وہ تعلیم کہ جس تعلیم سے ملک کے بہترین مدبر، ملک کے بہترین منتظم، اور ملک کے بہترین عہدہ دار پیدا ہوتے تھے، آج ان ہی مدرسوں کو یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ بالکل نکمے ہیں، ان مدرسوں سے نکلنے کے بعد مسجدوں میں بیٹھ کر یہ لوگ بس خیرات کی روٹیاں توڑ لیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں، انہوں نے حقیقت کو نہیں سمجھا ہے، لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہم زمانے سے دور ہو گئے ہیں۔
میرے پاس ایک بہت ہی جچی تلی بہتر طریقے سے لکھی ہوئی ایک تحریر آئی کہ چونکہ آپ گورنمنٹ آف انڈیا کے صیغہ تعلیم میں موجود ہیں، تو کیا یہ توقع کی جائے کہ جو عربی فارسی علوم کے مدرسے موجود ہیں، جہاں سے بہتر سے بہتر مستند طلبا فارغ ہو کر ڈگریاں حاصل کر کے نکلتے ہیں، کون سی وجہ ہے کہ ان کے لیے ملک کی انتظامی زندگی میں وہ دروازے کھلے نہ ہوں جو انگریزی تعلیم کے حاصل کیے ہوئے اور پڑھے ہوئے لوگوں کے لیے ہیں؟ کون سی وجہ ہے کہ جس تعلیم کو حاصل کر کے فتح اللہ شیرازی اور ٹوڈرمل پیدا ہوتے تھے، آج اس تعلیم سے جو لوگ نکلے ہیں ان پر ملک کے انتظامی دروازے بندے ہوں؟
مجھے ان کے جواب دینے کی مہلت نہیں ہوئی۔ لیکن میں آپ سے کہتا ہوں کہ اس کا جواب اسی میں موجود ہے۔ آپ نے کبھی اس کی کوشش نہیں کی کہ آپ اپنے مدرسوں کو زمانہ کی چال کے ساتھ جوڑ سکیں۔ زمانہ چلتا رہا اور ترقی پر پہنچ گیا اور آپ وہیں رہے جہاں تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی تعلیم کو زمانہ کی مانگوں سے کوئی رشتہ نہیں رہا۔ اور زمانہ نے آپ کے خلاف آپ کو نکما سمجھ کر فیصلہ کر دیا۔ زمانہ نے آپ کو بیکار سمجھا ہے، آپ کو نکما سمجھا ہے۔
مدرسہ میں عربی ان کو پڑھنا ہے تو یہ مجبوری ہے کہ کسی نہ کسی مولوی کو رکھ لیا، لیکن کوئی حقیقی وقعت آپ کے دل میں مولوی کی نہیں ہے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے۔ آپ کے دل میں اس کی عزت ہونی چاہئے۔ تو میں آپ سے کہتا ہوں کہ اس کی تہ میں جو چیز ہے، وہ زمانے کی ناقدر شناسی ہے۔ ہم کو اپنی جگہ اس کے ساتھ یہ بھی جاننا چاہئے کہ ہمارا فرض تھا کہ ہم زمانے کے تقاضوں کا ساتھ دیتے، مگر ہم نے زمانے کا ساتھ نہیں دیا۔
(خطبات مولانا ابوالکلام آزادؒ)