بے شک ہمارے ملک میں اردو زبان کو اس ملک کی ہمہ گیر زبان ہونا چاہئے اور اس کے مقابلہ میں انگریزی کو ثانوی درجہ حاصل ہونا چاہئے۔ انگریزی زبان کو بالکل نظر انداز کرنا اچھا نہ ہوگا کیونکہ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور ہمہ گیر زبان میں بھی سائنسی علوم اور جدید انکشافات کی تعبیر و تشریح کا سوال جب بھی پیدا ہو گا انگریزی زبان کی ضرورت پڑے گی۔
تمدن جدید نے انسان کو از حد خود غرض، استحصال پسند، طامع اور بے رحم بنا دیا ہے۔ آرام طلبی اور تعیش نے انسانیت کو بہت ہی غلط راستے پر ڈال دیا ہے۔ انسان اصلی اور مصنوعی ضروریات میں فرق نہیں کر سکتا اور بہت سی مصنوعی خود ساختہ ضرورتوں کو اصلی اور بنیادی ضروریات کی طرح سمجھتا ہے۔ اب اس کا علاج بغیر عمل اور اخلاص اور پختہ ایمان و ایثار کے کیسے ہو سکتا ہے؟ تعلیم کا حال بھی اسی طرح ابتر ہے اور نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے دینی مدارس ہوں یا دنیاوی، کالج ہوں یا یونیورسٹیاں، بڑے چھوٹے تعلیمی اداروں میں پوری طرح شیطان گھسا ہوا ہے اور اس نے اپنا پورا تسلط جمایا ہوا ہے۔
ہماری ناقص رائے میں سب سے پہلے تو تعلیم اور صحت دونوں کی بنیاد دینی اقدار پر رکھنی ضروری ہے، اس لیے کہ خدا شناسی اور خود شناسی دونوں ضروری ہیں۔ ذہنی، دماغی اور روحی تطہیر کا ہونا ضروری ہے اور جب تک ہمارا مطمح نظر علمِ نافع کا حصول نہ ہو، اصلاحِ حال ناممکن ہو گا ’’اللھم انی اعوذ بک من علم لا ينفع‘‘ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا فرمان مبارک ہے، اے اللہ! میں تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں، دنیا میں اور عقبی میں جو علم ضرر رساں ہو، اس سے میں پناہ چاہتا ہوں۔