(ا)
محترم قارئین الشریعہ اور اکابر تبلیغ ،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتی محمد عیسیٰ خان صاحب گورمانی کی کتاب ’’کلمۃ الہادی الیٰ سواء السبیل‘‘ پر تقریظ کے نام سے میرا ایک خط چھپا ہے۔ میںیہ وضاحت کر دیناضروری سمجھتا ہوں کہ یہ تقریظ نہیں، بلکہ میرا ذاتی خط ہے جومیں نے مفتی محمدعیسیٰ صاحب کو اس کتاب پر تبصرہ کی خواہش پر تحریرکیا اور محض ازراہ تفنن طبع کچھ جملے مزاح کے شامل کیے گئے۔ خط کے آخر میں مولانا کویہ مشورہ دیا گیا تھا کہ نہ اس خط کو شائع فرمائیں اور نہ ہی کتاب شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ہمارا اپنانقصان ہے۔ صرف ایک شخصیت کی تقریروں کی وجہ سے پوری جماعت کو لپیٹ میں لے لینا ہمارے اکابر کی روایت نہیں۔
مجھے افسوس ہے کہ مفتی صاحب مدظلہ العالی نے میر اذاتی خط عوام کے لیے شائع فرماکر غلطی کی ہے۔ میں تبلیغی جماعت کے اکابر کادل وجان سے احترام کرتا ہوں۔ جماعت کا کام قابل تعریف ہے اور علمائے کرام شاید وہ کام نہیں کر سکے جو تبلیغی جماعت نے گزشتہ ستر سال میں کیا ہے۔ کوتاہیاں کہاں نہیں ہوتیں۔ تبلیغی جماعت کے اصحاب خطا سے پاک نہیں۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو معصوم نہیں سمجھتے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ افراد کی کمزوریوں کو پوری جماعت کے نظام کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ’’کلمۃ الہادی‘‘ کے چھپنے سے کوئی دینی خدمت نہیں ہوئی، بلکہ اس سے مخالفین جماعت کو فائدہ پہنچا ہے۔
قاضی محمد رویس خان ایوبی
رئیس مجلس افتاء، آزاد جموں وکشمیر
(۲)
گرامی قدر جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج شریف!
ماہنامہ الشریعہ کا باقاعدہ قاری ہوں۔ آپ نے آزادانہ علمی بحث کے ذریعے مسائل کو سمجھنے کا بہترین طریقہ اختیار کیا ہے جو قابل قدر ہے۔ بعض حضرات کی بے جا تنقیدسے دل برداشتہ نہ ہوں اوریہ سلسلہ جاری رکھیں۔
تازہ شمارہ (مئی/جون ۲۰۰۹ء) میں مولانا مفتی محمد طیب صاحب صدر جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کی گفتگو شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے ’’اختلاف امتی رحمۃ‘‘ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے جبکہ یہ درست نہیں ہے، کیوں کہ تمام محدثین اس بات پرمتفق ہیں کہ یہ کوئی حدیث نہیں ہے۔ حتی کہ صحیح، ضعیف اور موضوع سند کے ساتھ بھی اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ’’ونقل المناوی عن السبکی انہ قال: ولیس بمعروف عندنا ولم اقف لہ علی سند صحیح ولا ضعیف ولا موضوع، واقرہ الشیخ زکریا الانصاری فی تعلیقہ علی’’ تفسیر البیضاوی‘‘۔
امیدہے کہ اس کی تصحیح فرما دیں گے تاکہ غلط فہمی دور ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ حق کو جاننے اور عمل کی توفیق سے نوازے۔ آمین۔ احباب کو سلام۔
(مولانا) محمد یاسین ظفر
پرنسپل جامعہ سلفیہ ، فیصل آباد
(۳)
مکرمی پروفیسر محمد اکرم ورک صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے کہ مزاج شریف بخیر ہوں گے۔ مارچ ۲۰۰۹ء کے ’الشریعہ‘ میں چھپنے والے آپ کے مضمون ’’حضرت مجدد الف ثانیؒ کا منہج واسلوب‘‘ کی بعض عبارات کی وجہ سے ذہن میں کچھ الجھاؤ کی سی کیفیت پیدا ہونے کی وجہ سے آپ سے مختصر سی بات ہوئی اور بعدمیں مدیر الشریعہ جناب عمار خان ناصر صاحب سے بھی بات ہوئی۔ مدیر صاحب کے حکم پرکچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ آپ ٹھنڈے دل سے مطالعہ فرما کر نہایت ہی شفقت کے ساتھ جواب سے نوازیں گے۔
آپ نے لکھا ہے:
’’ ہندوستان میں شیخ مجدد ؒ کے سامنے کئی محاذ فوری توجہ کے متقاضی تھے۔ ایک تو یہ کہ نام نہا د صوفیا کی پھیلائی ہوئی گمراہیوں کا قلع قمع کر کے اسلام کو اس کی اصل اور حقیقی شکل وصورت میں پیش کیا جائے۔‘‘ ( الشریعہ، مارچ ۲۰۰۹ء ص ۱۳)
ہندوستان کی داخلی صورت حال کے تحت آپ نے لکھاہے: ’’داخلی فتنوں میں نام نہاد صوفیا کی تعلیمات اسلامیان ہند کے لیے گمراہی کا سبب بن رہی تھیں۔ کچھ نام نہاد اہل تصوف ہندو فلسفہ کو اسلام کے پیراہن میں پیش کر رہے تھے۔‘‘ (ایضاً ص ۱۱)
اسی صفحہ پر آپ نے اٹک کے ملا محمد کے وضع کر دہ عقیدہ ذکری اور بایزید المعروف ’’پیر روشن‘‘ مدعی نبوت کے وضع کردہ ’’فرقہ روشنائیہ‘‘ اور سید محمد جونپوری کی تحریک’’ مہدویت‘‘ کو اور احمدنگر کے والی سلطنت برہان نظام شاہ کے شیخ طاہر بن رضی اسماعیلی قزوینی کے زیر اثر آ کر شیعہ مذہب قبول کرلینے اور خلفائے ثلاثہ پر علی الاعلان تبرا کرنے اور کروانے اور کشمیر میں میر شمس الدین عراقی کے شیعیت کو فروغ دینے اور شہنشاہ ہمایوں کے دل میں شیعوں کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو جانے کو ’’نام نہاد صوفیاء‘‘ کی پھیلائی ہوئی گمراہی کانتیجہ قرار دیا ہے۔
کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ مذکورہ بالا جملہ نتائج کے حصو ل کے لیے کوشش کرنے والے ’’نام نہاد صوفیاء‘‘ کے ہجوم میں سے بہت زیادہ مشہور صرف پانچ صوفیوں کے نام کیا ہیں؟ ہر نام کے ساتھ اس کے سلسلہ طریقت کا نام اور درگاہ کا نام جس سے وہ ’’نام نہاد صوفی‘‘ منسوب ومشہور ہو، ضرور بتائیں تاکہ ہم جان سکیں کہ سلسلہ نقشبندیہ، سلسلہ قادریہ، سلسلہ سہروردیہ، سلسلہ چشتیہ اور سلسلہ اویسیہ کے کس کس نام نہاد صوفی اور سجادہ نشین نے کس کس درگاہ وآستانہ سے مذکورہ بالا نتائج باطلہ کے حصو ل کے لیے اتنا زیادہ کام کیا کہ پورا ہندوستان ہی گمراہی کی اتھا ہ گہرائیوں اور تاریکیوں میں بھٹکتا پھر رہا تھا؟ ہم تو مذکورہ بالا جملہ عیوب اور اہل تصوف میں خلیج کالامتناہی سلسلہ تصور کرتے ہیں۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ ہماری غلط فہمی کا ازالہ فرماکر احسان عظیم سے نواز یں اور ہمیں بتا دیں کہ حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ نے مکتوبات شریف میں یا اپنی کس کتاب کے کس صفحے پر مذکورہ بالاجملہ عیوب ونتائج باطلہ کو نام نہاد صوفیا سے منسوب کیا ہے؟
حکیم الامت حضر ت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:
’’اولیائے امت ؒ کا وجود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمیشہ رہنے والے معجزات ہیں کہ انہی کی برکت سے لوگوں کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں، انہی کی بدولت شہروں سے بلائیں دفع کی جاتی ہیں، انہی کی دعاؤں سے حق تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے اور انہی کے وجود کی برکات سے عذاب دفع کیے جاتے ہیں۔‘‘ ( جمال الاولیاء، ص ۲۳)
