تمغۂ امتیاز

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ ۲۳ مارچ کو میں نے زندگی میں دوسری بار شیروانی پہنی۔ اس سے قبل شادی کے موقع پر ۲۵؍ اکتوبر ۱۹۷۰ء کو شیروانی پہنی تھی جو حضرت والد محترم رحمہ اللہ تعالیٰ نے بطور خاص میری شادی کے لیے سلوائی تھی۔ خود میرے ساتھ بازار جا کر ٹیلر ماسٹر کو ناپ دلوایا تھا اور ایک قراقلی ٹوپی بھی خرید کر دی تھی۔ یہ دونوں شادی کے دن میرے لباس کا حصہ بنیں۔ قراقلی تو میں اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک خاص تقریبات میں پہنتا رہا ہوں لیکن شیروانی دوبارہ پہننے کا حوصلہ نہیں ہوا اور وہ میں نے شادی کے دوسرے دن چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس قارن کو دے دی۔ اپنے اپنے مزاج کی بات ہے، شیروانی اور بند کوٹ میں خود کو گھٹا گھٹا سا محسوس کرتا ہوں، حتیٰ کہ واسکٹ کے بٹن بند کرنے میں بھی مجھے الجھن ہوتی ہے، جبکہ مایہ والے سوتی کپڑوں میں لباس کے ساتھ خود بھی اکڑے رہنا پڑتا ہے اس لیے اس سے حتی الوسع بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن اس سال صدر پاکستان کی طرف سے ’’یوم پاکستان‘‘ کے موقع پر جن حضرات کو صدارتی تمغوں کے لیے نامزد کیا گیا ان میں تمغۂ امتیاز پانے والوں میں میرا نام بھی شامل تھا۔ یہ تمغہ ۲۳ مارچ کو گورنر ہاؤس لاہور میں ایک تقریب کے دوران گورنر پنجاب کے ہاتھوں ملنا تھا۔ اس تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو اس میں یہ شرط درج تھی کہ شیروانی اور جناپ کیپ پہن کر شریک ہونا ہے۔ میرے پاس یہ دونوں موجود نہیں تھیں، اس لیے جناح کیپ تو بازار سے خریدی اورشیروانی کے لیے کسی دوست کی تلاش شروع کر دی جس سے ایک دن کے لیے عاریتاً حاصل کر سکوں۔ گزشتہ ہفتے فیصل آباد جانا ہوا تو شام کا کھانا جامعہ اسلامیہ امدادیہ میں مولانا مفتی محمد زاہد صاحب کے ساتھ کھایا اور انہی سے فرمائش کر دی کہ اگر ایک روز کے لیے کوئی مناسب شیروانی مل جائے تو فقیروں کا کام چل جائے گا۔ انہوں نے اپنی شیروانی عطا کی جو پہننے پر مناسب لگی تو ساتھ لے آیا۔ 

حسن اتفاق سے اسی روز (۲۳ مارچ) صبح بخاری شریف کے سبق میں یہ روایت پڑھنے میں آئی کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے اپنی ایک خادمہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی قمیص کی طرف اشارہ کیا کہ یہ لڑکی اس جیسی قمیص گھر کے اندر پہننے میں بھی ہتک محسوس کرتی ہے۔ حالانکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اسی قسم کی قمیص میرے پاس تھی اور مدینہ منورہ میں کسی خاتون کو تقریب کے لیے بننا سنورنا ہوتا تھا تو مجھ سے وہ قمیص منگوا کر پہنتی تھی۔ یہ روایت پہلے بھی کئی بار نظر سے گزر چکی تھی لیکن اس روز صبح ایک بار پھر پڑھ کر تسلی ہوئی کہ مانگے کی شیروانی پہن کر تقریب میں شریک ہونا کوئی غلط بات نہیں ہے۔ بہرحال اس روز شام کو اپنے ایک قریبی دوست حافظ محمد یحییٰ میر کے ہمراہ گورنر ہاؤس کی تقریب میں شریک ہوا اور بہت سے دیگر حضرات کے ساتھ تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ قائم مقام گورنر پنجاب رانا محمد اقبال جب میرے سینے پر تمغۂ امتیاز آویزاں کر رہے تھے تو ایک لمحہ کے لیے یہ سوچ کر میرے لبوں پر مسکراہٹ سی پھیل گئی کہ گورنر صاحب محترم تمغہ تو مجھے دے رہے ہیں لیکن جس شیروانی پر آویزاں کر رہے ہیں وہ مفتی محمد زاہد صاحب کی ہے۔ بہرحال اس تقریب میں تمغہ امتیاز اور اس کے ساتھ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف سے دی گئی سند امتیاز سے بہرہ ور ہوا جو ان الفاظ میں ہے کہ:

’’میں بحیثیت صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب محمد عبد المتین خان زاہد (زاہد الراشدی) کو تعلیم کے شعبہ میں امتیازی مرتبہ حاصل کرنے پر ’تمغۂ امتیاز‘ کا اعزا عطا کرتا ہوں۔‘‘

اس تقریب میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی بہت سی شخصیات کو مختلف تمغوں سے نوازا گیا جن میں سے میرے پرانے دوستوں میں مولانا قاری احمد میاں تھانوی، سید تابش الوری اور جناب عبد الرؤف طاہر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان سے مل کر مبارک باد کا تبادلہ کیا اور ہم باہمی دعاؤں سے فیض یاب ہوئے۔سند امتیاز کے ساتھ سرکاری گزٹ میں تمغہ پانے والے ہر صاحب کے ساتھ کچھ تعارفی کلمات درج ہیں، ان میں سے ایک معروف شخصیت سیالکوٹ کے پروفیسر اصغر سودائی مرحوم بھی ہیں جن کا تمغہ ان کے فرزند نے وصول کیا۔ ان کے لیے لکھے گئے چند تعارفی کلمات اس کالم کے ذریعہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ آج کے دور میں جبکہ پاکستان کی اسلامی نظریاتی شناخت اور دستور پاکستان کی اسلامی اساس کو مجروح کرنے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں، پروفیسر اصغر سودائی مرحوم کا یہ تعارف نامہ ایک تاریخی شہادت کا درجہ رکھتا ہے۔ اس تعارف میں لکھا ہے کہ:

’’آپ نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر شرکت کی اور طلبہ اور عام لوگوں سے خطاب کیا تاکہ ان میں آزادی کی روح اور جذبے کو تقویت دی جائے۔ ایک بار آپ سیالکوٹ میں رام تلائی گراؤنڈ میں تقریر کر رہے تھے کہ ایک ہندو طالب علم نے آپ سے پاکستان کا مطلب پوچھا جس پر پروفیسر اصغر سودائی نے فورًا ان تاریخی الفاظ میں جواب دیا کہ لا الٰہ الا اللّٰہ۔ آپ نے یہ نعرہ اپنی ایک نظم میں لگایا اور اپنی شاعری کا ۱۹۴۴ء میں حصہ بنا لیا۔ اس نعرہ نے پوری تحریک پاکستان کو متحرک کر دیا۔ بزرگ کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے خود ایک بار کہا کہ اصغر سودائی کا تخلیق پاکستان میں ۲۵  فی صد حصہ ہے۔ یہ لازوال اور قومی نعرہ لا الٰہ الا اللّٰہ  محترم جہاں آرا بیگم کی کتاب کا حصہ بن گیا جو ’’پاکستان کے قومی گیت‘‘ کے عنوان سے ۱۹۴۶ء میں دہلی سے شائع ہوئی۔‘‘

گورنر پنجاب سے ’’تمغۂ امتیاز‘‘ وصول کرتے ہوئے میری نگاہوں کے سامنے ایک تصویر مسلسل جھلملاتی رہی جو کہ کراچی کے ڈاکٹر محمد شکیل اوج شہیدؒ کی تھی، وہ بھی ہمارے ساتھ ’’تمغۂ امتیاز‘‘ کے لیے نامزد کیے جانے والوں کی فہرست میں شامل تھے اور مجھے سب سے پہلے اس کی اطلاع اور مبارک باد انہوں نے ہی دی تھی۔ ان کا یہ تمغہ گورنر سندھ سے ان کے فرزند نے وصول کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور ہم سب کو ملک و قوم کی مسلسل خدمت کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ 

مشاہدات و تاثرات

(مئی ۲۰۱۵ء)

تلاش

Flag Counter