سے علما،فقہا اور ائمہ و محدثین پڑھتے اور اس کی تفسیرووضاحت کرتے آئے ہیں؛ آخر کس نے اس کا معنی رجم کیا ہے؟یا یہ کہا ہے کہ اس کے مفہوم میں رجم بھی آسکتا ہے؟ اسی طرح یہ عربی زبان کا لفظ ہے؛عربی لغت میں ،عرب کے اہل کلام میں، عرب کے دیوان جا ہلیت میں اس کا معنی کسی نے رجم کیا ہے یا رجم کو اس کے مفہوم میں شامل کیا ہے؟
پھر ان سب سے بڑھ کریہ سوال ہے کہ قرآن میں معنوی تحریف کرکے شریعت سازی کا حق اس گروہ کو کیسے حاصل ہو گیا؟ اَن یْقَتَّلْوا کے مفہوم میں رجم کو شامل کرنا قرآن میں تحریف معنوی ہے اور اس تحریف معنوی کی بنیاد پر اسلام میں اوباشی اور آوارہ منشی کی ایک نئی سز امقرر کرنا شریعت سازی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس کو تشریح و تفسیر تو نہیں کہا جاسکتا؛ کسی لفظ کی تشریح میں ایک شرعی حکم کا ایجاد کرنا تشریح نہیں ، شریعت سازی کہلائے گا۔
زانی او زانیہ کا چاہے وہ زنا کے کتنے عادی ہوں ، اول تو بالعموم عادی یا غیر عادی کا پتا چلانا ہی مشکل ہے ؛ اگر پتاچل بھی جائے تو اس کونہ محارب کہا جاتا ہے ،نہ سمجھا جاتا ہے اور نہ کسی نے عادی زانی کے کے لیے رجم کی سزا تجویزکی ہے ؛ پھر ستم بالاے ستم، اسے قرآنی سزا کہنا ایسی شوخ چشمانہ جسارت ہے جس کی جراَت چودہ سو سال کی تاریخ میں کسی کو نہیں ہوئی۔ اسی لیے ہم پورے یقین و اذعان سے کہتے ہیں کہ فراہی گروہ کی یہ جسارت قرا?ن کریم کی معنوی تحریف بھی ہے جو یہودیانہ تلبیس کاری ہے اور شریعت سازی بھی ہے جس کا حق اللہ اور اس کے رسول کے سوا کسی کوحاصل نہیں۔
شریعت سازی کا حق ابو بکر و عمر کو نہیں تو فراہی گروہ کو کیسے حاصل ہوگیا؟
غامدی صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں کہ شریعت سازی کا حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کوحاصل نہیں حتیٰ کہ حضرت ابو بکر و عمر کو بھی یہ حق حاصل نہیں؛ چناں چہ وہ شراب کی حدچالیس کوڑے کو پہلے تو حضرت ابو بکر کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے دور خلافت میں مقرر کی؛ پھر کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں یہ دیکھا کہ لوگ اس جرم سے باز نہیں آتے تو اس کواسی کوڑے میں بدل دیا ؛ پھر ابن رْشد کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’جمہور کا مذہب اس معاملے میں صحابہ کرام کے ساتھ سیدنا فاروق کی مشاورت پر مبنی ہے جو اس وقت ہوئی جب ان کے زمانے میں لوگ کچھ زیادہ شراب پینے لگے اور سیدنا علی نے مشورہ دیا کہ حد قذف پر قیاس کرتے ہوئے اس کی سزا بھی اسی کوڑے مقرر کر دی جائے؛ چناں چہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے استدلال میں انھوں نے فرمایا:یہ جب پیے گا تو مدہوش ہوگا اور مدہوش ہوگا تو بکواس کرے گا اور بکواس کرے گا تو دوسروں پر جھوٹی تہمتیں بھی لگائے گا۔(بدایۃ المجتہد ۲/۳۳۲)
ابن رشد کا یہ اقتباس نقل کر کے غامدی صاحب فرماتے ہیں:
’’اس سے واضح ہے کہ یہ (سزا) ہر گز شریعت نہیں ہوسکتی؛اس زمین پر قیامت تک کے لیے یہ حق صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ وہ کسی چیز کو شریعت قرار دیں اور جب ان سے کوئی چیز شریعت قرار پاجائے توپھر صدیق و فاروق بھی اس میں تغیر و تبدل نہیں کرسکتے۔یہ (سزا) اگر شریعت ہوتی تو نہ سیدنا صدیق اسے چالیس کوڑوں میں تبدیل کرتے ،نہ سیدنا فاروق ان چالیس کو اسی میں بدلتے؛ اس صورت میں یہ حق ان میں سے کسی کو بھی حاصل نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔چناں چہ ہم پورے اطمینان کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی حد نہیں ہے بلکہ محض تعزیر ہے جس سے مسلمانوں کا نظم اجتماعی (حکمران ) اگر چاہے تو بر قرار رکھ سکتا ہے اور چاہے تو اپنے حالات کے لحاظ سے اس میں تغیر و تبدل کر سکتا ہے۔‘‘ (برہان، ص 1۱۳۸، ۱۳۹، طبع پنجم)
اس پورے اقتبا س کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شرابی کو صرف زدو کو ب کیا گیا ہے، کوڑے نہیں مارے گئے ؛ سب سے پہلے سیدنا ابو بکر صدیق نے ۴۰ کوڑے مارے، پھر حضرت عمر نے ۴۰ کو ۸۰ کوڑوں میں بدل دیا، لہٰذا معلوم ہوا کہ شراب نوشی کی حدچالیس کوڑے نہیں ہے بلکہ یہ کوڑے تغیری سزا ہے جو حاکم وقت کی صواب دید پر منحصر ہے ؛وہ کوئی بھی سزا دے سکتا ہے۔
شراب نوشی کی سزا کو حد شرعی سے خارج کرنے کے لیے غامدی صاحب نے پہلے تو ان صحیح احادیث کا ذکر نہ کرکے گویا ان کا رد کردیا ہے جن میں صراحت ہے کہ ۴۰ کوڑوں کی یہ سزا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے ؛چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی تھی۔ آپ نے اس کو دو چھڑیوں کے ساتھ تقریباًچالیس کوڑے لگائے؛ اسی روایت میں آگے ہے کہ ابو بکر نے بھی ایساہی کیا، پھر جب عمر کا دور آیا تو انھوں نے لوگوں سے مشورہ کیا؛ عبدالرحمان (بن عوف) نے کہا:سب سے ہلکی حد ۸۰ کوڑے ہیں؛ چناں چہ عمر نے اسی کا حکم دیا۔ (صحیح مسلم، رقم ۱۷۰۶)
اسی مسلم میں یہ واقعہ بھی مذکور ہے کہ حضرت عثمان کی خلافت میں حضرت ولید کو لایا گیاجن کی شراب نوشی پر دو شخصوں نے گواہی دی۔ حضرت عثمان نے حضرت علی سے کہا :اٹھیے!اور اس کو کوڑے ماریے ! حضرت علی نے حضرت حسن کو کہا : اے حسن ! اٹھ اور اس کو کوڑے مار ! حضرت حسن نے کہا : یہ ناخوش گوار کام بھی وہ ہی کرے جو اس حکومت سے فائدہ اٹھا رہا ہے؛گویا انھوں نے ناراضی کا اظہار کیا۔ حضرت عثمان نے حضرت عبداللہ بن جعفر سے کہا: آپ اسے کوڑے ماریے! چناں چہ انھوں نے کوڑے مارنے شروع کیے؛ حضرت علی گنتے رہے تو جب چالیس کوڑے پورے ہوگئے تو حضرت علی نے کہا: بس اب رک جائیں؛ پھر کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس کوڑے مارے، حضرت ابو بکر نے بھی چالیس مارے، اور عمر نے ۸۰ مارے، اور سب سنت ہیں اور یہ مجھے زیادہ محبوب ہیں۔(صحیح مسلم، رقم ۱۷۰۷)
ان دونوں روایتوں میں صراحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق نے شراب نوش پر جو حد جاری کی، وہ چالیس کوڑے تھی تاہم عہد رسالت کے بعض واقعات میں صرف زدو کو ب کرنے کا بھی ذکر ہے، کوڑے مارنے کا نہیں؛ اس کی بابت علما نے وضاحت کی ہے کہ یہ واقعات اس کی حد مقرر کرنے سے پہلے کے ہیں لیکن بعد میں مذکورہ حد مقرر کر دی گئی جس پر حضرت ابوبکر کے دور میں بھی عمل کیا گیا۔ حضرت عمر نے چالیس کے بجائے ۸۰ کر دیے اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ انھوں نے اس کو حد نہیں سمجھا بلکہ اس اضافے کی وجہ بھی خود غامدی صاحب کے نقل کردہ اقتباس میں موجود ہے کہ ان کے دور میں اس سزا کو ناکافی سمجھتے ہوئے شراب نوشی میں اضافہ ہوگیا تھا جس کے سد باب کے لیے حضرت عمر نے اس سزا کو دو گنا کردیا جس کا مطلب یہ تھا کہ چالیس تو حد شرعی ہے اور مزید چالیس یہ بہ طور تغیر ہے تاکہ لوگ اس جرم سے بعض رہیں۔
علاوہ ازیں حضرت عمر کے اس اقدام پر کسی صحابی نے بھی نکیر نہیں کی اور حضرت علی نے بھی اسے سنت ہی سے تعبیر کیا کیوں کہ یہ اضافہ خلیفہ راشد نے کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین۔ (الحدیث)
حضرت عمر کا یہ اضافہ بھی سنت ہی کہلائے گا؛ حضرت عمر کے اس اقدام کی وجہ سے شراب نوشی کی حد،حدنہیں رہے گی بلکہ تعزیر بن جائے گی ، ایسا سمجھنا یا باور کرانا یک سر غلط ہے، تاہم دونوں صورتیں سنت ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ اصل حدچالیس کوڑے ہی ہے اور اگر تادیب و تنبیہ کے طور پر اس میں اضافے کی ضرورت محسوس کی جائے تو ۸۰ کوڑے بھی مارے جاسکتے ہیں اور یہ بھی سنت ہی ہوں گے۔
انکار حدیث کا مطلب اور فراہی گروہ کی حیثیت
اس تفصیل سے یہ بات تو واضح ہوئی کہ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ کہ حدیث کے بارے میں ان کے موقف اور ائمہ سلف کے موقف میں بال برابر بھی فرق نہیں ،سراسر جھوٹ اور فریب ہے۔ائمہ سلف کا شیوہ یہ کبھی نہیں رہا کہ وہ پہلے اپنے طور پر ایک نظر یہ گھڑیں ، پھر اس کی تائید میں کیسی بھی روایت مل جائے ، چاہے وہ یک سر ضعیف ہی ہو ، وہ اس کو قبول کر لیں اور خودساختہ نظریہ کے خلاف ہو، اس کو رد کردیں ؛یہ رویہ ان کا نہیں ، منکرین حدیث کا ہے۔ جن کو منکرین حدیث قرار دیا جاتا ہے، یہ نہیں ہے کہ وہ حدیث کو بالکل نہیں مانتے ؛ان کی کتابیں دیکھ لیجیے، وہ بھی احادیث سے استدلال کرتے اور ان کو پیش کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو منکرین حدیث سمجھا اور کہا جاتا ہے ؛ کیوں ؟اس کی تین وجوہ ہیں :
پہلی یہ کہ حدیث کو ماخذ شریعت نہیں سمجھتے اور وہ اس کی تشریعی حیثیت کے منکر ہیں۔
دوسری، وہ حدیث کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلاتے اور اس کی عدم محفوظیت کے دعوے کرتے ہیں۔
تیسری وجہ ،حسب ضرورت وہ ہر گری پڑی روایت کو تو اپنا لیتے ہیں کہ اس سے ان کے خود ساختہ نظریات کو کچھ سہارا میسر آ جا تا ہے، لیکن صحیح روایا ت کو وہ پرکا ہ کے برابر بھی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں جیسے غامدی صاحب نے ’بدایۃ المجتہد‘ کے حوالے سے حضرت علی کا جو اثر نقل کیا ہے ، وہ معضل (منقطع) ہے اور منکر بھی ہے ؛ اس کے معنی میں بھی نکارت ہے ، اس لیے کہ ہذیان گوئی تو بے ارادہ ہوتی ہے اور افترا تو وہ ہے جو عمداً ہو، اس لیے ۸۰ کوڑوں کے لیے یہ معقول دلیل نہیں ہے۔
آپ سرسید سے لے کر غلام احمد پر ویز تک دیکھ لیجیے ، ان کے افکار ونظریات اور ان کے لٹریچر میں یہ تینوں باتیں نمایاں طور پر ملیں گی اور ہمیں یہ کہتے ہوئے نہایت دکھ اور افسوس ہو رہا ہے کہ فراہی گروہ کے اکابر و اصاغر سب کا رویہ بھی حدیث کے بارے میں بالکل یہی ہے ؛ یک سر مو فرق نہیں ہے۔
حدیث اور ائمہ سلف کا طرز فکروعمل
ائمہ سلف کا رویہ حدیث کے بارے میں کیا رہا ہے اور اب بھی ان کے پیرو کار اہل اسلام کا رویہ کیا ہے؟
1۔ وہ یہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے کوئی نظریہ گھڑ کر دلائل تلاش نہیں کرتے بلکہ قرآن کریم اور اس کی قولی اور عملی تفسیر، حدیث نبوی سے جو کچھ ملتا اور ثابت ہوتاہے ، اس کو وہ حرز جان اور آویزہ گوش بنا لیتے ہیں اور اس پر عمل کو دین و دنیا کی سعادت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
2۔ دوسرے نمبر پر ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ نے قرآن کی حفاظت فرمائی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس قرآن کے اجمال کی تفصیل اور اس کے عموم کی تخصیص کرنے والی احادیث کو بھی محفوظ کردیا ہے کیوں کہ اس کے بغیر قرآن کی حفاظت کا مقصد ہی پورا نہ ہوتا؛جب اس کا سمجھنا ہی مشکل بلکہ ناممکن ہوتا تو اس کو محفوظ کردینے سے کیا ہوتا؟اس کی محفوظیت کا فائدہ تو تب ہی ہے جب اس کی تبیین بھی محفوظ ہوتی جس کوحدیث کہا جاتا ہے؛اس لیے اہل اسلام کا بجا طور پر یہ عقیدہ ہے کہ حدیث رسول بھی الحمداللہ اسی طرح محفوظ ہے۔
3۔ تیسرے ، حدیث رسول کے محفوظ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جن محدثین نے ان احادیث کو جمع اور مدون کیا ہے، انھوں نے اپنے طور پر چھان پھٹک اور نقد و تحقیق کے بعد احادیث کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے تاہم نقد و تحقیق میں کچھ نے تو نہایت اعلیٰ معیار سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے ان کا مجموعہ احادیث اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا درجہ پاگیا جیسے صحیح بخاری ہے اور اس کے بعد صحیح مسلم ہے؛ان دونوں کی صحت بلکہ اصحیت امت مسلمہ میں مسلم اور متفق علیہ ہیں؛ اسی لیے ان کو صحیحین (صحیح حدیث کی دو کتابیں)کہا جاتا ہے؛چناں چہ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:
اما الصحیحان: فقد اتفق المحدثون علی ان جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع وانھما متواتران الی مصنفیھما و انہ کل من یھون امرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المومنین
’’صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی بابت محدثین کا اتفاق ہے کہ ان میں جتنی بھی متصل مرفوع احادیث ہیں، وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور وہ اپنے مصنفین تک متواتر ہیں ؛نیز یہ کہ جو شخص بھی ان دونوں مجموعہ ہاے حدیث کی شان گھٹا تا ہے ،وہ بدعتی ہے اور مومنوں کا راستا چھوڑ کر کسی اور راستے کا پیرو کار ہے۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ ۱/۱۳۴،طبع لاہور)
4۔ چوتھی بات یہ کہ محدثین نے نقد وتحقیق کے اصول و قواعد اورجرح وتعدیل کے ضوابط مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ راویان احادیث کے مکمل حالات زندگی بھی جمع اور مرتب فرمائے ہیں؛ ان دونوں قسم کے علوم کو اصول حدیث اور اسماء الرجال کہا جاتا ہے۔ ان دونوں بے مثال علوم کی کتابوں سے احادیث کی نقد و تحقیق کا کام ہر وقت کیا جا سکتا ہے اور یہ کام اب تک جاری بھی ہے؛ چناں چہ انھی اصولوں کی روشنی میں سنن اربعہ(ابوداود،ابن ماجہ، نسائی اور ترمذی) کی روایات کی چھان پھٹک اس دور میں ہوئی ؛ مسند احمد اور الجامع الصغیر اور دیگر کئی کتب کو چھانا اور پھٹکا گیا ہے اور صحیح و ضعیف کو الگ الگ کردیاگیا ہے۔
5۔ اہل اسلام حدیث کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار نہیں ہیں بلکہ نقد و تحقیق حدیث کے محدثانہ اصول و ضوابط کی روشنی میں جو احادیث پایہ ثبوت کو پہنچتی ہیں، ان کو تسلیم اور جو ان کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتی، ان کو رد کر دیتے ہیں۔
6۔ اہل اسلام احادیث کے اس ذخیرے کو مجموعہ رطب ویابس قرار دے کر یہ نہیں کہتے : ’ایں دفتر بے معنی ،غرق مےِ ناب اولیٰ‘ بلکہ اس کی غواصی کر کے اس سے لولو ولالہ نکالنے کی جستجو کرتے رہتے ہیں اور یہ غواصی الل ٹپ نہیں ہوتی بلکہ انھی بے مثال اصولوں کی روشنی میں ہوتی ہے جو محدثین نے وضع اور مرتب کیے ہیں ؛ رحمھم اللہ وشکر مساعیھم.
خود ساختہ نظریہ رجم کی بے ثباتی اور شریعت سازوں کی بے چارگی
غامدی صاحب کے انداز تحقیق سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ان کارویہ منکرین حدیث کے رویے سے مختلف نہیں ہے؛ انھوں نے شراب نوشی کے بارے میں یہ نظریہ گھڑا کہ اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ اس میں تعزیر ہے؛اس کے لیے انھوں نے صحیح حدیثیں نظر انداز کردیں اور حضرت علی کی طرف منسوب بے بنیاد قول کو مدارِ استدلال بنا لیا جس کا ترجمہ خود انھوں نے کیا ہے: ’’چناں چہ بیان کیا جاتا ہے۔‘‘ اس کے عربی الفاظ ہیں : کما قیل عنہ اور قیل کے ساتھ جو بیان کیا جاتا ہے، اس کی حیثیت خود غامدی صاحب کی زبان سے سنیے!
وہ اپنے خلاف ایک تنقیدی مضمون کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’خود مصنف نے اسے قیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کسی مجہول شخص کی رائے ہے جس کے بارے میں کچھ میں کہاجاسکتا کہ کون تھا اور کہاں اس نے یہ معنی بیان کیے تھے۔‘‘ (برہان، ص ۲۸۴)
اسی طرح حدّ رجم کا معاملہ ہے؛ انھوں نے یا ان کے اکابر نے یہ نظریہ گھڑا کہ یہ شادی شدہ زانی کی حد نہیں ہے بلکہ ہر قسم کے زانی کی ایک ہی حد ہے اور وہ ہے سو کوڑے ؛چناں چہ انھوں نے اس سے متعلقہ تمام صحیح روایات کی تغلیط و تردید کو اپنا مشن بنالیا اور آیت محاربہ میں لفظ’ تقتیل‘سے اوباش قسم کے زانی مرد اور زانی عورت کے لیے رجم کی سزا کا استنباط فرمایالیکن : ع ’کیابنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے‘کے مصداق بے چارے ہاتھ پیر مار رہے ہیں لیکن سوائے نامرادی و ناکامی کے کچھ حاصل نہیں ہورہااور نہ ان شا ء اللہ حاصل ہی ہوگا؛اس لیے کہ اسلاف اور امت کے اجماع سے ہٹ کر جو بھی اپنی الگ راہ اپنائے گا، ذلت اور رسوائی کے سوا اس کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا:
وَمَن یْشَاقِقِ الرَّسْولَ مِن بَعدِ مَا تَبَیّنَ لَہ الھْدَی وَیَتَّبِع غَیرَ سَبِیلِ المْومِنِینَ نْوَلِِّہ مَا تَوَلَّی۔۔۔..(النساء 4:115)
چناں چہ رجم کے بارے میں غامدی صاحب کی بے چارگی قابل دید ہے؛ جب ان پر یہ واضح کیا گیا کہ ’تقتیل‘ کے لفظ یا اس کے مفہوم میں رجم کسی طرح بھی شامل نہیں ہوسکتا تو بالآخر یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے کہ وحیِ خفی کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ ’ تقتیل‘ کے مفہوم میں رجم بھی شامل ہے، لیکن یہاں پھر یہ سوال منہ کھولے سامنے آکھڑا ہوا کہ جناب من! آپ تو یہ بات ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحیِ خفی سے کوئی ایسا حکم دے سکتے ہیں جو قرآن میں نہ ہو؛ آپ کے نزدیک تو ایسا حکم قرآن میں تغیر و تبدل ہے جس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے ؛ توکیا قرآن کے لفظ ’ تقتیل‘ سے رجم مراد لینا جس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے، قرآن میں تغیر و تبدل نہیں ہے؟ یا شریعت سازی نہیں ہے؟ شریعت سازی کا یہ حق صدیق و عمرکے لیے آپ نہیں مانتے تو آپ کے امام اول اور آپ کو شریعت سازی کایہ حق کیسے حاصل ہوگیا؟
(جاری)