خیر مقدم

دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس منعقدہ ۱۴ مارچ ۹۶ء بمقام مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ



نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم اما بعد!

معزز مہمانان گرامی و شرکاء محفل!  السلام عليكم و رحمۃ اللہ وبركاتہ۔

ہمارے ملک میں دینی اور دنیاوی تعلیم کے جو دو نظام اس وقت رائج ہیں، ان کے بارے میں یہ بات اب مانی جا چکی ہے کہ وہ قومی سطح پر ہماری فکری، علمی، دینی اور دنیاوی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

(۱) عصری تعلیم کی درس گاہوں میں جو نظام رائج ہے، اس کی بنیاد پچھلی صدی میں برصغیر کے انگریز حکمرانوں نے رکھی تھی۔ اس کی لادینی حقیقت اور اس کے پیش نظر استعماری مقاصد خود اس کے بنانے والوں نے واضح کر دیے تھے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اس قوم کو اس کی دینی بنیاد، علمی و فکری ورثے، اخلاقی اقدار اور تہذیب و معاشرت سے لاتعلق کر کے اس پر فرنگی فکر و تہذیب کی غلامی مسلط کر دی جائے۔ چنانچہ اہل نظر کی حقیقت شناس نگاہوں نے اسی وقت یہ محسوس کر لیا تھا کہ اہلِ کلیسا کا یہ نظام تعلیم ؏

ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

اہلِ فکر و دانش کی بحثوں کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو اس نظام کے تین بنیادی نقائص سامنے آتے ہیں: 

پہلا یہ کہ یہ ایک خالص مادہ پرستانہ نظامِ تعلیم ہے جو اپنے طالب علموں کے ذہنوں میں ملحدانہ افکار و نظریات کی آبیاری کرتا اور ان کے خیالات کی اس طرح سے تشکیل کرتا ہے کہ وہ اگر خدا اور مذہب کا زبان سے انکار نہ بھی کر سکیں تو اپنی زندگی کے شب و روز میں انہیں کہیں کوئی جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اسلامیات کی تعلیم جس مقدار اور جس انداز میں اس میں شامل کی گئی ہے، اس کی حیثیت ایک پیوند کی ہے جس سے طلبہ کے فکر و ذہن کو مسلمان بنانے اور انہیں دینی حقائق سے روشناس کرانے میں کوئی مدد نہیں مل سکتی۔

دوسرا یہ کہ اس نظام میں اردو اور انگریزی ذریعہ تعلیم کی تفریق؛ معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے تعلیم، معیار اور ماحول کے لحاظ سے مختلف تعلیمی اداروں کے قیام؛ اور اس طرح کے دوسرے اقدامات کے ذریعے سے ملت کے افراد کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے؛ اور ان کی سوچ، کردار، معاشرت اور اقدار میں اس قدر بُعد و تضاد پیدا کر دیا گیا ہے کہ جس کے بعد ان سے یہ توقع ہی نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایک ’’ملتِ واحدہ‘‘ کے افراد بن کر رہ سکیں گے۔

تیسرا یہ کہ اس میں طلبہ کے اخلاق و کردار کی تہذیب اور ان کی تربیت کا سرے سے کوئی اہتمام نہیں۔ استاد یہاں محض انتقالِ علم کا ایک ذریعہ ہے، طلبہ اس کی سیرت اور کردار میں اپنے لیے کوئی نمونہ نہیں پاتے، اور نہ یہاں ان بنیادوں کا وجود ہے جن پر استاد اور شاگرد کے مابین شفقت اور احترام کا تعلق استوار ہو سکتا ہے۔

اس سے واضح ہے کہ رائج عصری نظامِ تعلیم افرادِ ملت کی تباہی اور ان کی علمی و اخلاقی پستی میں اضافہ کے سوا کوئی کردار ادا نہیں کر رہا۔ 

(۲) دوسری طرف دینی مدارس جس تعلیمی نظام کے تحت کام کر رہے ہیں، اس کے ذریعے سے قرآن و سنت اور ان سے متعلقہ دینی علوم کی تعلیم کا کام اگرچہ ایک حد تک انجام پا رہا ہے، لیکن انگریزی زبان اور عصری علوم سے لا تعلقی اور غلط تعلیمی ترجیحات کی بنا پر ان کا دائرہ اثر نہایت محدود ہے۔ اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ عصرِ حاضر کے علمی و عملی تقاضوں سے بالکل بے خبر اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں۔ چنانچہ جدید عقلی دور میں دین کی تفہیم اور اس کے مطابق ایک نظریاتی اسلامی مملکت کی تشکیل میں یہ مدارس کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے۔ 

قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک اس صورت حال کی اصلاح کے لیے مختلف حکومتوں کی طرف سے کاغذی سطح پر اگرچہ متعدد بار پیش رفت ہوئی ہے لیکن عملی طور پر کسی بہتری اور اصلاح کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ چنانچہ ایک عرصہ سے اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ سرکاری سطح پر تعلیمی اصلاحات کے لیے جدوجہد کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سطح پر پورے ملک میں ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں جہاں طلبہ کو ان کی دینی و عصری ضروریات پر محیط معیاری تعلیم مہیا کی جائے اور ان کے اخلاق و کردار کی بھی بہتر تربیت کا اہتمام کیا جائے۔

چنانچہ اس مقصد کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں اہلِ درد اپنے اپنے دائروں میں دینی و عصری تعلیم اور فکری و اخلاقی تربیت کے امتزاج کی بنیاد پر تعلیمی جدوجہد میں مصروف ہیں، اور گوجرانوالہ میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی، الشریعہ اکیڈیمی، اور الشریعہ پبلک اسکول کا قیام بھی انہی عزائم کا آئینہ دار ہے۔ 

اس کے ساتھ اس امر کی ضرورت بھی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے کہ اس رخ پر کام کرنے والے اداروں اور شخصیات کے درمیان مفاہمت و مشاورت کا بھی وقتاً فوقتاً اہتمام ہو تاکہ ان مساعی کو زیادہ مفید اور بار آور بنایا جا سکے۔ گزشتہ سال اس غرض کے لیے الشریعہ اکیڈیمی مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے تحت شاہ ولی اللہ یونیورسٹی میں تعلیمی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا، اور اب آپ بزرگوں کو دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس میں شرکت کی زحمت دی گئی ہے، جس کا عنوان ’’خواندگی، تعلیم اور دینی اقدار کا فروغ‘‘ تجویز کیا گیا ہے۔ 

ہم آپ سب حضرات اور مہمانان گرامی کا خیر مقدم کرتے ہوئے تشریف آوری پر آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور اس تعلیمی جدوجہد میں راہنمائی، مشاورت، تعاون اور خصوصی دعاؤں کے خواستگار ہیں۔


مدارس و جامعات / تعلیم و تعلم

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(جولائی ۱۹۹۶ء)

جولائی ۱۹۹۶ء

جلد ۷ ۔ شمارہ ۳

حکومت اور دینی مدارس کی کشمکش کا ایک جائزہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تعلیمِ کتاب و حکمت: سنتِ نبویؐ
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور اس کے تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جدید نظریاتی چیلنج اور علمائے کرام
مولانا محمد عیسٰی منصوری

دینی مدارس، پس منظر اور مقاصد و خدمات
مولانا حافظ صلاح الدین یوسف

دینی مدارس، بنیاد پرستی اور انسانی حقوق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

برق گرتی ہے تو بیچارے ملاؤں پر
خورشید احمد گیلانی

تعلیم کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار
شکور طاہر

شرح خواندگی میں اضافہ اور دینی مراکز
پروفیسر غلام رسول عدیم

دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس سے جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کا خطاب
جسٹس محمد رفیق تارڑ

خیر مقدم
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

موسم برسات میں ہیضہ سے بچاؤ کے لیے خصوصی تدابیر
حکیم عبد الرشید شاہد

دینی مدارس اور زمانے کے تقاضے
مولانا ابوالکلام آزادؒ

دینی تعلیم کے مراکز اور آج کے تقاضے
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

انگریزی زبان اور علمِ نافع
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter