تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’علامہ اقبال کا تصور اجتہاد‘‘

مرتبین: ڈاکٹر ایوب صابر، محمد سہیل عمر

صفحات: ۲۸۱

قیمت: ۲۵۰روپے

ناشرین: اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد

زیر تبصرہ کتاب اقبال اکادمی پاکستان اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام ’’اقبال کا تصور اجتہاد‘‘ کے زیر عنوان منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں پڑھے جانے والے مقالات پر مشتمل ہے جو ۲۸ تا ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۷ء علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ سیمینار ہر مکتب فکر کا نمائندہ تھا۔ اس طرح موضوع پر متنوع ذہنوں کا کھلا اظہار سامنے آتا ہے۔ جو لوگ کھلے ذہن کے ساتھ پڑھتے ہیں، ان کے لیے بھر پور اور متنوع مواد یکجا صورت میں فراہم کیا گیا ہے۔ نمائندہ سیمینار کی یہی خوبی ہے۔ سیمینار سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد تو بڑی محدود ہوتی ہے، یہاں تک کہ سمینار میں مقالات پیش کرنے والے حضرات بھی پورے سیمینار میں شریک نہیں ہوتے، البتہ کتاب کی بدولت استفادے کا حلقہ وسیع ہو سکتا ہے۔

سیمینار کے لیے ذیلی عنوانات قائم کر کے مختلف دانشوروں کو مقالات پیش کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔ مرتبین نے بارہ صفحات کے پیش لفظ میں مقالات کے بارے میں تعارفی سطور پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بعض شرکا کے زبانی پیش کردہ خیالات کا تذکرہ کرکے سیمینار کے ماحول کی تصویر مکمل کی ہے۔ مقالات کے عنوانات اور ان کو پیش کرنے والے اہل دانش کے نام حسب ذیل ہیں:

علامہ اقبال کے اصول اجتہاد

محمد خالد مسعود

اقبال کا تصور اجتہاد اور دور حاضر کے اجتہادی ادارے

پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم

اقبال، اجماع امت اور قیام پاکستان

پروفیسر فتح محمد ملک

جدید سیاسی نظام اور اجتہاد

ابو عمار زاہد الراشدی

علامہ اقبال اور حدیث

ڈاکٹر خالد علوی مرحوم

عمل اجتہاد میں آزادی فکر کا کردار

عبداللہ

شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد

محمد عمار خان ناصر

اقبال کے تصور اجتہاد پر اعتراضات کا جائزہ

ڈاکٹر ایوب صابر

زنجیر پڑی دروازے میں

محمد سہیل عمر

اقبال، اجتہاد اور اسلامی جمہوری ریاست

ڈاکٹر شاہد اقبال کامران

دور جدید کی تہذیبی ساخت، اسلام اور اقبال

ڈاکٹر نجیبہ عارف

وقت کے اجتہادی مسائل میں احمد رضا اور اقبال کا موقف

ڈاکٹر تنظیم الفردوس

کتاب میں شامل تمام مقالات استفادے کے لیے اپنے اندر بہت کچھ رکھتے ہیں۔ ان سب پر کچھ کہنے کے لیے صفحات میں گنجائش اور میرا کم علم، دونوں ہی مانع ہیں۔ ایک طالب علم کے طور پر ان مقالات سے جو کچھ میں نے اخذ کیا ہے، اس تبصرے میں اس کے ذکر پر اکتفا کروں گا۔ 

موضوع کے لحاظ سے بنیادی بات جس پر اکثر مقالات میں زور دیا گیا ہے، وہ جدید دور میں پارلیمان کے ذریعے اجتہاد ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کے خطبے کا بار بار حوالہ دیا گیا ہے۔ اقبال نے جس طور میں یہ بات کہی تھی، بلا شبہہ وہ اقبال کی دور اندیشی کی آئینہ دار ہے۔ زیادہ تر اسلامی ممالک میں پارلیمانی دور اس وقت بھی خواب تھا اور ابھی تک خواب ہی ہے۔ پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میں بھی پارلیمانی کار کردگی دیکھی جائے تو اجتہاد تو دور کی بات ہے، اپنی دستوری ذمہ داریوں کے پہلو سے ہی وہ انتہائی مایوس کن ہے۔ قانون سازی جو کچھ بھی ہوئی ہے، وہ وزارت قانون کی مرہون منت ہے۔ اس میں ملکی، قومی اور عوامی ضروریات کا شاید ہی کبھی لحاظ رکھا گیا ہو۔ اس عملی صورت حال کو نظر انداز کر کے پارلیمان کو اجماع و اجتہاد کا سرچشمہ تصور کرنا عملی طور پر تو ممکن نہیں ہو سکتا۔ پھر اسے اقبال کے حوالے سے دیکھنا اقبال کے ساتھ زیادتی سے کم نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اقبال محض مفکر نہیں تھے بلکہ با عمل انسان تھے۔ علامہ کے نزدیک ’’فقہ میں مجرد فکر کے بر عکس حقیقی مسائل و واقعات کی قدر وقیمت پر زور‘‘ ہے۔ اقبال کے ہاں ’’قرآن کے حوالے سے بھی فکر کے بجائے عمل پر زور‘‘ نظر آتا ہے۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے پیش لفظ کا پہلا جملہ ہی یہ ہے :

The Qur'an is a book which emphasizes 'deed' rather than idea.

اس لحاظ سے پارلیمانی اجتہاد کی بات کتابی اور علمی دنیا میں تو کی جا سکتی ہے، مگر یہ تمام مباحث کسی عملی افادیت سے خالی ہوں گے۔ اس صورت حال کو ایک لمحہ کے لیے ایک جانب رکھ دیا جائے تو بھی پارلیمان کی جو شکل اقبال نے اپنے خطبہ اجتہاد میں پیش کی ہے، اس کی تعبیر میں لفظ layman کے لغوی معنوں کی مدد سے جو وضاحت مقالہ نگار، ڈاکٹر ایوب صابر نے کی ہے، وہ پارلیمان کی مروجہ اور معروف صورت کی بڑی حد تک نفی کر دیتی ہے۔ پہلے ہم اقبال کے الفاظ کو دیکھتے ہیں:

The transfer of the power of Ijtehad from individual representatives of schools to a Muslim legislative assembly which, in view of the growth of opposing sects, is the only possible form Ijma can take in modern times, will secure contributions to legal discussion from laymen who happen to possess a keen insight into affairs. In this way alone can we stir into activity the dormant spirit of life in our legal system, and give it an evolutionary outlook. 
The Ulema should form a vital part of Muslim legislative assembly helping and guiding free discussion on questions relating to law. 

اس اقتباس کا خلاصہ یہ ہے کہ اجتہاد کا اختیار، انفرادی مسالک سے لے کر مسلمانوں کی قانون ساز اسمبلی کو منتقل کرنے سے ہی ہم قانونی سوالات میں زندگی کی روح دوڑا کر اسے انقلابی نقطہ نظر دے سکتے ہیں اور اس کام میں مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل اسمبلی علماے شریعت کی رہنمائی میں کام کرے گی۔ اقبال نے قانون ساز اسمبلی کے بارے میں کہا ہے کہ علما اور دیگر شعبوں کے ماہرین قانونی مباحث میں حصہ لیں گے۔ اقبال کے الفاظ layman کے عام مفہوم کے تحت بعض لوگوں نے اقبال کے نقطہ نظر سے شدید اختلاف کیا۔ جناب ایوب صابر نے layman کے ساتھ اقبال کے الفاظ ’’تیز بصیرت‘‘ کو مطابقت دینے کے لیے layman کے لغوی معنی ’’عام اور ان پڑھ آدمی‘‘ کے بجائے ’’غیر پادری‘‘ لے کر جو صراحت کی ہے، وہ توجہ کی مستحق ہے۔ اس کو سامنے رکھ کر اقبال کے جملوں میں layman سے مراد شریعت کے علاوہ دیگر شعبوں کے ماہرین لیے جا سکتے ہیں۔ ایسی اسمبلی جس میں مختلف شعبوں کے ماہرین شامل ہوں اور وہ علماے شریعت کی رہنمائی میں کام کرے، اس کی اجتہادی حیثیت پر اعتراض کی شاید ہی کچھ گنجائش رہ جائے۔ layman کے مفہوم کی اس شرح کے بعد، ڈاکٹر صاحب نے اس کے نتائج کو سمیٹنے سے گریز کیا اور بات کو ادھورا چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے ان کی طرف اوپر اشارہ کیا ہے۔ 

البتہ یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ماہرین کی ایسی اسمبلی کس طرح تشکیل دی جائے۔ اس پر بھی ڈاکٹر ایوب صابر صاحب نے اپنے طویل مقالے میں توجہ نہیں دی۔ عملی اہمیت کے لحاظ سے اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ جمہوری نظام میں نمائندہ اسمبلیوں کو حکومت سازی، ان کی نگرانی اور مواخذے کی حیثیت تو دی جا سکتی ہے مگر ان کی اجتہادی حیثیت بہرحال محل نظر ہو گی۔ گہری بصیرت، بصارت اور مہارت کے بغیر کسی عمل کو ’اجتہاد‘ تصور کیا جانا کسی طرح معقول نظر نہیں آتا۔ اس بارے میں دستور کی روشنی میں اعلیٰ عدالتوں کو نظر ثانی کا جو اختیار حاصل ہے، وہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ دستور بنیادی قانون ہے۔ اس کے منافی کوئی بھی قانون بے حقیقت ہے۔ اسی طرح وفاقی شرعی عدالت قوانین کو شرعی معیاروں پر، پرکھنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جانچ پرکھ کے ساتھ دستور میں جو قیود عائد کی گئی ہیں، ان کو ختم کر کے عدالتی دائرۂ کار کو وسعت دی جائے۔ اسی طرح حاکم خان کیس میں قراردادمقاصد میں درج اصولوں کے منافی دستوری آرٹیکل کو غیر موثر قرار دینے سے گریز کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، اس پر بھی ایک مقالہ خواں جناب عبداللہ نے سخت افسوس کا اظہار کیا ہے۔ موصوف نے کیس کا باقاعدہ حوالہ نہیں دیا مگر فیصلے پر اپنی برہمگی کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس خیال کا بھی اظہار کیا ہے کہ علما حضرات کے نوٹس میں یہ فیصلہ نہیں آیا، وگرنہ فیصلہ پر مجالس اور خطبوں میں بات آگے بڑھتی۔ حاکم خان کیس کا فیصلہ یقینی طور پر نظر ثانی کا محتاج ہے۔ یہ فیصلہ بھی اس دور کی یاد گار ہے جب جج صاحبان اہل اقتدار کے ماتھوں کی جنبش کا زیادہ ہی احترام کیا کرتے تھے۔ عدلیہ کی بحالی کے بعد اعلیٰ عدلیہ نے واقعتا اپنی آزادی کا ثبوت دیا تو کسی نہ کسی مرحلے پر یہ فیصلہ بھی نظر ثانی میں آئے گا۔ بہر حال عبداللہ صاحب نے اپنے مقالے میں اس پہلو کی پورے زور کے ساتھ نشاندہی کی ہے۔

حدیث کی حجیت کے حوالے سے اقبال نقطہ نظر پر ڈاکٹر خالد علوی مرحوم نے اپنے مقالے میں بڑی تفصیلی بحث کی ہے۔ انہوں نے اقبال کے نقطہ نظر کی صراحت بڑی خوبی سے کی ہے۔ اس مقالے کو بغور پڑھ لیا جائے تو اقبال کے راسخ العقیدہ ہونے کے بارے میں کوئی ابہام اور شک باقی نہیں رہتا۔ ڈاکٹر علوی صاحب نے بار بار اس جانب توجہ دلائی ہے کہ اقبال اپنی نثر اور نظم میں احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ ایک موقع پر، شبلی نے شاہ ولی اللہ کے ایک اقتباس کو جس طرح تروڑ مروڑ کر پیش کیا ہے، اس سے اقبال الجھن کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اقبال کا حدیث کی حجیت کے بارے میں ذہن صاف ہے۔

منصوص احکام کی ابدیت کے پہلو سے اقبال نے یہ بحث بھی کی ہے کہ عربوں کے رسم و رواج کے اثرات کو بھی دیکھنا ہو گا، لیکن اقبال خود ہی اس بارے میں کہتے ہیں کہ اس پہلو سے جستجو بڑی مشکل کام ہے۔ اس پہلو سے اقبال کے اٹھائے گئے سوالات کا حوالہ دیے بغیر جناب عمار خان ناصر نے مقاصد شریعت اور اجتہاد کے عنوان سے بڑی تفصیلی اور مدلل بحث کی ہے۔ اس بحث میں انہوں نے منصوص احکام کی ابدیت کے بارے میں جملہ سوالات کا مسکت جواب دینے کے بعد ان کی ابدیت کو ثابت کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے منصوص احکام میں وسعت، تقیید اور استثنا کی صورتوں پر بھی کھل کر بات کی ہے اور مثالوں کے ذریعے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے۔ فقہا کی آرا کے بارے میں بھی ان کا نقطہ نظر جامد تقلید کا نہیں۔ اختصار سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ عمار صاحب نے موضوع پر مکمل مقالہ پیش کیا ہے۔ اس کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ خوب جم کر لکھا ہے۔ البتہ اسے اقبال کے تصور اجتہاد کے ساتھ جوڑنے سے گریز کی راہ اختیار کر کے تھوڑی سی زیادتی کی ہے۔ ان کا مقالہ کتاب کے سانچے میں بہت سجتا اور جچتا ہے، مگر اسے اقبال کے تصور اجتہاد سے مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔

کتاب میں جناب خالد مسعود کے مقالے کو اولیت دی گئی ہے۔ مقالے میں اقبال کے خطبہ اجتہاد سے بہت سے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں۔ ان اقتباسات سے جو نتائج جناب خالد صاحب اخذ کرنا چاہتے ہیں، وہ خطبے سے کشید بھی کیے جائیں تو بہت زبردستی کرنا پڑے گی۔ ان کے نزدیک اقبال نے یہ خطبہ روایتی فقہ پر تنقید کے طور پر لکھا مگر مترجمین اور شارحین نے اسے روایتی فقہ کے سیاق و سباق ہی میں پیش کر کے خطبے کا مقصد فوت کر دیاہے۔ لیکن حیرت یہ ہے کہ خود انہوں نے اپنے مقالے میں بے شمار فقہی حوالوں کا سہارا لیا ہے۔ روایتی اور غیر روایتی فقہ کے مابین کوئی حد فاصل جناب خالد مسعود قائم کرنے کے بعد بات کو بڑھا سکتے تھے، مگر اس پہلو سے ان کے مقالے میں خلا محسوس ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اجتہاد کے موضوع پر اصول فقہ اور فقہی حوالوں سے نجات کی کوئی صورت کس طرح ممکن ہے؟ خالد صاحب اپنے علم و فضل کے باوجود اس کی وضاحت نہیں کر سکے۔ اقبال کے حوالے سے انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ فقہ جمود کا شکار ہے، لیکن خطبے میں اقبال نے اس جمود کو افسانہ قرار دیا ہے۔ جناب خالد صاحب اقبال کے اس جملے کو گول کر جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں جناب خالد مسعود صاحب کے مقالے کو پورا احترام دے کر پڑھنے کے باوجود سمجھنے میں اپنی کم فہمی کو ہی قصور وار قرار دے سکتا ہوں۔ جناب خالد مسعود کے مقالے کا عنوان ’’اقبال کے اصول اجتہاد‘‘ ہے۔ مقالے کے شروع میں درج ذیل تین سوالات اٹھائے گئے ہیں:

’’اس سیمینار کے مجوزہ موضوعات میں ایک بہت ہی اہم سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا مصالح مرسلہ اور استحسان سے بہتر تصور وضع کرنا اقبال اور دیگر مفکرین کے لیے ممکن ہے؟ یہ سوال کئی پہلوؤں سے اہم ہے۔ ایک تو یہ سوال اجتہاد اور اصول فقہ کے حوالے سے ایسے ’’مفروضات‘‘ کے تجزیے کا طالب ہے جو ہمارے ہاں ’’مسلمات‘‘کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ 
دوسرے یہ عصر جدید کے اصول اجتہاد میں مصالح مرسلہ اور استحسان کے نئے مقام اور کردار پر بحث کا مطالبہ کرتا ہے۔
تیسرے یہ علامہ اقبال اور دیگر مفکرین کے ہاں اجتہاد کے ضمن میں بہتر تصور کی تلاش پر بحث چاہتا ہے۔ اس مختصر مقالے میں انہی سوالات کا جواب علامہ کے خطبہ اجتہاد میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘

ان سوالات کا مقالے کے عنوان کے ساتھ کوئی تعلق مشکل ہی سے نظر آتا ہے۔ پورے مقالے میں ان سوالات کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ خاص طور پر ’’اصول فقہ میں وہ مفروضات جو مسلمات کی حیثیت اختیار کر گئے‘‘ کی کہیں نشاندہی نہیں کی گئی۔ آخر میں جو نتیجہ فکر پیش کیا گیا ہے، ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے :

’’قرآن و سنت اور اجماع میں جدید مسائل کے حل کے لیے واضح نصوص موجود نہیں ‘‘۔

یہ سب کچھ اقبال کے اصول اجتہاد کے عنوان کے تحت ہو تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ اقبال کے خطبہ اجتہاد سے آخری سطور نقل کر دینا کافی سمجھتا ہوں:

Believe me, Europe today is the greatest hindrance in the way of man's ethical advancement. The Muslim, on the other hand, is in possession of these ultimate ideas on the basis of a revelation, which, speaking from the inmost depths of life, internalizes its own apparent externality. With him the spiritual basis of life is matter of conviction for which even the least enlightened man among us can easily lay down his life; and in view of the basic idea of Islam that there can be no further revelation binding on man, we ought to be spiritually one of the most emancipated peoples on earth. Early Muslims emerging out of the spiritual slavery of pre-Islamic Asia were not in a position to realize the true significance of this basic idea. Let the Muslim of today appreciate his position, reconstruct his social life in the light of ultimate principles, and evolve, out of the hitherto partially revealed purpose of Islam, that spiritual democracy which is the ultimate aim of Islam. .
’’فرنگ کی موجودہ تہذیب انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے، لیکن مسلمانوں کے پاس زندگی کے بنیادی عقائد از روے وحی موجود ہیں۔ اگر وہ خودی سے آشنا ہو جائیں اور اسلام کی حقیقت ان پر آشکار ہو جائے تو اقوام اسلامی، روحانی اور سیاسی و معاشی طور پر پوری طرح آزاد ہو کر وقار کی زندگی بسر کر سکتی ہیں۔ ابتدائی صدیوں کے مسلمان قبل اسلام ایشیا کی دیرینہ غلامی میں سے ابھرے تھے۔ اس لیے وہ اسلام کی حقیقی غایت سے پوری طرح آشنا نہ ہو سکے۔ مسلمانوں نے پہلے جو کچھ کمالات دکھائے، ان سے کہیں زیادہ اب ممکن ہیں۔ مرور ایام سے اسلام کے عقائد اور اس کے نظریہ حیات کی ماہیت واضح تر ہو گئی ۔ مستقبل کا اسلام ماضی کے اسلام سے زیادہ شاندار اور نوع انسانی کا محسن ہو سکتا ہے۔ اسلام کی حقیقت کسی دور میں بھی پوری طرح معرض شہود میں نہیں آ سکی۔‘‘

جناب افتخار عارف کے خطاب سے چند جملے خاص طور پر اہم ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ :

’’شرائط اجتہاد کے سلسلے میں ایک بات عرض کروں کہ ہمارے جدید سکالرز تمسخر کے ساتھ اس پر گفتگو کرتے ہیں۔ یہ شرائط مثلاً عربی دانی، تقویٰ، سیاق و سباق، متون تک رسائی، حدیث کا علم، اجماع کا علم وغیرہ، جب ان کا ذکر ہوتا ہے مذاق کے ساتھ، یہ دیکھ کر مجھے وحشت سی ہوتی ہے۔ جہل پر اس طرح سے اصرار، میرے نزدیک یہ بات محل نظر ہے۔‘‘

اس کے ساتھ ساتھ جناب افتخار عارف نے علما کی اقبال فہمی کے حوالے سے فرمایا:

’’اقبال نے بیس کی دہائی میں، خطبات کی اشاعت سے پیشتر، چھ برسوں میں معاصر فکرکے بڑے بڑے سماجی مفکر اور فلسفیوں کو پڑھا۔ اقبال نے ان کا ذکر کہیں نہ کہیں، انکار، اثبات، تصدیق ، تردید، استفادے اور استخراج کی صورت میں کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ علما جو فکر مغرب سے واقف نہیں ہیں، فکر اقبال سے پوری طرح فیض یاب ہو سکتے ہیں؟ مجھے یہ ماننے میں تامل ہے۔‘‘

اس طرح جناب افتخار عارف نے جدیدیوں اور قدیمیوں پر اظہار خیال میں لاگ لپیٹ سے کام نہیں لیا۔

کتاب میں املا کی اغلاط موجود ہیں، مگر اتنی زیادہ نہیں کہ تکلیف کا باعث ہوں۔ البتہ بعض اوقات سطور کا تکرار بہت بے جا ہے۔ کتاب کے آخر میں اگر شخصیات اور مضامین کا اشاریہ شامل کیا جاتا تو یقیناًکتاب کی افادیت میں اضافہ ہو جاتا۔ مقالہ نگار حضرات معروف لوگ ہیں، اس کے باوجود ان کے مختصر تعارف کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کتاب کا معیار طباعت چھاپنے والے اداروں کی شان کے عین مطابق ہے۔

(تبصرہ نگار: چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ)

’’جامعہ نامہ ‘‘

پاکستان میں ایک سے بڑھ کر ایک ایسی جامعات موجود ہیں جہاں ان کی تاسیسی تقریب سے لے کر اب تک وقتاً فوقتاً کئی تقریبات کا انعقاد کیا گیا ہے، لیکن شاید ہی ایسی کوئی جامعہ ہو جہاں تقریبات نہ صرف مسلسل منعقد ہو رہی ہوں بلکہ ان کے عنوانات کا تنوع جامعہ کے دانش گاہ ہونے کا بھی غماز ہو۔ یونیورسٹی آف گجرات کا ’ جامعہ نامہ ‘ پڑھ کر حیرت انگیز مسرت ہوئی کہ وطن عزیز کی جامعات میں سے کم از کم ایک جامعہ کی درس گاہیں نہایت مختصر مدت میں کسی دانش گاہ کی بنیاد رکھ رہی ہیں۔ 

’’جامعہ نامہ‘‘ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ یونی ورسٹی آف گجرات اور دیگر یونی ورسٹیوں کی اپروچ میں ایک بنیادی فرق ہے اوراس فرق کے پیچھے دو شخصیات کے وژن خلوص اور دیانت کا ہاتھ ہے: ایک پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین اور دوسرے شیخ عبدالرشید۔ ’’جامعہ نامہ‘ ‘ بنیادی طور پر شیخ عبدالرشید کے قلم سے نکلی ہوئی روداد ہے، لیکن یہ روداد لکھنے کی نوبت کبھی نہ آتی اگر ڈاکٹر محمد نظام الدین جیسا گوہر شناس، شیخ عبدالرشید کی گونا گوں صلاحیتوں کا ادراک نہ کر پاتا۔ اس لیے علم دوست ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ سب سے پہلے پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین کی علم پروری کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کریں جنہوں نے شیخ صاحب جیسے باصلاحیت فرد کو کام کرنے کا وسیع میدان اور موقع فراہم کر کے ایک نوخیز یونی ورسٹی کے درخشاں مستقبل کی بنیاد رکھی ہے۔ 

’ ’ جامعہ نامہ‘‘ میں بکھری ہوئی روداد سماجیات و پاکستانیات اور زراعت و معیشت سے لے کر حالاتِ حاضرہ اور تصوف و تفہیم تاریخ اور تعلیم و تدریس جیسے اہم موضوعات کاا حاطہ کرتی ہے۔ ان تقریبات کی ترجمانی کا حق ادا کرتے ہوئے شیخ عبدالرشید نے جملوں کی ساخت، تراکیب اور اقوالِ زریں کا بر محل استعمال کر کے قلم پر اپنی جاندار گرفت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ ہمارے ممدوح نے لگے بندھے مروجہ اصولِ رپورتاژ کی تقلید کے بجائے مجتہدانہ اسلوب اپنا کر انتہائی سنجیدہ مباحثوں و مذاکروں کو ایسے دل نشین ادبی پیرایے میں بیان کیا ہے کہ بہ زبانِ شاعر اعتراف کرنا پڑتا ہے : 

’’ایں سعادت بزورِ بازو نیست ‘‘ 

شعبہ باٹنی کے زیرِ اہتمام ’’زراعت! پاکستان میں معیشت کی بہتری کی امید‘‘ کے زیرِ عنوان منعقدہ ایک سیمینار کی روداد شیخ صاحب اس طرح بیان کرتے ہیں :

’’ زراعت و خوراک سے انسان کا تعلق ازل سے ابد تک محیط ہے۔ حیاتِ انسانی کا دارو مدار کسان کی محنتِ شاقہ اور زرعی پیداوار میں کامیابی پر ہے۔ خوراک ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ بھوک ایک ایسا مرض ہے جس کا سوائے خوراک کے کوئی علاج نہیں۔ اسی سے زراعت، منصوبہ بندی اور کسان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ غور کیا جائے تو خوراک ہی زندگی ہے۔ اس کی پیداوار میں ناکام ہونا تاریک مستقبل اور فنا کا باعث بنتا ہے۔ چرچل نے دوسری جنگِ عظیم میں اپنی فتح کو خوراک کی مسلسل اور بے روک فراہمی سے مشروط کر دیا تھا کیونکہ اگر زراعت ناکام ہو جائے تو اس کا نتیجہ قحط ہوتا ہے۔‘‘ 

مذکورہ اقتباس کا ذرا تنقیدی جائزہ لیجیے کہ ہمارے ممدوح نے کتنی خوبصورتی سے اپنی واقعیت پسندانہ فکر کو نہایت موزوں الفاظ کا جامہ پہنایا ہے اور پھر چرچل کے قول کو تفکیری روپ دے کر فنکارانہ چابک دستی سے ایڈجسٹ کیا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ زراعت کی ناکامی کا نتیجہ ’قحط‘ قرار دے کر شیخ صاحب نے قحط کی سنگینی سے آگاہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ بعض اوقات ناگفتنی، گفتنی کی جگہ سنبھال لیتی ہے اور ان کہی ، کہی کے قائم مقام ہو جاتی ہے ۔ 

’’جامعہ نامہ‘‘ کے صفحہ ۱۳۸ پر اپنے ایک بصیرت افروز مضمون ’’اچھے استاد کے نمایاں اوصاف‘‘کا اختتام شیخ صاحب ان جھنجھوڑنے والے الفاظ میں کرتے ہیں: 

’’ استاد خود کو پیغمبروں کی میراثِ معلمی کے وارث کہتے ہیں، لہٰذا انہیں معلمِ انسانیت و فخرِ انسانیت کے اسوہ حسنہ سے راہنمائی حاصل کرکے اپنی کردار سازی کرنا ہے۔ پیغمبروں کے وارث ہونے کا دعوے دار استاد ہی اگر سیرتِ طیبہ کا پیرو کار نہ رہا تو اس سے بڑا گستاخِ رسول کون ہو سکتا ہے؟ ‘‘ 

شیخ عبدالرشید کا تنقیدی شعور ان کی بالغ نظری کا آئینہ دار ہے اور اس میں لمحہ گزراں سے گریز کے بجائے تفہیم و تنقیح پر مبنی تخلیقی اپج پائی جاتی ہے جس کا اظہار موصوف نے ڈاکٹر محمد نظام الدین کے مقالہ ’’عالمی امن کے فروغ میں اہلِ قلم کا کردار‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے صفحہ ۱۴۳ پر کچھ اس طرح کیا ہے : 

’’ آج کا عہد پریشاں نظری کا عہد ہے۔ پراگندگی کا فشار وجودِ حیات کو پھاڑ دینے کو ہے۔ ہر سمت آگ اور دھواں ہے، خون جل رہا ہے، نفرت و عناد کی بد بو پھیلی ہوئی ہے۔ سرفرازی و سربلندی صرف انہی کو حاصل ہے جو لاشوں پر کھڑے ہیں ۔.... ایسے میں کھربوں ڈالرز کے ہیبت ناک اسلحے کی طاقت سے عالمی امن مسلط کیا جا رہا ہے، ایک ایسا امن جس کا تحفظ سٹار وار سسٹم کرے گا جو گلوبل مارکیٹ کو پروان چڑھائے گا جہاں ہر چیز بِکے گی، کتاب بھی اور قلم بھی، ادب بھی اور نظریہ بھی۔ انسان وہی سوچے اور سمجھے گا جیسا اس سے چاہا جائے گا۔ ‘‘

’ ’جامعہ نامہ‘‘ کے مزید کئی پہلوؤں پر بات ہو سکتی ہے، لیکن اس مختصر تبصرے میں چونکہ تنقیدی محاکمہ مقصود نہیں، اس لیے سطورِ بالا پر اکتفا کرتے ہوئے ہم یونی ورسٹی آف گجرات کے متعلقین، خاص طور پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ شیخ عبدالرشید کی زبان و بیان کی خوبیوں کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرکے یونی ورسٹی آف گجرات کی ایسی فکری و تصنیفی نیو رکھ دی گئی ہے جس پر کھڑی ہونے والی عمارت بلامبالغہ بہت شاندار پر شکوہ اور نہایت عظیم ہو گی۔

(تبصرہ نگار: پروفیسر میاں انعام الرحمن)

’’انصاف کرو گے؟‘‘

ترجمہ کرنا مشکل کام ہے اور کوئی مشکل پسند ہی ترجمانی کا حق ادا کر سکتا ہے۔ ہر پس ماندہ قوم کی تاریخ میں ایسے مشکل پسندجنم لیتے رہے ہیں جو اپنی، ذہنی اعتبار سے پس ماندہ قوم تک ترقی یافتہ مہذب اقوام کے علوم و فنون کو ترجمہ کے ذریعے منتقل کرنے کا کٹھن فریضہ سر انجام دیتے رہے ہیں۔ اگر بات ایسی قوم کی ہو جس کے اپنے (معدودے چند) رجحان ساز رویے غیر ملکی زبان کے طلسم کا شکار ہوں تو ترجمانی کی ضرورت، ضرورت سے بڑھ کر فرضِ کفایہ کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔ وطن عزیز میں زبان کے حوالے سے مقتدر طبقے کی مخصوص چال نے ایسے مخصوص چلن کو رواج دے رکھا ہے جس کے باعث اوسط ذہنی سطح کے حامل کسی فرد تک رجحان ساز رویوں کی پرچھائیں بھی نہیں پہنچ پاتی جس کے نتیجے میں رجحان ساز رویوں کا نوخیز پودا تناور درخت بننے سے بہت پہلے دم توڑ جاتا ہے۔ ایسے قابلِ افسوس (بلکہ قابلِ ماتم) تناظر میں، چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ نے قومی عدالتی پالیسی اور چند اہم مقدمات کا بر وقت ترجمہ کر کے نئی ابھرتی ہوئی رجحان ساز قومی فکر کو عام قاری تک پہنچانے کا قابلِ تحسین کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ 

’’انصاف کرو گے؟‘‘ زیرِ نظر مترجم تالیف کا عنوان ہی نہیں ہے بلکہ ایسا سوال ہے جس کی درستی میں اس کا جواب بھی پنہاں ہے۔ جی ہاں ! یہ ایک درست سوال ہے اور اس کے درست جواب میں ہماری قوم کے خوابوں کی تعبیر پوشیدہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران میں برطانوی وزیرِ اعظم چرچل نے بھی ایک درست اٹھائے گئے سوال کا درست جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ برطانوی قوم محکوم و مغلوب قوم نہیں بن سکتی، کیونکہ برطانوی عدالتوں میں انصاف ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بحیثیت قوم ہم اس وقت حالتِ جنگ میں ہیں اور اس وقت فقط انصاف ہی محکومیت و مغلوبیت کی راہ میں حائل ہو کرہماری آزادی کے تحفظ کے لیے مضبوط فصیل کا کام دے سکتا ہے۔ لہٰذا ’’انصاف کرو گے؟‘‘ جیسا درست سوال بروقت اٹھانے پر چودھری محمد یوسف ایڈ ووکیٹ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

فہرست پر سرسری نظر دوڑانے سے ہی عیاں ہو جاتا ہے کہ اس مترجم تالیف کے مشتملات میں نامیاتی تعلق تو سرے سے موجود نہیں، اس پر مستزاد یہ کہ کسی قسم کا منطقی ربط بھی بالکل نہیں پایا جاتا۔ ایسا الجھاؤ یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ چودھری صاحب کو مختلف النوع مقدمات اور طبع زاد تحریروں کو ایک ہی کتاب میں سمونے کی کیوں سوجھی؟ ہمارے خیال میں اس سوال کے جواب کا تعلق مترجم مولف کی شخصیت کے شعوری پہلو سے نہیں ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے اردو ادب کی صنف، غزل کی ماہیت کا تفہم کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔ غزل کے اشعار میں عام طور پر کوئی منطقی یا معنوی ربط نہیں ہوتا۔ ہر شعر دوسرے سے مختلف اور اپنی جگہ مکمل وحدت کا حامل ہوتا ہے۔ مثلاً میر تقی میر کی ایک مشہور غزل کے دو اشعار دیکھیے: 

ہستی اپنی حباب کی سی ہے 
یہ نمائش سراب کی سی ہے 
ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے 
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے 

معنوی بعد کے باوجود، بہرحال دونوں ایک ہی غزل کے شعر ہیں اور بیان و معانی کے لحاظ سے اپنے اپنے مقام پر مکمل وحدت اور الگ الگ شناخت لیے ہوئے ہیں۔ غزل کی اس داخلی پیچیدگی نے ناقدین کو اس ا مر پر مجبور کیا ہے کہ وہ ’’وہ چیز‘‘ تلاش کریں جو ان مختلف وحدتوں کو ایک لڑی میں اس طرح پرو تی ہے کہ غزل بن جاتی ہے اور کسی کو اس پر اعتراض بھی نہیں ہوتا۔ تلاش کے اس عمل میں ظاہر بین نقاد ردیف، قافیہ، وزن، بحر وغیرہ کے پلڑے میں ناپ تول شروع کردیتے ہیں، لیکن گہرائی سے دیکھنے والے اسے شاعر کے ’’موڈ‘‘ کا نام دیتے ہیں کہ شاعر کا موڈ غزل کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے اور یہ موڈ ہی مختلف المعانی اشعار میں داخلی ربط پیدا کر کے انہیں غزل کے منصب پر فائز کر دیتا ہے۔ ہماری رائے میں محمد یوسف ایڈووکیٹ کی مترجم تالیف اگرچہ ظاہری طور پر چوں چوں کا مربہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں بھانت بھانت کی اشیا اکٹھی کر دی گئی ہیں، لیکن ذرا غور کرنے پر ان کے پیچھے کارفرما چودھری صاحب کا موڈ برآمد ہوتا ہے جو متنوع مشتملات کو باندھ کر کتاب کا روپ دے دیتا ہے۔

جہاں تک یوسف صاحب کے موڈ کا تعلق ہے، باغیانہ انداز میں سر اٹھا کر چلنا اس کا بنیادی وصف معلوم ہوتا ہے۔ نظریہ ضرورت کے خلاف بغاوت، این آر او کے خلاف بغاوت، اسلام کے قدامت پسندانہ ایڈیشن کے خلاف بغاوت، مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ ہر قسم کے استحصال کے خلاف بغاوت۔ چودھری صاحب کے موڈ کو سلام، ان کے باغیانہ تیور سر آنکھوں پر، لیکن سوال یہ ہے کہ جناب نے اردو کو دفتری زبان بنانے کے مقدمے کا تفصیلاً ذکر کیوں نہیں کیا؟ کیا یہ بھی استحصال کی بد ترین صورت نہیں ہے کہ قوم پر ایک غیر ملکی زبان پچھلے چھ عشروں سے مسلط ہے؟ یوسف ایڈووکیٹ اس استحصالی روپ سے بخوبی آگاہ ہیں،اسی لیے انہوں نے اردو دان حضرات تک عدالتی پیغام پہنچانے کے لیے جوڈیشل پالیسی اور بعض اہم مقدمات کا ترجمہ، تالیف کی صورت میں پیش کیا ہے اور ’’جوڈیشل پالیسی --- چند توجہ طلب نکات‘‘ کے زیرِ عنوان پچیس نکات پر مشتمل بصیرت افروز تبصرہ تحریر کرتے ہوئے اٹھارہویں نکتے میں اردو کی تنفیذ کے زیرِ التوا مقدمے کا مقدمہ قارئین کے توسط سے سپریم کورٹ میں دائر کر دیا ہے۔ صفحہ نمبر ۵۶ سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے : 

’’ اردو کے لیے اتنی طویل جدوجہد کے بعد اس کا حاصل کیا ہے؟ محض دستور کا آرٹیکل ۲۵۱۔ کیا دستوری آرٹیکل اسی لیے ہوتے ہیں کہ وہ کتابِ قانون کی زینت بنے رہیں؟ عدلیہ دستور کی محافظ ہے، کیا عدلیہ اس بارے میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے دائر درخواستوں کو معرضِ التوا میں رکھ کر اپنی ذمہ داری کو پورا کر رہی ہے؟ ان حالات میں سپریم کورٹ سے ہی توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ خود اردو کی ترویج کے لیے اقدامات کرے جس طرح عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی، قصاص و دیت کے احکامات، انسانی اعضاء کی خریداری کے بار ے میں سخت تادیبی قوانین کے اجرا کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے موثر کردار ادا کیا۔ اس سے عام آدمی کو بے حد سہولت بھی پہنچے گی اور دستور کا تقاضا جسے ایک مدت سے نظر انداز کیا گیا ہے، پورا ہو گا۔‘‘ 

دو سو صفحات کی تالیف میں اردو کی اہمیت پر صرف دو تین صفحے، اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے لیکن دیر آید درست آید کے مصداق ہم توقع کرتے ہیں کہ چودھری صاحب کسی آئندہ کتاب میں اردو کی تنفیذ کا مقدمہ اپنے مخصوص باغیانہ تیور کے ساتھ بھر پور انداز میں لڑیں گے۔ 

جس طرح تقریباً ہر شاعر کے کلام میں کوئی نہ کوئی ترکیب، استعارہ، تلمیح وغیرہ بار بار ظاہر ہو کر شاعر کی افتادِ طبع کی غمازی کرتی ہے، اسی طرح ’’انصاف کرو گے؟‘‘ میں کم از کم چار مقامات ( صفحہ نمبر ۶۳، ۱۱۹، ۱۹۹، اور بیک ٹائیٹل) پر ایک پیراگراف کا حوالہ ہمارے ممدوح کے خاص مزاج کا پتہ دیتا ہے۔ یہ تکرار ظاہری لحاظ سے قارئین کے لیے تاکیدی پہلو لیے ہوئے ہے اور داخلی اعتبار سے چودھری صاحب کی اس سائیکی کی طرف نہایت ٹھوس اشارہ کرتا ہے جس کی بنیاد پر ان کے مخصوص موڈ کی تعمیر و تزئین ہوئی ہے۔ پیراگراف ملاحظہ کیجیے۔ عاصمہ جیلانی کیس میں جسٹس یعقوب علی خان نے یہ سطور لکھی تھیں : 

Let it be laid down firmly that the order which the usurper imposes will remain illegal and courts will not recognize its rule and act upon them as de jure. As soon as the first opportunity arises, when the coercive apparatus falls from the hands of the usurper, he should be tried for high treason and suitably punished. This alone will serve as a deterrent to would be adventurers. 

اگر ایک قانون دان کے دل و دماغ کو سطورِ بالا نے مسحور کر رکھا ہے تو اس پر ہمیں ہرگز حیرت نہیں ہے۔ ہاں، اگر قانون دان صاحب اس جہان سے سرسری گزر جاتے تو ہم ضرور کہتے کہ جناب! یہ جہانِ دگر تھا ۔ 

اس تالیف کے صفحہ ۱۳۶ تا ۱۴۸ میں یوسف ایڈووکیٹ کی ایک طبع زاد تحریر بعنوان ’’مسلم و غیر مسلم جج کی بحث‘‘ بھی شامل ہے۔ اس مضمون میں مصنف نے طنز کے تیر چلانے کی کوشش کی ہے، لیکن غالباً کمان پوری طرح کھینچے بغیر ہی تیر کمان سے نکل گئے ہیں اور چودھری صاحب دیکھتے ہی رہ گئے ہیں۔ البتہ اکا دکا تیر نشانے کے قریب بھی پہنچے ہیں جس سے امید بندھتی ہے کہ اگر چودھری صاحب نے تیر اندازی کی مشق جاری رکھی تو آخر ایک دن تیس مار خان بن ہی جائیں گے۔ اس مضمون میں غیر مسلم جج کی وکالت کرتے ہوئے مصنف نے ڈاکٹر محمد حمیداللہ مرحوم کی ’’خطباتِ بہاولپور‘‘ سے یہ اقتباس نقل کیا ہے : 

’’اسلام میں کسی معین طرزِ حکومت کو لازم قرار نہیں دیا گیا بلکہ عدل و انصاف کو لازم قرار دیا گیا ہے، چاہے اس کو کوئی بھی انجام دے۔ اگر آج حضرت ابوبکر، حضرت عمریا حضرت علی رضی اللہ عنہم زندہ ہوں تو میں بخوشی انہیں سارے آمرانہ اختیارات سونپنے کے لیے آمادہ ہوں، کیونکہ مجھے ان کی خدا ترسی پر پورا اعتماد ہے۔ اس کے بر خلاف اگر آج یزید زندہ ہو تو میں اس کو انگلستان کے مہر لگانے والے بادشاہ کے برابر بھی اپنا حکمران بنا نے کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘‘ 

چودھری صاحب مذکورہ اقتباس کو نقل کرنے کے بعدارشاد فرماتے ہیں: 

’’کریکٹر کی اہمیت کو الگ رکھ کر محض فنی مباحث علمی تفریح تو ہو سکتی ہے مگر دین سے اس کا کوئی تعلق جوڑنا دور کی کوڑی لانے والی بات ہے ۔ میں اسے نہیں جانتا، نہ ہی مانتا ہوں۔ ‘‘ 

ہم چودھری صاحب سے یہ پوچھنے کی جسارت کریں گے کہ اگر ’’کریکٹر‘‘ کی اہمیت ہی کلیدی ہے اور اس سلسلے میں فنی بحث علمی تفریح کے زمرے میں آجاتی ہے جس کا ’’دین‘‘ سے تعلق جوڑنے کی چنداں ضرورت بھی نہیں رہتی تو پھر کیا وطنِ عزیز کے جرنیل، سیاستدانوں کی بہ نسبت اتنے زیادہ بدکردار ہیں کہ ان کی طالع آزمائی کی مذمت اور سدِ باب کے لیے نہ صرف خواہ مخواہ کی فنی بحثیں چھیڑی جائیں بلکہ ’’انصاف کرو گے؟‘‘ جیسے دل فریب عنوانات کے تحت کتب بھی تالیف کی جائیں؟

(تبصرہ نگار: پروفیسر میاں انعام الرحمن)


تعارف و تبصرہ

(نومبر و دسمبر ۲۰۰۹ء)

نومبر و دسمبر ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۱۱ و ۱۲

مذہبی طبقات، دہشت گردی اور طالبان ۔ ایک سوالنامہ کے جوابات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلامی یونیورسٹی دہشت گردی کا نشانہ کیوں بنی؟
محمد مشتاق احمد

آزادی کی پر تشدد تحریکیں: سبق سیکھنے کی ضرورت
ڈاکٹر عبد القدیر خان

جہاد کی فرضیت اور اس کا اختیار ۔ چند غلط فہمیاں
محمد عمار خان ناصر

موجودہ پر تشدد تحریکیں اور دیوبندی فکر و مزاج
مولانا مفتی محمد زاہد

معاصر مجاہدین کے معترضین سے استفسارات
محمد زاہد صدیق مغل

حدیث غزوۃ الہند اور مسئلہ کشمیر پر اس کا انطباق
مولانا محمد وارث مظہری

مولانا فضل محمد کے جواب میں
حافظ محمد زبیر

مکاتیب
ادارہ

’’دینی مدارس کا نظام بین الاقوامی تناظر میں‘‘
ادارہ

امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت کی تقریب رونمائی
ادارہ

الشریعہ کی خصوصی اشاعت کے بارے میں تاثرات
ادارہ

’’دینی تعلیم اور عصری تقاضے‘‘ کے عنوان پر سیمینار
ادارہ

انا للہ وانا الیہ راجعون
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

تلاش

Flag Counter