آیت محاربہ کی رْو سے عہد رسالت کے مجرم سزا کے نہیں ،معافی کے مستحق تھے
فراہی گروہ کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آئی کہ محاربہ کی سزا کی بابت تو ا للہ نے فرمایا ہے کہ فساد فی الا رض کے یہ مجرم اگر قابو میں آنے سے پہلے ہی تائب ہو جائیں توان کی سزا بھی موقوف ہو جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جن بعض صحابہ یا صحابیہ سے زنا کا جرم صادر ہوا تو اس کو شادی شدہ ہونے کی وجہ سے رجم کی سزا دی گئی حالاں کہ انھوں نے بارگاہ رسالت میں آکر از خود اعترافِ جرم اور سزا کے ذریعے سے پاک ہونے پراصرار کیا تھا؛ اگر یہ سزا محاربہ کی سزا یا آیت محاربہ کا اقتضاہوتی تو الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم کے تحت وہ سزا کے نہیں، معافی کے مستحق تھے کیوں کہ ان کی وجہ سے معاشرے میں نہ کوئی فساد مچا تھا اور نہ ان کو پکڑ کر ہی لایا گیا تھا؛ جب یہ دونوں ہی باتیں ان میں نہیں پائی گئیں تو محاربہ کی سزا تو خود آیت محاربہ کے خلاف ہے؛ انھیں محاربہ کی سزاکیوں دی گئی؟
رسول اللہ اور اللہ پر بھی افترا اور صحابہ وصحابیات پر بھی افترا
اب اپنی طرف سے یہ بات گھڑنا ۔ جب کہ عہد رسالت کے واقعات میں دور دور تک اس کے نشانات نہیں ملتے ۔کہ یہ سزا نعوذ باللہ ان کی او باشی اور آوارہ منشی کی وجہ سے دی گئی؛یک سر بے بنیاد بات ہے۔ ان واقعات میں صرف ان کا شادی شدہ ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے جو دیدۂ بینا رکھنے والے دیدہ وروں کو نظر نہیں آرہی ہے اور او باشی اور آوارہ منشی والی بات جو خوردبین لگا کر بھی دیکھنے سے نظر نہیں آتی، اس کو اس سزا کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے؛ کیسی ہٹ دھرمی اور دھاندلی کا مظاہرہ ہے جس کا ارتکاب نہایت بے شرمی اور حد درجہ بے باکی سے کیا جا رہا ہے؛ جیسے آوارہ منشی والی ’وحیِ خفی ‘ حمیدالدین فراہی پر نازل ہوئی تھی، وہاں سے اصلاحی صاحب کو اور پھر غامدی صاحب کو منتقل ہوئی کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ ’وحیِ خفی ‘نازل ہوئی ہوتی تو آپ اس کی وضاحت فرماتے لیکن کسی بھی حدیث میں اس امر کی صراحت نہیں ہے کہ مذکورہ صحابہ و صحابیات کو سزاے رجم او باشی کی بنا پر دی گئی؛ یہ فراہی گروہ کی افتراپردازی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر بھی کہ آپ نے یہ سزا او باشی کی بنیاد پر دی تھی جب کہ ایسا قطعاً نہیں ہے اور مذکورہ صحابہ وصحابیات پر بھی کہ وہ (نعوذ با للہ) او باش، آوارہ منش اور غنڈے تھے دراں حالیکہ وہ نہایت مقدس اور پاک با ز لوگ تھے ؛بس بہ تقاضا ے بشریت ان سے غلطی کا ارتکاب ہو گیا تھا جس پر وہ سخت نادم ہوئے اور دنیوی سزا کے ذریعے سے پاک ہونے کے لیے بے قرار ہوگئے تاکہ اخروی سزا سے وہ بچ جائیں ؛ کس قدر پاک لوگ اور کس قدر ان کا جذبہ پاکیزہ تر تھا؟ رضی اللہ عنہم ورضواعنہ۔ اور فراہی گروہ کتنا بے باک اور دریدہ دہن ہے کہ وہ صاحب وحی پیغمبر کو بھی مطعون کر رہا ہے اور پاک بازصحابہ وصحابیات کو بھی بد معاش ثابت کر رہا ہے بلکہ یہ اللہ پر بھی افترا ہے کیوں کہ وحی کا نازل کرنے والا تو اللہ ہے، چاہے وہ وحی جلی ہو یا خفی ؛جب اوباشی والی ’وحیِ خفی‘ اللہ کے رسول پر نازل ہی نہیں ہوئی تو پھر یہ کہنا کہ یہ نازل ہوئی ہے لیکن اس کے نزول کی کوئی دلیل فراہی گروہ کے پاس نہیں ہے تو یہ اللہ پر بھی افترا ہے جب کہ اللہ تعالی اس سے پاک اور بلند تر ہے؛ تعالی اللہ عما یقولو ن علواکبیرا ۔
فراہی نظریہ رجم اور شیعوں کا نظریہ وصی رسول؛اصل میں دونوں ایک ہیں
ہمارے نزدیک فراہی گروہ کی او باشی والی من گھڑت بات بالکل شیعوں کے گھڑے ہوئے عقیدۂ وصی رسول کی طرح ہے؛ شیعوں نے اپنی طرف سے یہ بات گھڑی کہ اللہ کے رسول نے حضرت علی کی بابت وصیت فرمائی تھی کہ میری وفات کے بعد علی خلیفہ اور میرے جانشین ہوں گے لیکن حقیقت میں ایسی کسی وصیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے؛ اگر واقعی ایسی کوئی وصیت ہوتی تو صحابہ کرام یقیناًاس پر عمل کرتے اور آپ کی وفات کے بعد بالاتفاق حضرت علی کو خلیفۃ الرسول تسلیم کر کے ان کو امیر المومنین بنالیا جاتا لیکن چوں کہ ایسی کوئی دلیل نہیں تھی اس لیے صحابہ نے مشاورت کے بعدحضرت ابو بکر صدیق کو خلیفۃ الرسول اور امیر المومنین بنالیا۔
حضرات شیعہ نے بجاے اس کے کہ اپنے من گھڑت عقیدے کو چھوڑ دیتے، اپنے عقیدے اور من گھڑت نظریے پر اصرار کیا اور اس کو ثابت کرنے کے لیے خلفاے ثلاثہ کو بالخصوص ظالم ، غاصب اور منافق اور دیگر تمام صحابہ کو بالعموم ۔ سواے پانچ افراد کے ۔ منافق و مرتد قرار دے دیا ؛ صدیاں گزر جانے کے با وجود وہ اپنے اس بے بنیاد باطل نظریہ پر قائم ہیں اور اس کی وجہ سے خلفاے ثلاثہ سمیت تمام صحابہ کو (نعوذ باللہ) منافق اور مرتد قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ اسی طرح فراہی گروہ نے رجم کے حد شرعی نہ ہونے کا نظریہ گھڑا ؛ اس کے لیے درجنوں صحیح، متواتر اور متفق علیہ روایات کا انکار کیا؛جب اس سے بھی بات نہیں بنی کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حد شرعی کا نفاذ فرمایا اور اپنے فرامین میں بھی اسے حد شرعی قرار دیا تو یہ بات بنائی کہ یہ تعزیری سزا ہے (حد شرعی نہیں ہے) جو اوباش اور آوارہ منش زانیوں کو ( اگر وقت کا حکم ران چاہے تو ) دی جا سکتی ہے؛ اس پر اعتراض ہوا کہ یہ سزا تو پاک باز صحابہ و صحابیات کو بھی دی گئی تو یہ جسارت کر لی گئی کہ یہ صحابہ و صحابیات پاک باز نہیں بلکہ ( نعوذ باللہ) غنڈے بدمعاش اور اوباش قسم کے عادی زنا کار تھے اور وہ صحابیہ بھی قحبہ (پیشہ و زانیہ ) تھی؛ کبرت کلمۃ تخرج من افواھھم آن یقولون الا کذبا۔
جس طرح شیعہ صحابہ کو بے ایمان اور مرتد سمجھنے میں جھوٹے ہیں،اسی طرح فراہی گروہ مذکورہ صحابہ و صحابیات کو غنڈہ، آوارہ منش اور اوباش سمجھنے میں جھوٹے ہیں؛ فلعنۃ اللہ علی الکاذبین۔ علاوہ ازیں دونوں کا نظریہ کسی دلیل پر مبنی نہیں ہے بلکہ اپنے گھڑے ہوئے نظریے اور ہٹ دھرمی پر قائم ہے؛ فتشابھت قلوبھم وافکارھم، اللّھم لاتجعلنا منھم ۔
سارا اسلام ہی دین فطرت ہے، نہ کہ چند احکام
یہاں تک الحمدللہ غامدی صاحب کے ضروری نکتوں پر بحث کر کے ان کی حقیقت واضح کر دی ہے؛ اب دو پہلو تشنہ تفصیل رہ گئے ہیں؛ان پر بھی ضروری حد تک مختصراً گفتگو مناسب معلوم ہوتی ہے تاکہ ان پہلوؤں سے بھی وہ نا پختہ ذہنوں کو گم راہ نہ کر سکیں۔
ان میں پہلانکتہ ، ان کا وہ نقطہ انحراف ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب رسالت ۔تبیین قرآنی ۔کے مسلمہ مفہوم کے انکار پر مبنی ہے؛اہل اسلام میں اس کامسلمہ مفہوم جو چودہ سو سال سے مسلم چلا آرہا ہے،یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے عموم میں تخصیص کر سکتے ہیں۔اس کو بعض لوگوں نے نسخ سے بھی تعبیر کیا ہے ؛ مرادان کی بھی تخصیص ہی ہے؛ صرف اصطلاح کا فرق ہے۔اس کی متعدد مثالیں ہم اپنے مضمون کے آغاز میں پیش کر آئے ہیں؛یہ ایسے احکام ہیں جو صرف احادیث رسول سے ثابت ہیں؛ قرآن میں ان کا ذکر نہیں ہے؛ انھی میں سے ایک رجم کے حد شرعی کا حکم ہے ؛ اہلِ اسلام ان کو بھی اسی طرح مانتے ہیں جیسے قرآنی احکام کو مانتے ہیں۔فراہی گروہ ایسے احکام حدیثیہ کو قرآن پر زیادتی (قرآن میں اضافہ)، قرآن کے خلاف اور قرآن میں تغیروتبدل قرار دیتا ہے؛جب ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ سب صحیح احادیث میں موجود ہیں جس کا مطلب ہے کہ رسول کے فرامین اور عمل سے ثابت ہیں تو اس گروہ نے کہاکہ یہ سب فطرت کا بیان ہیں؛ یہ نہ قرآن میں اضافہ ہے اور نہ شریعت کا حصہ ہے کیوں کہ اضافہ کرنے کا حق تو رسول کو بھی نہیں ہے حالانکہ اہل اسلام کے نزدیک یہ اضافہ نہیں؛ آپ کے منصب رسالت کا تقاضا ہے۔
اپنے اس نظریہ فطرت پر بھی غامدی صاحب نے لا طائل بحثیں کی ہیں ؛ ان کے مذکورہ دلائل کا نقد و محاکمہ کرنے کے بعد ہمارے نزدیک اس پر بحث غیر ضروری ہے تاہم اس مسئلے میں ہم یہ ضرور عرض کریں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو دین اسلام لے کر آئے ، اسے دین فطرت بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اسلام کی تعلیمات انسانی فطرت کے مطابق ہیں؛ قرآن کریم کی اس آیت میں بھی اسی بات کا بیان ہے:
فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا
’’اس دین کی پیروی کرو جس پر اللہ نے لوگوں کوپیدا کیاہے۔‘‘
فطرت کے اصل معنی خلقت (پیدایش )کے ہیں ؛ یہاں مراد ملت اسلام ( و توحید)ہے ؛ مطلب یہ ہے کہ سب کی پیدایش، بغیر مسلم وکا فر کی تفریق کے ، اسلام اور توحید پر ہوئی ہے ؛ اسی لیے توحید انسان کی فطرت ، یعنی جبلت میں شامل ہے جس طرح کہ عہدالست سے واضح ہے، لیکن فطرت یعنی اسلام و توحید پر پیدا ہونے کے باوجود انسانوں کی اکثریت کو ماحول یا دیگر عوارض، فطرت کی اس آواز کی طرف نہیں آنے دیتے جس کی وجہ سے وہ کفر ہی پر با قی رہتے ہیں ؛ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے :
’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی، عیسائی یا مجوسی (وغیرہ)بنا دیتے ہیں۔‘‘ (الحدیث۔ بخاری، رقم 4775؛مسلم، رقم 2658)
ایک اور حدیث کا ترجمہ حسب ذیل ہے؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سنو ! میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس نے مجھے میرے آج کے دن میں جو کچھ سکھایا ہے، تمھیں اس میں سے کچھ وہ باتیں سکھاؤں جن سے تم واقف نہیں ہو۔(اللہ فرماتاہے)ہر وہ مال جومیں نے کسی بندے کو عطا کیا ہے،وہ حلال ہے اور میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف (اللہ کے طرف یک سو ہو جانے والا) پیدا کیا ہے( لیکن اس کے بعد ہوا یہ کہ)ان کے پاس شیاطین آئے اور انھوں نے ان کو ان کے دین (فطرت)سے پھیر دیا اور ان کے لیے وہ چیزیں حرام کر دیں جو میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں اور انھوں نے ان کو حکم دیا کہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک بنائیں جن کی میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔‘‘ (مسلم، رقم 2865)
قرآن کی آیت سے معلوم ہوا کہ تمام انسانوں کی پیدایش فطرت یعنی اسلام اور توحید پر ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کے اندر اس کا شعور رکھا گیا ہے تاکہ وہ آسانی سے دین اسلام کو بھی اختیار کر لیں اور عقیدۂ توحید سے بھی انحراف نہ کریں لیکن ماحول (جہاں انسان پیدا ہوا اور وہاں پلا بڑھا ) اس دین کو اسلام کے بجاے دوسرے ادیان کی طرف کھینچ لے جاتاہے اور وہ یہودی ،عیسائی، ہندووغیرہ بن جاتے ہیں۔ دوسرے ،شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے ؛ وہ بھی انسانوں گم راہ کرنے پر تلارہتاہے اور انسان اس کے جل میں پھنس جاتے ہیں اور توحید کے بجاے شرک کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔ (احادیث کی بنیاد پر اگر اس مفہوم سے انکار ہے تو اپنے ’استاذ امام ‘ کی وہ تفسیر پڑھ لیں جو اس آیت کے تحت انھوں نے کی ہے اور یہی مفہوم بیان کیاہے۔) اور ان احادیث سے یہ واضح ہوا کہ صرف فطرت کی راہ نمائی کافی نہیں ہے ؛ اسی لیے اللہ نے اس فطری شعور کو اجاگر اور واضح کرنے کے لیے آسمانی کتابوں اور انبیا و رسل کاسلسلہ قائم فرمایا۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اس سلسلہ رشد و ہدایت اور وحی ورسالت کے ذریعے سے جو تعلیمات و ہدایات انسانوں کو دی گئیں،ان کو بیان فطرت نہیں بلکہ بیان شریعت کہا گیا ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْن ۔۔۔ الآیۃ۔
