۳۱ مارچ کو جامع مسجد سیدنا عثمان غنیؓ اسلام آباد میں پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس مشاورت کا ایک اہم اجلاس مولانا فداء الرحمن درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس کے شرکاء میں مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مفتی محمد نعمان، مفتی محمد سیف الدین، جناب صلاح الدین فاروقی، حافظ سید علی محی الدین، جناب سعید اعوان، مولانا تنویر احمد علوی، قاری عبید اللہ عامر، مولانا محمد ادریس ڈیروی، مولانا سعید اللہ خان قاسم، مولانا محمد ادریس علوی، مولانا عبد الرزاق، حافظ پیر ریاض احمد چشتی، مولانا عبد الخالق، قاری محمد اکرم مدنی، پروفیسر حافظ ظفر حیات اور مولانا ممتاز الرحمن بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ مولانا محمد رمضان علوی اجلاس کے میزبان تھے جبکہ راقم الحروف نے ملکی صورت حال اور مشرق وسطیٰ میں یمن کے تنازعہ کے حوالہ سے تفصیلی گفتگو کی۔
اجلاس میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں اٹارنی جنرل کی طرف سے پیش کردہ اس بیان کا جائزہ لیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ دستور پاکستان کا کوئی ایسا بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے جس کی پابندی پارلیمنٹ کے لیے ضروری ہو۔ اس کے مضمرات و نتائج پر تفصیلی غور و خوض کے بعد اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ قیام پاکستان کا مقصد مسلمانوں کی جداگانہ تہذیب کا تحفظ، اسلامی احکام و قوانین کے مطابق معاشرہ کی تشکیل اور امت مسلمہ کے دینی و نظریاتی تشخص کا اظہار تھا اور اس سلسلہ میں تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر قائدین کے واضح بیانات پاکستان کے بنیادی دستوری ڈھانچہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جبکہ قیام پاکستان کے بعد منتخب دستور ساز اسمبلی نے ’’قرارداد مقاصد‘‘ منظور کر کے اسی بنیادی ڈھانچہ کو دستوری شکل دی تھی۔ اس لیے دستور پاکستان کے کسی بنیادی ڈھانچے کی موجودگی سے انکار نظریہ پاکستان اور وطن عزیز کے اسلامی تشخص کی نفی کے مترادف ہے جس پر وفاقی حکومت کو اپنے موقف کی وضاحت کرنی چاہیے اور اٹارنی جنرل کے بیان سے پیدا ہونے والے ابہام کو دور کرنا چاہیے ورنہ اسے پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کی طرف قدم قرار دیا جائے گا۔ اجلاس میں طے پایا کہ اس سلسلہ میں پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں تحریری طور پر یادداشت پیش کی جائے گی۔
اجلاس میں مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے سعودی عرب کی سا لمیت و وحدت کے دفاع کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ حالات گزشتہ تین عشروں کی طویل کشمکش کا نتیجہ ہیں جس کے دوران سعودی عرب کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا ہے۔ مگر اس مہم کے آخری لمحہ میں عرب لیگ کو ہوش آیا ہے کہ اس نے عرب ممالک کی متحدہ فوج کی تشکیل اور یمن کی خانہ جنگی میں باغیوں کا راستہ روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ان حالات سے سعودی عرب کی سا لمیت و وحدت اور خاص طور پر حرمین شریفین کے لیے جو خطرات سامنے آئے ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حرمین شریفین کے تقدس کا مسئلہ صرف سعودی عرب اور عرب ممالک کا نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کا ہے، حرمین شریفین کے مستقبل کے حوالہ سے جو امکانات نظر آرہے ہیں وہ دنیا کے ہر مسلمان کے لیے شدید تشویش و اضطراب کا باعث ہیں اور حرمین شریفین کا تحفظ و دفاع باقی تمام امور پر مقدم ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ان حالات میں حکومت پاکستان کی طرف سے سعودی عرب کے دفاع کا اعلان وقت کی اہم ضرورت اور ملت اسلامیہ کے جذبات کی نمائندگی ہے۔ پاکستان شریعت کونسل اس کی مکمل حمایت کا اعلان کرتی ہے اور اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم میاں نواز شریف سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس سلسلہ میں عالم اسلام کی رائے عامہ اور اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم کو متحرک کیا جائے اور مسلم حکمرانوں کا اجلاس فوری طور پر طلب کر کے مشرق وسطیٰ کے مسئلہ میں مثبت اور مؤثر کردار ادا کیا جائے۔
اس موقع پر اجلاس میں پاکستان شریعت کونسل کی تنظیم نو کا فیصلہ کیا گیا اور امیر مرکزیہ مولانا فداء الرحمن درخواستی کو اختیار دیا گیا کہ وہ ملک بھر میں کونسل کی تنظیم نو کے لیے اقدامات کریں۔ نیز یہ بھی طے پایا کہ مختلف شہروں میں پاکستان شریعت کونسل کے حلقے قائم کیے جائیں جو انتخابی اور گروہی سیاست سے الگ تھلگ رہتے ہوئے خالصتاً علمی و فکری بنیادوں پر نفاذ اسلام کے لیے محنت کریں گے اور اس میں کسی بھی جماعت کے اصحاب فکر شامل ہو سکیں گے۔ جبکہ پاکستان شریعت کونسل دینی و سیاسی جماعتوں کے باہمی تنازعات میں فریق بننے سے گریز کرے گی بلکہ ان میں باہمی رابطہ و تعاون کے فروغ کے لیے کام کرے گی۔