کس قدر دکھ کی بات ہے کہ گمراہی پھیلانے والے ’’نام نہاد صوفیاء‘‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے آپ نے چشتی نظامی سلسلہ کے مشہور شیخ شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی کا تذکرہ کیا ہے اور ثبوت کے طو ر پر حضرت ؒ کے ان خطوط کا تذکرہ پروفیسر خلیق احمد نظامی کی کتاب تاریخ مشایخ چشت، ص۴۱۸ کے حوالے سے کیاہے جو انہوں نے اپنے خلیفہ خاص حضرت شیخ نظام الدین اورنگ آبادی کی طرف تحریر فرمائے تھے کہ مجددی خاندان کے صاحبزادوں کی موجودگی کو ملحوظ رکھتے ہوئے سماع وقوالی کی مجالس کے انعقاد میں احتیاط برتی جائے تاکہ مجددی شہزادوں کو گراں نہ گزرے۔ (الشریعہ ، مارچ ص۱۳) احقر نہایت ہی ادب سے عرض کرتا ہے کہ کیا آپ شیخ شاہ کلیم اللہ ؒ کی گمراہ کن سرگرمیوں میں کچھ روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے؟ اگر انہیں تو پھر ایسی تلخ مثال دینے کے لیے صرف اسی بزرگ ہستی کا انتخاب کیوں فرمایا؟
شاہ جیؒ کا اپنے خلیفہ کو احتیاط کا حکم صادر فرمانا تو اضع کے طور پر تھا کہ یہی صوفیا ء کرام کی شان ہے کہ دوسرے سلسلہ کے صوفی کے سامنے طریقت کے اختلافی امور سے اجتناب فرماتے تھے۔ صوفیاء کرام میں مولویانہ تشدد نہیں ہوتاکہ جہاں دیکھا مناظروں کے دنگل جمالیے۔ مکتوبات شریف میں حضرت مجدد الف ثانیؒ نے دوسرے سلاسل کے اختلافی اعمال کی بھی اچھائیاں بیان فرماتے ہوئے سلسلہ نقشبندیہ میں شمولیت کی ترغیب فرمائی ہے۔ اس ضمن میں مکتوبات شریف حصہ چہارم دفتر اول کے مکتوب نمبر ۲۶۰ کا بغور مطالعہ فرمائیں جو آ پ ؒ نے حضرت میاں شیخ محمدصادق ؒ کی طرف تحریر فرمایا تھا۔ آپ ؒ فرماتے ہیں:
’’ اے فرزند ! جان لے کہ جب طریقہ نقشبندیہ میں سیر کی ابتدا قلب سے ہے جو عالم امر سے ہے تو بات کی ابتدا بھی عالم امر سے کی گئی۔ برخلاف مشایخ کرام کے باقی طریقوں کے جو شروع میں تزکیہ نفس کرتے ہیں اور قالب یعنی وجود کو پاک فرماتے ہیں اور بعد ازاں عالم امر میں آتے ہیں اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کومنظورہو، اس میں عروج کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی نہایت ان بزرگوں کی بدایت میں مندرج ہے اوریہ طریق سب طریقوں سے اقرب ہے۔‘‘
دیکھیے کس قدر کمال، خوبصورتی اور حکمت کے ساتھ حضرت شیخ مجددؒ نے دوسرے سلاسل میں بھی نورانیت کوتسلیم کرتے ہوئے سلسلہ نقشبندیہ کو اقرب قرار دیا ہے۔ اسی کو صوفیا تواضع کہتے ہیں جس کاعملی ثبوت چشتی نظامی سلسلہ کے مذکورہ بالا بزرگ ؒ نے دیا تھا، لیکن افسوس کہ آپ نے کہاں کی بات کو کہاں لا کر چسپاں کر دیا۔
حضرت شیخ مجدد نے مکتوبات شریف میں کچھ مقامات پر علما سے بے شک اختلاف کیاہے، لیکن کسی ایک جگہ بھی کسی نام نہاد صوفی کوتنقیص وتنقید کانشانہ نہیں بنایا، کیوں کہ طریقت کے چاروں سلاسل کی خلافت سے فیض یاب صوفیاء عوام کے قلوب پر حکمرانی کرتے ہیں۔ آپ نے پورے مضمون میں کسی ایک مقام پر بھی صوفیاء کرامؒ کی خدمات اسلام کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ نام نہاد صوفیا کہہ کر تصوف کی تردید ہی کی ہے۔
آپ کو بخوبی معلوم ہو گاکہ نقشبندیوں اور چشتیوں کے مابین سماع اور اس کی جزئیات مثلاً مزامیر اور رقص اور ذکر بالجہر وغیرہ پر اختلاف پایا جا تاہے۔ مجددی صاحبزادوں کے جذبات کااحترام کرتے ہوئے چشتی صوفی بزرگ شیخ کلیم اللہ ؒ جہاں آبادی نے اپنے خلیفہ صاحب کو نقشبندیوں اور چشتیوں کے درمیان اختلاف کو ہوا دینے والے امور کے متعلق احتیاط برتنے کا حکم صادر فرمایا تھا، نہ کہ ان امور سے منع کیا یا انہیں غلط قرار دیا۔ مزامیر کے ساتھ سماع چشتیوں میں ہنوز جاری ہے، لیکن صوفیاء کرام اب بھی ایک دوسرے کے جذبات کااحترام کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیتے ہیں۔
آپ نے لکھا ہے کہ:
’’ شیخ مجدد الف ثانی ؒ نے اپنے مکتوبات میں بدعت حسنہ کے تصور کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس طرز فکر کو دین کی بنیادیں منہدم کرنے کے مساوی قرار دیا۔‘‘ ( الشریعہ ص ،۱۳)
شیخ مجدد ؒ نے مکتوبات شریف میں بدعات حسنہ کو دین کی بنیادیں منہدم کرنے کے مساوی کس جگہ قرار دیا ہے؟ لغوی اعتبار سے بدعت ہر اس نئی چیز یاعمل یا عقیدہ کو کہا جاتا ہے جس کاوجود پہلے سے ثابت نہ ہو۔ مثلاً کلام الٰہی کے تیس پارے بنائے گئے۔ ہر پارہ میں رکوع قائم کیے گئے، قرآن کریم پر اعراب لگائے گئے، بلاک بنا کر چھاپنے اور جلد بندی کا کام شروع ہوا۔ حدیث شریف کو کتابی شکل دے کر احادیث کے مختلف مجموعہ جات کو مختلف نام دینا، احادیث کی اسناد بیان کرنا اور راویوں پر جرح کر کے ان کی قسمیں اور درجات یعنی صحیح وحسن وضعیف و معضل ومرفوع وغیرہ بنانا، غرض علم حدیث کامکمل فن اورفقہ کے اصول اور علم کلام اوران کے تمام قاعدے ضابطے اور نماز کے لیے زبان سے بول کر نیت کرنا اور رمضان شریف میں بیس تراویح ادا کرنا، ایمان مجمل اور ایمان مفصل یاد کرنا اور کروانا، حج کے لیے اونٹوں کی بجائے بحری وہوائی جہازوں اور کاروں وبسوں پر بیٹھ کرسفر کرنا اور طریقت کے جملہ سلاسل ومشاغل اور مسائل، مراقبے، چلہ کشی وپاس انفاس اور تصور شیخ اور شریعت کے چار وں سلسلے حنفی، شافعی ،مالکی اور حنبلی اورسلاسل طریقت قادری وچشتی وسہروردی اورنقشبندی اور دینی مدارس اورطریقہ حفظ قرآن اور اولیا کے عرس کا اہتمام کرنا، ختم بخاری ودستار بندی اور مساجد میں با تنخواہ امام وموذن مقرر کرنا، مساجد کے گنبد ومینار اوررائے ونڈ اورشیرشاہ بائی پاس ملتان میں بڑے بڑے تبلیغی اجتماعات کرنا، آٹھ سالہ دورہ حدیث، درس نظامی اوراس کا تمام لٹریچر اور کتب نحو وصرف اور اسناد کا اجرا وغیرہ، ان تمام کاموں کو بدعات حسنہ کہا جاتا ہے۔
جب آ پ سے فون پر بات ہوئی تو آ پ نے فرمایا تھا کہ حضرت مجددؒ بدعت حسنہ کو نہیں مانتے تھے۔ مہربانی فرما کر حضرت مجدد ؒ کی ان تحریرات وملفوظات ومکتوبات کے مکمل حوالے بتا دیجیے جہاں شیخ مجددؒ نے مذکورہ بالا جملہ امور کا رد لکھا ہو، جیسا کہ حضرت ؒ نے زبان سے بول کر نماز کی نیت کرنے اور کفن میں پگڑی کے اضافے اور دستار کے شملے کو دائیں جانب چھوڑنے اور تشہد میں انگلی کھڑی کرنے پر کلام فرمایا ہے۔ کیا امام ربانیؒ نے طریقت کے چار سلاسل قائم کرنے اور تصور شیخ اورفقہ کے چاروں سلاسل اور کتب احادیث کی تدوین و درجہ بندی اور مندرجہ بالا دیگر بدعات حسنہ کا انکار کیا ہے؟ اگر نہیں اور واقعی نہیں تو پھر آپ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مجدد ؒ بدعت حسنہ کو نہیں مانتے بلکہ اسے دین کی بنیادیں منہدم کر دینے کے مساوی قرار دیتے ہیں؟
ہو سکتا ہے جواباً آپ حضرت مجددؒ کی یہ عبارت پیش کریں:
’’کہنے والوں نے کہا ہے کہ بدعت دوقسم ہے، حسنہ اور سیۂ۔ حسنہ اس نیک عمل کانام رکھتے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے خلفاء راشدینؓ کے زمانہ کے بعد پیداہوئی ہو اور کسی سنت کو اٹھانے اور دور کرنے والی نہ ہو۔ اورسیۂ اس کو کہتے ہیں جوسنت کو مٹانے اور دور کرنے والی ہو۔ یہ فقیر ان بدعتوں میں سے کسی بدعت کے اندر حسن ونورانیت کا مشاہدہ نہیں کرتا اور ظلمت وکدورت کے سوا کسی شے کا احساس نہیں ہوتا۔‘‘ (مکتوبات شریف حصہ سوم، دفتر اول، مکتوب نمبر ۱۸۶)
سوچنے کی بات ہے کہ حضرت شیخ مجددؒ ایک طرف تو بدعت کی کسی قسم میں بھی نورانیت وحسن نہیں پاتے، جب کہ دوسری طرف شریعت وطریقت کے جملہ سلاسل کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ بذات خود سلسلہ نقشبندیہ سے نہ صرف منسلک ہیں بلکہ مکتوبات شریف میں جابجا اس میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں اورتصور شیخ کومرید کے لیے ذکر الٰہی سے بھی بڑھ کر نافع قرار دیتے ہیں۔ (مکتوبات، حصہ سوم، دفتر اول، مکتوب ۱۸۷) حالانکہ یہ کام نہ تو آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اورنہ ہی صحابہؓ سے اورنہ ہی تابعین سے ثابت ہیں۔ تو پھر کیا خاکم بدہن حضرت شیخؒ کے قول وفعل میں تضاد تھا؟ ہر گز، نہیں بلکہ جسے علماء اسلام بدعت حسنہ قرار دیتے ہیں، اسے حضرت ؒ سرے سے بدعت ہی تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے سنت سے ثابت سمجھتے ہیں۔ باقی رہ گئی بدعت ضلالہ تو س میں حسن ونورانیت کہاں سے آسکتی ہے؟ کیوں کہ بدعت اسی کو کہتے ہیں جو پہلے سے ثابت نہ ہو۔
آپ نے جویہ لکھا ہے، آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ ’’بدعت حسنہ کے نام پر ہر طرف بدعات ضلالۃ کاسیلاب بہہ رہا تھا‘‘( الشریعہ، ص ۱۱) ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت مجددؒ نے بدعت حسنہ کی مخالفت نہیں کی بلکہ بدعت حسنہ کا مقدس نام لے کر پیش کی جانے والی بدعات ضلالہ سے بیزاری کا اظہار فرمایا تھا۔ اندریں حالات حضرت مجددؒ نے بدعت حسنہ کی اصطلاح سے اجتناب فرمایا اور علماء اسلام کے موقف کو تقویت دینے کے لیے بدعت حسنہ کو سنت قرار دیا۔
ملا طاہر لاہوری کے نام مکتوب شریف میں حضرت مجدد ؒ نے برملا فرمایا ہے کہ:
’’سنت اور بدعت دونوں پورے طو ر پر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک کا وجود دوسرے کے نقص ونفی کو مستلزم ہے، پس ایک کو زندہ کرنا دوسرے کو مارنے کو مستلزم ہے۔ یعنی سنت کو زندہ کرنا بدعت کے مارنے کا موجب ہے اوربالعکس۔ پس بدعت خواہ اس کو حسنہ کہیں یا سیۂ، رفع سنت کو مستلزم ہے۔ ‘‘( مکتوبات، حصہ چہارم، دفتر اول، مکتوب ۲۵۵)
غور فرمائیں کہ مجددؒ نے کس قدر وضاحت کے ساتھ بتادیا ہے کہ ان کے نزدیک بدعت صرف اور صرف وہی ہے جو سنت کی ضد ہو نہ کہ سنت کے تحت یا اس کے مطابق۔ حضرت مجددؒ اسے بدعت تسلیم ہی نہیں کرتے جس کا اشارہ تک بھی سنت میں ملتا ہو۔ یعنی علمائے اہل سنت بدعت حسنہ اسے کہتے ہیں جس کی اصل سنت میں موجود ہو، گو اشارۃً ہی ہو۔ اس کی بہترین مثال حضرت فاروق اعظمؓ کا وہ قول ہے جو انہوں نے تراویح کی باقاعدہ جماعت کے اجرا پر فرمایا تھا کہ ’’ نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ تو بڑی اچھی بدعت ہے۔ تراویح کی جماعت کی اصل سنت نبوی میں ہونے کے باوجود حضرت فاروق اعظمؓ نے اس پر لفظ بدعت کا اطلاق فرمایا۔ امیرالمومنینؓ کی اتباع میں ہم اہل سنت اس کے مماثل امور کو بدعت حسنہ کہتے ہیں، لیکن حضرت مجدد ؒ اس کے لیے سنت کا لفظ زیادہ موزوں قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ سے کہ حضرت مجددؒ نے قیاس اور اجتہاد فقہی کو بدعت حسنہ کہنے کی سخت مخالفت فرمائی۔ (دیکھیے مکتوبات، حصہ سوم، دفتر اول، مکتوب ۱۸۶) یعنی آپ اسے بھی سنت میں داخل سمجھتے ہیں کیوں کہ قیاس اور اجتہاد کی بھی کچھ نہ کچھ اصل صدر اول میں ضرور ہوتی ہے۔ لہٰذا حضرت مجددؒ اسے سنت ہی قرار دیتے ہیں۔ اس طرح مجددصاحب ؒ اور اسلاف اہل سنت کی بات میں کوئی تضاد یا اختلاف نہیں ہے۔
حضرت مولانا سعید احمد نقشبندیؒ نے اس مکتوب کے حاشیہ میں علامہ محمد مراد مکی محشی کی اسی مکتوب کے تحت حاشیہ میں لکھی گئی عبارت پیش کی ہے کہ:
’’اور اس بارے میں آپ ؒ کا قول علماء اسلاف ؒ کے اس قول کے مخالف نہیں کہ بدعت کی دوقسمیں ہیں، حسنہ وسیۂ۔ و ہ بدعت حسنہ سے ایسی شے مراد لیتے ہیں جس کی صدراول میں اصل موجود ہو، اگر چہ اشارۃً ہی ہو جیسے مسجدوں کے مناروں، مدارس اور مسافرخانوں کی تعمیر اور کتابوں کی تدوین اور دلائل کی ترتیب اوراسی طرح کی اور چیزیں۔ اور بدعت سیۂ سے ایسی چیز مراد لیتے ہیں جس کی صدر اول میں بالکل اصل موجود نہ ہو۔ تو امام ربانی ؒ قسم اول پر بدعت کے نام کا اطلاق نہیں کرتے، کیوں کہ اس کی اصل صدر اول میں موجود ہوتی ہے، لہٰذا وہ چیز بدعت اور محدث نہیں۔ بلکہ آپ بدعت صرف قسم ثانی کو قرار دیتے ہیں کیوں کہ وہی درحقیقت بدعت اور محدث ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ تو علماے اسلاف اور حضرت شیخ مجددؒ کے درمیان نزاع لفظی ہے کہ قسم اول پر بدعت کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔ حضرت شیخ محمد مظہر دہلویؒ مقاماتِ سعیدیہ میں فرماتے ہیں ’’ بدعت حسنہ امام ربانی ؒ کے نزدیک سنت میں داخل ہے اور آپ بموجب حدیث ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اس پر بدعت کا اطلاق نہیں فرماتے۔ اس بارے میں آپ ؒ اوردوسرے علماء کرام کے درمیان، جو بدعت حسنہ کے قائل ہیں، نزاع لفظی ہے۔ توہر بدعت جو مخالف سنت نہ ہو، علماء کے نزدیک وہی بدعت حسنہ ہے اورامام ربانی کے نزدیک وہ سنت میں داخل ہے۔ شاہ عبدالغنی ؒ انجاح الحاجۃ حاشیہ ابن ماجہ میں حدیث ’’من احدث فی امرنا ہذا مالیس منہ ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں: ’’یعنی وہ چیز جودین کے وسائل میں نہ ہو کیوں کہ شے کا وسیلہ اورذریعہ اس میں داخل ہوتا ہے، اسی لیے شیخ مجددؒ کے نزدیک و ہ علوم جود ین کے وسائل ہیں جیسے صرف ونحو سنت میں داخل ہیں اور آپ اس پر بدعت کا اطلاق نہیں کرتے، کیوں کہ امام ربانیؒ کے نزدیک بدعت میں کوئی حسن اور خوبی نہیں‘‘۔
حضرت مولانا محمدسعید احمد نقشبندی مزید فرماتے ہیں:
’’نیز معمولات اہل سنت کے مطابق امام ربانیؒ اپنے پیر ومرشد کی مجلس عرس شریف میں شریک ہوتے تھے۔ حضرات القدس ۲/۲۹پر ہے کہ آپ بتقریب عرس حضرت خواجہ ؒ دہلی تشریف لائے۔ آپ خود اپنے مکتوبات شریف کے دفتر اول، جلد دوم، حصہ چہارم، مکتوب ۲۳۳ میں فرماتے ہیں کہ: ’’در ایام عرس حضرت خواجہ جیو قدس سرہ بحضرت دہلی رسیدہ بخاطر داشت کہ درملازمت علیہ نیز برسد۔ دریں اثنا خبر کوچ منتشر گشت بضرورت توقف نمودہ۔‘‘ حضرت خواجہ جیو ؒ کے عرس مبارک کے ایام میں فقیر دہلی آیا اور ارادہ تھا کہ حضرت (شیخ فرید) کی خدمت عالی میں بھی حاضر ہو۔ آنے کی تیار ی میں تھاکہ آپ کے تشریف لے جانے کی خبر مشہور ہوگئی تو ارادہ ملتوی کرنا پڑا۔ فوت شدگان کی فاتحہ دلاتے تھے اور ایصال ثواب کرتے تھے۔ مکتوبات شریف میں آپ کے اس عمل کی تصریح موجود ہے۔ مزارات بزرگان پر تشریف لے جاتے تھے اورقبر پر پڑے ہوئے اچھاڑ کو تبرک جانتے اور عقید ت کے ساتھ قبول کرتے تھے۔‘‘ (حضرات القدس ۲/۷۹)
مندرجہ بالا تحقیق سے خوب ثابت ہے کہ حضرت مجدد ؒ بدعت حسنہ کوسنت میں داخل سمجھتے تھے۔ حضرت شیخؒ بدعت کا اطلاق عقائد باطلہ پر کرتے تھے جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:
’’بدعتی گروہ جنہوں نے مختلف بدعات اختیار کی ہیں اور اہل سنت سے جدا ہوئے ہیں۔ ان تمام گروہوں کے درمیان فرقہ خوارج وروافض درست معاملہ اور حق سے دور جا پڑے ہیں۔ وہ گروہ جو اکابر دین کو گالیاں دینا اور طعن کرنا ایمان کا جزو اعظم تصورکرتا ہو، ایمان سے کیا حصہ رکھے گا۔ روافض کے بارہ فرقے ہیں اور سب کے سب اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تکفیر کرتے اور خلفاء راشدینؓ کو گالی دینا عبادت جانتے ہیں۔‘‘ ( مکتوبات، دفتر دوم، حصہ اول، مکتوب ۳۶)
اس عبارت سے خوب ثابت ہے کہ حضرت امام ربانیؒ نئے عقائد کو بدعت سمجھتے تھے جیسا کہ آپ ؒ نے خوارج وروافض کو بدعتی گروہ اور ان کے عقائد تقیہ وتبرا بازی وغیرہ کو بدعات قرار دیا ہے، جب کہ عقائد اہل سنت اور اہل تصوف کے مشاغل ومراقبے اور چلے اور عرس اور حضرات صوفیاء کرام کو کبھی بھی تنقید وتنقیص کانشانہ نہیں بنایا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ آپ نے توحضرت مجددؒ کو اولیاء ہند ؒ کے مقابل لاکر کھڑا کر دیا اور آپ کی ذات مقدسہ سے وہ کچھ منسوب کر ڈالا جو حضرت مجددؒ کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا۔ بہرحال آپ کے کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ حضرت مجددؒ کے ہم عصر صوفیاء کرام سے لے کر آج تک کے قادری، چشتی، سہروردی اور نقشبندی سلاسل کے جملہ صوفیاء کرام حضرت شیخ احمد سرہندیؒ سے وابستگی کو باعث فخر وبرکت سمجھتے ہیں۔ الحمدللہ۔
محمد یاسین عابد
علی پور چٹھہ
(۴)
جناب گرامی قدر مولانا عمار خان ناصر زیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خدا کرے آنجناب معہ دیگر احباب بخیریت ہوں۔ مئی /جون ۲۰۰۹ء کا شمارہ ایک مولوی صاحب نے دکھلایا کہ دیکھیں شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے پوتے کیسے گمراہ ہوگئے ہیں۔ جب میں نے شمار ہ دیکھا تو مجھے آنجناب سے عقیدت پیدا ہو گئی اور اسی شمارے سے اتنا متاثر ہوا کہ ایک پکا بریلوی عقائد کا ایڈووکیٹ اور معروف غیر مقلد مولوی صاحب اور ایک محقق شیعہ نوجوان عالم (جو تینوں میرے دوست ہیں) الشریعہ کے سالانہ خریدار بنا ڈالے اور وہ بھی متاثرہو کر خریدار بنے ہیں، بلکہ الشریعہ کاحضرت شیخ الحدیثؒ نمبر بھی انہوں نے خریدا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ سے راقم الحروف ناکارہ کو طویل عرصہ سے عقیدت تھی۔ حضرت کے چند مکتوبات گرامی جو اس ناکارہ کے نام ہیں، ان کی فوٹو کاپی ارسال خدمت ہے۔ حضرت مولانا عبدالحق خان بشیر دامت برکاتہم سے بھی عقیدت وتعلق ہے۔ حضرت نے اپنی جملہ مطبوعات ہدیۃً عنایت فرمائی ہیں، خط وکتابت بھی ہوتی ہے، حتیٰ کہ میری بیماری پر حضرت میری عیادت کو راقم اثیم کے غریب خانہ پر بنفس نفیس تشریف بھی لائے تھے۔ الشریعہ میں ان کامضمون دیکھا اور آنجناب کا مضمون بھی بڑے شوق سے پڑھا۔ آنجناب کے موقف پر بڑی خوشی ہوئی۔ راقم آثم حضرت مولانا صوفی عبدالحمیدخان سواتیؒ کی طرح اہل تشیع کے کفر کاقائل نہیں ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ سے خود اس ناکارہ نے یہ مسئلہ دریافت کیا تو مولانا تقی عثمانی صاحب نے فرمایا کہ شیعوں کو کافر نہیں کہتا، زیادہ سے زیادہ بدعتی کہتا ہوں۔
اگر چہ بعض کتب شیعہ میں تحریف قرآن کی روایات پائی جاتی ہیں، لیکن شیعہ عقائد کی کتابوں میں وہ تحریف قرآن کے قائل نہیں، جیسا کہ قرآن مجید کی متعدد تفاسیر شیعہ علماء نے لکھی ہیں۔ تحریف قرآن کی لچر اور بے ہودہ روایات تو بعض کتب اہل سنت میں بھی موجود ہیں اوراہل سنت کی عقائد کی کتابوں میں شیعوں کو اسلامی فرقہ شمار کیا گیا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ پر خود بھی کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے، وہ کیسے دوسروں کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ میری اس عبارت کا مطلب یہاں دفاع تشیع نہیں ہے۔ ضمناً یہ بات اس عریضہ میں آ گئی ہے۔
آنجناب نے مفتی عبدالغفار ارکانی صاحب کی جس کتاب کا تذکرہ فرمایا ہے، وہ کہاں سے دستیاب ہے؟ ہمارے ہاں مصیبت یہ ہے کہ ہمارے پرانے علماء کرام اسی پرانی تحقیق اور روش پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں اور اسے ہی حرف آخر سمجھ رہے ہیں۔ اگر وہ حضرات باہر کی دنیا میں جھانک کر ملاحظہ فرمائیں اور کنویں کے مینڈک نہ بنیں اور روشن خیالی اور گمراہی تصور نہ فرمائیں تو شاید اس امت کے حالات درست ہو سکیں۔ آنجناب جیسے علمی خانوادہ سے تعلق رکھنے والے علماے کرام بھی اس خول سے باہر آنا چاہتے ہیں تو آنجناب پر گمراہی کے فتوے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ نہایت افسوس ناک امر ہے۔ تاہم دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آنجناب کو درازی عمر عطا فرماتے ہوئے دین مبین کی مزید خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
سید مہر حسین بخاری
بیت التوحید، کامرہ کلاں، ضلع اٹک