(دورۂ جنوبی افریقہ کے موقع پر دارالعلوم زکریا جوہانسبرگ کی جامع مسجد میں طلبہ سے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کا خطاب)
انبیاء کرام علیہم السلام کا درجہ دنیا میں سب سے بڑا ہے اور انبیاء کرام میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ سب سے زیادہ اور اس کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر فرمائی تو اللہ تعالٰی سے بہت سی دعائیں فرمائیں۔ ان میں سے ایک دعا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے متعلق ہے۔ اس دعا کے ضمن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آپؐ کی ذمہ داریوں کی نشاندہی بھی فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں: میری اس دنیا میں تشریف آوری کی تین وجوہات ہیں:
(۱) میں حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ ہوں،
(۲) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کا نتیجہ ہوں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا میرے بعد ایک پیغمبر تشریف لائیں گے جن کا اسم گرامی احمد ہو گا۔ بخاری شریف میں ایک حدیث ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں عاقب ہوں۔ اور عاقب کا معنی ہے کہ جس کے بعد کوئی اور نہ ہو۔
(۳) تیسری وجہ: میں اپنی والدہ کے سچے خواب کی تعبیر ہوں۔ میری والدہ نے خواب دیکھا تھا کہ ان کے پیٹ سے ایک روشنی نکلی جس نے شام کے محلات کو روشن کر دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا میں فرمایا، اے اللہ! میری اولاد میں ایک رسول بھیج جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم عطا فرمایا کہ وہ قرآن مجید کی آیات تلاوت کریں، لوگوں کو سنائیں تاکہ وہ صحیح معنوں میں قرآن مجید کی تلاوت کر سکیں اور ان کو پاک و صاف کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد لوگوں کا تزکیہ نفس تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم کو پاک و صاف کیا اور پھر حکم دیا کہ جو ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اتباع کرے گا وہ ہدایت پر ہو گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا، نجات کا راستہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا جس پر میں اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر و انعام ہے کہ اس نے ہمیں انسان بنایا اور پھر مزید احسان کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا پیغمبر عطا فرمایا اور اس کا امتی بنایا۔ کروڑ بار شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا دنیا میں سب سے بڑی دولت ہے۔ ہمیں یہ دولت گھر بیٹھے مل گئی، اس لیے قدر نہیں ہے۔ پوری دنیا اور آسمان سب کے سب ملک بھی ایمان کی قیمت ادا نہیں کر سکتے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تزکیہ نفس کی ذمہ داری امت کے اوپر رکھی گئی ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنا تزکیہ نفس کریں۔ قرآن مجید میں ہماری دو ذمہ داریاں رکھی گئی ہیں۔ اے ایمان والو، بچاؤ اپنے آپ کو جہنم سے اور اپنے اہل کو۔ آج ہم ایک ذمہ داری تو پوری کرتے ہیں، اپنے آپ کو جہنم سے بچاتے ہیں لیکن اپنی اولاد کی اور اپنے اہل کی فکر نہیں کرتے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے بچے کی دنیا اچھی ہو جائے، اس کا کاروبار اچھا ہو جائے، اس کا اچھا گھر بن جائے، وہ دنیا میں محتاجی اور ذلت سے بچ جائے، اس کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو، اس کے لیے مقدور جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں، لیکن اس کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔
آج دنیا میں اگر کسی میں ذرا برابر بھی انسانیت ہے، کسی بھی انسان کو آگ میں جلتا ہوئے دیکھے تو آگ بجھانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ہم مسلمان دیکھ رہے ہیں کہ ہماری اولاد جہنم کا ایندھن بن رہی ہے لیکن ہمیں ان کی فکر نہیں۔ اگر آج آپ نے اپنی اولاد کی دین کی حفاظت نہیں کی تو یہ بے دین یا کافر ہو جائے گی تو اس کا وبال آپ پر پڑے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا، اولاد، بیوی، والدین، بہن، بھائی، عزیز و اقارب کے بارے میں سوال ہو گا۔ ایک فریضہ اپنے کو جہنم سے بچانے کا تو پورا کر رہے ہیں۔ دوسرا فریضہ اولاد اور اہل کو جہنم سے بچاؤ، اس میں کوتاہی کر رہے ہیں۔ یہ کسی طور مناسب نہیں۔ جب نماز کے لیے آؤ تو اپنی اولاد کو بھی مسجد میں لاؤ، ان کی قرآن مجید کی تعلیم کا انتظام کرو، ان کو مسائل سے آگاہ کرو، تاکہ تمہارے بعد یہ تمہارے لیے صدقہ جاریہ بن جائے۔
دوسرا فریضہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت کا تزکیہ نفس کرتے ہیں۔ تیسرا فریضہ، قرآن مجید کی تعلیم دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی تعلیم دینا بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی۔ صحابہ کرام عربی دان تھے، قرآن مجید کا ترجمہ سمجھتے تھے لیکن قرآن مجید کی آیات کا مطلب کیا تھا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے بغیر سمجھ میں آنا مشکل ہے۔ اسی لیے ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث شریفہ قرآن مجید کی تفسیر ہیں۔
قرآن مجید کی آیت ’’من يعمل سوءًا يجز بہ‘‘ جب نازل ہوئی تو خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم میں کون ایسا ہے جو کوئی نہ کوئی برائی نہ کرتا ہو تو سب کو بدلہ دیا جائے گا تو پھر ہم کیسے عذاب سے بچیں گے۔ انہوں نے یجز بہ سے قبر کا عذاب مراد لیا، اس وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ابوبکر! تمہارے سر میں کبھی درد نہیں ہوتا، تم کو کبھی تکلیف نہیں ہوتی؟ انہوں نے فرمایا، ہوتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس آیت میں یہ مراد ہے کہ جو برائی کرتا ہے، دنیا میں ان تکالیف کی صورت میں اس کو بدلہ دے دیا جاتا ہے۔
تعلیمِ کتاب سے اس قسم کی تعلیم مراد ہے۔ اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ حکمت سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں ہیں۔ نماز، روزہ اور دیگر عبادات کے مسائل اور اخلاقِ حسنہ کی تعلیم، اخلاقِ رزیلہ سے بچنے کی تلقین۔ یہ سب حکمت میں داخل ہے اور اس حکمت کی جب تک آپ نے وضاحت نہیں فرمائی، اس کا سمجھنا بہت مشکل ہے۔ دو مثالیں ہیں اس سے اس کی وضاحت کرتا ہوں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جس کے دل میں رائی کے برابر بھی کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت پریشان ہوئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہم میں سے کون شخص ایسا ہے جو یہ نہ چاہتا ہو کہ اچھے سے اچھے کپڑے پہنے، بالوں کو خوبصورت بنائے، اچھے جوتے پہنے، تو ہم سب اس حدیث کا مصداق بن گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، نہیں، تکبر یہ ہے کہ انسان حق کو قبول نہ کرے اور دوسرے انسان کو حقیر سمجھے۔ ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، انسان کے جسم میں ۳۶۰ جوڑ ہیں اور ہر جوڑ کے شکرانے کے طور پر ضروری ہے کہ وہ روزانہ ایک ایک صدقہ کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت زیادہ پریشان ہو گئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کس کی اتنی استطاعت ہے کہ اتنے زیادہ صدقہ کرے، ہمارے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مال دینا بھی صدقہ ہے لیکن صدقہ کی دوسری اقسام بھی ہیں جو ہر شخص دے سکتا ہے۔ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے، الحمد للہ کہنا صدقہ ہے، اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے، مسلمان کو سلام کرنا صدقہ ہے، مسلمان سے خندہ پیشانی سے ملنا صدقہ ہے، اور اگر تم چاہتے ہو کہ ۳۶۰ صدقے ایک وقت میں ادا کر دو تو چاشت کے وقت دو رکعت ادا کرو ۳۶۰ صدقے ادا ہو جائیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال تزکیہ نفس، تلاوتِ کتاب اللہ ، تعلیمِ کتاب اللہ، تعلیمِ حکمت کی ذمہ داری اب امت پر ہے، اس کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے۔