دینی مدارس، پس منظر اور مقاصد و خدمات

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف

سوویت یونین کے بکھر جانے اور روس کے بحیثیت سپر طاقت کے زوال کے بعد امریکہ واحد سپر طاقت رہ گیا ہے جس سے اس کی رعونت میں اضافہ اور پوری دنیا کو اپنی ماتحتی میں کرنے کا جذبہ مزید توانا، بالخصوص عالم اسلام میں اپنے اثر و نفوذ اور اپنی تہذیب و تمدن کے پھیلانے میں خوب سرگرم ہو گیا ہے۔ نیوورلڈ آرڈر (نیا عالمی نظام) اس کے اسی جذبے کا مظہر اور عکاس ہے۔ 

امریکہ کے دانش ور جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ان کی حیا باختہ تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب اپنے حیاء و عفت کے پاکیزہ تصورات کے اعتبار سے بدرجہا بہتر اور فائق ہے۔ اس لیے یہ اسلامی تہذیب ہی اس کے نئے عالمی نظام اور اس کی عالمی چودھراہٹ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، اسے ختم یا کمزور کیے بغیر وہ اپنا مقصد اور عالمی قیادت حاصل نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اس نے اسلامی تہذیب و تمدن کو ختم کرنے کے لیے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ یہ مذموم کوششیں ویسے تو ایک عرصے سے جاری ہیں اور مختلف جہتوں اور محاذوں سے یہ کام ہو رہا ہے، بعض محاذوں پر اس کی پیش قدمی نہایت کامیابی سے جاری ہے، مثلاً‌

  • حقوقِ نسواں کے عنوان سے مسلمان عورتوں میں اپنے مذہب سے نفرت و بیگانگی اور بے حیائی و بے پردگی کی اشاعت، جس میں وہ بہت کامیاب ہے۔ چنانچہ سعودی معاشرے کے علاوہ بیشتر اسلامی ملکوں کی مسلمان عورتوں کو اس نے اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس پردے کی پابندی سے آزاد اور حیاء و عفت کے اسلامی تصورات سے بے نیاز کر دیا ہے۔
  • مخلوط تعلیم کا، مخلوط سروس اور مخلوط معاشرت کا فتنہ، اور مساواتِ مرد و زن کا مغربی نظریہ ہے جو ہر اسلامی ملک میں اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ گویا اس محاذ پر بھی مغرب کی سازشیں اپنا رنگ دکھا رہی ہیں۔ 
  • نرسری سے لے کر کالج اور یونیورسٹیوں کی سطح تک نصابِ تعلیم میں لارڈ میکالے کی وہ روح کار فرما ہے جو اس انگریزی نظام تعلیم کا موجد تھا اور جس نے کہا تھا کہ ’’اس سے ایسا طبقہ پیدا ہو گا جو خون اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی، مگر خیالات اور تمدن میں انگریز ہو گا۔‘‘ یہ بات اس نے ۱۸۳۴ء میں کہی تھی جب متحدہ ہندوستان انگریزوں کے زیرنگیں تھا، لیکن آزادی کے بعد بھی چونکہ یہی نصابِ تعلیم بدستور جاری ہے، اس لیے خیالات اور تمدن میں انگریز بننے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ انگریزی زبان کے تسلط اور برتری سے بھی وہ اپنے مذکورہ مقاصد حاصل کر رہا ہے اور ہم نے اس کی زبان کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے۔ اور یوں اس کے استعماری عزائم اور اسلام دشمنی بلکہ اسلام کش منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اس کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔
  • اقتصاد و معیشت میں بھی ہم نے اس کی پیروی اختیار کر رکھی ہے اور سودی نظام کو، جو لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات کا حکم رکھتا ہے، ہم نے اسے مکمل تحفظ دیا اور اسے ہر شعبے میں بری طرح مسلط کیا ہوا ہے، جس کی وجہ سے اقتصادی ناہمواری عروج پر ہے۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر بنتا جا رہا ہے۔ نو دولتیوں کا ایک ایسا طبقہ الگ معرض وجود میں آچکا ہے جو پوری طرح مغربیت کے سانچے میں ڈھل چکا ہے۔ اس کا رہن سہن، بود و باش، طور اطوار حتیٰ که لہجہ و زبان تک سب کچھ مغربی ہے، وہ اسی مغربی تہذیب کا والہ و شیدا اور پرستار ہے اور اس کے شب و روز کے معمولات مغربی معاشرے کے عین مطابق ہیں۔ 
  • سیاست و نظمِ حکومت میں بھی ہم نے جمہوریت کو اپنایا ہوا ہے، جو مغرب ہی کا تحفہ ہے۔ یہ پودا مغرب میں ہی پروان چڑھا، وہاں کی آب و ہوا شاید اسے راس ہو، لیکن اسلامی ملکوں کے لیے تو جمہوریت اسلام سے محروم کرنے کی ایک بہت بڑی سازش ہے، جس کے دام ہم رنگ زمین میں بیشتر اسلامی ملک پھنس چکے ہیں۔ کچھ تو اس کی ’’برکت‘‘ سے اسلامی اقدار و روایات سے بالکل بیگانہ ہو چکے ہیں، جیسے ترکی ہے۔ کچھ سخت جان ہیں تو وہاں اسلامی اقدار اور مغربی اقدار میں سخت کشمکش برپا ہے۔ برسراقتدار حکمران مغربی تہذیب و تمدن کو مسلط کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جب کہ اسلامی تہذیب سے محبت کرنے والا ایک گروہ اس کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔ تاہم عوام کی بہت بڑی اکثریت بیشتر اسلامی ملکوں میں دینی جذبہ و احساس اور شعور سے محروم ہونے کی وجہ سے الناس علیٰ دین ملوکہم کے تحت مغرب کی حیا باختہ تہذیب ہی کو اپنا رہی ہے۔ 
  • ہماری صحافت بالخصوص روزنامے مغربی ملکوں کے روزناموں سے بھی زیادہ بے حیائی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ یہ چند ٹکوں کی خاطر مسلمان عورت کو روزانہ عریاں اور نیم عریاں کر کے پیش کرتے ہیں تاکہ عوام کی ہوس پرستی اور جنسی اشتہا کی تسکین کر کے ان کی جیبوں سے پیسے بھی کھینچے جائیں اور انہیں دولت ایمان سے بھی محروم کر دیں۔ ان غارت گرانِ دین و ایمان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان مہ وشوں، سیمیں تنوں اور رہزنانِ تمکین و ہوش کی رنگین اور شہوت انگیز تصویروں سے عوام کے اخلاق و کردار کس بری طرح بگڑ رہے ہیں۔ بے حیائی اور بے پردگی کو کس طرح فروغ مل رہا ہے اور فحاشی کا سیلاب کس طرح ہر گھر کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ انہیں صرف اپنی کمائی سے غرض ہے، اس کے علاوہ ہر چیز سے انہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

ان مایوس کن، ایمان شکن اور روح فرسا حالات میں صرف دینی تعلیم و تربیت کے وہ ادارے اور مراکز امید کی ایک کرن ہیں جنہیں دینی مدارس اور مراکز اسلامیہ کہا جاتا ہے۔ جہاں محروم طبقات کے بچے یا دینی جذبات سے بہرہ ور لوگوں کے نوجوان، دین کے علوم حاصل کر کے مسلمان عوام کی دینی رہنمائی بھی کرتے ہیں اور ان کی دینی ضروریات کا سروسامان بھی۔ ان کی وجہ سے ہی تمام مذکورہ شیطانی کوششوں کے باوجود اسلامی اقدار و روایات ایک طبقے کے اندر موجود ہیں، معاشرے کے اندر اسلامی تشخص کسی نہ کسی انداز سے زندہ ہے، اور اسلامی عبادات و شعائر کا احترام لوگوں کے دلوں میں ہے۔ اس لحاظ سے یہ دینی مدارس اپنی تمام تر کوتاہیوں، محرومیوں اور کسمپرسی کے باوجود جیسے کچھ بھی ہیں، اسلام کے قلعے اور اس کی پناہ گاہیں ہیں، دینی علوم کے سر چشمے ہیں، جن سے طالبانِ دین کسبِ فیض کرتے اور تشنگانِ علم سیراب ہوتے ہیں، اور دین کی مشعلیں ہیں جن سے کفر و ضلالت کی تاریکیوں میں ہدایت کی روشنی پھیل رہی ہے اور اس کی کرنیں ایک عالم کو منور کر رہی ہیں۔ 

ان کی یہ خوبی ہی دشمن کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹک رہی ہے۔ اسلام دشمن استعماری طاقتیں جنہوں نے عالمِ اسلام کو مذکورہ حسین جالوں میں پھنسا رکھا ہے اور جو اسے اسلام کی باقیات سے بالکل محروم کر دینا چاہتی ہیں، اب ان کا ہدف اسلامی جماعتیں اور دینی مدرسے ہیں۔ اسلامی جماعتوں کو وہ بنیاد پرست اور دہشت گرد قرار دلوا کر انہیں ملکی سیاست سے باہر نکالنا چاہتی ہیں تاکہ انتخابات کے مرحلے میں بھی اسلام کا نام لینا جرم بن جائے۔ مسلمان سربراہوں کی حالیہ کانفرنس میں، جو کاسابلانکا میں ہوئی، وہ اس قسم کی ایک قرارداد پاس کروانے میں کامیاب بھی ہو گئی ہیں۔ اور اس کے بعد اب یہ استعماری طاقتیں عالمِ اسلام میں برسر اقتدار اپنی پٹھو حکومتوں کے ذریعے سے دینی مدرسوں کو بھی ان کے اصل کردار سے محروم کرنا چاہتی ہیں۔ 

چنانچہ مغرب کی آلہ کار حکومتیں اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اب اس محاذ پر سرگرم ہو گئی ہیں، اور دینی مدارس کے خلاف بیان بازی کے بعد فرقہ واریت کی آڑ میں ان میں مداخلت کے لیے پر تول رہی ہیں، تاکہ انہیں ان کے اس تاریخی کردار سے محروم کر دیا جائے جو وہ ڈیڑھ دو صدی سے انجام دے رہے ہیں۔ اور یہاں سے بھی اسلام کے داعی و مبلغ، مفسر و محدث اور مفتی و فقیہ پیدا ہونے کی بجائے وہی مخلوق پیدا ہو جو کالج اور یونیورسٹیوں میں پیدا ہو رہی ہے، جس نے معاشرے سے اس کا امن اور سکون چھین لیا ہے، جو میڈونا اور مائیکل جیکسن کی پرستار ہے، اور اسلامی اقدار و روایات کے مقابلے میں مغربی اقدار و روایات کی شیدا اور اس کی تہذیب پر فریفتہ ہے۔

دینی مدارس: پس منظر اور مقاصد و خدمات

یہ مدارس دینی عربیہ، جن میں قرآن و حدیث اور ان سے متعلقہ علوم کی تعلیم دی جاتی ہے، صدیوں سے اپنے ایک مخصوص نظام و مقصد کے تحت آزادانہ دین کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ ان دینی مدارس کے پس منظر، غرض و غایت اور ان کی عظیم دینی خدمات سے ناواقف لوگ ان کے متعلق مختلف قسم کی باتیں بناتے رہتے ہیں۔ کبھی ان مدارس کو بے مصرف اور ان میں پڑھنے والے طلباء و علماء کو ’’یادگارِ زمانہ‘‘  کہا جاتا ہے، کوئی انہیں ملائے مکتب اور ابلہ مسجد قرار دیتا ہے، جو ان کی نظر میں زمانے کی ضروریات اور تقاضوں سے نا آشنائے محض ہیں، اور کوئی ’’اصلاح‘‘ کے خوشنما عنوان سے اور ’’خیر خواہی‘‘ کے دلفریب پردے میں باز و شکرے کے روایتی قصے کی طرح انہیں ان کی تمام خصوصیات سے محروم کر دینا چاہتے ہیں۔ اور اب ایک مخصوص گروہ کو سامنے رکھتے ہوئے، جن کا کوئی تعلق دینی مدارس سے نہیں ہے، انہیں ’’دہشت گرد‘‘ بھی باور کرایا جا رہا ہے۔ غرض یہ مدارس اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء ’’جتنے منہ اتنی باتیں‘‘ کے مصداق ہر کِہ و مِہ کی تنقید کا نشانہ اور اربابِ دنیا کے طعن و تشنیع کا ہدف ہیں، بلکہ اب بین الاقوامی استعمار کی خاص ’’نگاہِ کرم‘‘ بھی ان پر مبذول ہے۔ 

لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ مدارس اپنے مخصوص پس منظر اور خدمات کے لحاظ سے اسلامی معاشرے کا ایک ایسا اہم حصہ ہیں جس کی تاریخ اور خدمات سنہرے الفاظ سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ ان میں پڑھنے پڑھانے والے نفوس قدسیہ نے ہر دور میں باوجود بے سر و سامانی کے دین اسلام کی حفاظت و صیانت کا قابل قدر فریضہ انجام دیا ہے۔ ان مدارس کے قیام کا پس منظر یہی تھا کہ جب حکومتوں نے اسلام کی نشر و اشاعت میں دلچسپی لینا بند کر دی، اور اسلامی تعلیم و تربیت میں مجرمانہ تغافل برتا، تو علمائے اسلام نے ارباب حکومت اور اصحاب اختیار کی اس کوتاہی کی تلافی یوں کی کہ دینی تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کیے جو عوام کے رضا کارانہ عطیات اور صدقات و خیرات سے چلتے تھے۔ 

یہ دینی ادارے بالعموم سرپرستی سے محروم ہی رہے ہیں اور اس میں ان کے تحفظ و بقا کا راز مضمر ہے۔ بالخصوص برطانوی ہند میں، جب کہ انگریزوں نے لارڈ میکالے کے نظریہ تعلیم کے مطابق انگریزی تعلیم کو رواج دیا اور مسلمان عوام ملازمت اور دیگر مناصب و مراعات کے لالچ میں کالج اور یونیورسٹیوں کی طرف دیوانہ وار لپکے، اور دینی تعلیم اور دینی اقدار سے بے اعتنائی و بیگانگی برتنے لگے، تو علماء اور اصحابِ دین نے اس دور میں متحدہ ہندوستان کے قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں دینی مدارس کا جال پھیلا دیا۔

انگریزوں نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے جس انگریزی نظام تعلیم کو نافذ کیا تھا، اس کے دو بڑے مقصد تھے: ایک دفتروں کے لیے کلرک اور بابو پیدا کرنا۔ دوسرا مسلمان کو اس کے دین اور اس کے شعائر و اقدار سے بیگانہ کر دینا۔ بدقسمتی سے دورِ غلامی کا یہ مخصوص نظامِ تعلیم اپنے مخصوص مقاصد سمیت تاحال قائم ہے۔ اسی لیے دینی مدارس کی ضرورت بھی محتاجِ وضاحت نہیں۔ بنا بریں علماء جب سے اب تک ان مدارس کے ذریعے سے دین کی نشر و اشاعت اور دینی اقدار و شعائر کی حفاظت کا فریضہ نا مساعدت احوال اور انتہائی بے سروسامانی کے باوجود سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ انہی مدارس کا فیض ہے کہ ملک میں اللہ و رسول کا چرچا ہے، حق و باطل کا امتیاز قائم ہے، دینی اقدار و شعائر کا احترام و تصور عوام میں موجود ہے، اور عوام اسلام کے نام پر مرمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

دینی مدارس کے اس پس منظر، غرض و غایت اور خدمات سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے قیام کا مقصد ڈاکٹر، وکیل، انجینئر، صنعتکار اور کلرک و بابو پیدا کرنا نہیں بلکہ دینی علوم کے خادم، دینِ اسلام کے مبلغ و داعی، قرآن کے مفسر احادیث کے شارح، اور دین متین کے علم بردار تیار کرنا ہے۔ ان کا نصابِ تعلیم اسی انداز کا ہے جن کو پڑھ کر وارثانِ منبر و محراب ہی پیدا ہوتے ہیں، کیونکہ ان کا مقصد ایسے ہی رجال کار پیدا کرنا ہے، نہ کہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں کھپ جانے والے افراد۔ اس لیے بنیادی طور پر ان کے نصابِ تعلیم میں تبدیلی یا ان کی آزادانہ حیثیت میں تغیر دونوں چیزیں ان کے مقصدِ وجود کی نفی کے مترادف ہیں۔ 

نصابِ تعلیم میں بنیادی تبدیلی سے دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے۔ اگر کسی محدود سے مفاد کے ساتھ وہ دنیوی شعبے میں کھپنے کے لائق ہو بھی گئے تو بہرحال یہ تو واضح ہے کہ دینی علوم اور مذہبی تبلیغ سے ان کا رابطہ ختم ہو جائے گا، یا اگر رہے گا بھی تو اس انداز کا نہیں رہے گا جو اسلامی علوم کی نشر و اشاعت اور اس کی تبلیغ کے لیے مطلوب ہے۔ اس طرح ان مدارس سے دین کے وہ خدام تیار ہونے بند ہو جائیں گے جن کے ذریعے سے قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، ائمہ و خطباء،  حفاظ و قراء اور مدرسین و مولفین پیدا ہو رہے ہیں جن سے مختلف دینی شعبوں کی تمام ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ 

اگر نصابِ تعلیم کی تبدیلی سے یہی نتیجہ نکلا اور یقیناً یہ نکلے گا تو ظاہر بات ہے کہ دینی مدارس کی مخصوص حیثیت ختم ہو جائے گی اور وہ بھی عام دنیوی اداروں (اسکول، کالج، یونیورسٹی وغیرہ) کی طرح ہو جائیں گے۔ حالانکہ دنیوی تعلیم کے یہ ادارے پہلے ہی ہزاروں کی تعداد میں ہر چھوٹی بڑی جگہ پر موجود ہیں اور حکومت ان پر کروڑوں روپیہ خرچ کر رہی ہے۔ بنا بریں دینی مدارس کے نصاب میں بنیادی تبدیلی کے پیچھے خواہ کتنے ہی مخلصانہ جذبات اور خیر خواہانہ محرکات کار فرما ہوں، تاہم یہ جذبات و محرکات بالغ نظری کی بجائے سطحیت کا شاخسانہ ہیں اور اس سے دینی تعلیم اور دینی ضروریات کا سارا نظام تلپٹ ہو سکتا ہے۔ اور مختلف عنوانات سے اس میں مداخلت کرنے والوں کا مقصد بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ لا قدرھا اللہ۔ 

اسی طرح ان دینی مدارس کی آزادانہ حیثیت ختم کر کے ان کو سرکاری سرپرستی میں دے دینا بھی سخت خطرناک ہو گا۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، بالخصوص آج کل جب کہ کسی حکومت کو قرار و ثبات نہیں اور نظریاتی انتشار، فکری بے راہ روی اور مغربیت سے مرعوبیت عام ہے، ہو سکتا ہے ایک حکومت مخلص ہو اور وہ فی الواقع دینی مدارس کو اپنی سرپرستی میں لے کر دینی علوم کی زیادہ سے زیادہ نشر و اشاعت کرنا چاہتی ہو۔ لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل کلاں کو انتقالِ اقتدار کا مرحلہ آیا اور حکومت کسی دین دار آدمی کی بجائے کسی سیکولرسٹ، ابن الوقت اور ملحد کے ہاتھ میں آگئی تو وہ ان مدارس کو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرے گا یا وہ ان کی دینی حیثیت کو تبدیل نہیں کرے گا۔ بنا بریں دینی اداروں کو سرکاری سرپرستی سے بچا کر رکھنا بھی ان کی دینی افادیت و حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ سرکاری سرپرستی کسی موقع پر ان کے لیے دست غیب کی بجائے دست اجل بھی ثابت ہو سکتی ہے، جس طرح ترکی میں مصطفیٰ کمال پاشا کے دور میں ہوا کہ دینی اداروں کا وجود بالکل ختم کر دیا گیا۔ 

اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس محاذ پر حکومت کا سرگرم اور فکر مند ہونا صحیح نہیں۔ ہم حکومت سے عرض کریں گے کہ وہ دینی مدارس کو ان کے حال پر چھوڑ دے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دینی اداروں میں بہت سی چیزیں اصلاح طلب ہیں، اس سے انکار نہیں، لیکن حکومت اس شعبے کو کم از کم اپنے اصلاحی اقدامات سے خارج کر دے۔ زندگی کے اور دیگر تمام شعبے سخت اصلاح طلب ہیں، حکومت اپنی توجہ تمام تر اس طرف مبذول کرے۔ اگر دینی تعلیم کے اہتمام کا زیادہ ہی شوق ہے تو وہ اپنا یہ مقصد اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں ضروری تبدیلی کر کے حاصل کر سکتی ہے اور حکومت کو یہ مقصد دنیوی تعلیم کے اداروں کی ہی اصلاح کر کے اور ان کے ذریعے سے ہی حاصل کرنا چاہیے۔ کیونکہ دینی ادارے، گو کتنے ہی اصلاح طلب ہوں، تاہم وہ ملک میں اخلاقی انار کی فکری بے راہ روی اور نظریاتی انتشار نہیں پھیلا رہے، جب کہ اسکول و کالج وغیرہ یہ کام بڑی سرگرمی سے انجام دے رہے ہیں، اس لیے اصل ضرورت اسکول و کالج اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں تبدیلی، ان کے انتظامی معاملات میں دخل اندازی، اور ان کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ہے۔ نہ کہ دینی مدارس کے نصاب یا نظم و نسق میں دخل اندازی کی۔

دوسری طرف دینی مدارس کے ارباب انتظام اور مسند نشینان درس و افتاء سے بھی ہم عرض کریں گے کہ ان کی اصل پونجی اعتماد علی اللہ ہے۔ اب تک تو توکلاً‌ علی اللہ ہی تمام دینی مدارس اپنا کام کرتے آئے ہیں اور انتہائی بے سر و سامانی کے عالم میں بھی انہوں نے دینی علوم کی خدمت کا علم سرنگوں نہیں ہونے دیا ہے، اور کچھ نہ ہونے کے باوجود اپنے دائروں میں بہت کچھ کیا ہے۔ اس موقع پر جب کہ حکومت ان کی ’’امداد‘‘ اور ’’سرپرستی‘‘ کے لیے کچھ پَر تول رہی ہے، بہت تدبر اور فراست سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اور انہیں تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد ہی حکومت کی امداد و سرپرستی یا اس کی دخل اندازی کے قبول یا عدمِ قبول کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ محض حکومت کی گرانٹ ہی (جس کی حلت بھی مشکوک ہے) ان کے لیے باعث کشش، یا دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء کا سرکاری اداروں میں ملازمت کی توقع ہی ان کا مرکزِ توجہ نہ ہو۔ بلکہ اصل چیز ان کی وہ تاریخی حیثیت ہے جس کی رو سے وہ آزادانہ طور پر دین و علم اور ملک و ملت کی خدمات سرانجام دیتے آئے ہیں اور بحمداللہ اب تک دے رہے ہیں۔ کسی عاجلانہ اقدام یا نافعانہ خواہش سے اگر وہ اپنے اس تاریخی کردار سے محروم ہو گئے تو یہ بہت بڑا المیہ ہوگا۔

اب ہم ان اعتراضات و شبہات کی طرف آتے ہیں جو دینی مدارس کے بارے میں مختلف اطراف سے سامنے آ رہے ہیں۔

دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کا مسئلہ

ان میں سب سے اہم مسئلہ نصابِ تعلیم کا ہے۔ اس پر گفتگو کرنے والے اپنے اور بیگانے دوست اور دشمن دونوں قسم کے لوگ ہیں۔ بعض لوگ بڑے اخلاص سے دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کا مشورہ دیتے اور اس میں تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں، لیکن ہم عرض کریں گے کہ نصاب میں بنیادی تبدیلی کے پیچھے چاہے کتنے ہی مخلصانہ جذبات ہوں، تاہم وہ دینی مدارس کے اصل مقاصد سے (جس کی وضاحت گزشتہ سطور میں کی جا چکی ہے) مناسبت نہیں رکھتی بلکہ وہ ان کے لیے سخت نقصان دہ ہوگی۔

نصاب کی تبدیلی کی دو صورتیں ہیں:

ایک تبدیلی کی صورت یہ ہے کہ دینی مدارس عربیہ کا نصاب معمولی سے فرق کے ساتھ سکول، کالج اور یونیورسٹی والا کر دیا جائے، ان کی ڈگریاں بھی میٹرک ایف اے، بی اے اور ایم اے کے برابر ہوں اور ان کے ڈگری یافتہ اصحاب سرکاری اداروں میں ملازمتیں کر سکیں۔ 

دوسری تبدیلی کی صورت یہ ہے کہ عصرِ حاضر کے فتنوں، تحریکوں اور ازموں کو سمجھنے کے لیے دینی مدارس کی صرف آخری کلاسوں میں بعض ضروری جدید علوم کی تدریس کا انتظام بھی کیا جائے، تاکہ ایک طرف دینی علوم کی تحصیل میں کوئی رخنہ نہ پڑے (جیسا کہ پہلی صورت میں یہ متوقع ہی نہیں، یقینی ہے) اور دوسری طرف علماء زیادہ مؤثر انداز اور زیادہ بہتر طریقے سے عصر ِحاضر کے فتنوں کا مقابلہ اور اسلام کا دفاع کر سکیں۔ 

پہلی تبدیلی کا مقصد اور نتیجہ علماء کے دینی کردار کا خاتمہ اور دینی مدارس کے مقصدِ وجود کی نفی ہے۔ اس سے دینی مدارس سے امام و خطیب، مصنف و مدرس اور دین کے مبلغ و داعی بننے بند ہو جائیں گے جو دینی مدارس کا اصل مقصد ہے۔ اور یہاں سے بھی کلرک، بابو اور زندگی کے دیگر شعبوں میں کھپ جانے افراد ہی پیدا ہوں گے جیسے دنیوی تعلیم کے اداروں سے پیدا ہو رہے ہیں۔ جب کہ دینی مدارس کے قیام اور ان کے الگ وجود کا مقصد شریعت کے ماہرین اور صرف دین اور دینی ضروریات کے لیے کام کرنے والے رجال کا پیدا کرنا ہے۔ اس اعتبار سے ان مدارس کی حیثیت تخصیصی شعبوں کی طرح ہے، جیسے میڈیکل کا، انجینئرنگ کا، معاشیات کا، اور دیگر کسی علم کا شعبہ ہے، ان میں سے ہر شعبے میں صرف اسی شعبے سے تعلق رکھنے والی تعلیم کا اہتمام ہوتا ہے، دیگر علوم کی تعلیم کی نہ صرف ضرورت نہیں سمجھی جاتی، بلکہ اسے اصل تعلیم کے لیے سخت نقصان دہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ عجیب طرفہ تماشہ ہے کہ دین کی مخصوص تعلیم کے اداروں کے لیے دنیا بھر کے علوم کی تعلیم کو ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ ان ھذا لشیءٌ عجاب۔

اور اگر مقصد دوسری قسم کی تبدیلی ہے تو اس سے یقیناً‌ علمائے کرام کے کردار کو زیادہ مؤثر اور مفید بنایا جا سکتا ہے جس کے علماء اور اصحاب مدارس قطعاً‌ مخالف نہیں ہیں، بلکہ حسبِ استطاعت بعض بڑے مدارس میں ان کا اہتمام بھی ہے اور اس میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس تبدیلی اور اہتمام سے دینی مدارس کا اصل نصاب متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس کی تکمیل ہوتی ہے، اور اس سے دین اور اسلام کی برتری کا وہ مقصد ہی حاصل ہوتا ہے جو دینی مدارس کا اصل مقصد ہے۔ 

تبدیلی کی ایک بڑی حسین صورت یہ بھی تجویز کی جاتی ہے کہ جدید و قدیم تعلیم کا ایک ملغوبہ تیار کیا جائے تاکہ ایسے افراد پیدا ہوں جن میں قدیم و جدید کا امتزاج اور دونوں علوم میں ان کو مہارت ہو۔ یہ تصور یقیناً‌ بڑا خوش کن اور مسرت آگیں ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ تجربہ کئی جگہ کیا گیا ہے لیکن کہیں بھی مبینہ مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔ اس طرح کے اداروں سے فارغ ہونے والے نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے۔ علومِ شریعت میں بھی وہ خام ہوں گے جس کی وجہ سے وہ دینی اور علمی حلقوں میں درخور اعتناء نہیں سمجھے جائیں گے، اور دنیاوی تعلیم میں بھی وہ ادھورے اور ناقص ہوں گے، اس لیے زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ان کی کھپت مشکوک رہے گی۔ وہ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر، یا نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملّا خطرہ ایمان ہی کا مصداق ہوں گے۔

علاوہ ازیں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ دینی مدارس تو اپنے مقاصد اور طاقت کے مطابق نونہالانِ قوم کی دینی تعلیم و تربیت اپنے اپنے دائروں میں کر رہے ہیں، جس سے قوم کی دینی ضروریات پوری ہو رہی ہیں، اور جس سے معاشرے میں دینی اقدار و روایات کا شعور اور احترام بھی موجود ہے (گو عمل میں کوتاہی کا سلسلہ بہت وسیع ہے جس کے دیگر عوامل و اسباب ہیں) گویا دینی مدارس سے وہ مقاصد حاصل ہو رہے ہیں جو ان کے قیام و وجود سے وابستہ ہیں۔ اس کے برعکس سکول و کالج اور یونیورسٹیاں ہیں، کیا ان میں تعلیم پانے والے بچے اور بچیاں اپنے مذہب کا صحیح شعور رکھتی ہیں؟ ان سے فارغ ہونے والی نسل کے ذہن میں اسلامی تہذیب و تمدن سے کوئی وابستگی ہے؟ وہ عمل اور نظریے کے اعتبار سے صحیح مسلمان ہیں؟ 

اگر جواب نفی میں ہے اور یقیناً‌ نفی میں ہے تو کیا بحیثیت مسلمان ہونے کے ہماری حکومتوں کی اولین ذمے داری یہ نہیں ہے کہ وہ سب سے پہلے ان تعلیمی اداروں کے نصاب میں ایسی بنیادی تبدیلی کریں کہ ان میں تعلیم پانے والے بچے اپنے مذہب کا تو صحیح شعور حاصل کر سکیں، انجینئر ڈاکٹر، صحافی، ماہر معیشت، جو بھی بنیں، وہ ساتھ ساتھ مسلمان بھی رہیں، اسلام پر عمل کرنے کا جذبہ بھی ان میں توانا ہو۔ یہ ادارے تو اس کے برعکس مسلمانوں کی نوجوان نسل کو نامسلمان بنا رہے ہیں، انگریزی تہذیب کا والہ و شیدا بنا رہے ہیں اور مائیکل جیکسن اور میڈونا کا پرستار پیدا کر رہے ہیں۔ 

نصابِ تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت تو ان اداروں میں ہے جہاں تعلیم کے نام پر مسلمانوں کی نسلِ نو کو اخلاق و کردار سے، حیاء و عفت سے، اور ایمان و تقویٰ سے محروم کیا جا رہا ہے۔ نہ کہ ان دینی مدارس کے نصاب میں جہاں کے فارغین بہت سی کوتاہیوں کے باوجود بہرحال اسلام کے احکام و فرائض کی پابندی کو ضروری سمجھتے ہیں، اخلاق و کردار کے زیور سے آراستہ ہیں، اور معاشرے کی ظلمتوں میں دین کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ 

فرقہ وارانہ تصادم اور نصاب

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان کا نصاب فرقہ وارانہ ہے اور ان سے فرقہ وارانہ تصادم میں اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے اس کے نصاب میں تبدیلی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ہماری گزارش یہ ہے کہ یہ نصاب صدیوں سے دینی مدارس میں پڑھایا جا رہا ہے اور علماء پڑھتے آ رہے ہیں۔ لیکن ان کے مابین اس طرح فرقہ وارانہ تصادم کسی دور میں نہیں ہوا جس طرح چند سالوں سے دیکھنے میں آرہا ہے۔ اگر یہ قصور نصابِ تعلیم کا ہوتا تو یہ تصادم تو ہر دور میں ہونا چاہیے تھا، پاکستان کے علاوہ دیگر اسلامی ملکوں میں بھی ہوتا، اور پاکستان میں چند سال قبل بھی ہوتا۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے، دیگر اسلامی ملکوں میں یہ تصادم نہیں ہے جب کہ دینی مدارس وہاں بھی ہیں، ان کا نصاب بھی تقریبا" وہی ہے جو پاکستان کے دینی مدارس کا ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی اس تصادم کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے، بلکہ چند سالوں سے ہی یہ الم ناک صورت حال سامنے آ رہی ہے۔ 

اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اس کا تعلق دینی مدارس کے نصاب سے نہیں ہے، بلکہ اس کے دیگر اسباب ہیں جو باخبر حضرات سے مخفی نہیں ہیں۔ حکومت اگر اس تصادم کے روکنے اور اس کے سدباب میں مخلص ہوتی تو یقیناً‌ وہ اس کو روک سکتی تھی۔ جو دو گروہ آپس میں متصادم ہیں اور اس تصادم کے جو اسباب ہیں، حکومت ان دونوں باتوں سے آگاہ ہے۔ لیکن با خبر لوگوں کا کہنا تو یہ ہے کہ اس کے پس پردہ بھی اصل ہاتھ حکومت کا ہے۔ یہ متحارب گروہ حکومت کے زیر اثر ہیں، لیکن حکومت نے ان کو باہم کشت و خوں ریزی کی چھوٹ دے رکھی ہے۔ شاید اس میں کار فرما مقصد یہی ہو کہ حکومت اس طرح تمام دینی طبقوں کو متشدد اور متحارب و متصادم باور کرا کر ان سب کی آزادی و خود مختاری کو سلب کر لینا چاہتی ہے۔ ورنہ حکومت کے لیے دو فریقوں کو خونی تصادم سے روک دینا اور ان سے تمام اسلحہ برآمد کر لینا کوئی مشکل معاملہ نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ دینی مدارس کا نصابِ تعلیم فرقہ وارانہ تصادم کا اصل سبب ہے۔

تاہم اس حقیقت کا ہمیں اعتراف ہے کہ فرقہ واریت کے نقطہ نظر سے نصاب اصلاح اور نظرثانی کا محتاج ہے۔ یہ فرقے، قرآن کریم کی تعلیم ولا تفرقوا کے خلاف ہیں۔ اس لیے ان اسباب و عوامل کا تجزیہ کر کے، جو ان فرقوں کے معرضِ وجود میں آنے کا سبب ہیں، ان کے سدباب کے لیے مخلصانہ مساعی ہونی چاہئیں، جن میں نصاب پر نظرثانی بھی شامل ہے۔ تاہم یہ ایک الگ موضوع ہے جس کی تفصیلات کا یہ موقع نہیں۔ یہاں اس کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود صرف یہ ہے کہ فرقہ واریت کے نقطہ نظر سے یقیناً اصلاح کی گنجائش ہے جس پر علماء کو ضرور سوچنا چاہیے اور اس کے سدباب کے لیے جو ممکن تدابیر ہوں، انہیں پورے اخلاص سے بروئے کار لانے کی سعی کرنی چاہیے تاکہ حکومت کو اس بہانے سے دینی مدارس میں مداخلت کا موقع نہ ملے۔ 

گو اس نصاب سے تصادم و تحارب تو نہیں ہوتا جیسا کہ عرض کیا گیا ہے تاہم فرقہ وارانہ ذہنیت ضرور فروغ پاتی ہے، جب کہ اسلام کا مطلوب اتحادِ امت ہے نہ کہ افتراقِ امت۔ ان فرقوں کو تقدس کا درجہ دے کر ان کی اصلاح کے لیے کوشش نہ کرنا اور باہم اتحاد و قربت کی راہیں تلاش نہ کرنا شرعی لحاظ سے پسندیدہ امر نہیں ہے۔ اس محاذ پر علماء کا جمود ایک مجرمانہ فعل ہے، جس کا ارتکاب کو صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے، لیکن وہ بہرحال جرم ہے، جس کی اصلاح علماء کا فریضہ اور اس سے اعراض و گریز ان کی کوتاہی ہے۔ 

تشدد کی تربیت اور اسلحہ کی ٹریننگ — ایک خلط مبحث 

بعض لوگ کہتے ہیں کہ مدارس میں تشدد کی تربیت اور اسلحہ چلانے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا الزام ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کسی مدرسے میں ایسا ہوتا ہے تو حکومت کا آہنی پنجہ اس کو اپنی گرفت میں کیوں نہیں لیتا؟ اور حکومت اگر تمام تر وسائل کے باوجود کسی ایک مدرسے کا بھی سراغ نہیں لگا سکی جس میں اس قسم کی ٹریننگ دی جاتی ہو تو تسلیم کر لینا چاہیے کہ کسی بھی مدرسے میں ایسا نہیں ہوتا۔

تاہم اس کے ساتھ اس حقیقت کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے کہ افغانستان میں روس کی جارحیت اور مداخلت کے بعد جو جہاد، افغانستان کی دینی جماعتوں نے شروع کیا، اس میں پاکستان کی دینی جماعتوں نے بھی حصہ لیا، دینی مدرسوں میں زیر تعلیم طلباء نے اس جہاد میں حصہ لیا اور بہت سے دین دار لوگوں نے بھی حصہ لیا۔ یہ حصہ مالی بھی تھا اور جانی بھی۔ یعنی پاکستان کی دینی جماعتوں اور دین دار لوگوں نے اپنا مال بھی جہاد افغانستان میں خرچ کیا اور اپنی جانیں بھی پیش کیں۔ اور جہاد میں حصہ لینے کے لیے اسلحہ کی ٹریننگ ناگزیر ہے۔ چنانچہ علماء و طلبائے دینی مدارس نے یہ ٹریننگ لی۔ لیکن کہاں؟ مدرسوں میں نہیں بلکہ افغانستان کے محاذوں پر مورچہ زن ہو کر اور وہاں قائم تربیتی کیمپوں میں، جہاں ہر وقت جان کا خطرہ رہتا تھا۔ چنانچہ جذبہ جہاد سے سرشار ان علماء و طلباء و اہل دین نے ٹریننگ کے ساتھ اور ٹریننگ کے بعد جہاد افغانستان میں حصہ لیا اور بہت سے علماء و طلباء اور نوجوان عروسِ شہادت سے ہم کنار ہوئے، اور افغانستان میں ان جہادی قوتوں کی حکومت کے قیام اور ان کی آپس میں خانہ جنگی کے بعد پاکستان کے یہ اہل دین اور جذبہ جہاد سے سرشار نوجوان کشمیر کے محاذ پر کشمیری مجاہدین اور حریت پسندوں کے ساتھ داد شجاعت دے رہے ہیں اور وہاں بھی متعدد پاکستانی جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔

ظاہر بات ہے کہ یہ جنگی تربیت اور پھر عملاً اپنی جان ہتھیلی میں رکھ کر جہاد میں حصہ لینا، یہ بالکل الگ مسئلہ ہے، جو اگرچہ ایک واقعہ اور حقیقت ہے، مگر اس کا کوئی تعلق دینی مدارس میں اسلحے کی یا تشدد کی ٹریننگ سے نہیں ہے۔ کیونکہ کسی مدرسے میں بھی ایسی ٹریننگ نہیں دی جا رہی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاد میں سرگرم یہ دینی طلباء اور نوجوان ملک میں فرقہ وارانہ تشدد اور تصادم میں قطعاً‌ ملوث نہیں ہیں، ان میں ان کا ایک فی صد حصہ بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ جو گروہ اس تصادم کا باعث ہیں، حکومت انہیں اچھی طرح جانتی ہے، لیکن اس کی مصلحتیں اسے ان پر ہاتھ ڈالنے سے روکے ہوئے ہے بلکہ حکومت ان کی محافظ اور پشتیبان بنی ہوئی ہے، تاکہ ان کی آڑ میں تمام دینی قوتوں پر وار کرنے کا جواز مہیا کیا جا سکے۔ ان متصادم گروہوں کو بنیاد بنا کر اگر محاذ جنگ پر قائم جنگی کیمپوں، تربیتی اداروں کو ختم کرنے کی مذموم کوشش کی گئی تو یہ دراصل جہاد سے مسلمانوں کو ہٹانے کی مذموم کوشش ہوگی جو امریکہ بہادر کو خوش کرنے کی ایک بدترین حرکت ہوگی۔ اس سے کشمیر کا موجودہ جہاد بھی سخت متاثر ہو گا اور ان مسلمانوں پر بھی ظلم عظیم جو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے جہاد کے عظیم مشن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ نوجوان، دہشت گرد اور تشدد پسند نہیں، بلکہ اسلام کا عظیم سرمایہ ہیں ، جنہوں نے اپنی قربانیوں سے جہاد کے اس فراموش شدہ جذبے کو زندہ کیا ہے جو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی بحالی اور ان کی عزت و سرفرازی کا واحد ذریعہ ہے۔ اس سے مظلوم مسلمانوں کو کفار کے ظلم و ستم سے نجات دلائی جا سکتی ہے اور اس جہاد سے ہی امریکہ کے استعماری عزائم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے، جیسا کہ اسی جہاد سے سوویت یونین کو پیوند خاک کیا گیا ہے۔

بیرونی امداد اور اس کی حقیقت

جہاں تک ’’بیرونی امداد‘‘ کا تعلق ہے، اس کے بارے میں بھی اصل حقیقت یہ ہے کہ اہلِ سنت کے تینوں مکاتبِ فکر کے کسی مدرسے کو بھی اس طرح بیرونی امداد نہیں ملتی جو اس کا متبادر مفہوم ہے۔ یعنی کوئی حکومت اپنے مخصوص مقاصد کے لیے انہیں امداد دے اور ان سے وہ کام لے جو وہ لینا چاہتی ہو۔ اس طرح کا بیرونی سہارا کسی بھی سنی مدرسے کو حاصل نہیں ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ دینی مدرسوں کو بیرونی امداد ملتی ہے اور وہ اسے لیتے اور استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ بیرونی امداد بالکل ایسے ہی ہے جیسے ملک کے بہت سے رفاہی اداروں کو بیرونی امداد خالص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملتی ہے اور وہ اسے قبول کرتے ہیں۔

دینی مدرسوں کو بھی یہ بیرونی امداد یقیناً ملتی ہے لیکن کسی بھی دنیاوی یا سیاسی مصلحت کے لیے نہیں بلکہ صرف دین کی نشر و اشاعت اور اس کی تعلیم و تدریس کی غرض سے ملتی ہے۔ رفاہی اداروں کو تو پھر بھی بعض حکومتوں کی طرف سے بھی امداد ملتی ہے، لیکن دینی اداروں کو جتنی بھی امداد ملتی ہے، وہ کسی بھی حکومت سے نہیں ملتی، صرف ان افراد سے انفرادی طور پر ملتی ہے جو پاکستان ہی کے باشندے ہیں اور وہ اللہ کی رضا کے لیے اپنی زکوٰۃ و صدقات کا مصرف پاکستان میں تلاش کرتے ہیں اور اپنی معلومات کے مطابق مستحق اداروں کو اپنی امداد کرتے ہیں کہ پاکستان، ہماری نسبت غریب ملک ہے، اور وہاں دینی ادارے کسمپرسی کا شکار ہیں اور اپنے تعلیمی و تبلیغی مقاصد کی تکمیل کے لیے بجا طور پر امداد کے مستحق ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ پوری طرح تصدیق کرنے کے بعد تعاون کرتے ہیں۔ اور بعض عرب اہل دین تو خاص طور پر خود پاکستان آتے ہیں، ادارے کی کارکردگی کو دیکھنے اور مختلف ذرائع سے اس کی بابت تحقیق کرتے ہیں اور مطمئن ہونے کے بعد محض اللہ کی رضا کے لیے ان کی امداد کرتے ہیں۔ اس میں ایک فیصد بھی کوئی دوسری غرض شامل نہیں ہوتی، دینے والوں کے دل میں، نہ لینے والوں کے دل میں۔ 

اس طرح کی بیرونی امداد سے یقیناً‌ پاکستان کے دینی ادارے فیض یاب ہو رہے ہیں اور اس سے خیر اور بھلائی کے بہت سے کام ہو رہے ہیں، یتیموں کی سرپرستی اور کفالت ہو رہی ہے، بہت سی جگہوں پر ہسپتال قائم ہیں جہاں غریبوں اور ناداروں کو علاج کی سہولتیں حاصل ہیں، اور دین کی تعلیم و تدریس اور تبلیغ و دعوت کا کام ہو رہا ہے۔ خود حکومت کے زیر سایہ اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کیا ہے؟ کیا اس کے بیشتر اخراجات عرب حکومتیں مہیا نہیں کر رہی ہیں؟ فیصل مسجد کی تعمیر میں، جس میں یہ یونیورسٹی قائم ہے، جو اربوں روپیہ خرچ ہوا ہے، وہ کس نے مہیا کیا ہے؟ کیا وہ سعودی حکومت نے مہیا نہیں کیا؟ کیا سعودی حکومت نے اس سے کوئی سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کبھی کوشش کی ہے؟ بعض ہسپتال حکومت کی سرپرستی میں عرب حکومتوں کے تعاون سے چل رہے ہیں، کیا انہوں نے کبھی کوئی سیاسی یا کسی اور قسم کا مفاد حاصل کیا ہے؟ نہیں، یقیناً‌ نہیں۔ وہ یہ سارے کام صرف اللہ کی رضا کے لیے کر رہے ہیں۔ 

پھر آخر ’’بیرونی امداد‘‘ کے نام پر اس شور و غوغا کا کیا جواز ہے؟ جس کی حقیقت اس کے سوا کوئی نہیں جو ابھی مذکور ہوئی ہے۔ الحمد للہ اہل سنت کے مدارس نے اس بیرونی امداد کو، جو حکومت کی بجائے صرف افراد سے وصول ہوتی ہے، دینے والوں کی نیت کے مطابق دینی مقاصد پر ہی خرچ کی ہے اور کرتے ہیں۔ اس سے نہ اسلحہ خریدا جاتا ہے، نہ طلباء کو تشدد کی ٹریننگ دی جاتی ہے، نہ فرقہ واریت کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس امداد کو انہوں نے استعمال کیا ہے تو صرف اور صرف دین اور دینی مقاصد ہی کے لیے استعمال کیا ہے۔ 

البتہ اہل تشیع کا معاملہ اس سے مختلف ہے، ان کو بھی ایک ہمسایہ ملک سے امداد ملتی ہے، اور ہماری معلومات کے مطابق یہ امداد انفرادی طور پر نہیں، حکومت کی طرف سے ملتی ہے۔ اہل تشیع نے اس امداد کو جس طرح استعمال کیا ہے اور اس کے بل پر بعض مواقع پر انہوں نے تشدد، تصادم، دھمکیاں اور دھرنا مارنا وغیرہ کا جو راستہ اپنایا ہے، وہ یقیناً‌ قابلِ غور ہے۔ اس میں یہ نکتہ تحقیق طلب ہے کہ اس ایرانی امداد میں للٰہیت کتنی ہے اور مخصوص مقاصد کی کار فرمائی اور فرقہ وارانہ تصادم و محاذ آرائی کتنی؟ اسلحے کی فراوانی بھی انہی کے ہاں ہے جو عام طور پر فساد کا باعث بنتی ہے۔ اہل سنت میں سے کسی کے پاس اسلحہ نام کی کوئی چیز ہی سرے سے نہیں ہے۔ اب اگر اہل سنت کے بعض لوگوں نے اس کا تھوڑا بہت اہتمام کیا ہے تو وہ صرف حکومت کے اس فرقے سے اغماض کی وجہ سے اپنے تحفظ و دفاع کی غرض سے ہے۔ اگر حکومت اس فرقے کو اسلحے سے پاک کر دے تو کوئی اہل سنت اپنے پاس اسلحہ رکھنے کا روادار نہیں ہوگا، جیسا کہ پہلے ہی وہ اس سے سخت بیزار ہے۔

آمد و خرچ کا حساب کتاب اور اس کا آڈٹ

جہاں تک دینی مدارس کی آمد و خرچ کے حساب کتاب کا تعلق ہے، اس کی بابت عرض ہے کہ تمام بڑے بڑے دینی مدرسے اور ادارے اپنا مکمل حساب رکھتے ہیں بلکہ سالانہ آڈٹ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ حکومت کا منظور شدہ کوئی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یہ کام سرانجام دیتا ہے وہ اپنے آڈٹ کی رپورٹ دیتا ہے۔ اس اعتبار سے بھی ان کا کردار صاف اور بے غبار ہے، اگر ایسا نہ ہو تو لوگ انہیں کبھی اپنا تعاون پیش نہ کریں، لوگ اس اعتماد کے بعد ہی ان سے تعاون کرتے ہیں کہ ان کی دی ہوئی رقم صحیح مصرف پر ہی خرچ ہو رہی ہے اور ایک ایک پائی کا حساب ان کے ہاں موجود ہے۔ 

لیکن یہ دینی ادارے حساب کتاب میں حکومت کی مداخلت کے اس لیے خلاف ہیں کہ جس حکومت کے اپنے ہاتھ صاف نہیں ہیں، انہیں دوسروں کا حساب کتاب دیکھنے کا حق کیوں کر دیا جا سکتا ہے؟ حکومت پہلے زندگی کے دوسرے شعبوں میں اپنی صحیح کارکردگی پیش کرے، اہلِ ملک کے بارے میں اپنی خیر خواہی کا ثبوت مہیا کرے اور اپنی غیر جانبداری تسلیم کرائے تو پھر دینی مدارس بھی یقیناً ’’آں را کہ حساب پاک است، از محاسبہ چہ باک است‘‘ کے مصداق حکومت کا حقِ احتساب تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔

دینی مدارس کے خلاف عالمی استعمار کی سازش

موجودہ حالات میں تو وہ کسی طرح بھی اپنے معاملات میں حکومت کو دخل اندازی کا حق دینا پسند نہیں کرتے اور واقعتاً‌ حکومت اس حق کی اہل بھی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کے بارے میں حکومت کی ہاہاکار، یہ کسی کے اشارہ ابرو کا نتیجہ ہے۔ حکومت صرف اداکار ہے، ہدایت کار کوئی اور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس کے بارے میں حکومت کے کارندوں کا شور و غوغا صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے، بلکہ چونکہ یہ بین الاقوامی استعمار کی سازش کا ایک حصہ ہے اس لیے بیشتر ملکوں میں ان کے خلاف سرگرمیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ 

پاکستان کے ساتھ ہی ہندوستان ہے، جہاں پاکستان ہی کی طرح وہاں کے ہر شہر اور قصبے میں دینی مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے اور وہاں بھی پاکستان کی طرح دینی مدارس ہی دین کی نشر و اشاعت اور اس کے تحفظ و بقا کا واحد ذریعہ ہیں، اس لیے وہاں متشدد ہندو تنظیمیں ان کے خلاف سرگرم ہو گئی ہیں۔ چنانچہ ۲۴ دسمبر ۱۹۹۴ء کو لکھنو میں ’’وشو ہندو پریشد‘‘ اور تشدد پسند ہندو تنظیموں کے تعاون سے ایک عظیم اجتماع ہوا جس میں اشتعال انگیز تقریروں کے ساتھ شعلہ بار پمفلٹ، فولڈر اور ہینڈ بل تقسیم کیے گئے۔ اس تقسیم کیے گئے ایک فولڈر میں حکومت ہند سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ 

”دینی مدارس جو دہشت گردی، تشدد پسندی اور بنیاد پرستی کا گڑھ ہیں، جو قومی یکجہتی میں مانع ہیں، حکومت ان کے ساتھ کوئی نرمی کا معاملہ نہ کرے اور وہاں سے ان سرگرمیوں کو موقوف کرے جو مسلم قومیت کی انفرادیت کی بقاء و استحکام میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔‘‘

 اس قسم کے نعرے بھی لگائے گئے کہ اگر ان مدارس سے حکومت نے مصالحانہ رویہ اختیار کیا تو ہم دیش کی اکھنڈتا اور مریادا کے لیے خود یہ فریضہ سر انجام دیں گے۔ (ماہنامہ ’’بانگ درا‘‘ لکھنؤ، جنوری ۱۹۹۵ء ص ۳) 

دیکھ لیجئے، اس میں ان دینی مدارس کا ’’قصور‘‘ یہی بتلایا گیا ہے کہ یہ ’’مسلم قومیت کی انفرادیت کی بقاء اور استحکام کے ضامن ہیں‘‘۔ ان کا یہی ’’جرم‘‘ ہے جو عالمی استعمار کے لیے ناقابل برداشت ہے اور وہ اپنی پٹھو حکومتوں کے ذریعے سے ان پر کاری ضرب لگوانا چاہتا ہے۔ قاتلھم اللہ انیٰ یؤفکون۔


تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(جولائی ۱۹۹۶ء)

جولائی ۱۹۹۶ء

جلد ۷ ۔ شمارہ ۳

حکومت اور دینی مدارس کی کشمکش کا ایک جائزہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تعلیمِ کتاب و حکمت: سنتِ نبویؐ
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور اس کے تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جدید نظریاتی چیلنج اور علمائے کرام
مولانا محمد عیسٰی منصوری

دینی مدارس، پس منظر اور مقاصد و خدمات
مولانا حافظ صلاح الدین یوسف

دینی مدارس، بنیاد پرستی اور انسانی حقوق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

برق گرتی ہے تو بیچارے ملاؤں پر
خورشید احمد گیلانی

تعلیم کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار
شکور طاہر

شرح خواندگی میں اضافہ اور دینی مراکز
پروفیسر غلام رسول عدیم

دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس سے جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کا خطاب
جسٹس محمد رفیق تارڑ

خیر مقدم
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

موسم برسات میں ہیضہ سے بچاؤ کے لیے خصوصی تدابیر
حکیم عبد الرشید شاہد

دینی مدارس اور زمانے کے تقاضے
مولانا ابوالکلام آزادؒ

دینی تعلیم کے مراکز اور آج کے تقاضے
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

انگریزی زبان اور علمِ نافع
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter