تعلیم کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار

شکور طاہر

(۱۴ مارچ ۹۶ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں الشریعہ اکیڈیمی کی دوسری سالانہ تعلیمی کانفرنس میں پڑھا گیا۔)


جس طرح انسان اور انسانی معاشرے کی بقا، اپنی ذات اور دوسروں پر ظلم سے احتراز، قوانینِ فطرت کی پابندی اور عدل و انصاف، توازن اور اعتدال کے اصولوں پر کاربند رہنے میں ہے؛ اسی طرح فرد اور معاشرے کے ارتقاء، نشوونما اور تعمیر و ترقی کا انحصار بنیادی طور پر علم، معلومات و اطلاعات اور سوچ بچار کی صلاحیت اور پھر اس علم اور صلاحیت کو بروئے کار لانے پر ہے۔ جس طرح ظلم تخریب، انتشار، انحطاط اور اکائیوں، اداروں اور اقدار کی ٹوٹ پھوٹ اور بربادی کا باعث ہے؛ اسی طرح جہالت پسماندگی، تنزل، ذہنی افلاس اور قوتِ عمل سے محرومی کی بڑی وجہ ہے۔ 

دینِ فطرت اسلام نے انسان اور انسانی معاشرے کی بقا اور ترقی کے لیے ظلم اور جہالت کے خاتمے، اور عدل و انصاف اور علم کے فروغ پر زور دیا ہے، تاکہ انسان اپنی ذات اور اپنے گرد پھیلی ہوئی کائنات میں قدرت کی نشانیوں اور مظاہرِ فطرت پر غور و فکر کر کے حقیقی کامیابی، حق و صداقت اور اپنی بھلائی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبِ علم کو فریضہ بھی قرار دیا گیا، مہد سے لحد تک تعلیم کی اہمیت بھی اجاگر کی گئی، اور حصولِ علم کے شوق کو فراواں کرنے کے لیے یہ بھی تلقین کی گئی کہ اگر علم کی خاطر چین جیسے دور افتادہ دیارِ غیر تک بھی جانا پڑے تو گریز نہ کیا جائے، اور غریب الوطنی اور سفر کی مشقت برداشت کر کے بھی تعلیم حاصل کی جائے۔

در حقیقت علم دو ہی ہیں: علم الادیان اور علم الابدان۔

پہلا علم اس لامتناہی کائنات میں انسان کی اپنی حیثیت کے ادراک اور خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے تعلق اور رشتے کے شعور کا نام ہے؛ اور دوسرا علم انسان کا اپنی ذات کی مختلف پرتوں، اور دوسری جاندار اور نامیاتی اور غیر نامیاتی اشیا کے حقائق، کیفیات اور اثرات کو جاننا، اور ان دونوں کے باہمی تعامل کی حقیقت کو سمجھنا ہے۔ تا کہ جب وہ اپنی ذات اور اپنے ماحول پر پہلے علم کا عملی اطلاق کرے تو اسے کسی بھی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے بلکہ زندگی اس کے لیے سہل اور آسودہ ہو جائے۔ علم کی باقی شاخیں، شعبے اور مضامین، خواہ آپ انہیں فنون اور سائنس کا نام دیں، یا انہیں عمرانی (Social) اور طبیعی علوم کے خانوں میں بانٹ دیں، انہی دو بنیادی علوم کے خادم ہیں، تا کہ ان کی معاونت سے ان بنیادی علوم کے اسرار و رموز اور کمالات تک رسائی ہو سکے۔ 

حصولِ علم کا پہلا زینہ خواندگی ہے۔ وہی کلیدی لفظ (Keyword) اقراء جو خدا کے آخری پیغام کا نقطۂ آغاز ہے۔ اس وقت خواندگی سے عمومی مراد یہ لی جاتی ہے کہ انسان میں پڑھنے لکھنے کی تھوڑی بہت صلاحیت پیدا ہو جائے۔ تاہم، ماہرین اب خواندگی کی تعریف نئے سرے سے متعین کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چند الفاظ یا جملے پڑھ لینا اور چند حرف لکھ لینا خواندہ ہونے کے لیے کافی نہیں۔ ان کے نزدیک خواندگی کا بنیادی عنصر (Thoughtfulness) ہے، یعنی انسان کسی بھی معاملے پر غور و فکر کر کے اپنے مسائل کا تجزیہ کر سکے، اور اس تجزیے کی روشنی میں ان مسائل کے حل تک پہنچ سکے۔ گویا وہی چیز جسے ہمارے دین نے تفکر اور تدبر کا نام دیا ہے۔ تفکر، تدبر اور سوچ بچار اور غور و فکر کی یہ صلاحیت تعلیم سے ہی جلا پاتی ہے۔ 

تعلیم کا ایک انداز تو بلا واسطہ یا براہ راست (Direct) ہے، یعنی سیدھے سُبھاؤ کوئی کتاب یا مضمون پڑھایا جائے یا سبق دیا جائے، اس میں ایک رکھ رکھاؤ اور کسی حد تک تکلف کا ماحول ہوتا ہے اور پڑھنے والے اور پڑھانے والے میں شاگرد اور استاد کا رشتہ ہوتا ہے۔ 

لیکن تعلیم کا ایک دوسرا انداز یا طریقہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ کتاب پڑھا کر جو چیزیں ذہن نشین کرانا تھیں، یا سبق کے ذریعے جو باتیں سمجھانا مقصود تھیں، وہی باتیں درسی ماحول کی بجائے بے تکلف دوستانہ ماحول میں، عام گفتگو اور بات چیت کے انداز میں، اشارے کنائے میں، ضرب الامثال اور حکایات کے سہارے، شعر و شاعری کے لطیف اسلوب سے، یا تمثیل کے پیرائے میں واضح کر دی جائیں۔ اس طرح عقل کی وہی بات جو کتاب یا درس کے ذریعے بتانا مقصود تھی، ہلکے پھلکے انداز میں مخاطب کے ذہن پر نقش کر دی جاتی ہے تاکہ وہ آئندہ زندگی میں اس سے کام لے سکے۔ تعلیم کا یہ بالواسطہ (Indirect) انداز ہے۔ اطلاعات اور معلومات کی فراہمی اس بالواسطہ تعلیم کا سب سے اہم پہلو ہے، کیونکہ روز مرہ کی یہی معلومات اور اطلاعات، علم میں بتدریج اضافے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ 

