برق گرتی ہے تو بیچارے ملاؤں پر

خورشید احمد گیلانی

موقر روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کی اشاعت ۱۸ اپریل میں ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ 

’’حکومت کے ایماء پر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے ذریعے تمام یونیورسٹیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کسی ایسے طالب علم کو اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ نہ دیں جو دینی مدارس کے تشکیل شدہ کسی بھی بورڈ کا سند یافتہ ہو۔ اس نوٹیفیکیشن کے مطابق دینی مدارس کی سند شہادۃ العالمیہ کو ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کے مساوی تسلیم نہ کرے۔‘‘

حکومت کے اس انتہائی ناروا اور مکروہ فیصلے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ جو ممکنہ وجوہ سمجھ میں آسکتی ہیں، وہ یہ ہیں:

۱۔ حکومت کے متواتر اعلانات اور بیانات کہ ہم پاکستان کو بنیاد پرستوں کا گڑھ نہیں بنے دیں گے، اور دینی مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں۔ شاید اس بنا پر یہ فیصلہ کیا گیا۔

۲۔ دینی تعلیم کے معیار کا مسئلہ یعنی شہادۃ العالمیہ کی سند رکھنے والے علماء تعلیمی اعتبار سے وہ اہمیت نہیں رکھتے جو ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی والوں کی ہوتی ہے۔ شہادۃ العالمیہ کی سند تسلیم نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔

۳۔ چونکہ یہ فیصلہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں (۱۷ نومبر ۱۹۸۲ء) ہوا تھا اور موجودہ حکومت ضیاء دور کی ہر علامت، نشانی، حکم اور فیصلے کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے، یہ فیصلہ بھی شاید اسی پس منظر میں کیا گیا ہے۔ 

جہاں تک پہلی وجہ کا تعلق ہے تو وہ اس لیے قابلِ فہم ہے کہ حکومت کا معیارِ تہذیب و تمدن اور مدارِ عقیدہ و اصول چونکہ اللہ و رسول ﷺ نہیں بلکہ مغرب ہے، حق صرف وہی ہے جسے مغرب حق سمجھے اور باطل وہ ہے جسے مغرب ٹھکرا دے، اچھی قدر وہی ہے جسے مغرب کی مہر لگی ہوئی ہو اور بری روایت وہ ہے جس پر یورپ کا ٹھپہ نہ ہو، چونکہ ’’بنیاد پرستی‘‘ کے لفظ سے یورپ اور امریکہ کو آج کل خاص طور سے سخت کھجلی مچتی ہے، اس لیے ہماری حکومت کو بھی اس لفظ سے بہت الرجی ہے۔ 

اور یہ کہ دینی مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں، یہ بات حقائق کی میزان میں تو کوئی وزن نہیں رکھتی اور نہ واقعات کے تناظر میں درست ثابت ہوئی ہے، تاہم مغرب اور امریکہ چونکہ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کو ہم معنی اور جڑواں سمجھ رہے ہیں، اس لیے ہماری حکومت کی کیا مجال کہ وہ ان سے مختلف مفہوم نکالے، طنبورہ مغرب کے سر میں سر ملانا ہماری حکومتوں کا بہت پرانا شیوہ رہا ہے، لیکن اس واہمے کو جواز بنا کر دینی مدارس کے سند یافتہ لوگوں کو ایم اے کی ڈگری سے محروم کرنا اور مزید اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کر دینا سراسر حماقت ماب اور کراہت آمیز فیصلہ ہے۔ کیوں کہ واقعات کی دنیا میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ بنیاد پرستی ہو یا دہشت گردی، یہ سب اصطلاحات مغرب والوں نے محض خوئے بد را بہانہ بسیار کے مصداق اہلِ اسلام کو دبانے اور اپنی شرائط پر معاملہ طے کرنے کے لیے وضع کی ہیں، ورنہ ان کا اہل مغرب کے دماغ کے علاوہ خارج میں کہیں وجود نہیں، اپنے حق کے لیے لڑنا یورپ اور امریکہ کے نزدیک دہشت گردی اور دوسرے کی آزادی و استقلال اور خود مختاری پر دن دیہاڑے حملہ آور ہونا قیامِ امن ہے۔ 

آئے دن یورنیورسٹیوں اور کالجوں پر پولیس کے چھاپے پڑتے ہیں اور بے اندازہ اسلحہ برآمد ہوتا ہے مگر آج تک کسی دینی مدرسے سے (فی الواقع وہ دینی مدرسہ ہو، حکومت خواہ مخواہ کسی جگہ چھاپہ مار کر اسے دینی مدرسے کا نام نہ دے) دہشت گردی کے کوئی آلات اور تخریب کاری کے لوازم برآمد نہیں ہوئے۔

دوسری بات جو اس فیصلے کو جواز فراہم کر سکتی ہے، وہ یہ کہ مدارس کے فارغ التحصیل حضرات وہ تعلیمی معیار نہیں رکھتے جو ایم اے اسلامیات / عربی کے لیے ضروری ہے تو یہ مسئلہ خالصتاً‌ فنی اور علمی ہے۔ اس میں کسی نوع کی سیاست کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے مدارس عربیہ کے مختلف امتحانی بورڈز ہیں، ان کا ایک اپنا نظام ہے اور الگ الگ ادارے ہیں، مثلاً‌ وفاق المدارس، تنظيم المدارس، رابطہ المدارس وغیرہ۔ ان کے تحت سالانہ امتحانات ہوتے ہیں اور آخر میں جا کر شہادۃ العالمیہ کی سند جاری کی جاتی ہے اور اسی سند کو ایم اے (اسلامیات /  عربی) کے مساوی قرار دیا گیا، اور اسی بنیاد پر بعض علماء کو تعلیمی اداروں میں ملازمتیں ملیں اور مزید اعلیٰ تعلیم (پی ایچ ڈی وغیرہ) کی سہولت اور اجازت دی گئی۔ 

اس کے لیے مناسب اور موزوں یہ ہے کہ مدارس کے تعلیمی معیار کی چھان بین کی جائے، امتحانات کا نظام درست کیا جائے، نہ یہ کہ سہولت واپس لی جائے۔ ویسے کالجوں اور جامعات کے علوم اسلامیہ اور عربی میں ایم اے کرنے والے حضرات سے ان دونوں مضامین میں مدارس کے فارغ التحصیل علماء کا معیار عمومی طور پر بلند اور بہتر ہوتا ہے، البتہ دونوں طرف سے کچھ اصحاب اس سے مستثنیٰٰ ہیں۔ ۸۲ ء سے اب تک متعدد علماء نے اسی سہولت کی بنیاد پر جامعہ پنجاب، جامشورو یونیورسٹی، جامعہ کراچی، اور گومل یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اور اس وقت بھی کئی علماء کے پی ایچ ڈی کے مقالے زیر ترتیب ہیں۔ یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان لوگوں میں وہ اہلیت موجود ہے جو ایم اے کے لیے مطلوب اور پی ایچ ڈی کرنے کے لیے ضروری ہے، بنا بریں اس فیصلے کو اس تناظر میں دیکھ کر صادر کیا جائے۔ 

جس دن یہ خبر شائع ہوئی ہے، اسی روز صدر مملکت کا ایک خطاب بھی چھپا ہے جو انہوں نے مردان کے فضل حق کالج میں کیا کہ ’’روٹی، کپڑا اور مکان سے بھی بڑھ کر عوام کو تعلیم کی ضرورت ہے‘‘۔ نیز ’’مذہب ہمیں علم سیکھنے اور سکھانے کا درس دیتا ہے‘‘۔ یعنی ایک طرف تعلیم کی رغبت پیدا کرنے کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف علم کے فروغ کے راستے میں یہ رکاوٹ ایک مخمصہ پیدا کرنے والی بات ہے، اور ساتھ ہی یہ کہ مذہب علم سیکھنے اور سکھانے کا درس دیتا ہے لیکن مذہبی تعلیم اربابِ حکومت کی نظر میں ایک فالتو چیز ہے جسے وہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ 

جہاں تک تیسری وجہ کا تعلق ہے یعنی ضیاء الحق کے عہد کا ہر فیصلہ موجودہ حکومت کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹکتا ہے، تو یہ وجہ بھی انتہائی بودی اور لغو ہے۔ اگر ضیاء صاحب کے خاص الخاص لوگوں کو بڑی خوشی بلکہ گرمجوشی سے قبول کیا جا سکتا ہے تو ایک بے ضرر سے دینی اور تعلیمی فیصلے پر اس قدر رد عمل کیوں کر مناسب کہا جا سکتا ہے، کیا کسی کو معلوم نہیں کہ قومی اسمبلی کے سپیکر کون ہیں؟ گورنر پنجاب کس کے دستِ راست رہے ہیں؟ متعدد وفاقی وزراء ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کی زینت بنے رہے، ان کی کابینہ میں رہے۔ اگر یہ سب کچھ قابلِ قبول ہے تو گلے کی پھانس صرف وہ فیصلہ ہے جس سے رجالِ دین کو ذرا سا فائدہ پہنچتا ہو؟

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(جولائی ۱۹۹۶ء)

جولائی ۱۹۹۶ء

جلد ۷ ۔ شمارہ ۳

حکومت اور دینی مدارس کی کشمکش کا ایک جائزہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تعلیمِ کتاب و حکمت: سنتِ نبویؐ
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور اس کے تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جدید نظریاتی چیلنج اور علمائے کرام
مولانا محمد عیسٰی منصوری

دینی مدارس، پس منظر اور مقاصد و خدمات
مولانا حافظ صلاح الدین یوسف

دینی مدارس، بنیاد پرستی اور انسانی حقوق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

برق گرتی ہے تو بیچارے ملاؤں پر
خورشید احمد گیلانی

تعلیم کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار
شکور طاہر

شرح خواندگی میں اضافہ اور دینی مراکز
پروفیسر غلام رسول عدیم

دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس سے جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کا خطاب
جسٹس محمد رفیق تارڑ

خیر مقدم
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

موسم برسات میں ہیضہ سے بچاؤ کے لیے خصوصی تدابیر
حکیم عبد الرشید شاہد

دینی مدارس اور زمانے کے تقاضے
مولانا ابوالکلام آزادؒ

دینی تعلیم کے مراکز اور آج کے تقاضے
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

انگریزی زبان اور علمِ نافع
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter