(۴ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں شائع ہونے والی، ماہنامہ ’الشریعہ‘ کی خصوصی اشاعت کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ تقریب کی صدارت پروفیسر حافظ خالد محمود نے کی جبکہ مہمان خصوصی کے طور پر ڈاکٹر حافظ محمود اختر (چیئرمین شیخ زاید اسلامک سنٹر لاہور) شریک ہوئے۔ تقریب میں نقابت کے فرائض الشریعہ اکادمی کے رفیق مولانا حافظ محمد یوسف نے انجام دیے جبکہ بزرگ عالم دین مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے تقریب کے اختتام پر دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے۔ تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف ارباب علم ودانش نے حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کی شخصیت وخدمات اور ’الشریعہ‘ کی خصوصی اشاعت کے حوالے سے اپنے احساسات وتاثرات کا اظہار کیا۔ ذیل میں اس تقریب کی تفصیلی روداد پیش کی جا رہی ہے۔ مدیر)
مولانا ابو عمار زاہد الراشدی
(ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ)
میں دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ پہلے نمبر پر تو آنے والے معزز مہمانوں کا اور تمام حضرات کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ آپ حضرات کا تشریف لانا ہمارے لیے باعث حوصلہ افزائی ہے۔ اللہ پاک آپ کا آنا قبول فرمائیں۔ دوسرے نمبر پر حضرت شیخ کی خدمات کا اور علمی جدوجہد کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ بیک وقت دو ضخیم نمبروں کے باوجود ہم اس کے ایک حصے کا احاطہ بھی نہیں کر پائے۔ ’الشریعہ‘ نے اپنے ذوق کے مطابق اس کو سمیٹنے کی کوشش کی، اور ’المصطفیٰ‘ نے اپنے دائرے اور حساب کے مطابق اسے سمیٹنے کی کوشش کی ہے، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک حصہ بھی شاید ہم اس کا نہیں سمیٹ سکے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا، ان شاء اللہ العزیز۔ فوری طور پر دو تین مہینے میں جو کچھ ہو سکتا تھا، ہم نے کیا ہے اور اس کے ساتھ ایک پروگرام کا اعلان بھی کیا ہے کہ ہم حضرت شیخ کے حوالے سے یہ یہ کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہمیں اس کا اعتراف ہے کہ ہم اپنی ہمت اور بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ کرنے کے باوجود کچھ نہیں کر پائے۔ بہرحال تھوڑا بہت جو کچھ ہوا، اللہ پاک اس کو قبول فرمائیں اور مزید پیش رفت کے لیے اسے بہتر اساس بنا دیں۔ اللہ پاک مجھے او ر آپ کو اس کام کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائیں۔
محمد عمار خان ناصر
(ڈپٹی ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ)
چونکہ مہمانان گرامی خاصی تعداد میں تشریف فرما ہیں اور انھی کے ارشادات سننے کے لیے ہم سب حاضر ہوئے ہیں، اس لیے جو کوشش اور کاوش بھی ہم نے ’الشریعہ‘ اور ’المصطفیٰ‘ کی صورت میں کی ہے، میں اس کے صرف ایک پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔ ہم اپنی جگہ پر محسوس کر رہے ہیں اور بجا طو رپر یہ محسوس کر رہے ہیں کہ حضرت رحمہ اللہ کی جو شخصیت ہے اور ان کا علمی کام ہے، اس کو کسی نہ کسی حد تک اپنی کوششوں کے ذریعے سے سمیٹنے کی کوشش کریں۔ اس کے باوجود، جیسا کہ والد گرامی نے فرمایا، اس کا کوئی ایک پہلو بھی ہم پوری طرح احاطے میں نہیں لا سکے۔ البتہ صرف اندازہ کرنے کے لیے کہ ان کی ذات سے اور ان کی خدمات سے جو فیضان دنیا میں پھیلا اور لوگ اس کے ساتھ جس طرح کی محبت، عقیدت اور استفادہ کا تعلق رکھتے ہیں، صرف دو چھوٹی چھوٹی باتیں عرض کر کے ایک جھلک آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا۔
الشریعہ کی خصوصی اشاعت کا اعلان ہم نے حضرت کی وفات کے فوراً بعد کر دیا تھا۔ ۵؍ مئی کو حضرت کا انتقال ہوا۔ اس کے دو چار دن کے بعد ہم نے اس کا اعلان کر دیا۔ عملاً ہمیں مضامین اور تحریریں موصول ہونے کا سلسلہ مئی کے تقریباً آخر میں شروع ہوا جبکہ ساڑھے آٹھ سو صفحات کی اس ضخیم اشاعت کو ہم نے پریس میں اگست کے آخر میں بھیجا ہے۔ اس طرح جون سے اگست تک تین ماہ کے مختصر عرصے میں اہل قلم نے بڑی عقیدت سے اپنا وقت فارغ کر کے بڑی محنت سے یہ مواد لکھا بھی، اس کو تیار بھی کیا گیا اور اس کو ہم نے تیاری کے مراحل سے گزار کر پریس میں بھی بھیجا۔ میں سمجھتا ہوں کہ تین ماہ کے عرصے میں اتنے مواد کا جمع ہونا، لکھا جانا، تیاری کے مراحل سے گزر کر پریس میں چلے جانا یہ بذات خود ایک کرامت ہے جو عام حالات میں شاید ممکن نہ ہوتا۔ اس کے لیے جو جذبہ چاہیے، جو عقیدت چاہیے اور جو اسباب چاہییں، وہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خاص توفیق اس کام میں شامل حال رہی ہو۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس کا خط ہم نے خاصا چھوٹا رکھا ہے تاکہ کم ضخامت میں زیادہ مواد لوگوں تک پہنچے۔ اسی کو ہم اگر تھوڑا سا پھیلا دیں تو یہی مواد کم وبیش بارہ سو صفحا ت کے لگ بھگ چلا جاتا ہے۔ کم وبیش اس سے نصف مواد وہ ہے جو ہم نے فائلوں میں سنبھال کر رکھا ہے اور مختلف وجوہ سے اس کو نہ چھاپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
جہاں تک حضرت رحمہ اللہ کے حوالے سے قائم کی جانے والی ویب سائٹ کا تعلق ہے، وہ الحمد للہ اس سے بھی کم عرصے میں تیار ہوئی۔ تقریباً ایک ماہ کے عرصے میں برادر عزیز ناصر الدین خان عامر نے، اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی ہمت اور صلاحیت میں ترقی عطا فرمائیں، یہ ساری ویب سائٹ مکمل کی اور ساڑھے آٹھ سو صفحات کا سارا مواد اس پر منتقل کیا۔ ۵ ؍ستمبر کو یہ ویب سائٹ لانچ ہوئی ہے اور ماہ ستمبر کے اعداد وشمار کے مطابق مہینے کے آخر تک مختلف ممالک پاکستان، انڈیا، برطانیہ، امریکہ، سعودی عرب اور آسٹریلیا وغیرہ سے تیرہ سو سے زائد حضرات نے اس کو وزٹ کیا ہے۔ پھر اس میں ان کی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ ایسا نہیں کہ وہ ایک دفعہ آئے ہیں، دیکھا ہے اور وزٹ کر کے چلے گئے ہیں، بلکہ ان تیرہ سو حضرات نے ایک ماہ میں کئی ہزار مرتبہ اس ویب سائٹ کو دیکھا۔ مختلف اوقات میں بار بار آئے ہیں اور اس کے مختلف مضامین کا مطالعہ کرتے رہے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت کے فیضان اور ان کی خدمات کا سلسلہ تاقیامت جاری رکھے اور ہمیں اپنی اپنی استعداد کے لحاظ سے اس میں شریک ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
مولانا قاری جمیل الرحمن اختر
(مہتمم جامعہ حنفیہ قادریہ، لاہور)
آج ہم امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کی یاد میں شائع ہونے والے الشریعہ کے خصوصی شمارہ کی تقریب رونمائی میں یہاں جمع ہیں۔ زیادہ تفصیل کا وقت نہیں اور بہت سے حضرات تشریف فرما ہیں جنھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے۔ میں اس حوالے سے ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔
جب میں نے یہ شمارہ دیکھا تو بہت سے پہلو ایسے تھے جو ہمارے سامنے نہیں تھے۔ جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت اور جلوت تھی۔ جلوت کے گواہ تو صحابہ کرام تھے اور خلوت کی گواہ ازواج مطہرات تھیں۔ حضور اکرم کی گھر کی باتیں ہماری ماؤں نے بیان فرمائیں۔ اسی طرح اس شمارے میں گھر کی خواتین کے جو مضامین چھپے ہیں، ان سے حضرت کے گھریلو حالات کی بڑی خوب صورت تصویرسامنے آتی ہے۔ آپ یقین جانیے کہ فجر کی نماز کے بعد میں بیٹھا حضرت کے گھر کے حالات پڑھ رہا تھا تو بلامبالغہ عرض کر رہا ہوں کہ بعض ایسے واقعات تھے کہ ان کو پڑ ھ کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور بعض واقعات ایسے تھے کہ میں اکیلا بیٹھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ حضرت شیخ اور صوفی صاحب کی آپس کی پیار محبت کی باتیں اور بہت سیی چیزیں ہیں جو عام کتابوں میں نہیں ملتیں۔ خصوصاً اس حوالے سے کہ بچوں کی ہم نے تربیت کیسے کرنی ہے۔ آخر ہم بھی ان کے نام لیوا ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے بے قرار بھی ہیں اور دعائیں بھی کرتے ہیں اور کوششیں بھی کرتے ہیں۔ تو اس چیز سے الحمد للہ مجھے بہت فائدہ ہوا اور اللہ تعالیٰ سے امید بھی یہی ہے کہ جو جو ساتھی اس کو بغور پڑھے گا، اس کو بہت سی باتیں اس میں ملیں گی۔
حضرت کے صاحب زادے اور ہمارے کلاس فیلو، حضرت مولانا پیر رشید الحق عابد صاحب کا مضمون نہایت ہی اہم مضمون ہے۔ جب میں نے اس کوپڑھا تو یقین جانیے کہ میں حضرت کو جس انداز سے دیکھا کرتا تھا، وہ پوری باتیں انھوں نے اس میں ذکر کر دی ہیں۔ اللہ رب العزت ان کے علم وعمل میں اور عمر میں برکت عطا فرمائے۔
اسی طرح میرے والد صاحب کے ایک خلیفہ مجاز تھے حضرت مولانا عبد الحق صاحب جوہر آباد سے، بڑے متقی پرہیز گار تھے۔ جامعہ اشرفیہ کے بڑے بڑے اساتذہ ان کے شاگرد ہیں۔ حضرت مولانا اکرم کاشمیری بھی ان کے شاگرد ہیں۔ میں ایک دن ان کے پاس بیٹھا تھا۔ حضرت شیخ اس سے چند دن قبل میرے ہاں تشریف لائے تھے۔ تو حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بعد میں مجھے بتایا کہ میں نے حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب کو بڑے قریب سے دیکھا۔ ان کے اوپر جو انوار اور تجلیات تھیں حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی وساطت سے، وہ ایک الگ باب ہے۔ لیکن حضرت امام اہل سنت کے بارے میں فرمایا کہ میں نے ان کو اس حال میں دیکھا کہ ان پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی علمی تجلیات برس رہی تھیں۔ ان کا لوں لوں علم ہی علم ظاہر کر رہا تھا۔ یہ اللہ والوں کے ہاں ایک اصطلاح ہے کہ ذکر میں ان کا لوں لوں ذکر کرتا ہے۔ ان کا ایک ایک عضو اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ حضرت رحمہ اللہ کے بارے میں انھوں نے یہ بات فرمائی اور یہ یقیناًبالکل صحیح بات ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ان کے روں روں سے، لوں لوں سے علم ٹپکتا تھا اور اللہ رب العزت نے اسی وجہ سے ان کو بہت اعلیٰ مقام عطا فرمایا تھا۔
اس موقع پر میں ایک دوست کا چھوٹا سا خواب بھی ذکر کردوں۔ مجھے حضرت کے جنازے کے بعد وہ آدمی ملا۔ میرے ہاں وہ جمعہ پڑھتا ہے۔ مجھے کہا کہ میں نے حضرت کا نام سنا تھا۔ دل میں خواہش تھی کہ جا کر ان کی زیارت کروں، لیکن موقع نہیں ملا۔ اچانک حضرت کے انتقال کی اطلاع ملی اور میں جنازے میں شریک ہو گیا۔ جنازے میں شرکت کے بعد جب گھر پہنچا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے ایک شخص دوکان پر اطلاع دے رہا ہے کہ حضرت مولانا سرفراز صاحب تیری دوکان پر تشریف لائے ہیں۔ میں حیران ہو گیا اور میں نے کہا کہ میں تو ان کا جنازہ پڑ ھ کر آیا ہوں، وہ کیسے آ گئے؟ بتانے والے نے یہ بھی بتایا کہ دو اور بھی بزرگ آئے ہیں اور ان کے آنے کا انداز اس قسم کا ہے کہ حضرت امام اہل سنت ایک پالکی میں ہیں اور ان دو بزرگوں نے پالکی اٹھائی ہوئی ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کون بزر گ ہیں تو انھوں نے ایک نام تو حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کا لیا اور کہا کہ دوسرے بزرگ کا نام میں بھول گیا ہوں۔ میں نے اپنی عقیدت اور تعلق کی بنا پر کہا کہ دوسرا نام حضرت مدنی کا تو نہیں تھا؟ کہنے لگا کہ بالکل یہی تھا۔ کہنے لگا کہ میں نے دونوں بزرگوں کی بھی زیارت کی اور حضرت کی بھی زیارت کی۔ حضرت کے پاس بہت سے لوگ جمع ہو گئے جو حضرت کے پاس آ کر سوالات کر رہے ہیں ا ور حضرت ان کو فقہی جوابات دے رہے ہیں۔ اتنے میں میرا مصافحہ ہوا اور حضرت تشریف لے گئے۔
بہرحال حضرت کا ایک بلند علمی مقام ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں ان کے طرز پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم ان کی چیزوں کو اپنی زندگیوں میں لائیں۔ جس طرح ان کے ہاں اوقات کی پابندی تھی، ہمیں بھی کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں حضرت کے غلاموں میں شامل فرمائے اور قیامت کے دن انھی کے ساتھ ہمارا حشر ہو۔ آمین
مولانا عبد الحق خان بشیر
(ڈائریکٹر حق چاریار اکیڈمی، گجرات)
یہ تقریب الشریعہ اکادمی کی طرف سے ماہنامہ الشریعہ کی خصوصی اشاعت کی تقریب رونمائی کے سلسلے میں ہو رہی ہے۔ سب سے پہلے تو میں الشریعہ اکادمی اور اس کے تمام منتظمین ومتعلقین کا شکریہ ادا کرتا ہوں، خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے ایک اہم خدمت سرا نجام دی ہے۔ اس کے ساتھ ایک تھوڑا سا شکوہ بھی جو ہے تو بے موقع کہ حضرت امام اہل سنت کی شخصیت علمی اعتبار سے، روحانیت کے اعتبار سے، تقوے کے اعتبار سے اور کردار وعمل کے اعتبار سے جس اہم منصب اور جس اہم مقام پر تھی، چاہیے تھا کہ ان پر خصوصی نمبر کی اشاعت کے لیے کچھ مدت ہوتی، کچھ وقت ہوتا تاکہ احباب کھل کر اطمینان کے ساتھ کچھ لکھ سکتے۔ خود میں بھی، اگر عزیزم عمار خان ناصر میرے سر پر سوار نہ ہوتے اور صبح شام دس دس مرتبہ فون نہ کرتے تو شاید میں بھی نہ لکھ پاتا۔ بلکہ میں نے تو ایک دفعہ دھمکی بھی دے دی کہ اگر آپ اس کو کچھ موخر نہیں کر سکتے تو میں لکھنے سے قاصر ہوں، اس لیے کہ ان دنوں امام اہل سنت کے حوالے سے پورے پنجاب میں جو پروگرام ہو رہے تھے، ان پروگراموں میں شرکت کرنا ہوتی تھی پھر اپنی بھی صحت کچھ ایسی ہی تھی۔ بہرحال جیسا کہ برادرم مکرم مولانا زاہد الراشدی نے فرمایا کہ یہ ایک پیش رفت کا آغاز ہے۔ امام اہل سنت کی خدمات کے حوالے سے جو چیز منظر عام پر لائی جانی چاہیے تھی، وہ نہیں لائی جا سکی۔ اب بھی وقت ہے۔ ان شاء اللہ میں امید رکھتا ہوں کہ مختلف رسائل کی طرف سے یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔
برصغیر پاک وہند کے اندر جماعت دیوبند کو باقی تمام مکاتب فکر اور جماعتوں پر جو فوقیت اور برتری او ر جو امتیاز حاصل ہے، وہ صرف ایک ہے۔ ہم نے اکابرین دیوبند کی خدمات کو سیاسی دائرے میں بند کر دیا ہے اور علماے دیوبند کی انگریز کے خلاف جو خدمات ہیں، ہم ہمیشہ انھی کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ ہم علماے دیوبند کی صرف علمی خدمات کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ کبھی تو ہم سیاسی حوالے سے سید حسین احمد مدنی کو کراچی کے خالق دینا ہال میں بیڑیاں پہنے کھڑا کرتے ہیں اور کبھی ان کو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سایے میں درس حدیث دیتا ہوا دکھاتے ہیں، لیکن آج تک ہم نے اس پر غور نہیں کیا کہ جماعت دیوبند کی سیاسی خدمات اپنے مقام پر، علمی خدمات اپنے مقام پر، روحا نی خدمات اپنے مقام پر، لیکن جو چیز جماعت دیوبند کو ہندوستان کے باقی مکاتب فکر پر فوقیت دیتی ہے، ممتاز کرتی ہے، وہ صرف ایک ہے اور وہ ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک جو اہل سنت والجماعت کا ایک متواتر فکر، ایک متواتر سلسلہ، علم وفکر، عقیدہ ونظریہ چلا آ رہا تھا، جماعت دیوبند نے مسلمانوں کا رشتہ اس سے ٹوٹنے نہیں دیا۔ یہی چیز ہے جو جماعت دیوبند کو باقی مکاتب فکر سے ممتاز کرتی ہے۔ اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ یہی چیز جو جماعت دیوبند کو باقی مکاتب فکر سے ممتاز کرتی ہے، وہی چیز امام اہل سنت کو باقی علما سے ممتاز کرتی ہے۔
کسی مقام پر امام اہل سنت نے نظریے کے معاملے میں کبھی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جب بھی اپنا موقف رکھا ہے، دوٹوک رکھا ہے۔ نظریے کے معاملے میں انھوں نے کبھی کسی کے ساتھ کمٹ منٹ نہیں کی، نظریے کے ساتھ کمٹ منٹ رکھی ہے، نظریے پر پختگی رکھی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج کے دور میں اگر دو شخصیات نہ ہوتیں تو شاید اکابر علماے دیوبند کی حقیقی تعلیمات ہمارے ذہنوں سے بھی اتر چکی ہوتیں یا کم از کم وہ مقام ان کا نہ ہوتا جو ہمارے ذہنوں میں ہے۔ ایک شخصیت امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی ا ور دوسری شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کی۔ ان دونوں شخصیات نے تحریری طو رپر ہر موضوع پر، ہر نظریے پر، ہر حوالے سے جماعت دیوبند کے موقف اور نظریے کو، اہل سنت والجماعت کے نظریے کو جس طرح اجاگر کیا ہے، اگر یہ دو شخصیات ہمارے ہاں موجود نہ ہوتیں تو شاید آج ہمارے پاس دار العلوم دیوبند کا، جماعت دیوبند کا خالص نظریہ موجود نہ ہوتا۔
میں اس وقت امام اہل سنت کی شخصیت کے حوالے سے تفصیلی بات نہیں کر سکتا او رنہ موقع ہے۔ صرف اپنی تربیت کے حوالے سے ایک چیز کا ذکر کروں گا کہ شیخ الحدیث امام اہل سنت نے میری تربیت کس طرح کی ہے۔ جب تک میں نصرۃ العلوم میں نہیں آیا تھا، گکھڑ میں مقیم تھا اور اسی طرح نصرۃ العلوم سے بھی جب میں چھٹی پر گھر جاتا تھا تو حضرت شیخ نماز کے وقت مجھے خود اپنے ساتھ لے کر مسجد میں جاتے اور گھر سے لے کر مسجد تک ان کا انداز یہ ہوتا تھاکہ یہ روڑا ہے، اس کو اٹھاؤ۔ یہ اینٹ ہے، کسی کو ٹھوکر لگے گی، اس کو اٹھاؤ۔ یہ اخبار کا ورق ہے، کسی کے پاؤں میں آئے گا، اس کو اٹھاؤ۔ گھر سے لے کر مسجد تک اور مسجد سے لے کر گھر تک یہی معاملہ ہوتا۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا کہ گھر کی گلی کے کونے میں دیکھتے کہ نالی بند ہے تو کھڑے ہو جاتے کہ ڈنڈا لو اور اس نالی کو صاف کرو۔ یہ سلسلہ دورۂ حدیث تک میرے ساتھ رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت میں ایک ہتک محسوس کرتا تھا، اس وقت سمجھتا تھا کہ یہ زیادتی ہو رہی ہے، یہ ظلم ہو رہا ہے، لیکن آج میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر شیخ نے اس انداز سے ہماری تربیت نہ کی ہوتی، ہم سے نالیاں صاف نہ کرائی ہوتی، ہم سے راستے صاف نہ کرائے ہوتے تو شاید ہمارے اوپر بھی صاحب زادگی کا خناس سوار ہوتا جو آج کے دور کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔ شاید اس فتنے کا بھوت ہمارے سروں پر بھی سوار ہوتا۔
ہمارے شیخ دو شخصیتوں کے تربیت یافتہ تھے اور دونوں کا نام حسین ہے۔ حسین احمد اور حسین علی۔ ہمارے شیخ کی علمی تربیت حسین احمد نے کی اور روحانی تربیت حسین علی نے کی اور ان دو حسینوں کی تربیت سے ایک وجود جو ہمارے سامنے آیا، ایک شخصیت جو ہمارے سامنے آئی، آج اس شخصیت کو دنیا امام اہل سنت کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ہمارے شیخ اکثر وبیشتر اپنے تلامذہ سے اور مختلف علاقوں سے آنے والے علما سے یہ بات سختی کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے اپنے اکابر کی وراثت اسی طرح تمہارے حوالے کر د ی ہے جس طرح وہ وراثت ہمارے حوالے کی گئی تھی۔ ہم نے اس کے اندر کسی قسم کی کوئی کمی بیشی نہیں کی۔ اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ اس وراثت کو اسی طرح اگلی نسل تک پہنچاؤ۔ اگر تم نے اس وراثت کو اسی طرح اگلی نسل تک نہ پہنچایا تو قیامت کے دن ہمارے بھی ہاتھ تمہارے گریبانوں پر ہوں گے اور آنے والی نسل کے بھی ہاتھ تمہارے گریبانوں پر ہوں گے۔
اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس وراثت کی حفاظت کریں۔ خدا وند کائنات ہمیں اس وراثت کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی
(مہتمم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ)
یہ تقریب الشریعہ اکادمی کی طرف سے امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر نور اللہ مرقدہ کی شخصیت اور کردار اور خدمات کے حوالے سے شائع ہونے والے خصوصی نمبر کے بارے میں منعقد کی گئی ہے۔ برادر عزیز مولانا حافظ محمد عمار خا ن ناصر نے اس نمبر کے بارے میں اپنے تاثرات کے اظہار کے لیے حکم فرمایا تو میں نے ان سے گزارش کی کہ ہم سے اگر تاثرات نہ لیے جائیں تو اچھا ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ خاندان کے علاوہ جو دیگر حضرات مہمان تشریف لائے ہیں، ان کے تاثرات اگر اس حوالے سے سامنے آئیں تو وہ زیادہ مفید اور اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
بہرحال میں نے امام اہل سنت کے اس نمبر کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے اور اس کے علاوہ اب تک ان کے حوالے سے جتنی بھی تحریرات منظر عام پر آئی ہیں، تقریباً ساری الحمد للہ میری نظر سے گزری ہیں۔ ماہنامہ الشریعہ نے جو اشاعت پیش کی ہے، اس پر والد محترم حضرت صوفی صاحب کا ایک مقولہ مجھے مولانا عبد الحق صاحب کی تقریر سننے کے بعد بہت یاد آیا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کی کوئی بھی کوشش فائنل نہیں ہوتی۔ فائنل اتھارٹی خدا کی ذات ہے۔ انسان اپنی کوشش کر دے۔ وہ فرماتے تھے غلطیاں بعد والے نکالتے رہیں گے، تم کام کر دو۔ اس وجہ سے اس نمبر کے حوالے سے الشریعہ کی ساری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ انھوں نے بڑی کوشش کی ہے اور خصوصی طور پر مولانا عمار خان ناصر نے جو دماغ سوزی کی ہے اور تین چار مہینے اس پر جو شب وروز محنت کی ہے، اس پر داد نہ دینا میں سمجھتا ہوں کہ بہت بڑی بخل کی بات ہے۔ کسی کو ان کے نظریات سے اختلاف ہو، ہو لیکن یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ مجموعی طور پر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کے حوالے سے جو جامع چیزیں اس نمبر کے اندر آئی ہیں، اس سے پہلے جتنی بھی تحریرات منظر عام پر آئی ہیں، ان کے اندر یہ نہیں ہیں۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ جو چیزیں اس کے اندر ہیں، اس سے پہلے آنے والی تحریروں کے اندر وہ نہیں ہیں او ر جو چیزیں ان کے اندر ہیں، وہ ساری کی ساری اس کے اندر موجود ہیں۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ کی ایک تحریر جو ان کے مکاتیب میں شائع ہوئی ہے، اس کا حوالہ دینا یہاں ضروری سمجھوں گا۔ ان کے ایک شاگرد نے ان کو خط لکھا، غالباً ان کا نام مولانا عبد اللہ صاحب تھا جو مظاہر العلوم کے فارغ بھی تھے۔ انھوں نے لکھا کہ مجھے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اگر اس زمانے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں تو میرا خیال یہ ہے کہ وہ سارے کام چھوڑ کر صرف تبلیغی کام کے اندر لگیں گے۔ حضرت شیخ نے جو جوابی خط لکھا، اس کا خلاصہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت شیخ نے بڑی سختی کے ساتھ ان کو لکھا کہ یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے، اس کو ذہن سے نکال دو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ایک جامع ذات تھی۔ وہ ہر وقت تمام چیزوں کو بیک وقت انجام دیتے تھے۔ وہ بیک وقت مجاہد بھی تھے، مبلغ بھی تھے، معلم بھی تھے۔ جتنے بھی شعبے ہیں، وہ بیک وقت انجام دیتے تھے۔ لیکن ہم کمزور لوگ ہیں، ہم بیک وقت یہ ساری چیزیں انجام نہیں دے سکتے۔ اللہ نے دین کے جس شعبے کے اندر لگا رکھا ہے، اس کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ کام لے رہا ہے۔
اس وجہ سے امام اہل سنت کی جامع الصفات شخصیت جو بیک وقت کئی صفات کی حامل تھی اور ان کو جاننے والے ان کے تمام پہلووں کو اس طرح نہیں لکھ سکتے جس طرح ان کی شخصیت تھی۔ یہ میرا دعویٰ ہے، کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ العلماء ورثۃ الانبیاء کہ علما، انبیا کے وارث ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ایک جامع شخصیت ہے اور جو صحیح معنی میں ورثا ہوں گے، وہ جامع شخصیات کے حامل ہوں گے۔ اس وجہ سے مجموعی طور پر اس نمبر کے اندر حضرت کی شخصیت کا جامع پہلو پیش کیا گیا ہے، میرے خیال کے مطابق کوئی پہلو رہا نہیں ہے۔ چاہے کم بیان ہوا ہو، لیکن موجود ضرور ہے۔ تفصیلات کے ساتھ بھی جو کتابیں لکھی جائیں گی، ان کے اندر بھی بہت سے پہلو تشنہ ہی رہیں گے۔
یہ تو اس کے اندر خوبی کی بات تھی۔ اور ایک بات جسے خامی کہہ لیں،وہ یہ کہ اس نمبر میں مسلکی بنیاد پر جو تنازعے کی تھوڑی سی صورت حال سامنے آئی ہے، میرے خیال کے مطابق یہ اس کا مقام نہیں تھا۔ اس کا علیحدہ مقام تھا۔ یہ نمبر حضرت کے مقام کو نمایاں کرنے کے لیے ہے نہ کہ اس نمبر کو متنازعہ بنانے کے لیے اور ان کی شخصیت پر اعتراضات کو اجاگر کرنے کے لیے۔ اس بحث کا مقام الگ ہے۔ کتابیں لکھی جائیں، پمفلٹ لکھے جائیں۔ اس نمبر کے اندر اس تنازعے کو نہیں چھیڑنا چاہیے تھا۔
دوسری بات یہ ہے کہ میری سفارش ہے کہ اگر آئندہ اشاعت میں حضرت کے متعلق منظوم خراج عقیدت کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس پہلو سے بھی عوامی تاثرات کی تسکین کا باعث ہوگا۔ میں نے مفسر قرآن نمبر شائع کیا ہے۔ مجھے پتہ ہے اس کے اندر کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، کن تحریروں کو نکالنا پڑتا ہے اور کن کو شامل کرنا پڑتا ہے۔ تو یہ چیز اگر اس کے اندر شامل کر لی جائے تو یہ نمبر میرے خیال کے مطابق ایک جامع نمبر ہے۔ اس کے بعد سوانح حیات تفصیلی مقالات لکھے جانے چاہییں۔ عوامی تاثرات کے حوالے سے کوئی مزید نمبر شائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مولانا عبد القدوس خان قارن
(استاذ الحدیث، مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ)
محترم حضرات! تحدیث نعمت کے طور پر میں اپنے عزیز عمار خان ناصر کے اس قابل قدر فخریہ کارنامے پر اس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، اس کی ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے عوام الناس کو حضرت امام اہل سنت کی شخصیت سے اور ان کی ذات سے روشناس کرانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔
ایک تو میں درخواست کروں گا کہ اس کا کتابی پوائنٹ نمایاں کیا جائے۔ ایک دفعہ حضرت امام اہل سنت نے عینک تبدیل کرانا چاہی۔ آنکھوں میں پانی جاری ہوتا تھا تو فرمانے لگے کہ میری عینک کو تبدیل کیا جائے۔ فرمانے لگے کہ میں اور رسالے تو پڑھ لیتا ہوں، زاہد کی شریعت مجھ سے نہیں پڑھی جاتی۔ جن لوگوں کے پاس میں نے الشریعہ دیکھا ہے، بیس فیصد ان کا تاثر یہ تھاکہ ہم اس کی باریک لکھائی کی وجہ سے پڑھ نہیں سکے۔
جہاں تک مضامین کا تعلق ہے، ہر آدمی نے مضامین میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ میں آپ حضرات کے سامنے عقیدت کے اظہار اور آپ سے ایک اپیل کے طور پر عرض کروں گا کہ آپ نے مضامین میں پڑھا کہ حضرت شیخ الحدیث کی شخصیت ایک جامع شخصیت تھی۔ میں تو اپنے آپ کو علم، عمل، تقوے، للہیت کے لحاظ سے ایک ذرہ بھی ان کے مقابلے میں نہیں پاتا کہ کسی مسئلے میں ان سے اختلاف کر سکوں۔ جن کو ان کی علمیت کے ساتھ کچھ تناسب ہے، کچھ نسبت ہے، وہ اختلاف کریں۔ میری عقیدت یہ ہے کہ میں جزئیات میں بھی ان کا موافق ہوں اور کلیات میں بھی ان کا موافق ہوں۔ ایک ذرہ بھی ان کے ساتھ اختلاف کا میں سوچ بھی نہیں سکتا اور یہی عقیدت میری اپنے عم مکرم حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بھی ہے کہ جو انھوں نے لکھ دیا، وہی حرف آخر ہے۔ آپ حضرات سے بھی درخواست کروں گا کہ اگر آپ کو عقیدت ہے، محبت ہے تو اپنی علمیت اپنی جگہ، ان کی مسلمہ علمیت کے پیش نظر اختلاف اگر ذہن میں ہے بھی تو اس کو کاغذ پر نہیں آنا چاہیے۔ اس کو اشاعت میں نہیں آنا چاہیے۔
پھر میں مبارک باد کے ساتھ ایک شکوہ بھی کروں گا کہ ’الشریعہ‘ کے آخر میں شناختی کارڈ کی صورت میں ہی سہی، جو فوٹو آئی ہے، مجھے اس پر احتجاج ہے اور احتجاج کا میں حق رکھتا ہوں۔ یہ نہیں آنی چاہیے تھی۔ آپ حضرات میرے ساتھ اختلاف کریں گے کیونکہ آج اکثریت دوسری جانب جاتی ہے۔ اس میں حضرت کے نظریات کے ساتھ بے وفائی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ آئندہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
پروفیسر غلام رسول عدیم
(چیف سیکریسی آفیسر، گوجرانوالہ بورڈ)
آج کی یہ نشست الشریعہ کے اس خاص نمبر کی مناسبت سے انعقاد پذیر ہوئی ہے جو امام اہل سنت حضرت شیخ الحدیث مولانا سرفراز رحمہ اللہ کی یاد میں شائع ہوا ہے۔ سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اذکروا محاسن موتاکم۔ اپنے گزشتگان ورفتگان کے محاسن بیان کیا کرو، ان کا تذکرہ کرتے رہو۔ ہم اسی فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آج یہاں اکٹھے ہیں کہ حضرت کے مکارم ومحاسن کا تذکرہ ہو۔
حضرات! جہاں تک حضرت کی جامع شخصیت کا تعلق ہے، اس میں نہ کسی اپنے کو نہ بیگانے کو اختلاف ہے۔ معاندت اگر ہٹ دھرمی سے کی جائے تو اور بات ہے، ورنہ اپنے بے گانے سب اس بات کے معترف رہے ہیں اور ہیں۔ آ پ نے جس انداز کی زندگی گزاری، جس تقویٰ وطہارت کی زندگی گزاری، جس محنت اور جفا کشی کی زندگی گزاری، جس انداز سے تعلیم وتربیت کا ایک منہاج اختیار کیا اور تعلیم وتدریس جو آپ کا اصل میدان تھا اور آپ کے ذوق کی مناسبت اس سے خصوصی تھی، وہ سب لوگ جانتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو دور سے جانتے ہیں، کچھ لوگ ایسے ہیں جو قریب سے جانتے ہیں۔
جہاں تک اس خصوصی اشاعت کا تعلق ہے، اس میں آٹھ مختلف عناوین کے تحت مضامین کے الگ الگ حصے کر دیے گئے ہیں۔ پہلا حصہ سوانح کا ہے اور اس میں بڑے کامیاب اور شاندار قسم کے مضامین ہیں۔ حضرت نے اپنی آٹوبائیوگرافی بھی بیان کی ہے۔ یہ خود نوشت ہے، اس لیے ان کی وثاقت اور ثقاہت میں کسی کو کلام نہیں ہے۔ دوسرا حصہ حضرت کی تعلیم وتدریس سے متعلق ہے، اس میں مولانا فیاض خان سواتی نے نصرۃ العلوم کے حوالے سے بڑا جاندار مضمون لکھا ہے۔ مولانا قارن صاحب اور مولانا یوسف صاحب کے مضامین کو بھی بڑا کامیاب محسوس کرتا ہوں۔ تینوں مضمون بڑے کامیاب ہیں۔ جہاں تک آپ کی تصانیف کا تعلق ہے، تو سینتالیس کے قریب تصانیف پر ایک جامع اجمالی تبصرہ مولانا عبدالحق بشیر صاحب کا ہے جسے بہت کامیاب محسوس کرتا ہوں۔ اس حصے میں گیارہ مضامین ہیں۔ ان میں ڈاکٹر اکرم ورک اور حافظ سلیمان صاحب اور دوسرے حضرات کے مضامین ہیں۔ ایک نظر ڈالنے سے یہ ساری باتیں سامنے آتی ہیں۔ پھر وہ حصہ ہے جسے حضرت کے حوالے سے تاثرات کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس میں ۲۳ مضمون ان لوگوں کے ہیں جو آپ سے صلبی ونسبی رشتہ رکھنے والے ہیں۔ ان میں مرد حضرات بھی ہیں او رخواتین بھی۔ اس کے آغاز میں حضرت مولانا راشدی کا مضمون ہے جس سے بہت سی باتیں جو ہمارے لیے پردۂ خفا میں تھیں، معلوم ہوتی ہیں۔ چونکہ یہ گھر کے لوگ ہیں، گھر کے لوگوں نے حضرت کی اندرونی زندگی، آپ کی صالحیت، آپ کے خصائل وشمائل، ان کو بڑے اچھے انداز سے پیش کیا ہے۔ مجھے حیرت تو اس بات پر ہوئی کہ مرد حضرات تو ہیں ہی، خواتین نے بھی ا شاندار طریقے سے معلومات فراہم کی ہیں اور ان میں ادبی شکوہ بھی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دودبان روشن حضرت والا کی نسبت کی وجہ سے اپنے اندر بہت سارے کمالات رکھتا ہے۔ خاص طور پر وہ مضمون جو آپ کی لخت جگر، اہلیہ مولانا قاری خبیب احمد عمر کا ہے جس کا عربی عنوان دیا گیا ہے: ذہب الذین یعاش فی اکنافہم (وہ لوگ رخصت ہو گئے جن کے دامن میں رہنے کی سعادتیں حاصل ہوا کرتی تھیں) اس مضمون میں اور خواتین کے دیگر مضامین میں تاثرات، گھر کی خدمات اور دوسری بہت سی باتیں بڑی تفصیل سے در آئی ہیں۔ اس کے بعد ۳۶ مضامین پر متضمن وہ حصہ ہے جس میں حضرت کے متوسلین، اہل علم، تلامذہ اور دوسرے بہت سے اہل قلم کی تحریریں ہیں جن کا ایک ایک کر کے ذکر کرنا تحصیل حاصل ہے۔ اس میں حضرت مفتی محمد عیسیٰ صاحب کا مضمون بڑا شاندار مضمون ہے۔
تین افراد کا ذکر کیے بغیر میں نہیں رہ سکتا۔ ایک حاجی لقمان اللہ میر جو حضرت کے خادم خاص تھے۔ مجھے پڑھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس یاد آ گئے جن کو ان کی والدہ ام سلیم نے آپ کی خدمت کے لیے مختص کر دیا تھا۔ دس سال تک خدمت اقدس میں رہے اور ان کا تاثر یہ تھاکہ کبھی آپ نے ہوں تک نہیں کہا۔ کبھی ڈانٹا نہیں ڈپٹا نہیں۔ حاجی صاحب نے ، حالانکہ وہ کاروباری آدمی ہیں، اپنے بہت سے وسائل کو حضرت کے لیے مختص کر دیا اور بیماری کے عالم میں سارے کے سارے اخراجات انھوں نے اٹھا لیے۔ کسی نے اگر اس میں شرکت کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے کہا کہ میں ا س ضمن میں لا شریک ہوں۔ دوسرے صاحب مولانا محمد نواز بلوچ جنھوں نے آپ کی بہت خدمت کی اور ہر طرح سے کوشش کی اور ذخیرۃ الجنان کے عنوان سے جو کام وہ کر رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ان کی نجات کا باعث ہوگا۔ تیسرے ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب جو ایک سرکاری ملازم ہونے کے باوجود اپنی دوسری مصروفیات کے سوا حضرت کی خدمت میں برابر ومسلسل وہموار لگے رہے اور آخری لمحے تک آپ کو طبی امداد اور طبی سہولتیں پہنچاتے رہے۔
اس کے علاوہ وہ دو مضمون بھی مجھے بہت پرکشش لگے جو منہج فکر کے عنوان کے تحت شامل ہیں۔ ایک مولانا عبد الحق خان بشیر کا اور دوسرا عزیز مکرم عمار ناصر صاحب کا جس سے حضرت کیذہنی وفکری اور نظری راہ مستقیم سامنے آتی ہے۔ پھر افادات ہیں، مکاتیب ہیں جن سے بہت سی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
ایک مستشرق ڈاکٹر اسپنگلر نے بڑے تحیر آمیز اور بڑے تعجب آمیز انداز سے کہا تھا کہ عجیب بات ہے کہ ایک شخص کی زندگی کو معلوم کرنے کے لیے مسلمانوں نے پانچ لاکھ افراد کو ریکارڈ کر لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات وکوائف اور آپ کی سیرت اور آپ کے نظریات ساری باتیں معلوم کرنے کے لیے پانچ لاکھ افراد کے حالات صفحہ قرطاس پر منتقل ہو گئے ہیں۔ یہ ہمارا علم اسماء الرجال ہے جس کا کوئی ثانی دنیا کے کسی ادب میں نہیں۔ عام معلومات کے دائرے میں ہم کہتے ہیں کہ ٹائن بی نے لکھا ہے تو مان لیتے ہیں کہ وہ بڑامورخ ہے۔ لیکن یہاں نہیں مانتے۔ اس لیے کہ بتانا ہوگا کہ کہاں سے بات چلی اور کس نے کس سے سنی۔ سلسلہ رواۃ جب تک مضبوط نہ ہوگا، ہم بات نہیں مانیں گے۔ وہاں تو یہ تھا کہ ایک شخص کی زندگی کو جاننے کے لیے پانچ لاکھ افراد کی زندگیاں سامنے آ گئیں۔ حضرات! یہاں بھی اسی سنت کے پیش نظر ایک شخص کی زندگی کے بارے میں بتانے کے لیے جانے کون کون سے لوگ جو پردۂ خفا میں تھے، خانوادے کے افراد اور دوسرے بہت سارے افراد، وہ سامنے آ گئے۔ بالخصوص گھر والوں کے بارے میں مولانا راشدی نے لکھا ہے کہ ہم نے ایک دن جائزہ لیا تو حضرت کی اولاد، پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں میں چالیس حفاظ کرام نکلے۔ کیسا روشن دودمان ہے۔ کیسا روشن خانوادہ ہے۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور آگے بڑھتا چلا جائے گا۔
حضرات! اس شمارے کے سلسلے میں ایک اور بات عرض کر دوں کہ میرے ذہن میں کچھ تجاویز تھیں۔ میرے خیال میں تھا کہ آپ کے اخلاف کو یہ کرنا چاہیے، وہ کرنا چاہیے، لیکن جونہی شمارہ ہاتھ لگا اور اس کا کلمہ حق پڑھا تو بے حد مسرت بھی ہوئی اور اطمینان بھی ہوا کہ ہمارے عزیز مکرم عمار خان ناصر نے یہ سلسلہ اس سے پہلے ہی شروع کر رکھا تھا۔ کوئی دو سال پہلے، کوئی سال پہلے، کوئی تین سال پہلے۔ اس میں چودہ منصوبے گنوائے گئے ہیں۔ بعض تو بروے کار ہیں جن پر کام ہو رہا ہے اور بعض زیر نظر ہیں، مثلاً انٹرنیٹ کا ہے یا سیمینارز کا ہے۔ ان پر کام ہوگا۔ دعا ہے کہ اللہ انھیں اس بات کی توفیق دے۔ یوں حضرت کی زندگی کے بے شمار گوشے سامنے آ جائیں گے اور اس مینارۂ نور سے جانے کب تک لوگ استینار کرتے رہیں گے۔ میں آخر میں علامہ اقبال کے الفاظ میں کہوں گا:
لکھی جائیں گی کتاب دل کی تفسیریں بہت
ہوں گی اے خواب جوانی تیری تعبیریں بہت
ہوبہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون
اٹھ گیا ناوک فگن، مارے گا دل پر تیر کون
پروفیسر حافظ محمود اختر
(چیئرمین شیخ زاید اسلامک سنٹر، لاہور)
آج کی مجلس میں شرکت میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہے اور میں آج ان مختصر لمحات میں کچھ تو الشریعہ کے اس شمارے کے بارے میں بات کروں گا اور ایک بات بڑے مختصر انداز سے وہ کروں گا جو میں اکثر کیا کرتا ہوں۔
یہ ایک بالکل روز روشن کی طرح عیاں حقیقت ہے کہ علم اور روحانیت اور عمل کے اعتبار سے اور اسلاف کے ساتھ تعلق کے حوالے سے جو کچھ علماے دیوبند کے پاس موجود ہے، وہ کسی اور مسلک کے پاس نہیں ہے۔ یہ کوئی مسلکی تعصب کی بات نہیں ہے، بلکہ بالکل بجا کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مسلک کے علما سے جو خدمات لی ہیں اور جو کچھ ان کے پاس ہے، وہ کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ سب سے بڑ ی بات یہ ہے کہ یہ اپنے اندرونی وداخلی وسائل کی بنیاد پر او ر دین کے ساتھ اپنی محبت کی بنیاد پر یہ ساری خدمات انجام دے رہا ہے۔ ہمارے پاس کوئی خارجی وسیلہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود جس اخلاص کے ساتھ یہ مسلک دین کی خدمت پر لگا ہوا ہے، یہ اسی کا حصہ ہے۔
میں اپنے بھائی مولانا زاہد الراشدی صاحب سے ہمیشہ یہ کہتا رہا ہوں کہ ہمارے پاس اتنا علمی ذخیر ہ موجود ہے، قیادت کرنے والی شخصیات موجود ہیں، لیکن ہمارے بہت سے لوگ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بکھرے ہوئے ہیں، کسی کے ساتھ دوسرے کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ مثلاً میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں۔ مجھے معلوم تک نہیں کہ میرے مسلک کے اور کون کون سے ساتھی موجود ہیں۔ جو ساتھی موجود ہیں، وہ اپنے اپنے طو رپر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ بھی کوشش نہیں کی کہ چھ مہینے یا سال کے بعد آپس میں بیٹھ کر تبادلہ خیال کر لیں کہ ہمارے مسلک کی کوئی نئی کاوش سامنے آئی ہے، یا کسی بزرگ کی خدمات سامنے آئی ہیں۔ دوسرے سب لوگ دروس قرآن کے حوالے سے یا مطالعہ کتب کے حوالے سے یا کسی اور عنوان سے اکٹھے ہو جاتے ہیں، لیکن ہمارے اندر یہ کمی ہے اور میں اپنے آپ کو بھی اس کا مورد الزام ٹھہراتا ہوں کہ میں نے یونی ورسٹی کے اندر زندگی گزار دی لیکن یہ نہیں کر پایا۔
اصل یہ ہے کہ لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے ایک پرکشش شخصیت کی اور پرکشش قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ محترم راشدی صاحب سے میں کہتا رہا ہوں کہ ہمیں قیادت فراہم کیجیے، ہمیں اکٹھا کیجیے، ہم بکھرے ہوئے ہیں۔ اس سے فکری مرکزیت بھی آئے گی اور ہمارے اندر اجتماعیت کا پہلو بھی پیدا ہوگا۔ میں آ ج اس مجلس کی مناسبت سے بھی زاہد الراشدی صاحب سے گزارش کرتا ہوں کہ جس طرح انھوں نے گوجرانوالہ کے اندر یہ مرکز قائم کیا ہے، دوسرے مختلف مقامات پر اس طرح کے مراکز قائم کیے جائیں۔
میں مولانا زاہد الراشدی کا نام یونیورسٹی میں کسی لیکچر کے لیے پروپوز کرتے ہوئے جھجھک محسوس کرتا تھا کہ وہاں ایک اور ماحول ہے، ایک اور مسلک ہے، ایک اور نقطہ نگاہ ہے۔ ایک مرتبہ انھوں نے وہاں یونی ورسٹی کے اندر تقریر کی اور لوگوں نے ان کو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھ لیا تو کہا کہ آپ کیسے ان کے واقف ہیں؟ میں نے کہا کہ ہم تو بچپن کے لنگوٹیے دوست ہیں، ہم نے بچپن اکٹھے گزارا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے آج تک ان کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ آپ نے چھپا کر کیوں رکھا ہوا تھا۔ ابھی پچھلے ہفتے میں نے یہ بات کی کہ حدیث اور سنت کے فرق کا جو موضوع ہمارے ہاں چل رہا ہے، اس پر لیکچر کرانے چاہییں، تاکہ ہمارے پی ایچ ڈی اور ایم فل کے جو اسٹوڈنٹس ہیں، ان کو اس کی حقیقت کا پتہ چلے اور گفتگو کے لیے ایسے عالم لانا کو چاہیے جو صحیح معنی میں اس پر گرفت رکھتا ہو۔ فوری طور پر بلا کسی اختلاف کے سب نے کہا کہ زاہد الراشدی صاحب کو لائیں۔ تو مرکزیت ان جیسے لوگ قائم کر سکتے ہیں۔ ہمیں پلیٹ فارم فراہم کر سکتے ہیں۔ بغیر کسی سیاسی مقصد کے، خالص دینی نقطہ نگاہ سے ہماری قیادت کریں۔ لاہور میں اگر ہم کوئی فنکشن کریں تو یہ ہماری فکری تربیت کریں۔ اسی طرح دوسرے چھوٹے شہروں میں بھی مرکز قائم ہوں جہاں مہینے دو مہینے کے بعد غیر سیاسی بنیاد پر فکری تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ خالصتاً علم کی بات کی جائے اور کم از کم جو دیوبندی اساتذہ ہیں یا ان کے شاگرد ہیں، انھیں مل بیٹھنے کا ایک موقع تو فراہم ہو۔
دوسری بات یہ کہ مولانا سرفراز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بات ہو یا دوسرے علماے دیوبند کی، ایک چیز میری زندگی کے محسوسات میں شامل ہے کہ ان کی تصانیف اور ان کے علمی کارنامے جو ہیں، ہماری لائبریریوں میں دستیاب نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں شعبہ اسلامیات کے اندر حضرت مولانا کی شاید ایک یا دو کتابیں موجود ہوں اور اسلامک سنٹر میں پانچ چھ کتابیں ہوں گی۔ میں نے حضرت مولانا پر ایک چھوٹا سا آرٹیکل لکھا، چند صفحے کی کاوش کی، اس کے لیے بھی میں نے کوشش کی کہ لائبریری سے کوئی کتاب مل جائے۔ تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مولانا کے اس کام کو جو فروغ دینے والے لوگ ہیں، وہ اس چیز کا بھی اہتمام کریں کہ علماے دیوبند کی کتابوں اور خصوصی طور پرمولانا سرفراز صاحب کی کتابوں کو ایک مشن کے طور پر لائبریریوں تک پہنچایا جائے۔ یہ مولانا پر یا علماے دیوبند پر کوئی احسان نہیں ہوگا۔ لائبریریوں میں یہ کتابیں موجود ہونی چاہییں۔ علماے دیوبند اس کے محتاج نہیں کہ ان کی کتابیں لائبریریوں میں آئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کتابوں کو فی الواقع لائبریریوں کی زینت بننا چاہیے۔ ہم مولانا کی اور علماے دیوبند کی کتابوں کو ایک تحریک کے طور پر علمی انداز سے، مثبت انداز سے مختلف لائبریریز کے اندر پہنچانے کا بندوبست کریں۔
آج کا دور ریسرچ کا دور ہے۔ کوئی شخص کسی تحریر کو پڑھتا ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ نیچے حوالہ جات ہیں؟ کوئی کتابیات دی ہوئی ہے؟ اگر کتابیات نہ ہو، حوالے نہ ہوں تو لوگ کتاب کو رکھ دیتے ہیں کہ اس کی استنادی حیثیت تو ہے ہی نہیں۔ میں میں عرض کرتا ہوں کہ اگر تحقیق کے جدید تقاضوں کو سامنے رکھ کر مولانا سرفراز صفدر کا بطور محقق جائزہ لیا جائے تو باوجودیکہ مولانا کی بہت سی کتابیں پچاس ساٹھ سال پہلے کی لکھی ہوئی ہیں، ان کے اندر ایک بڑے اچھے محقق کی تمام صفات سب کتابوں کے اندر موجود ہیں۔ ایک محقق کے لیے جتنی بھی صفات بیان کی جاتی ہیں، میں نے اس معیار پر پورا اترنے والی مختلف کتابوں کا ذہن میں سوچا تو دیکھا کہ اس کی صفات بھی مولانا کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے، بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔
باقی رہی بات ’الشریعہ‘ کی خصوصی اشاعت کی تو میں عزیز محترم عمار خان ناصر کو دعائیں دیتا ہوں، شکر گزار تو ہونا ہی ہے کہ انھوں نے بہت بڑا کام کیا ہے۔ زاہد صاحب میرے ہم عمر ہیں۔ یہ ان کے بیٹے ہیں اور اگلی نسل سے ہیں۔ اس نسل میں ہمارے پاس ایک نوجوان ایسا موجود ہے۔ اس کے علاوہ اور کتنے ایسے نوجوان چھپے ہوئے بیٹھے ہیں جن کی صلاحیتوں سے ہم کام نہیں لے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی صلاحیتوں میں اور برکت ڈالے ۔ ایک نوجوان نے یہ کام کیا۔ میں خود حیران ہوں کہ یونیورسٹی کے اندر رسالے چھپتے ہیں تو ہم سر کی ٹھیکریاں توڑ دیتے ہیں، منتیں کرتے ہیں، لیکن آرٹیکل نہیں آتے اور یہاں ان کے خلوص کا اور مولانا رحمہ اللہ کے ساتھ لوگوں کی محبت کا یہ ایک اظہار ہے کہ اتنی محبت کے ساتھ بے حد جاندار مضامین لوگوں نے لکھے ہیں۔ یہ عمار خان کی جو لگن ہے کام کرنے کی، کام کے پیچھے پڑ جانے کی، یہ اس کا ثمر ہے۔ اس کی یہاں سے بھی تائید ہوئی ہے، مولانا عبد الحق صاحب نے فرمایا ہے کہ عمار خان ان کے پیچھے نہ پڑتے تو وہ کبھی نہ لکھ پاتے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے افراد ہمارے پاس موجود ہیں، کام کرنے کا سلیقہ رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ ان افراد سے کام لیا جائے۔
میں مبارک بار دیتا ہوں الشریعہ اکادمی کہ انھوں نے الشریعہ کا یہ خصوصی شمارہ نکالا ہے۔ ہمارے استاذ محترم حافظ احمد یار صاحب کہا کرتے تھے کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ پچاس یا ساٹھ سال سو سو سال بعد حدیثیں لکھی گئیں۔ وہ کہتے تھے کہ کسی شخصیت کے تمام پہلووں پر جامع مواد اکٹھا کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس شخصیت کو فوت ہوئے کم از کم پچاس ساٹھ سال یا دونسلیں گزر گئی ہوں۔ یہ جو شمارہ آیا ہے، اس میں ان لوگوں کے تاثرات ہیں جو حضرت مولانا کے ساتھ بیٹھے، جنھوں نے کچھ سیکھا یا کچھ پڑھا۔ مولانا کے بہت سے شاگرد اور ملنے والے ایسے ہوں گے جو ایسی باتیں بتائیں گے جو اس کے اندر موجود نہیں ہیں اور کسی کو معلوم نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ ایسے بھی ہوں جو کہیں کہ اس بات کا علم صرف مجھے ہے۔ تو اس کام کا اگلا مرحلہ بھی آئے گا، اس لیے میری گزارش ہے کہ اس کو مزید بہتر اور جامع بنانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ صرف اسی پر اکتفا نہ کر لیجیے کہ ہم نے حضرت مولانا پر ایک شمارہ شائع کیا تھا۔ ان کے حالات زندگی پر ایک جامع قسم کی دستاویز تیار کی تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ مولانا کا جو زندگی کا مشن تھا، مولانا نے جو کچھ زندگی کے اندر کیا، اس پروگرام کو اس مشن کو اور زیادہ موثر انداز سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا اہتمام کریں۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے خصوصی جوار رحمت میں جگہ دے، ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس قابل بنائے کہ ہم ان کے مشن کو آگے چلا سکیں۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
پروفیسر حافظ خالد محمود
(اسلام آباد)
میں الشریعہ اکادمی کے منتظمین کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے اس بلند فکری وعلمی مجلس میں مجھے شرکت کی دعوت دی اور صدارت کی نشست پر بٹھا کرمیری عزت افزائی کی۔
مجھے یہ خوشی ہے کہ ہمارے حلقے کے اندر ’الشریعہ‘ کی طرز کے علمی رسالے نکلنے لگے ہیں۔ اس سے پہلے ہم دائیں بائیں دیکھتے تھے تو بعض طبقوں میں اچھے معیاری رسالے نظر آتے تھے۔ ہم سوچا کرتے تھے کہ ہم ہیں تو حق پر، ہمارے علما بڑے جید علما ہیں، جس طبقے سے ہمارا تعلق ہے، وہ بڑے عظیم لوگ ہیں۔ تقویٰ، تدین، علم وفضل، ہر اعتبار سے ہمیں پورا اطمینان تھا۔ ہم نے ان سے پڑھا۔ صوفی عبد الحمید صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے میں نے حماسہ، متنبی اور سیرت ابن ہشام پڑھی۔ یہ سب دیکھے بھالے لوگ تھے۔ یونی ورسٹیوں میں بھی ہم گئے، اہل علم کی مجلسوں میں بھی گئے تو ہمیں اطمینان تھا کہ ہم جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اس میں بڑے علم وفضل والے لوگ ہیں۔ صاحب تقویٰ وتدین لوگ ہیں۔ لیکن ہر دور اپنے تقاضے اپنے ساتھ لاتا ہے۔ اس کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ یہ تحقیق کا دور ہے، علمی وفکری دور ہے۔ اس کے تقاضوں کے مطابق چلیں گے اور انھیں سمجھیں گے تو ہم عصر حاضر کا جواب دے سکتے ہیں ورنہ مار کھا جائیں گے۔ ہمارے یہ الشریعہ اکادمی کے حضرات کافی حد تک اس پر پورے اتر رہے ہیں جو اطمینا ن بخش بات ہے۔
اور عمار خان ناصر کے بارے میں بعض حضرات سے معذرت کے ساتھ عرض کروں گا مجھے بڑی خوشی ہے کہ ان کے بڑے محققانہ مضامین آتے ہیں۔ کسی کو اختلاف رائے ہو تو علما کا حق ہوتا ہے۔ یہ ہم نے پرانی کتابوں میں بھی پڑھا ہے۔ کل ہی میں مولانا سرفراز خان صاحب مرحوم کی کتاب طلاق ثلاثہ کے مسئلے پر پڑھ رہا تھا تو اس میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے عائلی کمیشن کی رپورٹ پر جو تبصرہ لکھا تھا، اس کا بھی حوالہ تھا۔ وہ میں نے کتاب کافی عرصہ پہلے پڑھی ہوئی تھی۔ اس میں انھوں نے کہا تھاکہ طلاق ثلاثہ کے بارے میں تمام ائمہ متفق ہیں کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں ہوجاتی ہیں، سوائے امام ابن تیمیہ یا امام ابن قیم یا علامہ ابن حزم کے۔ تو مولانا سرفراز صاحبؒ نے لکھا کہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کو غلطی لگی ہے، علامہ ابن حزم بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کے قائل تھے۔ تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ مطالعہ سے انسان کو کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ میرے ذہن میں یہی تھاکہ یہ تین لوگ ہیں، لیکن اس کے بعد پتہ چلا کہ صرف علامہ ابن تیمیہ ہیں اور علامہ ابن قیم ان کے شاگرد ہیں، انھوں نے تو کرنا ہی تھا۔ خیر مجھے یہ بات یاد آئی کہ مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ میں علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن قیم سے بڑی عقیدت رکھتا ہوں اور ان کی کتابیں میں نے پڑھی ہیں، لیکن ان کا یہ موقف اطمینان بخش نہیں ہے، اس میں استدلال کی بڑی کمزوریاں ہیں۔ اب دیکھیں کہاں علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن قیم، لیکن ان سے بھی لوگ اختلاف رکھتے ہیں۔ تو علما کو یہ حق ہوتا ہے۔
الشریعہ کے خصوصی نمبر کی ابھی میں نے صرف ورق گردانی کی ہے۔ اس کی فہرست دیکھی تو کافی اطمینان ہوا۔ پھر پروفیسر عدیم صاحب کا جو تبصرہ میں نے سنا ہے، اس سے بھی مستفید ہوا ہوں اور اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ الحمد للہ نمبر بڑا معیاری ہے۔ جو کمی بیشی ہے، ان کی نشان دہی بھی بعض بزرگوں نے کی ہے۔ وہ بھی دور ہوتی رہے گی اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ اس سے پہلے استاذ گرامی حضرت مولانا صوفی عبد الحمید صاحب پر جو نمبر شائع ہوا ہے، اس میں جیسی ان کی بھرپور علمی شخصیت تھی، اس کی عکاسی نہیں ہوئی۔ ان کا سوچ کا انداز مولانا سرفراز صاحب سے ذرا مختلف تھا۔ مذہبی اختلاف نہیں تھا، لیکن ان کی سوچ کا ان کے فکر کا انداز اپنا تھا۔ تو اس انداز میں نمبر نہیں نکلا۔
مجھے ایک بڑے فلاسفر کا واقعہ یاد آگیا۔ جب وہ مرنے لگا تو اس نے اپنے خویش واقارب کو جمع کیا اور کہا کہ میں مرنے لگا ہوں تو مجھے تالی بجا کر رخصت کرو۔ انھوں نے کہا کہ آپ مرنے لگے ہیں، یہ تو ہمارے لیے پریشانی کی بات ہے اور آپ کہتے ہیں کہ تالی بجا کر رخصت کرو۔ اس نے کہا، ہاں اس لیے کہ آپ کے لیے یہ بات باعث فخر ہے کہ میں زندگی میں اپنا کردار صحیح طور پر انجام دے کر رخصت ہو رہا ہوں۔ میں جو سمجھتا تھا کہ میں نے زندگی میں علم کے اعتبار سے، فکر کے اعتبار سے، اپنی دانش اور سمجھ بوجھ کے اعتبار سے کیا کردار ادا کرنا ہے، اس میں، میں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میں نے اپنا رول صحیح ادا کیا ہے۔ تمہیں فخر ہونا چاہیے۔ اس لیے اس انداز میں دنیا سے رخصت کرو۔
میں اسی کو سامنے رکھ کر کہتا ہوں کہ ہم ان دونوں بزرگوں سے بڑے متاثر ہیں۔ دعاگو بھی رہتے ہیں اور احترام بھی ہمارے دلوں میں ہے۔ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ کتنا احترام ہے۔ ان لوگوں نے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا ہے اور انھوں نے زندگی میں اپنا کردار صحیح سرانجام دیا ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے کارناموں کو سمجھیں اور انھوں نے جو علمی وفکری سرمایہ چھوڑا ہے، اسے اگلی نسل تک خوب صورت انداز میں پہنچائیں۔
میں دوبارہ آپ حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں اس قابل نہیں تھا۔ میں پچھلی صف کا آدمی ہوں۔ بہرحال میں اس عزت افزائی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس خانوادے نے مجھے علما کی اس مجلس میں صدارت کی نشست پر فائز کیا۔
مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی
(جامعہ فتاح العلوم، گوجرانوالہ)
ہمارے شیخ محی السنۃ مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ، اللہ جل شانہ کی عظیم قدرت اور عجیب نمونہ تھے اور ایسی شخصیات صدیوں بعد اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر مرحمت فرماتے ہیں۔ وہ بیک وقت علما کے لیے بھی حجت تھے، اہل علم حضرت کا نام لے کر کسی مسئلہ کو مستند سمجھتے تھے۔ کبار علما کو دیکھا جو ان کے معاصرین تھے بلکہ ان کے بڑے جو اساتذہ کے درجے میں تھے، وہ بھی حضرت کے علم وعمل کی توصیف کرتے تھے اور آپ کی تحسین میں رطب اللسان نظر آتے تھے۔
آپ مرجع خلائق تھے۔ ایک موقع پر حضرت شیخ کے شہر گکھڑ میں ایک مجلس منعقد ہوئی اور حضرت شیخ کو پیری مریدی کے سلسلے میں جو مقام حاصل ہے، اس کا تعارف کرانے کے لیے علما اور احباب کو بزرگوں کو بلایا گیا۔ میں نے کہا کہ بعض ہستیاں ایسی ہوتی ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ اپنے وقت کے مسند ارشاد کے ولی کامل ہوتے ہیں اور ان کا اس زمانے میں کوئی مقابل یا معارض نہیں ہوتا، لیکن ان پر علم غالب ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت بڑے مرشد کامل تھے، لیکن آپ پر نبوت اور نبوت کا جو لازمی عنصر ہے دعوت، اللہ کی کتاب کی تعلیم، یہ غالب تھا۔ ہمارے اکابر علما حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہما اللہ یہ بڑے اونچے درجے کے لوگ تھے۔ اپنے وقت کے بزرگوں سے جو صاحب ارشاد تھے، ان سے بھی بڑے اونچے تھے، لیکن ان پر علم غالب تھا۔ ہمارے شیخ پر بھی علم، حدیث، سنت، اللہ کی کتاب یہ عنصر غالب تھا۔ میں نے کہا کہ بندۂ خدا، تم کیا تعارف کراتے ہو! اس وقت حضرت شیخ بالکل صحت مند تھے۔ یہ تقریباً پندرہ سال پہلے کی بات ہے۔
کسی نے امام احمد کے بارے میں یہ کہا تھا کہ لا یحبہ الا مومن ولا یبغضہ الا مبتدع۔ ان کی محبت معیار ہے ایمان کا اور ان سے نفرت وبغض معیار ہے اس بات کا کہ وہ راہ راست سے بھٹکا ہوا ہے۔ ابن تیمیہ اس مقام پر پہنچ گئے کہ اس وقت کے ان کے معاصرین نے کہا کہ جس حدیث کو ابن تیمیہ نہیں جانتے، وہ حدیث نہیں ہے۔ کل حدیث لم یعرفہ ابن تیمیۃ فہو لیس بحدیث۔ حالانکہ یہ بات اس طرح معیاری نہیں ہے، لیکن ایک محاورہ ہے، ایک بات ہے، ان کا تعارف ہے۔
ہمارے شیخ میں بہت بڑی صفات ہیں۔ کیا عرض کروں۔ تفصیل کا موقع نہیں۔ حضرت پر جمال غالب تھا۔ میں نے حضرت شیخ لاہوریؒ سے پڑھا ہے۔ دو ڈھائی مہینے ان کی خدمت میں شب وروز رہا ہوں۔ استاذ مولانا مفتی محمود صاحب میرے شیخ ہیں ، استاد ہیں۔ خلوت جلوت میں ان کے ساتھ سفر بھی کیا ہے۔ اس طرح ہمارے شیخ استاذ مولانا قاضی شمس الدین صاحب رحمہ اللہ۔ لیکن جو بردباری، تحمل، برداشت، حسن اخلاق، سلیقہ عوام کے ساتھ، علما کے ساتھ، حتی کہ تلامذہ کے ساتھ، ادنیٰ لوگوں کے ساتھ، وہ کہیں اور نہیں دیکھا۔ باوجود اس کے کہ تلامذہ سے، شاگردوں سے، خدام سے، معاصرین سے بہت سی باتیں خلاف طبع اور خلاف ادب بھی سرزد ہو جاتی تھیں، لیکن حضرت کی برداشت ایسی تھی کہ اس کے کیا کہنے! بڑ ے بڑے اکابر کو ہم نے مجلس میں لقمے دیے، لیکن اس انداز سے کہ کسی کو محسوس نہ ہو۔ حضرت سے میں نے ۱۹۵۷ء میں دورۂ حدیث پڑھا ہے۔ کئی بحثیں اور کئی مسائل ایسے ہوتے کہ میں کہتا کہ حضرت! آپ کی اس بات پر اطمینان نہیں ہوا جو آپ نے جواب دیا۔ فرمایا، صوفی لوگوں کو اطمینان بہت کم ہوتا ہے۔ میں کہتا کہ حضرت فلاں عالم نے یوں کہا ہے، فلاں نے یوں کہا ہے، فلاں نے یوں کہا ہے۔ ایسا معارضے کے انداز میں ہوتا، حالانکہ وہ استاذ ہیں، پڑھا رہے ہیں، ہماری حیثیت نہیں ہے۔ دو چار دفعہ تکرار سے فرمایا، بڑا وقت لگا۔ جب دیکھتے کہ یہ بات نہیں مانتے تو فرماتے، ’’اچھا مولوی صاحب، جو آپ کا دل چاہے۔‘‘ یہ حضرت کا بہت بڑا جلال ہوتا تھا۔
ایک وقت سب پر آنا ہے۔ حضرت اپنی زندگی کے ایام گزار کر چلے گئے، لیکن جو اللہ کے ایک بندے کو عبودیت کے حوالے سے جو کام کرنے چاہییں تھے، وہ سب انھوں نے کر کے دکھا دیے۔ علم میں، عمل میں، اخلاق میں، معاملات میں، عامۃ الناس اور معاصرین واکابر کے ساتھ برتاؤ میں، چھوٹوں پر رحم وکرم میں عبودیت کے مقام میں جو کچھ کرنا چاہیے تھا، ہماری نظر میں سب کچھ کیا۔
محدثین اور شراح حدیث کے اقوال پیش کرنے میں کمال حاصل تھا۔ زیادہ تر جو بات ہے حضرت کی، وہ ہے مسئلے کا اور کسی ایک موقف پر اپنی رائے دینا اور اس کو ترجیحی طور پر بیان کرنا۔ پھر یہ بڑا کمال دیکھا ہے کہ وہ اپنی رائے کبھی بیان نہیں کرتے تھے کہ میری یہ رائے ہے۔ کبھی نہیں سنا۔ پچیس سال میں حضرت کی خدمت میں شب وروز رہا ہوں۔ حضرت کے ساتھ فتویٰ لکھا ہے۔ پہلے بھی آنا جانا ہوتا تھا۔ جمہور کی رائے۔ اور ایک مسئلے پر کتنے ہی، صحابہ سے لے کر تابعین مجتہدین اپنے اکابر فقہا کی آرا پیش کرتے۔ اور مجھے ان سے بڑے اختلاف کرنے والے عالم نے جو ہمارے بھی استاد ہیں، کہا کہ یہ مولانا سرفراز صاحب کا طرۂ امتیاز ہے کہ وہ ایک موقف اور ایک مسئلے پر اتنی آرا جمہور کی پیش کر کے پھر فرماتے ہیں کہ یہ راجح ہے۔
میں نے اس نمبر میں مختصر مختصر مضامین سب دیکھے، بہت پسند آئے۔ محنت اور جانفشانی سے لکھے گئے ہیں اور ہمارے عزیز برادر مولوی عمار خان ناصر نے بڑی محنت اور جانفشانی سے ایک ایک لفظ کو اپنے مقام پر دیکھا ہے۔ بعض مقامات پر اصلاح بھی کی ہے اور بڑی محنت سے اس کو شائع کیا ہے۔ البتہ ہمارے برادر مولانا فیاض خان سواتی اور مولانا عبد القدوس خان قارن صاحب نے جس بات کی نشان دہی کی ہے، میں بھی یہ درخواست کروں گاکہ اس نمبر میں حضرت کے مسائل کو اور ان کی ذات کو جو محل بحث بنایا گیا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ تحقیق کا میدان ہے اور جاری رہے گا، لیکن جہاں تک حضرت کے مستند ہونے، معتبر ہونے، حجت ہونے کا مقام ہے، وہ اسی طرح برقرار رہے گا۔ اور ان کو یہ منصب کسی شخص نے نہیں دیا، ہم سمجھتے ہیں کہ علماے امت نے، ہمارے علماے دیوبند نے بلکہ معاصرین نے شرقاً غرباً، عرباً عجماً ان کو یہ مقام دیا ہے۔ وہ مستند ہیں، حجت ہیں اور ان کی بات حرف آخر ہے۔ ہاں، اس میں تحقیق کر سکتے ہیں اور میں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ہم نے اپنے دو استادوں کو عجیب پایا ہے۔ ایک استاد مفتی محمود اور ایک اپنے شیخ۔ وہ فرماتے تھے کہ مجھے کوئی علمی طور پر میری غلطی پرمتنبہ کرتا ہے تو میں خوش ہوتا ہوں۔ میں نے اپنے معاصرین میں ایسا کسی کو نہیں دیکھا۔ جب ہم اپنے شیخ سے یا مفتی محمود سے کسی مسئلے پر مذاکرہ کرتے تو کبھی انھوں نے ہمیں بند نہیں کیا یا اپنی استادی نہیں جتائی کہ میں استاد ہوں۔ کھلا میدان دیا کہ میری دلیل یہ ہے، آپ اپنی دلیل پیش کریں۔ ہمیں بولنے کا انداز سکھایا۔ ہمیں جرات دلائی۔ اس کے بعد واللہ کوئی بڑے سے بڑا افسر ہو، کوئی صدر ہو نواب ہو، کبھی دل میں احساس نہیں ہوا کہ ہم کس سے بات کر رہے ہیں۔ جب ہم استاد مفتی محمود صاحب سے اور مولانا سرفراز صاحب سے باتیں کرتے ہیں مسائل کی اور وہ حوصلہ دیتے ہیں، میدان دیتے ہیں اور حوصلہ افزائی فرماتے ہیں، خوشی کا اظہار فرماتے ہیں، اختلاف کی صورت میں بھی تو ہم کس سے گھبرا سکتے ہیں۔
بس یہی درخواست ہے کہ اس نمبر میں جو آخر میں بحث ہے حضرت شیخ کے حوالے سے کہ ہمیں ان باتوں سے اختلاف ہے اور ہم ان باتوں کو بطور تحقیق کے بیان کر سکتے ہیں، یہ عنصر نہیں ہونا چاہیے۔ باقی ما شاء اللہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب حضرات کی جنھوں نے اس میں کام کیا ہے، جنھوں نے مضامین لکھے، اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور اس کو تادیر باقی رکھے اور جب دوسرا نمبر آئے تو اس میں اصلاحات کی جائیں، نقش ثانی بہتر از نقش اول کا مصداق بنایا جائے۔