بالواسطہ اور بلا واسطہ تعلیم کی یہ بات تو علم سکھانے اور معلومات بہم پہنچانے کے طریقے اور انداز کے حوالے سے تھی۔ فروغِ تعلیم کا ایک اور حوالہ  ذرائع تعلیم کا بھی ہے۔ اس حوالے سے ذرائع تعلیم کو منضبط اور غیر منضبط، یا رسمی (Formal) اور غیر رسمی (Non-Formal) دو شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ سکول، کالج، مکاتب اور مدارس رسمی ذرائع تعلیم ہیں؛ اور دوسرے سمعی، بصری اور معاون ذرائع، جو باضابطہ نظامِ تعلیم کے دائرے سے باہر ہوں، غیر رسمی ذرائع میں شمار کیے جاتے ہیں۔

ذرائع تعلیم کی یہ تقسیم اتنی جامد یا غیر لچک دار نہیں کہ انہیں ہمیشہ کے لیے دو جدا جدا خانوں میں مقید کیا جا سکے۔ ایک واضح فرق کے باوجود دونوں شعبوں کے ذرائع میں انتہائی قریبی رابطہ، ہم آہنگی اور اشتراک و تعاون ہے۔ اور غیر رسمی ذرائع رسمی ذرائع کی تکمیل، ان کے پیغام کی ترویج اور مقاصد کی تحصیل کا باعث ہیں۔ 

آج تعلیم اور خواندگی کے لحاظ سے وطنِ عزیز کی جو حالت اور مقام ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تمام تر کوششوں اور بلند بانگ وعدوں کے باوجود ہمارے ملک کا شمار پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے، اور تعلیم اور خواندگی کے لحاظ سے کئی ترقی پذیر قومیں بھی ہم سے بہت آگے ہیں۔ اس پسماندگی کی وجوہ کئی ایک ہیں۔ لیکن ایک بڑی وجہ جدید ذرائع، وسائل اور طریقوں سے ناواقفیت اور ان کی کم یابی یا عدمِ استعمال بھی ہے۔ 

عہدِ حاضر کو ذرائع ابلاغ یا میڈیا کا دور کہا جاتا ہے اور بجا طور پر کہا جاتا ہے کیونکہ ان ذرائع ابلاغ نے پوری دنیا کو سمیٹ کر یا آپس میں مربوط کر کے ایک گاؤں بنا دیا ہے۔ جہاں ہر گھرانہ اور ہر گھرانے کا ہر فرد دوسرے گھرانوں اور ان کے افراد کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے، اور جو کچھ نہیں جانتا اسے جاننے کا ہر وقت خواہش مند رہتا ہے۔ ان ذرائع ابلاغ میں الیکٹرانک میڈیا (Electronic Media) یعنی ریڈیو، ٹیلی ویژن، نشریاتی سیارے یا سیٹلائیٹ کمپیوٹر اور ان کے ہم قبیل ذرائع اور ان کے انصار و اعیان شامل ہیں۔ 

ریڈیو (Radio)

ریڈیو کو صوتی یا سمعی ذریعہ ابلاغ کہا جاتا ہے جو آواز کے جادو سے سننے والے کو مسحور کرتا ہے۔ اس صدی کے تیسرے عشرے میں الیکٹرانک میڈیا کا باقاعدہ آغاز ریڈیو نشریات سے ہوا تو کم و بیش ہر ملک میں ریڈیائی لہروں کے ذریعے پیغام کی ترسیل کے تین اساسی مقاصد قرار پائے: اطلاعات، تعلیم اور تفریح۔ ان میں سے پہلے دونوں مقاصد باہم منسلک اور مربوط ہیں۔ اطلاعات اور معلومات اگر تعلیم کی روح نہیں تو اس کے اعضا اور جوارح اور ممد و معاون ضرور ہیں۔ تعلیم کے لیے روزمرہ اطلاعات اور معلومات کی حیثیت وہی ہے جو انسان کے جسمانی نظام کے لیے لحمیات، معدنیات، حیاتین اور دوسرے قوت بخش اجزا کی ہے۔ درحقیقت اطلاعات اور معلومات بالواسطہ غیر رسمی تعلیم کا سب اہم اور مؤثر ذریعہ ہیں۔

دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی ریڈیو کا تنظیمی ڈھانچہ قائم ہونے کے کچھ عرصے بعد باضابطہ تعلیمی پروگرام شروع کر دیے گئے تھے۔ اس وقت ریڈیو پاکستان کے مختلف مراکز سے خالص تعلیمی پروگراموں کے علاوہ ایسے بالواسطہ پروگرام بھی پیش کیے جا رہے ہیں جن سے مختلف سماجی اور قومی مسائل کے بارے میں شعور بیدار اور احساس اجاگر ہو۔ 

ریڈیو کا دائرہ اثر اتنا وسیع ہے کہ اس دور میں کم ہی گھرانے ایسے ہوں گے جہاں ریڈیو نہ ہو۔ شہروں ہی میں نہیں، دیہات میں بھی ریڈیو عام ہے۔ اس عمومی مقبولیت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ قیمت کے لحاظ سے ریڈیو دوسرے ذرائع ابلاغ سے کہیں ستا ہے، اور پھر اس کے لیے بجلی کی محتاجی بھی نہیں۔ بیٹری کے سیل (Cell) ڈالیں اور ریڈیو چلا لیں۔ ٹیلی ویژن کی طرح ریڈیو سننے کے لیے کہیں بندھ کر بیٹھنا نہیں پڑتا۔ چھوٹا سا ٹرانسسٹر جیب میں ڈالیں اور کہیں بھی چلے جائیں۔ وقت اور مصروفیات کی کوئی بندش نہیں، کسی بھی کام میں مصروف ہوں، ریڈیو کی آواز کان میں آتی رہتی ہے اور ذہن پر اپنے نقش چھوڑتی چلی جاتی ہے۔ انہی خصوصیات کی بنا پر ریڈیو کو مؤثر اور ہمہ گیر ذریعہ ابلاغ قرار دیا گیا ہے۔ 

آڈیو کیسٹ (Audio Cassette)

آڈیو کیسٹ اور ٹیپ ریکارڈر بھی صوتی یا سمعی ذریعہ ابلاغ کا حصہ ہیں۔ اثر آفرینی کے لحاظ سے آڈیو کیسٹ ریڈیو سے کم نہیں۔ سستا اتنا کہ چند پیالی چائے اور چند سگریٹ نہ پیے اور کیسٹ خرید لی۔ استعمال اتنا آسان کہ بچہ بھی لگا سکے- اور یہ سہولت سب سے بڑھ کر کہ آپ کچھ بھی کر رہے ہوں، کیسٹ کی آواز سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ان خوبیوں اور اثر پذیری کی وجہ سے آڈیو کیسٹ تعلیمی معاون کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ نصابی کتابوں کو سمجھنے کے لیے تشریحی لیکچر درکار ہوں تو بھی، اور اگر کوئی غیر ملکی زبان سیکھنا چاہیں تو بھی آڈیو کیسٹ سے کام لیا جا ہے۔ یہ کیسٹ اس طرح زبان سکھاتے ہیں گویا کوئی اہلِ زبان استاد بڑی محنت کے ساتھ اس زبان کے قواعد، صَرف و نحو تراکیب، اور تلفظ سکھاتا اور لب و لہجہ سنوارتا ہو۔ یہی نہیں آڈیو کیسٹ پر کتابیں بھی دستیاب ہیں۔ جن لوگوں کو کتاب پڑھنے کی فرصت نہیں، وہ گاڑی میں آتے جاتے کتاب سن سکتے ہیں۔ یہ کتابیں کسی خاص موضوع تک محدود نہیں، کلاسیکی ادب ہو یا جدید فن پارے، شعری مجموعہ ہو یا نثری شاہکار، تاریخ ہو یا فلسفہ، سائنسی موضوعات ہوں یا اقتصادیات جیسا خشک مضمون، آڈیو کتابیں موجود ہیں۔

تعلیمی مقاصد کے لیے ان سمعی ذرائع کو استعمال کرتے وقت انسانی ذہن کی قوت انجذاب، دماغ کے مختلف حصوں کی ساخت اور کارکردگی، اور نفسیات کے تمام متعلقہ پہلوؤں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیم سے سیکھنے کے عمل میں دماغ کا دایاں اور بایاں دونوں حصے استعمال ہوتے ہیں۔ انسانی دماغ کا بایاں حصہ تجزیے، تحلیل، حساب کتاب، اور منطقی نتائج اخذ کرنے کی فطری صلاحیت رکھتا ہے۔ جبکہ دایاں حصہ طبع زاد خیالات، جدت و ندرتِ فکر، موسیقی اور شاعری کا منبع سمجھا جاتا ہے۔ اگر دماغ کے ان دونوں حصوں کو اس طرح بیدار کیا جائے کہ ان کے درمیان توازن اور ہم آہنگی بھی برقرار رہے، اور دونوں حصے بیک وقت سیکھنے کے عمل میں بھی شریک ہوں، تو ذہن کی قوتِ جاذبہ بڑھ جاتی ہے، سیکھنے کی رفتار تیز ہو جاتی ہے، پڑھی یا سیکھی ہوئی بات نسبتاً‌ زیادہ دیر تک یاد رہتی ہے، اور مسائل کا تجزیہ کر کے عقل و دانش کی روشنی میں ان کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت کو نمو ملتی ہے۔ پڑھنے اور سیکھنے کے اسی عمل کو ملحوظ رکھتے ہوئے سمعی ذرائع ابلاغ کے لیے تعلیمی پروگرام یا ایسے پروگرام، جن سے بالواسطہ تعلیم ملے، ترتیب دیے جاتے ہیں۔

فلم (Film)

ریڈیو کا ہم عصر ایک اور ذریعہ ابلاغ فلم ہے۔ اس خالص تفریحی ذریعے کو بھی محدود پیمانے پر اطلاعات کی فراہمی اور تعلیم کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ زندگی اور اس کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرنے والی ایسے معلوماتی فلموں کو دستاویزی فلموں کا نام دیا گیا۔ دستاویزی فلمیں ہر خیال ہر جذبے اور ہر موضوع پر مبنی ہیں اور نہایت پرکشش اور اثر انگیز ہوئی ہیں۔ جنگ کے دوران یہی فلم ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہوئی اور اس کے ذریعے قومی نقطۂ نظر کی ترجمانی اور دشمن کے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا تاکہ اپنے عوام کے حوصلے بلند رہیں اور دشمن قوم کو نفسیاتی زک پہنچائی جائے۔ زمانہ امن میں یہی ہتھیار سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے ہاتھ میں ہے جس کے ذریعے وہ اپنی مصنوعات کی تشہیر کر کے اپنے کاروبار کو ترقی دیتے ہیں۔ 

خالص پراپیگنڈے اور تشہیری اور دستاویزی فلموں کے علاوہ ایسی فلمیں بھی تیار کی جاتی ہیں جن کے ذریعے طلبہ کو نصابی تعلیم یا پیشہ ورانہ تربیت دی جائے۔ یہ تعلیمی (Instructional) فلمیں، کلاس روم میں استاد کے لیے ایک سمعی و بصری معاون اور لیبارٹری میں گائیڈ کا کام دیتی ہیں۔ بعض صنعتی ادارے بھی اپنے کارکنوں کو ہنر سکھانے، یا ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے تعلیمی اور دستاویزی فلموں سے کام لیتے ہیں۔

ٹیلی وژن (Television)

ہوا کی لہروں پر ریڈیو کی اجارہ داری کو ٹیلی ویژن نے ختم کیا۔ تقریباً‌ پچاس سال پہلے امریکہ میں ٹیلی وژن کی نشریات کا آغاز ہوا۔ دیکھتے دیکھتے ہر ملک میں ٹیلی وژن کمپنیاں قائم ہو گئیں اور اس مؤثر تر ذریعہ ابلاغ نے چند سال کے اندر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس ذریعہ ابلاغ کے اثر کی سب سے بڑی وجہ اس کا تصویری پہلو ہے۔ چین کی ایک قدیم کہاوت ہے کہ ’’ایک تصویر ہزار الفاظ سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے‘‘۔ اس کہاوت کی سچائی کا ثبوت ٹیلی وژن ہے جس نے سمعی اور طباعتی ذرائع یعنی آڈیو اور پرنٹ (Print) میڈیا کی قوت کو یکجا کر دیا۔

