حدیث غزوۃ الہند اور مسئلہ کشمیر پر اس کا انطباق

مولانا محمد وارث مظہری

(ہمارے ہاں جہادی تصورات و عزائم کے اظہار میں بالخصوص مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت میں مقیم مسلمانوں کے زاویہ نظر کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ذیل کا مضمون اسی تناظرمیں شائع کیا جا رہا ہے۔ مصنف، دار العلوم دیوبند کے قدیم فضلا کی تنظیم کے جنرل سیکرٹری اور ماہنامہ ’’ترجمان دار العلوم‘‘ کے مدیر ہیں۔ مدیر)


کشمیر کے تنازع کی بنیاد پر ایک عرصے سے پاکستان کی جہادی تنظیموں نے ہندوستان کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ اقدامی اور جارحانہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ شخصی اور خفیہ (proxy) نوعیت کی جنگ ہے جس کی اسلام میں کسی بھی صورت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ اسلام کے تمام تر مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے۔ پاکستان کے معتبر دینی و علمی حلقے اسے محض ایک قومی و سیاسی لڑائی تصور کر تے ہیں۔ اسے اسلامی جہاد کی شکل میں نہیں دیکھتے۔ لیکن پاکستان کی مختلف جہادی تحریکیں، جنھیں ملک کے علما اور اسکالر ز کے ایک گروپ کی بڑے پیمانے پر عوامی تائید حاصل ہے، دونوں ملکوں کے اس تنازع کو جہاد کی شکل میں دیکھتی ہیں، بلکہ اسے اپنے جہادی مہم کا پہلا پڑاؤ تصور کرتی ہیں۔ دوسرا پڑاؤ پورے ہندوستان کو دارالاسلام (پاکستان) میں شامل کر نا اور اس کے بعد کے مراحل میں دنیا کے دوسرے خطوں پر اسلامی ’بالا دستی ‘(hegemony) قائم کرنا ہے۔ ہم نے بالا دستی کا لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے۔ در اصل پاکستان اور عرب ممالک کی ریڈیکل مسلم تحریکوں کا ذہن پوری طرح ماضی کی استعماری اور حال کی امپریل طاقتوں کی سفاکانہ جولانیوں سے متاثر ہے۔ وہ ان کی سیاسی بالادستی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے اسلامی سیاسی بالا دستی کا تصور رکھتی ہیں جو اسلام میں سراسر اجنبی ہے۔ قرآن (الصف : ۹)اور حدیث (الاسلام یعلو ولا یعلی علیہ) میں غلبۂ اسلام سے مراد اسلام کا نظریاتی ا ورروحانی غلبہ ہی ہوسکتا ہے اور بلا شبہ دوسرے مذاہب و نظریات کے مقابلے میں اسلام کو یہ غلبہ پہلے بھی حاصل تھا اور اب بھی حاصل ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغمبرانہ مشن بنیادی طور پر یہی تھا جس میں آپ پوری طرح کامیاب رہے، ورنہ دوسری صورت میں کو ئی یہ کہہ سکتاہے ،جیسا کہ ایک عرب مصنف سلیمان البدر نے دعویٰ کیا تھا کہ (نعوذ با للہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم دینی سطح پر کامیاب لیکن تاریخی سطح پر ناکام رہے۔ ( عربی روزنامہ الانباء کویت، ۹؍دسمبر ۱۹۹۶ بحوالہ: عربی ماہنامہ البیان لندن، اپریل /مئی ۱۹۹۷) خود اسلام پر اسلام کے ماننے والوں کی طرف سے کیے جانے والے ظلم و ستم میں سے ایک بڑاظلم یہ ہے کہ آج غیر مسلموں کے ساتھ پیش آنے والی ہر چھوٹی بڑی قومیت، علاقائیت یا دوسری بنیادوں پر واقع ہونے والی لڑائی یا تنازع کو عوام کا دل جیتنے اور دنیا کما نے کے لیے جہاد سے موسوم کر دیا جاتا ہے۔اس سے دنیا بھر میں اسلام کی جو رسوائی ہورہی ہے، اس کی مثال ماضی میں کم ملتی ہے۔ 

ہند وپاک کے مابین کشمیر کا تنازعہ پچھلے ساٹھ سالوں سے جاری ہے جس کو حل کر نے کی مختلف سطحوں پر کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ اس تعلق سے پاکستان کے حصے میں آنے والی ناکامیوں اور مایوسیوں کی بناپر وہاں کی جہادی تحریکوں کے علاوہ علما اور اہل دانش کی ایک بہت بڑی تعدادنے بھی اسے اسلامی جہادو قتال سے تعبیر کرنا شروع کردیا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اسے بعض معروف علما کی طرف سے فرض عین قرار دینے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔ اب جہاد کو ہی غایت اور وسیلہ سمجھنے کی بالقصد غلطی میں مبتلا ایک بڑا جہادی حلقہ کشمیر سے متعلق اپنے نام نہاد جہاد کوعین اس حدیث رسول کامصداق تصور کرنے لگا ہے جس میں ہندوستان پر غزوے کی بات کہی گئی ہے۔ صحاح ستہ میں سے صرف نسائی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا ۔ اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال اس میں خرچ کر دوں گا۔ اگر قتل ہوگیا تو میں افضل ترین شہدا میں شمار ہوں گا اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا۔‘‘ (۱۱/۲۶)

اس قبیل کی ایک دوسری روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبانؓ سے مروی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:

’’میری امت میں دو گروہ ایسے ہوں گے جنھیں اللہ تعالیٰ نے آگ سے محفوظ کر دیا ہے۔ ایک گروہ ہندوستان پر چڑھائی کرے گا اور دوسرا گروہ وہ ہے جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہوگا‘‘۔

الفاظ کی کمی زیادتی کے ساتھ نسائی کے علاوہ یہ حدیث مسند احمد بن حنبل ،بیہقی اور طبرانی وغیرہ میں بھی نقل کی گئی ہے۔

کشمیر کے مسئلے پر اس حدیث کے انطباق سے مختلف ملکوں میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جاری کش مکش کے مقابلے میں اس کی حیثیت بالکل منفرداور ممتاز ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں اس بات کا امکان شدید طور پر بڑھ جاتا ہے کہ ہندوستان پر غزوے (چڑھائی) کی’’ فضیلت‘‘ کے مد نظر شہادت کے لیے دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے بے تاب افراد اور جماعتیں کشمیر کو اپنی امیدوں کا مرکز تصور کر لیں۔ فی الواقع بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ پر غزوۃ الہند کے تعلق سے مختلف سائٹس (مثلاً: ww.ghazwatulhind.com) اس نقطہ نظر کی تبلیغ میں مشغول ہیں۔ ایک سائٹ پرغزوۃالہند پر ریکارڈ شدہ کسی عرب کی انگریزی تقریر صاف طور پر سنی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں اس موضوع پر مقالات شائع ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے سامنے پاکستان کے مؤقر اردو مجلے’’محدث‘‘ لاہور کا اگست۲۰۰۳ کا شمارہ ہے۔ اس میں غزوۂ ہند پر بیس صفحات کا ایک مضمون شامل ہے۔ مقالہ نگار ڈاکٹر عصمت اللہ انٹرنیشنل اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے ادارۂ تحقیقات اسلامی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔اس میں کشمیر کے نام نہاد جہاد کو اس حدیث پر منطبق کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔اسی حدیث کے تحت پاکستان کے نام نہاد جہادیوں کی ایک تعداد پورے ہندوستان کے ساتھ جہاد وقتال کی بات کرتی ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ اس میں ملوث بھی ہے، لیکن ’’محدث‘‘ نے مذکورہ مقالے میں واضح طور پر اس نقطہ نظر سے اختلاف کیا ہے اور جا بجا فٹ نوٹس میں اس پر عالمانہ تنقید کی ہے۔ پاکستان کے مؤقر دینی و علمی پرچوں میں یہ بحث نظر نہیں آتی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کی غالب راے اس کے خلاف ہے۔ لیکن اس تعلق سے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ موجودہ جہادی سرشت کی ترکیب میں علم و دلائل کو کم اور اندھی جذباتیت اور موجودہ سیاسی صورت حال سے متاثر رد عمل کی نفسیات کو دخل زیادہ ہے۔ پاکستان سمیت عرب و غرب کی ساری جہادی تحریکات اسی ضمن میں آتی ہیں۔ اس لیے بجا طور پر یہ حدیث ان کے ہاتھوں کا کھلونا بنی ہوئی ہے اور مزید بن سکتی ہے۔ معصوم ذہنوں کواس سے پھانسنے کا کام لیا جا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ ممبئی حملے کے نوجوان جہادیوں کے ذہن کو اس حدیث کے ذریعے mould کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ قابل تشو یش بات یہ ہے کہ اس حدیث کے تحت اگر بالفرض کشمیرانڈیاسے علاحدہ ہو جائے، تب بھی اس کے ساتھ تاقیامت جہاد کاتصور قائم رہتا ہے۔ یہ نہایت افسوس ناک پہلو ہے۔اس جہادکی زد ہندوستانی مسلمانوں پر جس طرح پڑ رہی ہے اور پڑ سکتی ہے، وہ بالکل ظاہر ہے۔ اس اعتبار سے یہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے سنجیدہ فکر علما و اہل دانش کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

بد قسمتی سے جہاد سے متعلق نظریہ ان اسلامی نظریات میں سے ایک ہے جو تحریف اور افراط وتفریط کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔اس کی ابتدا اسلام کی پہلی صدی سے ہی ہو گئی تھی جب مسلمانوں کی باہمی جنگ و جدال کو ایک گروہ نے جہاد کے ہی نکتۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی۔ بخاری کی کئی روایتوں میں حضرت عبداللہ بن عمر کی اس پر تنقید موجود ہے۔ جہاد و قتال کی اس غلط تعبیر و تشریح کی مستقل روایت کا نتیجہ ہے کہ دوسروں کے ذریعے کیے جانے والے ہر غیر انسانی اور غیر اخلاقی اعمال کو اپنے لیے حلال اور دینی کارنامہ سمجھ لیا گیا جس کی ایک بد ترین مثال خود کش حملہ ہے۔ اس کے علاوہ غیر حکومتی (پرائیویٹ) سطح پر جہاد کا تصور بھی اس کی نمایاں مثال ہے۔ جہاں تک میرے علم میں ہے، ’’سیمی‘‘ نے بھی اس حدیث کی اپنے حلقوں میں تقسیم و اشاعت کی تھی۔ ’’ سیمی‘‘ کے علاوہ کسی قابل ذکر ہندوستانی عالم نے اس کی ’’پاکستانی تشریح‘‘ نہیں کی۔

اس حدیث سے متعلق غور و فکر کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں:

  • پہلی بات تو یہ کہ یہ حدیث صحاح ستہ میں سے صرف نسائی میں مذکور ہوئی ہے، حالاں کہ اس حدیث میں غزوۃ الہند کی جو فضیلت بیان کی گئی ہے، اس کا تقاضا تھا کہ یہ صحابۂ کرام خصوصاً اکابرصحابہؓ کے درمیان زیادہ سے زیادہ مشہور ہو اور فتح قسطنطنیہ(ترکی )کی پیش گوئی کی طرح بلکہ اس سے زیادہ اس کو اہمیت حاصل ہو۔فتح قسطنطنیہ سے متعلق حدیث صحیحین میں واضح الفاظ کے ساتھ روایت کی گئی ہے۔ 
  • اگر یہ حدیث صحیح ہے اور غالب گمان یہ ہے کہ یہ صحیح ہو تو حقیقت میں اس کی پیش گوئی اسلام کے ابتدائی دور میں ہی پوری ہو چکی ہے۔ علما کی اکثریت اس پر متفق ہے اور یہی بات عقل و قیاس کے عین مطابق ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت ۱۵ھ میں حضرت حکمؓ اور حضرت مغیرہ بن العاصؓ کے ذریعے تھانہ، بھروچ وغیرہ اور اس کے بعد حضرت عثمانؓ و حضرت علیؓ کے زمانۂ خلافت میں سندھ و گجرات کے مختلف شہروں کے راستے سے صحابۂ کرامؓ نے ہندوستان میں قدم رکھا اور دعوتی و سیاسی سطح پر اسلام کے تعارف و اشاعت کی کوششیں کیں۔
  • بعض علما اور شارحین حدیث کی راے میں اس سے ۹۳ھ میں محمد بن قاسم ثقفی کے ذریعے سندھ پر کیا جانے والا حملہ مراد ہے جو بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اسلام کی اشاعت اور استحکام کا ذریعہ بنا۔مسند احمد بن حنبل میں با ضابطہ اس جملے کے ساتھ یہ حدیث روایت کی گئی ہے کہ :’’سندھ و ہند کی طرف لشکر کی روانگی ہوگی‘‘۔ اس سے جہاں اس شبہے کو تقویت ملتی ہے کہ ہو نہ ہو، یہ حدیث دور اموی میں اسی خاص سیاسی مقصد کے لیے وضع کی گئی، وہیں اس کے صحیح ہونے کی صورت میں یہ واقعہ حدیث کا قریب ترین مصداق نظر آتاہے۔ محدث کے مذکورہ مقالے میں ادارے کی طرف سے تنقیدی نوٹ میں اسی کو ترجیح دیا گیا ہے۔
  • اس حدیث سے واضح طور پر کسی متعین واقعے (غزوے) کو ہی مراد لیا جا سکتا ہے نہ کہ واقعات (غزوات) کا تسلسل، جیسا کہ اوپرذکر کردہ مضمون میں ثابت کرنے کی کوشش گئی ہے۔ بعض دیگر علما کو بھی یہ خیال گزرا ہے جو سراسر حدیث کے الفاظ اور مضمون کے خلاف ہے۔
  • نہایت اہم سوال ہے کہ کیا برصغیر ہند پر مسلم حکمرانوں کی طرف سے متعدد اور مسلسل جنگی یا جہادی کارروائیوں ، تقریباً ۶۰۰ سال تک برصغیر ہند پر مسلمانو ں کی حکومت اور اس کی آدھی آبادی کے اہل اسلام پر مشتمل ہونے کے با وجود اس بات کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ اس کو جہاد و قتال کا ہدف قرار دیا جائے؟ برصغیر ہند میں اب باضابطہ دو مسلم ملک وجود میں آچکے ہیں۔ موجودہ ہندوستان میں اسلام کی پر امن دعوت کے تمام تر ذرائع اور امکانات موجود ہیں۔ یہ پہلو اس کے علاوہ ہے کہ دونوں ملک باہم اشتراک و تعاون کے معاہدوں سے جڑے ہوئے ہیں اور علما کی متفقہ راے کے مطابق آج پوری دنیا ایک عملی معاہدے کے تحت زندگی گزار رہی ہے۔ مولانا انور شاہ کشمیری اور مولانا اشرف علی تھانوی جیسے اہم علما آج سے تقریباً پون صدی پیشتر اس کا اعلان کرچکے تھے۔ ا س صورت حال میں کشمیر کی نام نہاد آزادی کے نام پر کی جانے والی’ پراکسی‘ جنگ فریق ثانی کے ساتھ دھوکے کی کارروائی اور اسلام کے تسلیم شدہ اصولوں کے ساتھ کھلی بغاوت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
  • محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، امیر تیمور، نادر شاہ وغیرہ مسلم حکمرانوں کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ وہ اس حدیث کو ہندوستان پر اپنی لشکر کشی کے جواز کے طور پر پیش کریں ۔ ان کے درباری علما انھیں یہ نکتہ سجھا سکتے تھے، لیکن ہندوستانی تاریخ پر لکھی گئی کتابوں میں ان کے حالات میں یہ بات نہیں ملتی۔ شاہ ولی اللہؒ نے مراٹھوں کے زور کو توڑنے کے لیے احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر چڑھائی کی دعوت دی، لیکن انھوں نے اس حدیث کو دلیل نہیں بنا یا۔
  • پیغمبرانہ پیش گوئیوں کے تعلق سے یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ ان کی زبان بالواسطہ اور علامتی ہوتی ہے۔ اس کے صحیح مفہوم ومصداق تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بہت کچھ تاویل و قیاس کی ضرورت پڑتی ہے، اس لیے ان کی توجیہ و تفہیم محض امکانی اور قیاسی حد تک ہی ممکن ہے۔

بہر حال یہ اندھی اور افسوس ناک جسارت ہے کہ غزو ۃالہندسے متعلق حدیث کو نام نہاد جہاد کشمیر اور ہند و پاک کی محاذ آرائی پر محمول کیا جائے۔ یہ صریح طور پر اللہ کے رسول کے ساتھ آپ کے نام نہاد متبعین کی طرف سے برتا جانے والا ظلم ہے۔ برصغیر ہند وپاک کی جہادی تحریکات اپنی نفسیات اور طرز عمل میں خوارج کی طرح ہیں جن سے متعلق پیغمبر اسلام نے واضح پیش گوئی کی تھی کہ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے کہ جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ وہ انھی کی طرح سے، جیسا کہ حضرت علیؓ نے ان سے متعلق کہا تھا، کلمۂ حق سے باطل مراد لیتے ہیں۔ (کَلِمَۃُ حَقٍّ اُرِیْدَ بِہَا الْبَاطِلُ)

اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اہل علم و فکر خصوصاً علما کا طبقہ اسلامی نصوص کے ساتھ اس کھلواڑ اور احیائے اسلام کے نام پر تخریب اسلام کی کوشش کاسخت نوٹس لے۔ جہاد اسلام میں فتنے کے خاتمے کے لیے مشروع کیا گیا، لیکن اس وقت فتنہ پھیلانے کے لیے جہاد کیا جا رہا ہے۔ عوام کو اس پہلو کی خطرناکیوں اور اس کے نتائج سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تعلق سے ہند وپاک کے علما کی ذمہ داری خاص طور پر بڑھی ہوئی ہے۔ مسلم حلقوں کی طرف سے دہشت گردی کے الزامات کے دفاع کے لیے جہاں آئے دن سیمینار اور کانفرنسیں منعقد ہور ہی ہیں، وہیں با ضابطہ طور پر ایسے علمی پروگراموں کے بھی انعقاد کی ضرورت ہے جن کے توسط سے یہ محاسبہ کیا جا سکے کہ کس طرح اسلام کے نام پر اسلام کے نام نہاد سپاہی جہاد کے عنوان سے دہشت گردی کے فروغ میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ اسلامی جہاد کے روایتی تصورات پرنظر ثانی کی شدید ضرورت ہے ۔ اقدامی جہاد اسی طرح تکثیری معاشرے میں جہاد کی اجازت دینا محض دعوتی امکانات کوتباہ کر نا اور امت مسلمہ کی تباہ حالیوں میں اضافہ کرنا ہے۔ اسلام کی سیاسی فکر میں پائے جانے والے خلا او ر مختلف تضادات کو نظری سطح پر جب تک دور نہ کیا جائے، آج کے جمہوری اور مشترکہ معاشرے کے ساتھ اس کے تصادم کوختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے مسلمانوں کے اندر ایک شدید اجتماعی اخلاقی بحران کے پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ اس کے آثار صاف نظر آرہے ہیں۔ صرف الزامات کا لفظی سطح پر دفاع اور دہشت گردی کی سادہ اور عمومی اندازکی مذمت کافی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت خود جہادی تحریکات کے خلاف ’جہاد ‘چھیڑنے کی ضرورت ہے اور یہ جہاد بلاشبہ علما اور اہل فکر ہی کر سکتے ہیں۔

جہاد / جہادی تحریکات

(نومبر و دسمبر ۲۰۰۹ء)

نومبر و دسمبر ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۱۱ و ۱۲

مذہبی طبقات، دہشت گردی اور طالبان ۔ ایک سوالنامہ کے جوابات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلامی یونیورسٹی دہشت گردی کا نشانہ کیوں بنی؟
محمد مشتاق احمد

آزادی کی پر تشدد تحریکیں: سبق سیکھنے کی ضرورت
ڈاکٹر عبد القدیر خان

جہاد کی فرضیت اور اس کا اختیار ۔ چند غلط فہمیاں
محمد عمار خان ناصر

موجودہ پر تشدد تحریکیں اور دیوبندی فکر و مزاج
مولانا مفتی محمد زاہد

معاصر مجاہدین کے معترضین سے استفسارات
محمد زاہد صدیق مغل

حدیث غزوۃ الہند اور مسئلہ کشمیر پر اس کا انطباق
مولانا محمد وارث مظہری

مولانا فضل محمد کے جواب میں
حافظ محمد زبیر

مکاتیب
ادارہ

’’دینی مدارس کا نظام بین الاقوامی تناظر میں‘‘
ادارہ

امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت کی تقریب رونمائی
ادارہ

الشریعہ کی خصوصی اشاعت کے بارے میں تاثرات
ادارہ

’’دینی تعلیم اور عصری تقاضے‘‘ کے عنوان پر سیمینار
ادارہ

انا للہ وانا الیہ راجعون
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

تلاش

Flag Counter