۱۷ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو لاہور کے ایک ہوٹل میں ’’دینی تعلیم اور عصری تقاضے‘‘ کے عنوان پر ایک سیمینار منعقد ہوا جس کا اہتمام ’’تحریک اصلاح تعلیم‘‘ اور ’’صفہ اسلامک سنٹر‘‘ کے سربراہ ڈاکٹر محمدامین نے ایک قومی اخبار کے مذہبی ونگ کے تعاون سے کیا۔ سیمینار سے ڈاکٹر محمد امین کے علاوہ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان، صوبائی وزیر جیل خانہ جات چودھری عبدالغفور، جسٹس منیر احمد مغل، معروف صحافی جناب عطاء الرحمن، ڈاکٹر محمد طاہر مصطفی، سید افتخار حسین شاہ اور دیگر مقررین کے علاوہ مولانا زاہد الراشدی نے بھی گزارشات پیش کیں۔
ڈاکٹر محمد امین پنجاب یونیورسٹی کے پرانے اساتذہ میں سے ہیں اور ایک عرصہ سے اصلاح تعلیم کے حوالہ سے سرگرم عمل ہیں۔ ان کی اصلاحی تحریک کا ہدف ملک میں مروج دونوں قسم کے نظام تعلیم ہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش یہ ہے کہ ریاستی تعلیمی اداروں اور عصری تعلیم کے نظام میں دینی تعلیم اور انسان سازی کا جو خلا ہے، وہ پر کیا جائے اور دینی مدارس کے نظام تعلیم میں عصری تقاضوں کو شامل کرکے علماء کرام کو آج کے چیلنجز اور تقاضوں سے عہد ہ برآ ہونے کے لیے تیار کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں دوہرے نظام تعلیم کی وجہ سے نئی نسل کے ذہنوں میں تقسیم اور باہمی دوری بڑھ رہی ہے جسے ختم کرنا ضروری ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ دونوں قسم کے نظام تعلیم معاشرے میں اپنا کردار پوری طرح ادا نہیں کر رہے جس کی وجہ سے نہ تو صحیح معیار کے علماء کرام تیار ہو رہے ہیں اورنہ ہی جدید تعلیمی اداروں سے زمانے کی ضروریات کے مطابق مختلف شعبوں کے ماہرین صحیح طورپر پیدا ہو رہے ہیں۔ ان کی تجویز یہ ہے کہ دونوں نظام ہائے تعلیم کو یکجا کر کے ایک مشترکہ نصاب وضع کیا جائے اور قومی تعلیمی پالیسی میں انقلابی اصلاحات کرکے ملک بھر میں ہر سطح پریکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے جو قومی اور عصری ضروریات کو بھی پورا کرے اور ملی ودینی تقاضوں پر بھی پورا اترتا ہو۔ اس مقصد کے لیے وہ ’’تحریک اصلاح تعلیم‘‘ کے عنوان سے کم وبیش ربع صدی سے مصروف کار ہیں اور وقتاً فوقتاً علماء کرام اور ماہرین تعلیم کے مشترکہ سیمینارز کا اہتمام کرنے کے علاوہ طلبہ کے لیے تربیتی کورسز اور ورکشاپس بھی منعقد کرتے رہتے ہیں۔ ۱۷؍ اکتوبر کا مذکورہ سیمینار بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
سیمینار سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی نے درج ذیل گزارشات پیش کیں:
دینی تعلیم کے حوالے سے تقاضوں کادائرہ قومی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی مسلسل پھیلتا جا رہا ہے جس کی طرف فوری اور سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے۔ مثلاً پاکستان کے چیف جسٹس محترم جناب جسٹس افتخار محمد چودھری نے گزشتہ دنوں ایک کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہماری قومی زندگی کے ہرشعبہ میں کرپشن، نااہلی اور بددیانتی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ قوم کو اس سے نجات دلانے کے لیے سب سے زیادہ ’’گڈ گورننس‘‘ کی ضرورت ہے اور اس ’’گڈ گورننس‘‘ کے لیے ہمیں حضرت عمرؓ سے راہنمائی لینا ہو گی اور انہیں آئیڈیل بنانا ہو گا۔ میں جسٹس صاحب محترم کی بات میں تھوڑا سا اضافہ کروں گا کہ حضرت عمرؓ صرف ’’گڈ گورننس‘‘ میں ہی نہیں بلکہ ’’ویلفیئر سٹیٹ‘‘ کے حوالے سے بھی آئیڈیل ہیں جس سے یورپی اقوام مسلسل استفادہ کررہی ہیں اور حضرت عمرؓ سے گڈ گورننس اور ویلفیئر سٹیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہمیں دینی تعلیم ہی کی طرف دیکھنا ہو گا اور اس خلا کو ظاہر ہے کہ دینی تعلیم ہی پر کر سکے گی۔ اسی طرح دو سال قبل لندن میں مسیحیوں کے پروٹسٹنٹ فرقہ کے عالمی سربراہ آرچ بشپ آف کنٹربری نے جب یہ کہا کہ برطانیہ میں رہنے والے دو ملین سے زیادہ مسلمانوں کو یہ حق ملنا چاہیے کہ ان کے خاندانی نظام یعنی نکاح وطلاق ووراثت کے مسائل وتنازعات ان کے شرعی احکام کے مطابق طے کیے جائیں اور اس مقصد کے لیے برطانیہ کے جوڈیشل سسٹم کو مسلمانوں کی شرعی عدالتوں کے لیے اپنے دائرہ کے اندر گنجائش پیدا کرنی چاہیے تو اس پر اگرچہ شور مچ گیا اور مختلف حلقوں کی طرف سے آوازیں اٹھنے لگیں کہ برطانیہ میں ایسا کس طرح ہوسکتا ہے، مگر میں نے لندن میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے عرض کیاکہ بالآخر یہ ہونا ہی ہے، اس لیے کہ یہ مسلمانوں کا جائز حق ہے جسے امریکہ نے بھی اپنے دستور میں تسلیم کر رکھا ہے اور اس کے مطابق امریکہ کے مختلف شہروں میں شرعی عدالتیں کام کر رہی ہیں، لیکن اس کے ساتھ میرا یہ سوال ہے کہ ایسے جج اور قاضی تیار کرنا بھی اب ضروری ہو گیا ہے جو اسلامی شریعت اور فقہ پر مکمل عبور رکھنے کے ساتھ آج کے جوڈیشل سسٹم کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہوں اور آج کے تناظر میں شریعت کے مطابق مقدمات کے فیصلے کرسکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ خلا بھی دینی تعلیم کے نظام کو ہی پر کرنا ہے۔
اس کے ساتھ ایک اور پہلو پر بھی نظر ڈال لیجیے کہ اسلامی بینکنگ کا جو سسٹم دورحاضر میں متعارف ہو رہا ہے اورمسلم ممالک کے ساتھ مغربی ممالک کے بہت سے بینک بھی اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں، اگرچہ اسے مکمل طور پر صحیح اسلامی بینکنگ قرا ر دینے میں بہت سے علماء کرام کے تحفظات ہیں، لیکن اس کا دائرہ مسلسل پھیل رہا ہے اور اس وقت اس کے لیے سب سے بڑا مقابلہ لندن اور پیر س کے درمیان ہو رہا ہے۔ ابھی چند روز قبل فرانس کی کابینہ نے اسلامی بینکنگ کے لیے گنجائش پیدا کرنے کی غرض سے بعض قوانین میں ترامیم کی منظوری دی ہے جس کا مقصد یہ بیان کیا جاتاہے کہ لندن میں اسلامی بینکنگ کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا مقابلہ کیا جا سکے اور اس حوالے سے لندن اورپیر س کی کشمکش بہت دلچسپ صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہاں بھی یہ سوال سامنے ہے کہ اسلامی بینکنگ کے عملہ کے لیے کم از کم مشاورت کے درجہ میں ایسے افراد کی شدید ضرورت ہے جو اسلامی فقہ وشریعت کی پوری مہارت کے ساتھ ساتھ موجودہ معاشی نظام اور بینکنگ سسٹم پر بھی مکمل عبور رکھتے ہوں ا ور میرے خیال میں یہ بھی دینی تعلیم کے لیے عصری تقاضے اور چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان سب سے بڑھ کر ہمارے معاشرے میں کرپشن، نااہلی، بددیانتی، جھوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی، کام چوری اور لوٹ کھسوٹ کی جو خوفناک صورت حال ہے، اس کا حل ایک معاشرتی تحریک اورانقلاب کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔ ہماری اصل ضرورت ایک معاشرتی انقلاب ہے جو ہمیں جھوٹ، مکاری اور کرپشن کی اس آکا س بیل سے نجات دلا دے جس نے قومی زندگی کے تمام شعبوں اور شاخوں کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ معاشرتی انقلاب بھی دینی تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے اوراس کے لیے ہمیں قرآن وسنت کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔
یہ چند تقاضے دینی تعلیم کے دائرے میں وسعت اور سنجیدہ منصوبہ بندی کی فوری ضرورت کا احساس دلا رہے ہیں اور ان کی طرف توجہ دیے بغیر ہمارا دینی تعلیم کا نظام اپنی ملی ودینی ذمہ داریوں سے صحیح طور پر عہدہ برآ نہیں ہو سکے گا۔
سیمینار کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان تھے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں دینی مدارس کے کردار کے بارے میں فکر انگیز گفتگو کی جس کا کچھ حصہ درج ذیل ہے:
دینی مدارس کے بارے میں عمومی طوریہ تاثرپھیلتا جارہا ہے کہ وہ دہشت گرد تیار کر رہے ہیں اوردہشت گردی کی جو رَو اس وقت موجود ہے، وہ ان کی وجہ سے ہے۔ یہ بات سب سے پہلے امریکہ کی طرف سے کہی گئی تھی جسے لاشعوری طورپر ہمارے ہاں بھی قبول کر لیا گیا ہے اورہمارے میڈیا اور دانشوروں نے بھی وہی کچھ کہنا شروع کردیا ہے جبکہ یہ بات غلط ہے، اس لیے کہ ان دینی مدار س کی تاریخ تو صدیوں پرانی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ تو ابھی ایک عشرہ کی بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ کے موجودہ ماحول سے پہلے ان مدارس میں دہشت گرد کیوں پید انہیں ہو رہے تھے اور اس وقت ان پر یہ الزام کیوں نہیں تھا؟
اصل بات یہ ہے کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ کو ایسے افراد کی ضرورت تھی جو مذہبی جذبہ کے ساتھ یہ جنگ لڑ سکیں اور ایسے افراد ظاہر ہے کہ دینی مدارس سے ہی مل سکتے تھے جبکہ اس وقت پاکستان کے فوجی حکمران کو بھی امریکہ کے ساتھ تعاون کے لیے اس کی ضرورت تھی۔ چنانچہ دینی مدارس سے ایسے افراد کو تلاش کیا گیا اور انہیں تیار کرکے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف صف آرا کردیاگیا۔ ان لوگوں نے پورے خلوص اورجذبہ جہاد کے ساتھ یہ جنگ لڑی اور سوویت یونین کوشکست دی۔ ان لوگوں کے خلوص اورجذبہ ایمانی میں کوئی شبہ نہیں، لیکن ان کے پیچھے جو ماسٹر مائنڈ تھے، ان کے مقاصد کچھ اور تھے۔ انہوں نے سوویت یونین کی شکست کے بعد ان مجاہدین کو تنہا چھوڑ دیا اور کہہ دیاکہ اب تمہاری ضرورت نہیں رہی۔ اپنی زندگی کا راستہ اور ذرائع خود تلاش کرو۔ انہیں اگر اس وقت فوج میں بھرتی کر لیا جاتا یا قومی پالیسی کے تحت کسی کام پر لگا دیا جاتا تو جو صورت حال آج پید ا ہو گئی ہے، یہ نہ ہوتی، لیکن امریکہ نے انہیں تنہا چھوڑ دیا اور جن پاکستانی اداروں نے جہاد افغانستان میں ان کی پشت پناہی کی، وہ بھی پیچھے ہٹ گئے تو ظاہر بات ہے کہ جس شخص نے جدید ترین اسلحہ کی ٹریننگ حاصل کررکھی ہے اور سالہا سال تک اس کے استعمال کا تجربہ بھی کیا ہے، وہ زندگی گزارنے کے لیے اس کے علاوہ اور کون سا راستہ تلاش کرے گا؟ چنانچہ ایسے ہی ہو ا ،اس لیے ان مجاہدین کودہشت گردی کی طرف لے جانے کی ذمہ داری دینی مدارس پر نہیں ہے اورنہ ہی وہ انہیں اس مقصد کے لیے تیار کرتے ہیں۔ اس کی ذمہ داری ان قوتوں پر ہے جنہوں نے انہیں سوویت یونین کے خلاف جہاد کے لیے استعمال کیا اورپھر انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے آزاد اور تنہا چھوڑ دیا۔
ہمارے ہاں عام طورپر دینی مدارس کے بارے میں جو شکایات پائی جاتی ہیں، دوسری طرف کے نظام تعلیم کے بارے میں بھی اس طرح کی شکایات اور خدشات موجودہیں، اس لیے کہ جس طرح دینی مدارس میں عصری علوم کی تعلیم نہیں دی جاتی، اس طرح ہمارے عصری تعلیمی نظام میں بھی دینی تعلیم کا ضروری عنصر موجود نہیں ہے اور جس طرح کی تعلیم ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں دی جا رہی ہے، اس سے پیداہونے والی نئی نسل آج کے آٹھ دس برس کے بعد ہمارے لیے اس سے بڑی مصیبت کھڑی کر سکتی ہے جس قسم کی مشکل سے ہمیں دینی مدارس کے حوالے سے آج واسطہ پڑرہا ہے، اس لیے کہ دینی اور اخلاقی قدروں کی طرف توجہ نہیں ہے۔ آنکھ کی شرم اور رشتوں کا احترام ختم ہو رہا ہے اور ہماری معاشرتی اقدار سے بالکل اجنبی پود وجود میں آ رہی ہے۔ا س لیے ہماری ضرورت صرف یہ نہیں ہے کہ ہم دینی مدارس میں عصری تعلیم کااہتمام کریں بلکہ اس طرح ہماری یہ بھی ضرورت ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں ضروری دینی تعلیم کو شامل کریں، کیونکہ اسی طرح توازن پیدا ہوگا اور ہم اپنی ملی ضروریات کے مطابق نئی نسل کو تیار کر سکیں گے۔
ہماری حکومت اس سلسلے میں کام کر رہی ہے اورایک مستقل کمیٹی اس کے لیے مصروف عمل ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ایک خاص سطح پر تعلیمی نصاب میں عصری اور دینی ضروریات کو یکجا کیا جائے جو ہر ایک کے لیے ضروری ہو۔ اس میں انگریزی، ریاضی، کمپیوٹر اوردیگر ضروری فنون وعلوم کی تعلیم بھی ہو اور اس درجہ کی دینی تعلیم بھی ہوکہ ایک مسلمان قرآن کریم کو پڑھ کر اسے سمجھ سکے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو پڑھ کر انہیں سمجھ سکے۔ یہ سب کے لیے ضروری ہے اور ملک کے تمام شہریوں کو اس کی تعلیم دینا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ اس ضروری تعلیم کے بعد پھر اعلیٰ تعلیم کو مختلف شعبوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ جس نے انجینئر بننا ہے، وہ انجینئر بنے۔ کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے، وہ ڈاکٹر بنے۔ جس کی وکیل بننے کی خواہش ہے، وہ وکیل بنے اور جو عالم دین بننا چاہتا ہے، وہ عالم دین بنے۔ اس لیے کہ جس طرح ہمیں ڈاکٹروں، وکیلوں، انجینئروں اور سائنس دانوں کی ضرورت ہے، اسی طرح معاشرہ میں علمائے کرام کی بھی ضرورت ہے اور ان کے بغیر بھی ہمارا نظام صحیح نہیں چل سکتا۔ البتہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگاکہ ہمیں کتنے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، کتنے وکیلوں کی ضرورت ہے اورکتنے علماے کرام ہمیں ضرور ی طورپر تیارکرنے ہیں۔ اس کے لیے وسیع طورپر پالیسی تیار کرنے کی ضرورت ہے اورہم اس کے لیے کام کررہے ہیں۔
ہم دینی مدارس کی خدمات کااعتراف کرتے ہیں، ان کی ضرورت تسلیم کرتے ہیں اور ان کے کردار کو ضروری سمجھتے ہیں البتہ ہماری کوشش ہے کہ انہیں ایک مجموعی قومی پالیسی کے دائرے میں لایاجائے اور اس کے لیے دینی مدارس کے وفاقوں کے ساتھ گفتگو جاری ہے اور ان کا رویہ بہت مثبت اور حوصلہ افزا ہے جس سے امید ہے کہ ہم باہمی مشورہ اور بات چیت کے ساتھ کوئی ایسا راستہ تلاش کرلیں گے جس پر چل کر دینی مدارس اپنی کارکردگی کو اور زیادہ بہتر بنا سکیں گے۔