دسمبر ۱۹۶۴ء میں پاکستان میں ٹیلی وژن نشریات کے آغاز کے کچھ عرصے بعد پاکستان ٹیلی وژن میں تعلیمی شعبہ قائم کر دیا گیا اور براہ راست اور بالواسطہ تعلیمی پروگرام پیش کیے جانے لگے۔ تاہم ان پروگراموں کی تعداد کم اور دورانیہ (Duration) محدود تھا۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں ٹیلی وژن کے تعلیمی چینل پر کام شروع ہوا اور ساڑھے تین سال پہلے، نومبر ۱۹۹۲ء میں تقریباً‌ تریسٹھ کروڑ روپے کی لاگت سے تعلیمی ٹیلی وژن کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ اس منصوبے کے لیے پچاس کروڑ روپے سے زیادہ رقم جاپان نے امداد کے طور پر دی تھی۔ اس منصوبے کے تحت اسلام آباد میں ایک تعلیمی ٹیلی وژن مرکز اور ملک کے مختلف علاقوں میں سولہ چھوٹے ری براڈ کاسٹ (Rebroadcast) سٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔ 

پہلے مرحلے میں ملک کے چوبیس فی صد علاقے میں چھپن فی صد آبادی، یعنی ساڑھے چھ کروڑ افراد تک عام ٹیلی وژن کے ذریعے تعلیمی نشریات پہنچتی ہیں۔ دوسرے مرحلے میں لاہور اور کراچی میں دو نئے تعلیمی ٹیلی وژن مراکز اور اٹھائیس چھوٹے براڈ کاسٹ سٹیشن قائم کیے جائیں گے۔ اس طرح پاکستان کے چھہتر فی صد علاقے تک عام ٹیلی وژن سگنل کے ذریعے تعلیمی نشریات پہنچ سکیں گی، جس سے ملک کی پچانوے فی صد آبادی یعنی گیارہ کروڑ اسی لاکھ افراد مستفید ہوں گے۔ 

نشریاتی سیارے یعنی سیٹلائٹ کے ذریعے تعلیمی نظریات اس وقت بھی پاکستان کے علاوہ بتیس دوسرے ممالک کے کروڑوں افراد تک پہنچ رہی ہیں اور وہ تمام لوگ جنہوں نے ڈش (Dish) گا رکھی ہے، ان تعلیمی پروگراموں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تعلیمی چینل کی نشریات روزانہ تقریبا' سات گھنٹے ہوتی ہیں۔ جو پروگرام نشر کیے جاتے ہیں، ان میں مختلف مدارج کے نصابی موضوعات، سائنسی تجربات، کمپیوٹر، پیشہ ورانہ تربیت، فنی مہارت اور صنعت، کاروبار اور زراعت کے بارے میں بلا واسطہ تعلیمی پروگرام شامل ہیں۔ بالواسطہ تعلیمی پروگراموں میں ذہنی آزمائش کے مقابلے، مباحثے اور تقاریر اور دیگر معلوماتی اور دستاویزی پروگرام شامل ہیں۔ ٹیلی وژن کے بعض دوسرے پروگراموں میں بھی جو براہ راست تعلیمی افادیت نہیں رکھتے، معلوماتی پہلو ملحوظ رکھے جاتے ہیں۔ 

سمعی اور بصری ذرائع کا امتزاج اور ان کی مشترکہ قوت کا مظہر ہونے کی وجہ سے ٹیلی وژن کی اثر آفرینی بے پناہ ہے۔ سیٹلائٹ یا نشریاتی سیاروں نے ٹیلی وژن کی اس قوت میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن اگر اس قوت کو مفید انداز میں اور مثبت مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے تو اس کی ہلاکت آفرینی بھی بے پناہ ہے۔ یہ ایٹمی قوت کی طرح ہے جس کا قاعدے قرینے سے استعمال دنیا میں آسائشات اور خوشیوں کے پھول بھی بکھیر سکتا ہے اور بیمار انسانیت کو زندگی بھی بخش سکتا ہے، لیکن اس کا غیر ذمے دارانہ استعمال موت کی قہر سامانی کے سوا کچھ نہیں۔یا پھر اس کی مثال کثیر الاثر زہر جیسی ہے جسے اگر سوچ سمجھ کر طبی اصولوں کے مطابق اور حکمت کے ساتھ استعمال کیا جائے تو کار تریاقی کرتا ہے، اور اگر بغیر سوچے سمجھے نگل لیا جائے تو بد ترین موت کا باعث بنتا ہے۔ 

ٹیلی وژن کی تباہ کاریوں کی داستان صرف ہمارے معاشرے تک محدود نہیں، امریکہ جیسے مادر پدر آزاد معاشرے میں بھی جہاں بہت سی اخلاقی اقدار دم توڑ چکی ہیں، لوگوں کو شکایت ہے کہ ٹیلی وژن پروگراموں میں عریانی، فحاشی اور تشدد بہت ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک مطالعے کے نتائج منظر عام پر آئے ہیں۔ امریکہ کے تیس ٹیلی وژن چینلز سے بیس ہفتے کی مدت کے دوران پیش کیے جانے والے دو ہزار سات سو پروگراموں کے تجزیے سے پتہ ہے چلا ہے کہ ستاون فی صد پروگراموں میں کسی نہ کسی حد تک تشدد کا عنصر تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ تشدد اس طرح کا تھا جو بچوں کے ذہن پر اثر انداز ہو سکے اور انہیں بھی کسی نہ کسی صورت میں تشدد کی طرف راغب کرے۔ 

تاہم اب امریکی عوام نے عریانی اور تشدد کے خلاف تنقید اور شکایات کے مرحلے سے گزر کر ایک عملی قدم بھی اٹھایا ہے۔ وہاں ایک قانون منظور ہوا ہے جس کے تحت اگلے دو سال کے دوران ہر نئے ٹیلی وژن سیٹ میں ایک پرزہ لگا ہو گا جس کے ذریعے والدین کو ہر پروگرام کے بارے میں معلوم ہو سکے گا کہ وہ عربانی اور تشدد کے لحاظ سے کس درجے کا ہے۔ ٹیلی وژن چینل اپنے پروگراموں کی اس طرح درجہ بندی کریں گے جس سے پتہ چل سکے کہ پروگرام میں عریانی اور تشدد کا تناسب کیا ہے۔ اس طرح والدین کو یہ فیصلہ کرنے میں سہولت ہوگی کہ وہ کس پروگرام کو اپنے بچوں تک پہنچنے دیں اور کس پروگرام سے بچوں کو محفوظ رکھیں۔ یہ پرزہ جسے وی چپ (V-Chip) کا نام دیا گیا ہے، دراصل کمپیوٹر کا ایک پرزہ ہے اور یہ زیادہ مہنگا بھی نہیں۔ اس کی قیمت صرف ایک ڈالر ہو گی۔ یہ روش امریکہ سے چلی ہے تو پوری دنیا میں پھیلے گی اور ہمارے ہاں تو ضرور آئے گی۔ اس طرح کسی حد تک ٹیلی وژن کی تباہ کاری کے آگے چھوٹا موٹا بند باندھا جا سکے گا۔

