دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس سے جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کا خطاب

جسٹس محمد رفیق تارڑ

اس وقت وطنِ عزیز میں تعلیم کے دو نظام چل رہے ہیں۔ ایک نظام دینی مدارس کا ہے اور دوسرا دنیوی درسگاہوں کا جو آگے چل کر کئی حصوں میں تقسیم ہے جیسے انگلش میڈیم، اردو میڈیم، جاگیرداروں اور رؤسا کے بچوں کے سکول اور عام آدمی کے بچوں کے لیے تعلیمی ادارے وغیرہ۔ انگریز نے برصغیر کی حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور ۱۸۵۷ء میں بھی مسلمان ہی جنگ آزادی کا ہراول دستہ تھے اس لیے فرنگی اسلام، اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے خلاف شدید جذبات رکھتا تھا۔ اس پس منظر میں رسوائے زمانہ میکالے نے ایک شیطانی نظامِ تعلیم مرتب کر کے دعویٰ کیا کہ اس سے ایسا طبقہ پیدا ہو گا جو خون اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی عمر خیالات و تمدن میں انگریز ہو گا۔ اس نظامِ تعلیم کے نفاذ سے دو مقاصد کا حصول اس کے پیش نظر تھا: دفتروں کے لیے کلرک پیدا کرنا، اور مسلمانوں کو ان کے دین سے بے گانہ کر کے دینی اقدار سے محروم کرنا۔

نظامِ تعلیم ہی کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے ولیم ہنٹر نے اسلام اور اسلامی تعلیمات پر انتہائی رکیک حملے کیے اور نظامِ اسلام کا تمسخر اڑایا۔ نوآبادیاتی دور کے ڈیڑھ دو صدیوں پر محیط لمبے دورانیے میں فرنگی نے مسلمانوں میں اپنے کاسہ لیس، وطن فروش ٹوڈیوں کے خاندانوں کی اس طرح تربیت کی کہ وہ اپنی چال ڈھال، نشست و برخاست اور بود وباش میں آج تک مغربی معاشرہ کی ’’نقل مطابق اصل‘‘ ہیں اور وطن عزیز میں قیادت کا تاج گذشتہ ۵۰ برس سے انہیں خاندانوں کے افراد کے سروں پر سجتا چلا آرہا ہے۔ ٹوڈیوں کی اس نسل کے ذریعہ ایک طرف تو عصری نظامِ تعلیم کو بد سے بدتر شکل میں ڈھالا جا رہا ہے، اور دوسری طرف نیو ورلڈ آرڈر کے سب سے بڑے ہدف دینی مدارس پر یلغار اور مار دھاڑ کے ارادے بن رہے ہیں۔ 

گزشتہ دنوں اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر تھی کہ بلوچستان میں ابتدائی جماعتوں کی کتاب سے حمد باری تعالیٰ نکال باہر کی گئی ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ایسا تو انگریز کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔ ان دنوں ہر سکول میں پڑھائی شروع ہونے سے پہلے مختلف منظوم دعاؤں میں سے کوئی ایک دعا پڑھی جایا کرتی تھی جس میں تمام بچے خواہ ان کا تعلق کسی مذہب سے ہو، شریک ہوا کرتے تھے۔ ایک دعائیہ نظم کا بند اب تک یاد ہے جو یوں تھا:

بحر عصیاں کا کوئی کنارہ نہیں 
غرق ہونے کو ہیں، کوئی چارہ نہیں 
بے تیرے کوئی بھی سہارا نہیں
اپنی رحمت سے ہم سب کو مولا بچا
ہم ہیں بندے تیرے تو ہمارا خدا

یہ قریب قریب آیت مبارکہ ربنا ظلمنا انفسنا (وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن) من الخاسرين کا ترجمہ ہے۔ 

فرنگی کے مسلط کردہ نظامِ تعلیم کے متعلق علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم 
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

یہ نظام ہمیں اپنے ماضی سے کاٹتا اور طاغوت سے جوڑتا ہے:

انگریز کی تعلیم نے رکھا نہ کہیں کا
مذہب کا نہ ملت کا نہ دنیا کا نہ دیں کا 
طفل میں بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی 
دودھ ڈبوں کا پیا تعلیم ہے سرکار کی 

اس نظامِ تعلیم کی حامل اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل لوگ اس بد قسمت ملک پر حکمران ہیں، ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کے حوالہ سے ان کی کارکردگی کھلی آنکھوں دیکھ بلکہ بھگت رہے ہیں۔ یہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مرتب کردہ نیو ورلڈ آرڈر کو آگے بڑھانے کی شرط پر اپنے اپنے عہدوں پر قائم ہیں۔ ان سے یا ان جیسے دوسرے تعلیم یافتہ سے نفاذ اسلام کی توقع ایسے ہی ہے جیسے تھوہر کے پودے سے انگور کے خوشوں کی لوگوں آرزو کرنا۔

جمہوریت ایک ایسا طاغوتی نظام ہے جو ایک چھٹے ہوئے بدمعاش اور شیخ الاسلام کی رائے کو برابر کا درجہ دیتا ہے، اور اب تو سونے پر سہاگہ ہونے کو ہے کہ قادیانیوں سمیت ہر غیر مسلم کی رائے دو مومنوں کے برابر کرنے کا اہتمام ہو رہا ہے۔ مغربی تعلیم یافتہ دانش ور یہ دلیل دیتے ہیں کہ پاکستان کو وجود میں لانے کے لیے تو جداگانہ انتخاب ضروری تھا مگر اس کے استحکام کے لیے مخلوط طریق انتخاب ضروری ہے۔ یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بچے کی پیدائش تک تو ماں کی ضرورت تھی لیکن اس کی نشوونما اور اچھی پرورش کے لیے ماں سے مختلف یا متضاد شخصیت کی حامل خاتون زیادہ بہتر ہوگی۔

بریں عقل و دانش بباید گریست

کرہ ارض اسلام کے دورِ حکمرانی اور اس کی برکتوں سے ان شاء اللہ پھر مستفیض ہو گا مگر جمہوریت سے نہیں بلکہ اسلامی انقلاب کے ذریعہ۔ ویسا ہی پُرامن انقلاب جیسا مکہ معظمہ کے مظلوموں نے حضور سرور کائناتؐ کی قیادت میں ظلم و جور، جہالت، گمراہی اور بے راہ روی کی قوتوں کے خلاف برپا کر کے کرہ ارض کی تقدیر بدل دی تھی۔ ایسے انقلاب کے لیے امریکہ فرانس وغیرہ سے اسلحہ کی بھیک مانگنے کی نہیں بلکہ انسان سازی کی ضرورت ہے۔ 

جب اسلام کے خلاف ایک نئے نظامِ تعلیم کے ذریعے میکالے، ہنٹر اور ان کے گماشتے سازش کر رہے تھے تو اس وقت کے علماء حق نے مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی قیادت میں انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں جگہ جگہ دینی مدارس قائم کر کے اسلام کے تحفظ اور دفاع کا حق ادا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں ان پر اور ان کے جانشینوں پر جو انسان سازی کا فریضہ انتہائی نامساعد اور ابتر حالات میں سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کے زیر اہتمام چلنے والے دینی اداروں کی وجہ سے تمام طاغوتی سازشوں اور کوششوں کے باوجود اب بھی ملک کی بڑی بھاری اکثریت دینی اقدار سے جذباتی وابستگی اور محبت رکھتی ہے۔ اور وقت آنے پر جان تک کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتی، اس لحاظ سے یہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں جن سے ہدایت کی روشنی پھیلتی اور ظلمت دم توڑتی ہے۔ دینی مدارس کا یہ کردار اسلام دشمن ابلیسی قوتوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور وہ عالمِ اسلام میں اپنے گماشتوں کے ذریعہ انہیں ختم کرنے کے درپے ہیں۔ 

علامہ اقبال کی نظم ’’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘ اس صورت حال کی کتنی صحیح عکاسی کرتی ہے جس میں ابلیس اپنے سیاسی فرزندوں سے یوں مخاطب ہے کہ:

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات
اسلام کو حِجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
مُلّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہلِ حرم سے اُن کی روایات چھِین لو
آہُو کو مرغزارِ خُتن سے نکال دو
اقبالؔ کے نفَس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو!

ان شاء اللہ اسلامی انقلاب آئے گا اور ضرور آئے گا، اسے کوئی نہیں روک سکتا اور دینی ادارے اس کا ہراول دستہ ہوں گے۔ البتہ اس بات کی ضرورت ہے کہ دینی و عصری تعلیم کے درمیان فاصلوں کو کم کیا جائے اور ان اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو نئی نسل کے لیے دینی و عصری علوم کے متوازن امتزاج کے ساتھ ایک ایسے تعلیمی نظام کے تصور کو آگے بڑھا رہے ہیں جو ہماری دینی اور قومی ضرورتوں اور آج کی عالمی صورت حال میں ملّی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کوششوں کو بار آور کریں تاکہ ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک مثالی اسلامی ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں، آمین، وما علینا الا البلاغ المبین۔


پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(جولائی ۱۹۹۶ء)

جولائی ۱۹۹۶ء

جلد ۷ ۔ شمارہ ۳

حکومت اور دینی مدارس کی کشمکش کا ایک جائزہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تعلیمِ کتاب و حکمت: سنتِ نبویؐ
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور اس کے تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جدید نظریاتی چیلنج اور علمائے کرام
مولانا محمد عیسٰی منصوری

دینی مدارس، پس منظر اور مقاصد و خدمات
مولانا حافظ صلاح الدین یوسف

دینی مدارس، بنیاد پرستی اور انسانی حقوق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

برق گرتی ہے تو بیچارے ملاؤں پر
خورشید احمد گیلانی

تعلیم کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار
شکور طاہر

شرح خواندگی میں اضافہ اور دینی مراکز
پروفیسر غلام رسول عدیم

دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس سے جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کا خطاب
جسٹس محمد رفیق تارڑ

خیر مقدم
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

موسم برسات میں ہیضہ سے بچاؤ کے لیے خصوصی تدابیر
حکیم عبد الرشید شاہد

دینی مدارس اور زمانے کے تقاضے
مولانا ابوالکلام آزادؒ

دینی تعلیم کے مراکز اور آج کے تقاضے
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

انگریزی زبان اور علمِ نافع
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter