اپریل کو الشریعہ اکادمی کے اساتذہ ورفقاء کے لیے اسلام آباد کے ایک مطالعاتی دورے کا اہتمام کیا گیا۔ وفد الشریعہ اکیڈمی کے چھ اساتذہ اور ایک رفیق کار پر مشتمل تھا۔ مطالعاتی دورہ کا مقصد مختلف تعلیمی اداروں کے نظام ونصاب کا مطالعہ کرنا اور ان سے استفادہ کی صورتوں پر غور کرنا تھا۔ وفد کے سفر کی پہلی منزل ہری پور میں مولانا وقار احمد کی رہائش گاہ تھی جہاں اس دو روزہ دورہ کی اگلی منازل مشاورت سے طے کی گئیں۔
وفد کی پہلی ملاقات ہائی ٹیک یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے صدر ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب سے ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب موصوف سے متعلقہ موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ملاقات کے آخر پر وہ وفد کو رخصت کرنے کے لیے اپنے دفتر سے نکل کرکافی دور تک ہمراہ تشریف لائے اور الوداعی مصافحہ سے پہلے فرمایا:
’’مولانا عبیداللہ انور رحمہ اللہ میرے استاذ ہیں۔انہوں نے مجھے بتایاکہ مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ جب کوئی کام کرنے نکلو تو اس کو پورا کر کے ہی واپس لوٹو ورنہ تم خود نہ لوٹنا (یعنی زندہ نہ پلٹو)۔ حضرت سندھی نے یہ بھی فرمایا: مجھے میری والدہ نے دہی لینے بھیجا۔ قریب سے نہ ملا،اگلے چوک سے بھی نہ ملا،میں چلتا رہا،یہاں تک کہ بھاٹی دروازہ تک آیا اور دہی لے کر ہی گیا۔‘‘
دوسری ملاقات مدرسہ ایجوکیشن بورڈکے چیئرمین جناب عامر طاسین صاحب سے ہوئی۔ وہ علامہ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے نواسے ہیں اور ان کا تعلق اور وابستگی بھی مذہبی حلقوں سے بہت گہری ہے۔ موصوف نے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اور اس کے تحت چلنے والے تین ماڈل مدارس کا تفصیلی تعارف کروایا اور اس ادارہ کو مزید بہتر اور فعال بنانے میں اپنی حالیہ کاوشوں کا بھی ذکر کیا۔
تیسری ملاقات محترم الیاس ڈار صاحب (سابق جائنٹ سیکرٹری حج وعمرہ؍ بانی وچیئرمین دعوت فاؤنڈیشن) سے ہوئی۔موصوف نے ان تمام کورسز کا تعارف کروایاجو ’’ دعوت فاؤنڈیشن‘‘ کی طرف سے مختلف شعبوں سے منسلک افراد کو کروائے جاتے ہیں۔
چوتھی ملاقات جناب مفتی محمد سعید خان صاحب سے ندوۃ لائبریری(نزدچھتر پارک)میں ہوئی۔ایک لاکھ کے قریب کتب پر مشتمل یہ لائبریری ایک پُر فضا مقام پر واقع ہے اور اصحابِ ذوق کو وہاں قیام ،طعام کی سہولت کے ساتھ لائبریری سے مکمل استفادہ کی اجازت ہے۔ یہ لائبریری اپنے مؤسس ومنتظم مفتی سعیدخان صاحب کے ذوق وجستجوکا مظہر اور تحقیق کا ذوق رکھنے والے علماء کے لیے ایک خاص نعمت ہے۔جب مفتی صاحب کو وفد کی حاضری کا مقصدبتایا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ تین چیزوں کا خیال رکھیں:
۱۔طلباء کی تربیت،رویوں کی اصلاح کا اہتمام کریں ،رمضان کہیں گزارنے کا بندوبست کریں۔
۲۔طلباء میں قدیم عربیت اور عربی ادب کی استعداد پیدا کریں۔
۳۔تاریخ سے استنباط سکھائیں۔
مفتی صاحب نے تاریخ سے استنباط کے حوالے سے دو تاریخی واقعات کا تذکرہ کیا:
مامون الرشید کو جب احساس ہوا کہ اپنا جانشین مقرر کرے تو ایک ماہ تک مشاورت کرتا رہااور اس نتیجے پر پہنچا کہ عباسیوں میں کوئی اس کا اہل نہیں تو اپنے خاندان کو چھوڑ کر سادات میں تلاش کی۔ اس کی نظر انتخاب حضرت علی رضا رحمہ اللہ پر پڑی اور اس نے ان کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا لیکن عباسیوں نے اس پر بغاوت کردی۔ مامون الرشیدبغاوت کو فرو کرنے راتوں رات سفر کرکے بغداد پہنچا، لیکن تین سال کے اندراندر حضرت علی رضا رحمہ اللہ انتقال فرما گئے (یا انہیں زہر دیا گیا)اورخلافت دوبارہ عباسیوں میں چلی گئی۔ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ یہاں فرماتے ہیں کہ:
’’اگر کوئی قوم کسی خیر کے کام کو نہ چاہتی ہو تو وہ ان پر جبراً مسلط نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
دوسرا واقعہ شاہ اسحق رحمہ اللہ کا ہے۔حضرت کی زبان میں لکنت تھی اور بولنے میں دشواری ہوتی تھی۔ایک عیسائی پادری نے مغل بادشاہ، شاہ عالم کے دربار میں آکر دعویٰ کیا کہ اگر ہماری انجیل میں تحریف ہوئی ہے توآپ کی کتاب قرآن مجید میں بھی تحریف ہوئی ہے اورآپ کا کوئی عالم میرے اس دعوے کو رد نہیں کر سکتا۔شاہ عالم نے علماء سے رجوع کیا تو انہوں نے شاہ اسحق کا نام پیش کر دیا کہ وہی اس پادری سے مناظرہ کر سکتے ہیں۔شاہ صاحب کو طلب کیا گیا۔آپ نے بات شروع فرمائی اور بالآخر عیسائی مناظر کو شکست ہوئی اور آپ نے اسے لاجواب کر دیا۔جب شاہ اسحق رحمہ اللہ دربار سے باہر آئے تو عوام اور علماء کا ایک جمِ غفیر استقبال کے لیے موجود تھا اور سب مبارکباد دے رہے تھے۔شاہ صاحب ایک بلند جگہ پر کھڑے ہو کر علماء سے مخاطب ہوئے اور فرمایا :ارے مولویو! مجھے معلوم ہے تم نے پادری کے ساتھ مناظرہ کے لیے میرا نام اس لیے پیش کیا تھا کہ مجھے شکست ہو اور بادشاہ کے ہاں میرا مرتبہ گر جائے اور تمہاری جگہ بن جائے، لیکن بے وقوفو! تم نے ذرا یہ نہ سوچا کہ اگر میں ہار جاتا تو لوگ یوں نہ کہتے کہ شاہ اسحق ہارگیا ہے بلکہ یہ کہا جاتا کہ اسلام ہار گیا ہے۔مفتی سعید خان صاحب نے فرمایا کہ یہ حسد کی بیماری ہمیں اپنے سے نکالنا ہوگی۔
مفتی سعید خان صاحب نے مزید فرمایا: ہماری شدید خواہش تھی کہ مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ’’تاریخ دعوت وعزیمت‘‘کی ایک اور جلد لکھ کر اسے مکمل فرما دیں اور سیّد احمد شہید رحمہ اللہ کے بعد کی تحریکا ت کے حالات بھی قلمبند ہو جائیں (جیسے جمال الدین افغانی، الجزائر کے سنوسی، ترکی کے فتح اللہ گولن، مصر کے حسن البناء، حجاز کے محمدبن عبدالوہاب اور مولانا محمد الیاس کاندہلوی رحمہ اللہ وغیرہ)۔ ایک مجلس میں عرض کیا گیاتو سرد آہ بھری اور فرمایا: بھائی، اب کوئی کرے تو کرے، ہم سے تو اب نہیں ہوتا۔
دورہ کے آخر میں ادارۂ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے مجلہ ’’فکر ونظر‘‘ کے نائب مدیر جناب مولانا سید متین شاہ صاحب سے بھی مختصر ملاقات ہوئی۔
اس دورے کے دوران میں مدارس کے نصاب ونظام کے حوالے سے جو تجاویز سامنے آئیں، انھیں الگ مرتب کیا جا رہا ہے اور الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام فکری مجالس میں ان پر غور وفکر کیا جائے گا۔