وڈیو (Video)

ٹیلی وژن سے ملتی جلتی چیز وڈیو کیسٹ ہے۔ جس طرح سمعی ذریعہ ابلاغ کی حیثیت سے ریڈیو کے فوائد آڈیو کیسٹ سے لیے جا سکتے ہیں، اسی طرح بصری ذریعہ ابلاغ کی حیثیت سے ٹیلی وژن کے فوائد وڈیو کیسٹ سے مل سکتے ہیں۔ طالب علم نے اکیلے پڑھنا ہو، یا کلاس روم میں طلبہ کے پورے گروپ کو، دونوں صورتوں میں وڈیو کیسٹ بہت اچھے تعلیمی معاون کا کام دیتا ہے۔ ریموٹ (Remote)، ری پلے (Replay)، اور منظر کو ساکت (Still) کرنے جیسی سہولتوں کی بدولت وڈیو کی افادیت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اس وقت پاکستان میں لاکھوں لائسنس یافتہ اور غیر لائسنس یافتہ وی سی آر موجود ہیں۔ تا ہم اس حد تک اس مؤثر ذریعے سے کام نہیں لیا جا رہا جس حد تک استعداد موجود ہے۔ 

شہروں کے ہر گلی محلے اور اکثر و بیشتر دیہات میں گھریلو استعمال کے وڈیو کیمرے (VHS Cameras) اور کیمرا مین دستیاب ہیں جو عموماً‌ شادی بیاہ اور دوسری سماجی تقریبات کی عکس بندی کرتے ہیں۔ سکول، کالج اور مکاتب ایسے وڈیو کیمروں اور وی سی آر سے فائدہ اٹھا کر اپنے تعلیمی پروگرام وضع کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے غیر سرکاری شعبے میں ایسی مجالس یا سٹڈی فورم (Study Forum) تشکیل دیے جاسکتے ہیں جو نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کی وڈیو کیسٹ تیار کرنے اور اسے طلبہ کو دکھانے کا اہتمام کریں۔ ایسی تعلیمی سرگرمیوں سے وی سی آر کے غلط استعمال اور بھارتی فلموں اور بیہودہ پروگراموں سے بھی نوجوانوں کی توجہ ہٹے گی اور یہ ایک قومی خدمت ہوگی۔

فوٹوسٹیٹ اور فیکس

فروغِ تعلیم کے ضمن میں، فوٹو کاپی کرنے والی مشین اور فیکس (FAX) مشین کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پہلے جو کتابیں اور مضامین، یا ان کے اجزاء ہفتوں میں ہاتھ سے نقل ہوتے تھے، یا پریس میں چھپتے تھے، اب ان کی نقلیں فوٹو سٹیٹ مشین سے ہاتھوں ہاتھ مل جاتی ہیں۔ اور اگر یہ مضامین یا کتاب کا کوئی باب ایک جگہ سے دوسری جگہ درکار ہو تو فیکس کی سہولت موجود ہے۔ اِدھر صفحہ مشین پر رکھیں اور ٹیلی فون کا نمبر گھمائیں، اُدھر چند سیکنڈ میں نقل دستیاب۔ یہ دونوں مشینیں اب تعلیمی اداروں کی ضرورت بن چکی ہیں۔ 

کمپیوٹر

الیکٹرانک میڈیا میں سب سے زیادہ انقلاب آفرین چیز کمپیوٹر ہے۔ اس ایجاد نے نہ صرف زندگی کا چلن اور رفتار بدل دی ہے بلکہ انسانی تہذیب و تمدن اور ثقافتی رویوں پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ انسانی ذہن سے مشابہ یہ مشین صنعت و حرفت، تجارت، زراعت، طب، سائنس، ہوا بازی، جہاز رانی، امورِ مملکت، دفاع، اطلاعات و نشریات، تعلیم، غرض زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی خدمت کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اس کی صلاحیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ عام کمپیوٹر انسان کے مقابلے میں دس لاکھ گنا تیزی سے کام کرتا ہے، اور (Super) پر کمپیوٹر ایک ارب گنا زیادہ تیزی سے۔ ریاضی کے جس پیچیدہ مسئلے کو انسان کاغذ اور قلم کی مدد سے سو سال میں حل کر سکتا تھا، وہ عام کمپیوٹر سے ایک دن میں اور سپر کمپیوٹر کے ذریعے ایک سیکنڈ میں حل کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں سپر کمپیوٹر نے ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ ایک ہفتے میں حل کیا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کاغذ قلم کے ذریعے اور جمع، تفریق، ضرب، تقسیم کے روایتی طریقوں سے یہ مسئلہ حل کرنے میں پندرہ ارب سال لگتے جو غالباً‌ کائنات کے آغاز سے اب تک کی مدت ہے۔ 

دنیا میں اس وقت چار سو سے زیادہ ایسے پر کمپیوٹر موجود ہیں۔ کمپیوٹر تعلیم کے فروغ کا ایک ذریعہ بھی ہے اور بذاتِ خود تعلیم کا موضوع بھی ہے۔ طلبہ انفرادی سطح پر بھی کمپیوٹر سے استفادہ کر سکتے ہیں اور کلاس روم اور لیبارٹری میں بھی اس سے مدد لے سکتے ہیں۔ طالبعلم اپنے نوٹس (Notes) کمپیوٹر میں مرتب کر سکتا ہے، اپنی تحریر کی اصلاح اور تدوین کمپیوٹر کے ذریعے کر سکتا ہے، مارکیٹ سے اپنی ضرورت کی ڈسک (Disk) خرید کر اپنے علم میں اضافہ کر سکتا ہے، اور خالی ڈسک پر اپنی معلومات ذخیرہ کر سکتا ہے۔ آج طباعت، اشاعت اور نشریات کا زیادہ تر کام پرانی مشینوں کی بجائے کمپیوٹرز یا کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر مبنی مشینوں سے کیا جاتا ہے۔

موڈیم (Modem)

اس کمپیوٹر کے ساتھ اگر ایک مشین موڈیم لگا دی جائے تو کمپیوٹر میں ذخیرہ کیا جانے والا مواد (Material) ایک جگہ سے دوسری جگہ اس طرح منتقل کیا جا سکتا ہے کہ مشین سے کاپی اترتے ہی اس سے چھپائی ہو سکتی ہے۔ مثلاً لاہور سے شائع ہونے والا کوئی اخبار اگر کراچی سے بھی اپنا ایڈیشن بیک وقت چھاپنا چاہے تو لاہور سے اس اخبار کے صفحات موڈیم کے ذریعے تھوڑے سے وقت کے اندر کراچی منتقل کر دیے جائیں گے اور وہاں بھی وہی اخبار بیک وقت چھپ سکے گا۔ اسی طرح مختلف سکول اور کتب بھی تعلیمی مقاصد کے لیے موڈیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

الیکٹرانک کلاس روم (Electronic Classroom)

الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کی ان وسعتوں اور صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کے سکولوں اور کالجوں میں الیکٹرانک کلاس روم بنائے جاتے ہیں۔ ایسے کلاس رومز میں طلبہ کے پاس کمپیوٹر اور ان کے سامنے مائیکرو فون ہوتے ہیں۔ ایک طرف ریموٹ کنٹرول سلائیڈ پروجیکٹر یا ایسی مشین لگی ہوتی ہے جس کے ذریعے سکرین پر تصویریں، گراف اور نقشے دکھائے جا سکیں۔ اس کے ساتھ ہی دی سی آر لگا ہوتا ہے اور کمرے میں دو یا تین کیمرے بھی نصب ہوتے ہیں۔ ان سب مشینوں اور کیمروں کے بٹن استاد کے سامنے میز پر لگے ہوتے ہیں اور وہی انہیں کنٹرول کرتا ہے۔ استاد کے قریب ہی ٹیلی فون اور فیکس مشین ہوتی ہے۔ 

کلاس روم میں ہونے والی تمام کارروائی اس نظام سے منسلک تمام سکولز میں بیک وقت دیکھی جا سکتی ہے۔ ان میں سے کسی بھی سکول کے کسی بچے کو کوئی سوال کرنا ہو تو وہ فون یا فیکس کے ذریعے سوال کر سکتا ہے۔ جب استاد بچوں کا امتحان لیتا ہے تو ہر سکول کے بچے اپنا اپنا امتحانی پرچہ فیکس کے ذریعے استاد کو ارسال کر دیتے ہیں۔ 

الیکٹرانک کلاس روم کے دو بڑے فائدے ہیں : ایک تو یہ کہ طلبہ کو جدید ترین ذرائع سے تعلیم دی جاتی ہے، اور دوسرا یہ کہ جن سکولوں میں بعض مضامین کے اساتذہ موجود نہیں، وہاں طلبہ الیکٹرانک کلاس روم کے لیکچر سے فائدہ اٹھا کر وہ مضامین پڑھ سکتے ہیں۔

ملٹی میڈیا (Multi Media)

کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا جدید ترین مرحلہ ملٹی میڈیا کا ہے جس میں کمپیوٹر، آڈیو، وڈیو، اور معلومات یا Digital Data کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ اس طرح طالب علم آواز، بصری مواد اور کمپیوٹر کی صلاحیت سے بیک وقت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی اس پیش رفت سے ویسے تو زندگی کے ہر شعبے میں کام لیا جا رہا ہے لیکن تعلیم کے فروغ میں اس کی خصوصی اہمیت ہے۔ حال ہی میں اس ٹیکنالوجی کو ایک نئی جہت ملی ہے۔ سائنس دانوں نے آواز، تصویر اور معلومات Data کو دبا کوٹ کر، یا Compress کر کے کم سے کم جگہ میں پیک کیا ہے اور اسے پیکٹ (Packet) ویڈیو کے نام سے پیش کیا ہے۔ اس طرح ملٹی میڈیا کے استعمال میں سہولت ہو گئی ہے۔ ایک منصوبے کے تحت اگلے چند سال کے دوران امریکہ کے زیادہ تر سکولوں کو پیکٹ وڈیو نظام کے ساتھ منسلک کر دیا جائے گا۔

الیکٹرانک پبلشنگ (Electronic Publishing)

تعلیم کے فروغ میں کمپیوٹر کے کردار کا غالباً‌ سب سے روشن پہلو الیکٹرانک اشاعت یا پبلشنگ ہے۔ اب بڑی بڑی کتابیں، بلکہ کتابیں ہی نہیں پوری پوری لائبریریاں کمپیوٹر ڈسک پر دستیاب ہوں گی۔ بات کو واضح کرنے کے لیے ایک ہی مثال کافی ہے۔

کوئی دو سو سال پہلے برطانیہ کے شہر ایڈنبرا میں پڑھے لکھے لوگوں کی ایک انجمن بنی تھی جس نے مختلف موضوعات پر ایک قاموس ’’انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا‘‘ (Encyclopedia Britannica) کے نام سے مرتب کر کے شائع کی۔ وقفے وقفے سے اس کتاب پر نظر ثانی ہوتی رہی، اس کے موضوعات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور ضخامت بڑھتی گئی۔ ۱۹۲۰ء میں اس کتاب کی اشاعت کے حقوق امریکہ کے شہر شکاگو کی ایک کمپنی نے حاصل کر لیے اور مختلف وقفوں سے یہ کتاب چھپتی رہی، لیکن اس کی اشاعت بتدریج کم ہوتی گئی۔ ۱۹۹۰ء میں بتیس ضخیم جلدوں پر مشتمل اس کتاب کے ایک لاکھ سترہ ہزار نسخے اور پچھلے سال صرف اکاون ہزار نئے فروخت ہوئے۔ لیکن پچھلے سال ہی ایک کمپیوٹر فرم نے سرمایہ لگا کر اس انسائیکلو پیڈیا کا الیکٹرانک ایڈیشن جاری کر دیا ہے۔ اس الیکٹرانک ایڈیشن میں پورا انسائیکلو پیڈیا یعنی اصل کتاب کی تمام جلدوں کے چار کروڑ چالیس لاکھ الفاظ شامل ہیں، اور کتاب کے متن کے ساتھ ساتھ ان کی تشریح اور سمعی و بصری معاونت کے لیے تصویریں، نقشے، ویڈیو اور آوازیں بھی شامل ہیں۔ عموماً‌ ایک کتاب ہلکی پھلکی ڈسک پر جاری کی جاتی ہے جو بہت کم جگہ گھیرتی ہے۔ یوں سینکڑوں الماریوں کی جگہ پوری لائبریری ایک چھوٹے سے بریف کیس میں آجاتی ہے، اور علم کے اس ذخیرے کا وزن منوں یا ٹنوں میں نہیں، چند کلو گرام ہو گا۔ 