اس لیے پیغمبر کی بعض باتوں کو شریعت ماننااور اور بعض کی بابت غامدی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’یہ بیان فطرت ہے؛ لوگوں نے اس کو بیان شریعت سمجھ لیا ہے‘‘ کیسی عجیب بات ہے ؟ دین یا قرآن تو سارا ہی بیان فطرت ہے جیسا کہ آیت مذکور سے واضح ہے؛کیاماحول اور شیطان کی کارستانی سے جو فطرتیں مسخ ہو جاتی ہیں،ایسی فطرتوں کو ان کی اصل فطرت کی یاددہانی کے لیے جو شریعتیں نازل ہوتی رہی ہیں ،کیا وہ دوحصوں پر مشتمل ہوتی تھیں : ایک حصہ بیان فطرت کا اور دوسرابیان شریعت کا ؛ اس تفریق کی بنیاد کیا ہے؟جس طرح احکام شریعت کے جانچنے اور پرکھنے کے لیے کسی کی عقل معیار نہیں ہو سکتی،اس طرح کسی شخص کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی سمجھ کے مطابق شریعت کے بعض احکام کو شریعت قرار دے اور جس کوچاہے شریعت ماننے سے انکار کر دے اور دعویٰ کرے کہ یہ تو بیان فطرت ہے ؛یہ حق حمید الدین فراہی یا مولانا اصلاحی یا غامدی کو کس نے دیا ہے کہ وہ رسول کی احادیث کو جو تبیین قرآنی پر مبنی ہیں، ان کو قرآن میں اضافہ یا قرآن میں رد وبدل قرار دے یا ان کی بابت یہ کہے کہ یہ شریعت کا بیان نہیں،فطرت کا بیان ہے؟
شریعت کو اپنے خیال کے مطابق دو حصوں میں تقسیم کرناکہ یہ شریعت ہے اور یہ فطرت ہے؛یہ بھی تو انسانی عقل ہی کی کار فرمائی ہے؛ اگر آج یہ حق فراہی عقل کو دے دیا گیااور ان کی عقل کے مطابق کچھ احکام کی شرعی حیثیت کو ختم کر دیا گیا تودوسرے منکرین حدیث کا بھی یہ حق تسلیم کر لیاجانا چاہیے جس کی رْو سے وہ کہتے ہیں کہ زکاۃ وصلاۃ اور بہت سے مسلمات اسلامیہ کا وہ مفہوم نہیں ہے جو چودہ سو سال سے امت مسلمہ سمجھتی اور عمل کرتی آرہی ہے؛دین تو پھر ان عقلی بازی گروں کی وجہ سے جس کی بنیاد انکار حدیث پر ہے ، بازیچہ اطفال بن کررہ جائے گا۔
اس لیے امت مسلمہ نے یہ حق آج سے صدیوں قبل معتزلہ،جہمیہ،قدریہ وغیرہ منکرین حدیث اور عقل و دانش کے دعوے داروں کو نہیں دیاجس کی وجہ سے اصل دین الحمدللہ محفوظ ہے؛ تو یہ حق آج کے منکرین حدیث اور نظم قرآن کے نام پر فہم قرآن کے ٹھیکے دار وں کو بھی نہیں دیا جا سکتا؛مذکورہ فرقے جیسے کچھ عرصہ اپنی عقلی شعبدہ بازیاں دکھا کر تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئے،اس گروہِ کاجدید انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہو گا اوران کی فکری ترک تازیوں اور احادیث پر چاند ماری سے دین جو قرآن اور حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے، محفوظ رہے گا؛ اس لیے کہ اس کی حفاظت ہمہ شما کے ذمے نہیں ہے بلکہ خود اللہ نے اس کی حفاظت کاذمہ لیاہے،اور ان اللہ لا یخلف المیعاد۔
روایات رجم میں خردہ گیری ، ہندواور شیعہ کی خردہ گیریوں کی طرح ہے
دوسرا نکتہ جس کی ضروری وضاحت بھی ناگزیر ہے ، وہ یہ ہے کہ غامدی صاحب نے رجم کی ان احادیث کو جو احادیث کے صحیح مجموعوں میں صحیح سندوں کے ساتھ محفوظ ہیں، ان سب کو باہم متنا قض اور ناقابل اعتبار دے کر کنڈم کر دیا ہے حالانکہ یہ وہ روایات ہیں جو صدیوں سے اہل علم میں متداول ہیں؛کسی کو ان میں ایسا باہم تناقض اور تضاد نظر نہیں آیا جس کی توجیہ یا ان میں تطبیق نا ممکن ہو لیکن جب یہ روایات فراہی صاحب کے خانہ ساز نظریہ رجم کے خلاف تھیں تو ان سب کو ناقابل اعتبار قرار دینا ناگزیر ہو گیا کیونکہ اس کے بغیران کے بے بنیاد نظریے کااثبات یک سر نا ممکن تھا ؛ چناں چہ اس ’عظیم خدمت ‘ کی ‘سعادت ‘ ع ’’قرعہ فال بہ نام من دیوانہ زدند ‘‘ کے مصداق غامدی صاحب کے حصے میں آئی جس پر ان کے مریدان با صفا کو بجا طورپر صداے اَحسنتَ کے ساتھ مل کر یہ پڑھنا چاہیے:
ایں سعادت بہ زور بازو نیست
تا نہ بخشد خداے بخشندہ
لیکن ہمیں یہ ساری بحث جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فرامین اور فیصلوں کو نہایت بے دردی سے دفتر بے معنی ثابت کرنے کی مذموم سعی کی گئی ہے،پڑھتے ہوئے بار بار ایک ہندو پنڈت کی تحریر کردہ کتاب ’ستیارتھ پرکاش‘ایک سوامی دیا نند (ہندو)کی کتاب ’رنگیلا رسول ‘ اور ایک شیعہ مصنف کی تحریرکردہ کتاب ’سیرت عائشہ ‘ جیسی کتابیں لوح حافظہ پر ابھر ابھر کر سامنے آرہی تھیں اور یہ شرح صدرحاصل ہو رہا تھا کہ جب کوئی شخص یہ ٹھان ہی لے کہ میں نے فلاں چیز کو نا کا رہ ثابت کرنا ہے،فلاں کتاب میں کیڑے نکالنے ہیں تو پھر شیطان اس کو ایسے ایسے گر، ایسے ایسے نکتے اور ایسی ایسی ترکیبیں سجھاتا ہے کہ وہ اپنے ناپاک خاکے میں رنگ روغن بھرنے میں بہ ظاہرکام یاب نظر آتاہے۔
’ستیارتھ پرکاش ‘ میں کیا ہے؟ قرآن مجید پر سیکڑوں اعتراضات ہیں؛ اس کی آیتوں کو باہم متناقض ثابت کیاگیا اور ہر طرح کی خرافات قرآن کے ذمے لگائی گئی ہیں۔ ’رنگیلا رسول ‘میں کیاہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت پاکیزہ شخصیت کو ازواج مطہرات اور تعدد ازدواج کے حوالے سے رنگیلا مزاج ثابت کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی جزاے خیر دے مولانا ثناء اللہ امرتسری کو جنھوں نے ان دونوں کتابوں کا مدلل اور نہایت مسکت جواب دیاجن کا نام ’حق پر کاش ‘اور ’مقدس رسول ‘ہے۔
شیعہ مصنف کی کتاب ’عائشہ‘ یا ’سیرت عائشہ‘ کیا ہے؟ اس میں احادیث کی کتابوں سے حضرت عائشہ کی شخصیت کو داغ دار اور ایسے کریہہ اندازمیں پیش کیاگیاہے کہ ایک سنی مسلمان کا خون کھول اٹھتا ہے۔
ہمیں یہ کہتے ہوئے خوشی نہیں ؛بہ صد حسرت وغم کہنا پڑرہاہے کہ غامدی صاحب بھی مذکورہ اصحاب ثلاثہ کی صف میں شامل ہو گئے ہیں اور جس طرح وہ اپنی کتابوں پر نازاں ،شا داں وفرحاں تھے،غامدی صاحب بھی اپنی اس ’تصنیف کثیف‘ یا ’سعیِ غلیظ ‘کو ایک بڑااعزازسمجھتے ہیں اور واقعی ان کا یہ ’کارنامہ ‘ اتنا ’عظیم ‘ہے کہ وہ اہل استشراق، منکرین حدیث اور قرآن کے نام پر ایک تازہ شریعت ایجاد کرنے والو160ں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ان کے راستے کے ایک سنگ گراں کو ان کے نا پاک راستے سے ہٹا کر اس پر بگٹٹ دوڑانے کے لیے راستہ ہموار کر دیا گیا ہے:
ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کنند
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں؟
سچ ہے جس نے کہا :
وعین الرضا عن کل عیب کلیلۃ
ولکن عین السخط تبدی المساویا
’’رضامندی کی آنکھ سے دیکھا جائے تو کوئی عیب نظر ہی نہیں آتا اور ناراضی کی آنکھ کو سوائے عیب کے کچھ نظرنہیں آتا۔‘‘
(جاری)