خدا کا شکر ہے جمعیت علماء ہند کی اس تجویز کو مسلمانوں کی تائید حاصل ہوئی۔ ماتحت جمعیتوں نے جگہ جگہ شبینہ مکاتب قائم کیے۔ مرکزی جمعیت علماء ہند کی طرف سے تباہ شدہ اور پس ماندہ علاقوں میں مکاتب قائم کیے گئے۔ ترتیبِ نصاب کے لیے ایک تعلیمی کمیٹی بنائی گئی جس نے ابتدائی درجات کا ایسا نصاب مرتب کیا کہ اگر پانچ سال تک بچوں کو ایک گھنٹہ یومیہ تعلیم دی جائے تو بچہ تجوید و قراءت کے ساتھ قرآن کریم بھی ختم کر سکتا ہے اور حسبِ ضرورت عقائد، عبادات اور سیرت و اخلاق اور اسلامی تہذیب سے بھی پوری واقفیت حاصل کر سکتا ہے۔ اور اگر نصاب کی ہدایات پر حضرات اساتذہ عمل کریں تو بچہ کی اخلاقی اور مذہبی تربیت بھی کافی حد تک ہو سکتی ہے، لیکن اس جدوجہد کے باوجود کامیابی کی منزل بہت دور ہے اور اس کے لیے لا محالہ عام مسلمانوں اور اسلامی اداروں کے تعاون کی شدید ضرورت ہے۔
اس پر آشوب دور میں اگر جمعیت علماء ہند کی تمام شاخوں کی جدوجہد اور دوسرے اسلامی اداروں کے تعاون سے مسلمانوں میں اسلامی تعلیم کا مذاق پیدا ہو جاتا ہے، اور ہر ایک مسلمان اپنے فرض کو پوری طرح محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ ایک ’’معلم‘‘ ہے اور سید الانبیاء ﷺ کے ارشاد گرامی (بعثت معلما میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں) کو ہر ایک مسلمان اپنی زندگی کا لائحہ عمل قرار دینے لگتا ہے تو ملتِ اسلامیہ ہر ایک خطرہ سے محفوظ ہو جاتی ہے۔
حضرات کرام! ابتدائی مذہبی تعلیم کی جدوجہد کے ساتھ وہ تعلیمی مرکز اور علومِ شرقیہ کے کامیاب ادارے نظر انداز نہ ہونے چاہئیں جن کی جلیل القدر علمی خدمات ہماری تاریخ کا روشن باب بن چکی ہیں۔ یہ مسلمانوں کا گرانقدر سرمایہ ہیں اور ایک مقدس امانت ہیں جس کو ہمارے بزرگوں نے ہمارے سپرد کیا ہے۔ اس امانت کو محفوظ رکھنا اور اس سرمایہ کو ترقی دینا ہماری دینی و ملّی حمیت کا گراں بہا فرض ہے جو ایثار و اخلاص کا مطالبہ کرتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی پاک نہیں ہے کہ ایک زندہ جماعت ایثار میں کبھی کوتاہی نہیں کرتی۔ یؤثرون علیٰ انفسہم ولو كان بہم خصاصۃ (سورہ حشر)
ہمارے تعلیمی پروگرام کا ایک ضروری حصہ یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنی ذمہ داری پر ایسے ابتدائی مدارس قائم کریں جن میں اردو زبان اور ابتدائی مذہبی تعلیم و تربیت کے ساتھ سرکاری پرائمری سکولوں کے تمام ضروری مضامین بھی نصاب میں شامل کیے جائیں۔
(خطبہ صدارت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ۱۹۵۱ء، حیدر آباد، دکن)