آزادی کی پر تشدد تحریکیں: سبق سیکھنے کی ضرورت

ڈاکٹر عبد القدیر خان

کشمیر کے مجوزہ حل کے بارے میں پرویز مشرف اور خورشید محمد قصوری نے کئی بیانات دیے ہیں اور یہ غلط تاثر دیا ہے کہ جیسے ہندوستان کشمیر کو پلیٹ پر رکھ کر ان کو دے رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کا بنیادی اصول یہ رہا ہے کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ یعنی ناقابل جدا حصہ ہے اور ہندوستان بشمول کشمیر کی سرحد میں ایک انچ کا بھی ردوبدل نہ ہوگا۔ آپ خود ہی سوچیے اور ان دو سابق حکمرانوں سے دریافت کیجیے کہ وہ کون سی شرائط تھیں جن پر ہندوستان قضیہ کشمیر کو حل کرنے پر راضی تھا یا ہمیں دینے کو تیار تھا؟ حیدر آباد، جونا گڑھ اور مانا ودر کو بھی نہ بھولیے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے راہنماؤں کی سب سے بڑی غلطی یا بلنڈر یہ رہا ہے کہ انہوں نے بغیر سوچے سمجھے اپنی قسمت اور مستقبل کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت تک ستر ہزار سے لے کر ایک لاکھ کشمیری تک نوجوان ہلاک ہو چکے ہیں اور حالات پہلے سے زیادہ مایوس کن ہیں۔ اگر مقبوضہ کشمیر کے تمام رہنماؤں کو حقیقت کا احساس ہوتا تو ان کو چاہیے تھا کہ سب مل کر الیکشن میں حصہ لیتے۔ لوگوں کو ثبوت دیتے کہ عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہے اور پھر متحد ہو کر اپنے حقوق مانگتے۔ ایک آزاد پالیسی بناتے اور زیادہ سے زیادہ اندرونی خود مختاری لے کر اپنی حالت پر خود کنٹرول رکھتے۔ اپنے عوام کی خدمت کرتے، لیکن میر واعظ عمر فاروق، پروفیسر گیلانی، یاسین ملک وغیرہ ابھی تک آنکھیں کھولے خواب دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی انہیں کشمیر کو آزاد کرا کے پاکستان کے حوالے کروا دے گا۔ اب پاکستان میں تو ابھی آمریت، ڈکٹیٹر شپ، لوٹ مار، رشوت ستانی اور لوٹا بازی ہے۔ 

کوئی بھی جدوجہد اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ایک طاقتور، بہادر، سنجیدہ ملک آپ کی کھل کر مسلسل مدد نہ کرتا رہے۔ پاکستان کو تو مشرف نے امریکہ اور ہندوستان کے ہاتھوں کوڑی کے داموں بیچ دیا ہے۔ اس کی اپنی حالت خستہ اور قابل رحم ہے اور وہ آپ کی کیا مدد کرے گا؟ آپ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور متحد ہو کر اپنے لیے سہولتیں اور زیادہ سے زیادہ اندرونی خودمختاری حاصل کر کے اپنے عوام کی مدد کریں اور خوشحالی اور امن مہیا کریں۔ کشمیری لیڈروں کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد پاکستان نے ۹۵ فی صد کشمیر کو کھو دیا تھا اور ۵ فیصد گنجائش تھی۔ وہ مشرف نے کارگل میں پنگا لے کر ہمیشہ کے لیے ضائع کر دی۔ میں نے ابھی عرض کیا کہ جب تک کوئی طاقتور، نڈر پڑوسی ملک کھل کر کسی جدوجہد کی مدد نہ کرے، اس وقت تک کوئی جدوجہد کامیاب نہیں ہو سکتی۔ چند مثالیں پیش کرتا ہوں: 

  1. پہلی مثال کشمیر کی ہی ہے، کیوں کہ نہ تو ہم طاقتور تھے اور نہ ہی کھل کر کشمیریوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ ستر ہزار سے زیادہ کشمیری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ وہ اس طرح کشمیر کو آزاد کرا لے گا تو وہ احمقوں کی دنیا میں رہتا ہے۔ 
  2. دوسری مثال فلسطین کی ہے۔ اگر آپ ۱۹۴۹ء میں اسرائیل کا رقبہ اور حدود دیکھیں تو تقریباً ایک چوتھائی تھا، کیوں کہ عرب حکمران اس معاملہ میں سنجیدہ نہ تھے۔ آج اسرائیل چار گنا بڑا ہے اور عرب ان کے آگے غلاموں کی حیثیت سے زیادہ نہیں ہیں۔ نہایت بری طرح شکستیں کھا کر اور لاکھوں بے گناہ لوگوں کو مروا کر فلسطینی لیڈر ابھی تک کوئی سبق حاصل نہ کر سکے۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، اسرائیل وسیع سے وسیع تر ہوتا جائے گا اور فلسطینی اور عرب زبانی جمع خرچ کر کے ذلیل و خوار ہوتے جائیں گے۔ اگر پچاس سال پہلے مصالحتی رویہ اختیار کر لیتے تو آج اسرائیل اپنے قیام کو قائم رکھنے میں دشوار ی محسوس کر رہا ہوتا۔ 
  3. ابھی ابھی سری لنکا میں تامل باغیوں کا حشر آپ کے سامنے ہے۔ جب تک ہندوستان کھل کر مدد کرتا رہا، انہوں نے سری لنکا کی فوج کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ جونہی بین الاقوامی دباؤ اور کشمیر کو دیکھ کر اس نے ایک ملکی مفاد والی پالیسی اختیار کر لی، تامل ختم کر دیے گئے۔ سب لیڈر مارے گئے اور تقریباً ایک لاکھ بے گناہ لوگوں نے چند خود غرضوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے جان دے دی۔ اگر بیس سال پہلے مصالحتی پالیسی اختیار کر کے معاہدہ کر لیتے تو اپنے علاقہ میں مکمل اندرونی خودمختاری مل جاتی اور لوگ خوش و خرم رہتے۔ اب وہ دوسرے درجہ کے ناقابل بھروسہ شہری بن گئے ہیں۔ 
  4. اسپین میں دہشت گرد تنظیم ای ٹی اے نے بھی وہی اندھی پالیسی اختیار کی اور دہشت گردی کا طریقہ اختیار کیا۔ لاتعداد لوگ مارے گئے اور نتیجہ صفر نکلا اور وہ کبھی بھی ایک آزاد ملک حاصل نہیں کر سکیں گے۔ 
  5. شمالی آئر لینڈ میں آئی آر اے نامی دہشت گرد تنظیم نے کئی برس دہشت گردی کی مہم جاری رکھی۔ ہزاروں لوگ قتل ہوئے مگر بعد میں عقل و فہم نے غلبہ حاصل کیا اور برٹش گورنمنٹ سے معاہدہ کر کے اب حکومت کر رہے ہیں اور اپنے عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔
  6. چیچنیا نے چند کم عقل لیڈروں کی احمقانہ پالیسی و دہشت گردی کی وجہ سے ملی ملائی آزادی کھو دی۔ صدر یلٹسن کے مشیر سکیورٹی جنرل لیبیڈ نے چیچنیا کو تقریباً مکمل آزادی دے دی تھی۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے علاقے کے حالات ٹھیک کرتے، انہوں نے پڑوسی علاقوں داغستان، انگوشتیا اور اوسیٹیا میں دہشت گردی شروع کر دی اوراس خام خیالی کا شکار ہو گئے کہ روسی وہاں سے بھاگ جائیں گے۔ صدر پوٹن نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مغربی ممالک نے انگلی تک نہ اٹھائی کیوں کہ وہ خود عراق، افغانستان اور فلسطین میں دہشت گردی کر رہے تھے یا مدد کر رہے تھے۔ اگر چیچنیا کے لیڈر صبر و تحمل اور عقل و فہم سے کام لیتے تو آج ایک آزاد ملک ہوتے۔ 
  7. مشرقی تیمور کی تحریک آزادی اس لیے کامیاب ہوئی کہ وہاں کی عیسائی آبادی کی امریکہ اور یورپی ممالک نے کھل کر حمایت کی اور انڈونیشیا پر دباؤ ڈال کر اور دھمکیاں دے کر اس کو آزاد کرا دیا۔ فلسطین میں وہ اسرائیل کے حامی ہیں۔ 
  8. اری ٹیریا کی جنگ آزادی اس لیے کامیاب ہوگئی کہ بغاوت کرنے والے لوگوں کی سوڈان اور دوسرے عرب ممالک نے کھل کر مدد کی اور ایتھوپیا اس جنگ کے خرچ کو برداشت کرنے کے قابل نہ تھا۔
  9. مشرقی پاکستان میں لوگ اس لیے کامیاب ہوئے کہ ہندوستان اور روس نے کھل کر ان کی سامان اور فوجیوں سے مدد کی، ورنہ وہ کبھی نہیں جیت سکتے تھے۔ ہماری فوجی ڈکٹیٹر شپ نے ان کویہ موقع فراہم کیا تھا۔
  10. مشرقی پنجاب میں اتنی بہادر اور جنگجو قوم سکھ آزادی کی جنگ ہار گئے۔ باہر سے کوئی مدد گار نہ تھا اور پاکستان خود اس قابل نہیں تھا کہ وہاں کوئی گڑبڑ کرتا اور جواب میں کشمیر سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ ہزاروں سکھ مارے گئے اور نتیجے میں کچھ نہ ملا۔
  11. ایک اور شرانگیزی جس میں امریکہ براہ راست ملوث ہے، وہ چین کے صوبہ سنگیانگ میں دہشت گردی ہے۔ ایک خود ساختہ امریکی ایجنٹ رابعہ غدیر کو واشنگٹن میں بٹھا کر اور تمام سہولتیں دے کر چین کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ رابعہ غدیر اور سنگیانگ کے شہریوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی غیر ملک ان کی مدد نہیں کر سکتا۔ چین ایک بنانا ری پبلک نہیں ہے۔ رابعہ اور اس جیسے مفاد پرستوں نے سینکڑوں بے گناہ لوگوں کو مروا دیا۔ ان کا مستقبل چین کے ساتھ ہے اور ان سے گفت وشنید کے ساتھ وہ اپنے لیے بہت سی مراعات حاصل کر سکتے ہیں۔ رابعہ جیسے خود غرض امریکہ میں بیٹھ کر عیاشی کر تے رہیں گے اور وہیں مر جائیں گے اور بے گناہ سیدھے سادھے لوگوں کو مرواتے رہیں گے۔ 
  12. ایک اور واقعہ تبت کا ہے۔ آج سے پچاس سال سے پہلے غیر ملکی ایجنٹوں کی شہ پر دلائی لامہ نے چین کے خلاف بغاوت کی اور ہزاروں دہشت گرد مارے گئے۔ یہ شخص آج ایک سیاست دان بن کر پوری دنیا میں پھرتا رہتا ہے اور عیاشی کرتا پھرتا ہے، جب کہ اپنی عوام کو پیچھے چھوڑ کر مشکلات میں جھونک دیا ہے۔ پروپیگنڈا کے قطعی برخلاف چینی حکومت اور عوام اپنی اقلیتی طبقوں کے ساتھ بے حد فراخ دل اور ہمدرد ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے وسط میں، میں اور میرے چند رفقائے کار اپنے اہل و عیال کے ساتھ لہاسہ (lhasa) گئے تو یہ ایک نہ بھولنے والا تجربہ تھا۔ ہم نے بہت مشہور پوٹالا محل دیکھا اور بہت سے خوبصورت علاقہ جات دیکھے۔ دلائی لامہ کا گرمی کا محل ایک خوبصورت باغ میں تھا اور اس میں اس کی استعمال کی چیزیں بالکل اسی طرح رکھی ہوئی تھیں جس طرح وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ جب اس نے بغاوت کی تو چیئرمین ماؤزے تنگ نے اپنے نہایت قابل جنرل لی چیو کو ان کی سرکوبی کو روانہ کیا ۔ انہوں نے جلد ہی دہشت گردوں کا صفایا کر دیا اور دلائی لامہ کچھ ساتھیوں کے ساتھ ہندوستان بھاگ گیا اور اب تک مزے اڑا رہا ہے۔ مجھے وہاں تبت کے کمانڈر نے بتایا کہ اگرچہ وہاں موسم سرما میں ناقابل برداشت سردی تھی، لیکن جنرل لی نے محل کے باہر باغ میں ٹینٹ لگا کر قیام کیا اور تمام عرصہ وہیں ٹھہرے رہے۔ انہوں نے دلائی لامہ کے مذہبی تقدس کا خیال رکھ کر محل میں ایک دن یا رات نہیں گزاری۔ اگر آج بھی دلائی لامہ تبت واپس چلا جائے تو چینی حکومت اس کو عزت و احترام سے خوش آمدید کہے گی اور وہ اپنے عوام کے لیے بہت کچھ اچھے کام کر سکتا ہے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں چند خود غرض، مفاد پرست اور شہرت کے بھوکے لیڈروں نے لیڈری اختیار کر کے ہزاروں بے گناہ اور کم سمجھ عوام کا قتل کرا دیا اور عیش و عشرت سے زندگی گزارتے رہے۔ 

(روزنامہ جنگ لاہور، ۹ ستمبر ۲۰۰۹ء)

حالات و مشاہدات

(نومبر و دسمبر ۲۰۰۹ء)

نومبر و دسمبر ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۱۱ و ۱۲

مذہبی طبقات، دہشت گردی اور طالبان ۔ ایک سوالنامہ کے جوابات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلامی یونیورسٹی دہشت گردی کا نشانہ کیوں بنی؟
محمد مشتاق احمد

آزادی کی پر تشدد تحریکیں: سبق سیکھنے کی ضرورت
ڈاکٹر عبد القدیر خان

جہاد کی فرضیت اور اس کا اختیار ۔ چند غلط فہمیاں
محمد عمار خان ناصر

موجودہ پر تشدد تحریکیں اور دیوبندی فکر و مزاج
مولانا مفتی محمد زاہد

معاصر مجاہدین کے معترضین سے استفسارات
محمد زاہد صدیق مغل

حدیث غزوۃ الہند اور مسئلہ کشمیر پر اس کا انطباق
مولانا محمد وارث مظہری

مولانا فضل محمد کے جواب میں
حافظ محمد زبیر

مکاتیب
ادارہ

’’دینی مدارس کا نظام بین الاقوامی تناظر میں‘‘
ادارہ

امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت کی تقریب رونمائی
ادارہ

الشریعہ کی خصوصی اشاعت کے بارے میں تاثرات
ادارہ

’’دینی تعلیم اور عصری تقاضے‘‘ کے عنوان پر سیمینار
ادارہ

انا للہ وانا الیہ راجعون
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

تلاش

Flag Counter