ڈیجیٹل ٹرانسمیشن (Digital Transmission)

علم کا ذخیرہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے ایک تکنیک معلومات کی برق رفتار منتقلی کی ہے۔ جب تار برقی یا ٹیلی گراف کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو پیغام کا ایک ایک حرف مختلف صوتی اشاروں کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاتا تھا۔ ذرا ترقی ہوئی تو ٹیلی پرنٹر کے ذریعے پیغامات نسبتاً‌ تیز رفتاری سے منتقل ہونے لگے، یعنی حرفوں کی کھٹ کھٹ کی جگہ پورے لفظ، پھر پورے پورے جملے، اور پھر پورے پورے پیرا گراف منتقل ہونے لگے۔ ترقی کا اگلا مرحلہ یہ تھا کہ آپریٹر (Operator) کئی صفحوں کا پیغام ٹیلی پرنٹر (Tele Printer) پر ٹائپ کر کے محفوظ کر لیتا اور پھر جونہی وہ ٹرانسمیشن کے لیے مشین کا بٹن دباتا تو کئی صفحوں پر مشتمل پیغام چند لمحوں کے اندر دوسری جگہ منتقل ہو جاتا۔ اب ٹیکنالوجی کی نئی وسعتوں اور خاص طور پر بال جیسے باریک تار آپٹک فائبر (Optic Fiber) کے ذریعے یہ پیغامات بلکہ یوں کہئے کہ کتابوں کی کتابیں پلک جھپکتے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا ایک اور پہلو مطبوعہ معلومات ٹیلی وژن سکرین کے ذریعے ناظرین تک پہنچاتا ہے جسے ٹیلی ٹیکسٹ (Tele Text) کہتے ہیں۔ 

انٹرنیٹ (Internet)

الیکٹرانک میڈیا کی طلسماتی دنیا کا تازہ ترین شاہکار انٹرنیٹ ہے۔ انٹرنیٹ کو سمجھنے کے لیے ایک چھوٹی سی مثال پیش خدمت ہے۔ 

ہماری زمین نظامِ شمسی کا حصہ ہے۔ اس نظامِ شمسی میں کرۂ ارض کے علاوہ اور بھی کئی سیارے ہیں جو بیک وقت اپنے اپنے مدار میں، اور سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ سورج جیسے اور اربوں ستارے ہیں جن کے گرد سیاروں کا جھرمٹ ہے۔ اربوں سیاروں اور ستاروں کے یہ سارے جھرمٹ مل کر ہماری کہکشاں (Galaxy) بنتے ہیں، جسے آسان کا Milky Way کہا جاتا ہے۔ اب تک کی معلومات اور تخمینوں کے مطابق کائنات میں ہماری کہکشاں جیسی تقریباً‌ ایک کھرب کہکشائیں ہیں اور خالقِ کائنات کی تخلیق کا عمل اب بھی جاری ہے۔ 

انٹرنیٹ کی مثال کمپیوٹروں کی کائنات جیسی ہے۔ بہت سے کمپیوٹر مل کر ایک کہکشاں یا جال یعنی Network بناتے ہیں۔ اور بہت سی کمپیوٹر کہکشائیں جب بین الاقوامی سطح پر آپس میں مربوط ہو جاتی ہیں اور ایک بہت بڑا جال بن جاتا ہے تو اسے انٹرنیٹ کہتے ہیں۔ یوں سارے کمپیوٹر اس جال یا نظام کے ساتھ منسلک ہو سکتے ہیں اور ایک کمپیوٹر دنیا کے کسی بھی گوشے میں موجود دوسرے کمپیوٹر سے رابطہ قائم کر کے مطلوبہ معلومات لے سکتا ہے۔ 

اس وسیع و عریض جال یا کمپیوٹر نیٹ ورک کی داغ بیل اس طرح پڑی کہ پچیس سال پہلے امریکی محکمہ دفاع نے کچھ اس طرح کا انتظام کرنا چاہا کہ اگر امریکہ پر ایٹمی حملے میں محکمہ دفاع کا کمپیوٹر نظام تباہ بھی ہو جائے تو بھی فوجی ماہرین اور یونیورسٹیوں کے سائنس دان جنگی سرگرمیوں سے متعلق اپنا تحقیقی کام جاری رکھ سکیں۔ آہستہ آہستہ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں، سرکاری محکموں اور بہت سے صنعتی اداروں کو نیٹ ورک سے منسلک کر دیا گیا۔ اس کمپیوٹر نظام کے لیے تکنیکی معاونت اور اخراجات بھی ان تعلیمی، سرکاری اور صنعتی اداروں نے برداشت کیے۔ 

جن سائنس دانوں کو اس کمپیوٹر جال یا انٹرنیٹ سے مفت استفادہ کرنے کی اجازت ملی، انہوں نے محسوس کیا کہ تحقیقی سرگرمیوں اور سرکاری کام نمٹانے کے علاوہ بھی یہ نظام کئی اور کام کر سکتا ہے۔ انہوں نے اس کمپیوٹر نظام کے ذریعے ایک دوسرے کو ذاتی پیغامات اور مراسلے بھیجنے شروع کر دیے۔ کمپیوٹر کے ذریعے اس طرح کی خط و کتابت کو الیکٹرانک ڈاک یا E-mail کہا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر استعمال کرنے والے دوسرے لوگوں نے بھی اس کمپیوٹر جال یا نظام کے ساتھ رابطہ کرنا شروع کر دیا اور یہ جال یوں وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ اس نظام کو استعمال کرنے والوں نے خود ہی اپنے ضابطے اور آداب وضع کر لیے اور نئے آنے والے کے لیے ان ضابطوں اور آداب کی پابندی لازمی قرار دی۔

انٹرنیٹ، ریڈیو اور ٹیلی وژن کی طرح یک طرفہ ذریعہ ابلاغ نہیں کہ ’’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘‘ یہ تو دو طرفہ ابلاغ کا ذریعہ ہے جس کی بدولت آپ دنیا میں کسی بھی کمپیوٹر استعمال کرنے والے کے ساتھ ہم کلام ہو سکتے ہیں۔ اور اس کا طریقہ بھی آسان ہے۔ جس شخص کے پاس کمپیوٹر ہو، وہ کسی بھی کمپیوٹر نیٹ ورک سروس سے رابطہ کر سکتا ہے اور اس کے ذریعے انٹرنیٹ سے اپنی الیکٹرانک ڈاک منگوا بھی سکتا ہے اور بھیج بھی سکتا ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ کی آف لائین اور آن لائین سروس (Off Line / On Line Service) سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ٹیلی فون رابطہ بھی ہو سکتا ہے اور دوسرے کمپیوٹروں سے معلومات اور دستاویزات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ 

مثلاً پاکستان میں کسی ڈاکٹر کو بلڈ پریشر کے بارے میں کسی پیچیدہ سوال کا جواب چاہیے تو وہ انٹرنیٹ کے ذریعے اس شعبے کے ماہرین سے رابطہ کرے گا، اور اگر اسے اپنے سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ملتا تو وہ اپنے کمپیوٹر کے ذریعے اپنا سوال پھر انٹرنیٹ پر بھیج دے گا۔ بالکل ایسے جیسے کوئی بچہ بہتی ندی میں کاغذ کی ناؤ ڈال دے۔ یہ ناؤ جس پر سوال لکھا ہے، ندی میں تیرنے والے یا کنارے پر کھڑے کسی دوسرے بچے کے ہاتھ لگے اور وہ اس سوال کا جواب دے دے۔ اس طرح انٹرنیٹ سے منسلک کوئی بھی کمپیوٹر اس سوال کا جواب دے دے گا۔ یہ جواب مفت بھی ہو سکتا ہے اور وہ اس کا معاوضہ بھی طلب کر سکتا ہے۔ اس طرح کسی ملک کا کوئی تعلیمی ادارہ کسی بھی دوسرے ملک کے تعلیمی اداروں یا لائبریریوں سے رابطہ قائم کر کے اپنی مطلوبہ معلومات یا دستاویزات حاصل کر سکتا ہے، اور یوں علم کی ایک شمع سے دوسری شمع روشن ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس وقت دنیا کے مختلف ملکوں میں کروڑوں افراد انٹرنیٹ سے استفادہ کر رہے ہیں۔ 

آن لائین پبلشنگ (On Line Publishing) 

 انٹرنیٹ کی آن لائین سروس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اب بہت سے جرائد انٹرنیٹ پر شائع ہوتے ہیں۔ صرف پچھلے سال امریکہ میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ایسے رسالے شروع ہوئے جو انٹرنیٹ پر شائع ہوتے ہیں۔ یہ جرائد مختلف موضوعات پر ہیں۔ اگر خریدار چاہے تو انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے کمپیوٹر پر یہ رسالہ خرید سکتا  ہے۔ اخبار نویسی کی اس قسم کو انٹرنیٹ صحافت کا نام دیا گیا ہے۔ 

شاہراہ اطلاعات (Information Highway)

ملٹی میڈیا کی ان سہولتوں کو بڑی تیزی سے ترقی دے کر شاہراہِ اطلاعات تعمیر کی جا رہی ہے۔ معلومات کی ایسی شاہراہ جو دنیا کے ہر ملک اور ہر گوشے کو ایک دوسرے سے منسلک کر دے گی۔ ایسی شاہراہ جس پر اطلاعات کی چھوٹی بڑی لاکھوں سڑکیں اور کروڑوں راستے اور پگڈنڈیاں آملیں۔ یہ شاہراہ علم کے فروغ اور معلومات کے تبادلے کے لیے بھی استعمال ہوگی اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی اس سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔ اندازہ ہے کہ اس شاہراہ کی بدولت صرف کیبل ٹیلی وژن کے پانچ سو چینل دستیاب ہوں گے۔ دفتری اور کاروباری امور نمٹانے، بنکوں سے پیسے نکلوانے، فضائی کمپنیوں سے سفر کے معاملات طے کرنے، دوستوں کے ساتھ گپ شپ، ڈاکٹر اور وکیل سے مشورہ کرنے، اور ثقافتی اور تفریحی سرگرمیوں کے لیے بھی یہ شاہراہ کام دے گی۔ 

الیکٹرانک میڈیا کے یہ سارے کمالات اور ان کی افادیت کے سارے امکانات آپ کے سامنے ہیں، اپنے نظریات اور مقاصد بھی آپ پر واضح ہیں، اور ان کے فکری، علمی اور عملی تقاضوں سے بھی آپ باخبر ہیں۔ اس پس منظر میں ان جدید ذرائع ابلاغ سے تعلیم کے فروغ میں کیا اور کس طرح کام لیا جا سکتا ہے؟ اس پر غور کرنے اور اقدامات تجویز کرنے کی ضرورت ہے۔


حالات و مشاہدات

(جولائی ۱۹۹۶ء)

جولائی ۱۹۹۶ء

جلد ۷ ۔ شمارہ ۳

حکومت اور دینی مدارس کی کشمکش کا ایک جائزہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تعلیمِ کتاب و حکمت: سنتِ نبویؐ
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور اس کے تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جدید نظریاتی چیلنج اور علمائے کرام
مولانا محمد عیسٰی منصوری

دینی مدارس، پس منظر اور مقاصد و خدمات
مولانا حافظ صلاح الدین یوسف

دینی مدارس، بنیاد پرستی اور انسانی حقوق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

برق گرتی ہے تو بیچارے ملاؤں پر
خورشید احمد گیلانی

تعلیم کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار
شکور طاہر

شرح خواندگی میں اضافہ اور دینی مراکز
پروفیسر غلام رسول عدیم

دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس سے جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کا خطاب
جسٹس محمد رفیق تارڑ

خیر مقدم
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

موسم برسات میں ہیضہ سے بچاؤ کے لیے خصوصی تدابیر
حکیم عبد الرشید شاہد

دینی مدارس اور زمانے کے تقاضے
مولانا ابوالکلام آزادؒ

دینی تعلیم کے مراکز اور آج کے تقاضے
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

انگریزی زبان اور علمِ نافع
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter