شرح خواندگی میں اضافہ اور دینی مراکز

پروفیسر غلام رسول عدیم

(۱۴ مارچ ۹۶ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں الشریعہ اکیڈیمی کی دوسری کا سالانہ تعلیمی کانفرنس میں پڑھا گیا۔)


صدر گرامی قدر اور سامعین کرام! علم و تعلیم کی فضیلت اور اہمیت کے بارے میں کسی دور میں بھی دو رائیں نہیں رہیں۔ جب سے انسان نے شعور کی آنکھ کھولی ہے انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی دوائر میں بھی تعلیم و تعلم کا عمل جاری رہا ہے۔ 

قرآنی مضامین میں علم اور اہلِ علم کی قدر افزائی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ قرآن اہلِ علم کو رفیع الدرجات قرار دیتا ہے يرفع اللہ الذين آمنوا منكم والذين اوتوا العلم درجات ’’اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جن کو علم عطا کیا گیا بلند درجوں پر فائز کرے گا‘‘ (المجادلہ ۱۱) 

قرآن استفهام انکاری کے انداز میں استفسار کرتا ہے ھل يستوى الذين يعلمون والذين لا يعلمون ’’کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ لوگ جن کے پاس علم نہیں ہے، برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘(الزمر ۹) 

سب سے بڑھ کر یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے جو دعائیں ادا کرائی گئیں، پورے قرآن میں کسی ایک میں بھی بجز علم کے اضافہ و زیادت کے الفاظ نہیں ملتے، صرف علم ہی کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس کے لیے کہلوا لیا گیا  قل رب زدنی علما ’’اے میرے رب! مجھے مزید علم عطا فرما‘‘ (طہ ۱۱۴) 

اگر فرموداتِ رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نظر جائزہ لیں تو تعلیم و تعلم سے متعلق ہمیں بیش قیمت جواہر ریزے ملتے ہیں۔ طلبِ علم کے ضمن میں ارشاد ہوتا ہے من خرج فی طلب العلم فہو فی سبيل اللہ حتی يرجع ’’جو شخص علم کی تلاش میں نکلا وہ اللہ کے راستے میں ہے یہاں تک کہ واپس آ جائے‘‘ (ترمذی جلد ۲ ص ۹۳)

بمقابلہ عابد ایک عالم کی شان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا فضل العالم علی العابد كفضلی علیٰ ادناکم ’’عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے کہ میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ آدمی پر‘‘ (ترمذی جلد ۲ ص ۹۸)

علم کی کمی کو آثارِ قیامت میں سے قرار دیا گیا: ان من اشراط الساعۃ ان يقل العلم (بخاری جلد ۱ ص ۱۸)

یہ ایک حقیقتِ ثابتہ ہے کہ آپؐ اُمّی تھے اور اُمّی ہونا آپ کا طرۂ امتیاز تھا، تاہم آپؐ نے تعلیم و تعلم کے ساتھ ساتھ تحریر و کتابت کی بھی حوصلہ افزائی فرمائی۔ بروایت ابی ہریرۃؓ جب ایک صحابئ رسول نے آپؐ سے خطبہ لکھوانے کی درخواست کی تو فرمایا اكتبوا لابی شاہ (ابو شاہ کو لکھ دو)۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے عبداللہ بن عمروؓ کی برتری کو تحریر ہی کی وجہ سے فانہ يكتب ولا اكتب ’’وہ لکھ لیتے ہیں اور میں لکھتا نہیں ہوں‘‘ (بخاری ص ۲۲) کہہ کر تسلیم کیا۔ 

صدر گرامی مرتبت! یہ حقائق جو قرآن و حدیث کی روشنی میں علم و ضبطِ علم سے متعلق آپ کے سامنے رکھے گئے ہیں، اسلام کی علمی اساس اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے علمی ذوق کا پتہ دیتے ہیں۔ 

آج ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں، وہ علمی جلالتوں اور فنی کمالات کا دور ہے۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں جو علوم و فنون پڑھائے اور سکھائے جاتے ہیں، ان کا ایک اجمالی جائزہ بتاتا ہے کہ کچھ علوم طبیعی: فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، فلکیات، جغرافیہ، علم طبقات الارض اور ان کی اَن گنت شاخیں ہیں۔ دوسری طرف علومِ معاشرت جیسے اقتصادیات، سیاسیات، عمرانیات، فلسفہ، نفسیات، انسانیات اور ان کی بہت سی شاخیں ہیں۔ علوم السنہ دنیا بھر کی ہزاروں زبانوں کے بڑے بڑے آٹھ خاندانوں کو محیط ہیں اور پھر ان کے علومِ آلیہ (Instrumental Learnings) الگ اپنی حیثیت رکھتے ہیں۔  دینی علوم جو اسلام، یہودیت، نصرانیت جیسے الہامی اور ہندو مت، بدھ مت، جین مت، زرشتی مذاہب اور تاؤازم جیسے غیر الہامی مذاہب پر مشتمل ہیں، مستقلاً فکری دھاروں کے رخ متعین کرتے ہیں۔ ان پر مستزاد جدید ٹیکنالوجی کے معرکے، جس نے مادے کو تبدلات کی بھٹی سے گزار کر انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے، جوہری توانائی اور الیکٹرانک کی نادرہ کاریوں نے تو محیر العقول معجزے کر دکھائے ہیں۔ 

لیکن حضرات یہ تصویر کا ایک رخ ہے جو بظاہر بڑا دل آویز ہے، مگر ہم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ایک طرف تو ابن آدم علم و حکمت اور دانش و بینش کے فلک الافلاک کو چھو رہا ہے۔ دوسری طرف اسی بنی نوع انسان کا ایک بہت بڑا طبقہ علمی وجاہت تو کیا معمولی نوشت و خواند سے بھی محروم ہے۔ ایسی بلندی، ایسی پستی! العجب ثم العجب ثم العجب!!! آج کی نشست میں ہم اسی ہولناک خلا کی نشاندہی کر کے پاکستانی معاشرے میں دینی مراکز کے حوالے سے چند تجاویز سامنے لائیں گے۔ 

صدر والا قدر! مجھے اجازت دیجئے کہ میں خواندگی کے بارے میں بھی کچھ عرض کرتا چلوں۔ خواندگی کا لفظ بظاہر محض پڑھنے کے معنی دیتا ہے۔ تاہم اس کا انگریزی متبادل لفظ Literacy ہے جو اپنی اصل کے اعتبار سے لاطینی Littera (انگریزی Letter) یعنی حروف تہجی سے ماخوذ ہے، یوں Literacy کے معنی بھی حرف شناسی کے ہیں۔ تاہم دور حاضر میں خواندگی یا Literacy محض پڑھنے تک ہی محدود نہیں رہی، اس میں لکھنا اور حساب کرنا بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ اس موضوع پر انسائیکلوپیڈیا امریکانا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

Literacy is the ability to read and write. This ability or lack of it, illiteracy, can be defined in several ways. People can be called literate if they can read a few lines and sign their names. Many authorities feel that more realistic criterion involves writing useful letters, reading materials such as newspapers and dealing with business firms  — that is, being functionally literate.  Reducing illiteracy is one of the major tasks of education around the world.

معلوم ہوا کہ تعلیم (Education) کا ایک بہت بڑا کام ناخواندگی کو دور کرنا بھی ہے۔ حضرات! ناخواندگی دور کرنے کے ڈانڈے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور فرخ فال سے جا ملتے ہیں۔ امام بخاری اپنی شہرہ آفاق صحیح بخاری جلد اول کے ص ۷ا پر تفقہوا قبل ان تسودوا والی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں  قال ابو عبد اللہ قد تعلم اصحاب النبی بعد كبر سنہم۔ ظاہر ہے کہ کوئی شخص اپنی عمر رسیدگی میں جب جسمانی قویٰ بہت حد تک مضمحل ہو چکے ہوتے ہیں، وہ علمی شکوہ تو حاصل نہیں کر سکتا جو اوائل عمر سے حصولِ علم کے لیے کوشش کرنے والوں کو حاصل ہوتا ہے۔ یوں امام بخاریؒ کے اس قول سے خواندگی اور بالخصوص تعلیم بالغاں کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے۔ 

حضرات! جہاں تک پاکستان کے تعلیمی مسائل کا تعلق ہے، ان کا تفصیلی تذکرہ اس مقالے کے موضوع سے خارج ہے۔ وہ تعلیمِ نسواں کا مسئلہ ہو یا پیشہ ورانہ اخلاق کا، طلبہ میں ضبط و نظم کے فقدان کا مسئلہ ہو یا معیارِ تعلیم کے انحطاط کا، تعلیم میں یکساں مواقع کی عدمِ فراہمی کا مسئلہ ہو یا تعلیم اور روزگار میں عدمِ توازن کا، وہ ترکِ تعلیم کے وجوہ ہوں یا ناخواندگی یا خواندگی میں کمی کا مسئلہ، ماہرین تعلیم میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ خواندگی کا مسئلہ سب سے زیادہ گھمبیر بھی ہے اور سنگین بھی۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح حیرت ناک ہی نہیں، اندوہ ناک حد تک کم ہے۔

ایک نظر ان اعداد و شواہد پر ڈالئے تو حقائق اظہر من الشمس ہو جائیں گے۔

سال — شرح خواندگی

۱۹۴۷ء — ۱۵٪ (قیامِ پاکستان کے وقت)

۱۹۵۱ء — ۴ء۱۶٪

۱۹۶۱ء — ۶ء۱۳٪ 

۱۹۷۲ — ۷ء۲۱٪ 

۱۹۸۱ء — ۲ء۲۶٪  (مردوں میں ۱ء۳۵٪  اور عورتوں میں ۱ء۱۶٪  ہے)

اگر پاکستان اور دنیا کے دوسرے ملکوں کا شرح خواندگی کے اعتبار سے موازنہ کیا جائے تو اندیشہ ناک حقائق سامنے آتے ہیں۔ صرف ایک سال ۱۹۸۸ء کے اعداد و شمار ملاحظہ کیجئے۔ پاکستان ۳۰ بز (ساتویں منصوبے کے تحت) یعنی ۷۰% عوام ناخواندہ ہیں قومی ترقی میں کیا حصہ لے سکیں گے۔ 

پاکستان — ۳۰٪ (ساتویں منصوبے کے تحت) یعنی ۷۰٪  عوام ناخواندہ ہیں، قومی ترقی میں کیا حصہ لے سکیں گے؟

بنگلہ دیش — ۱ء۳۳٪ 

بھارت — ۵ء۴۳٪ 

ایران — ۸ء۵۰٪ 

انڈونیشیا — ۷۴٪ 

ترکی — ۲ء۷۴٪ 

فلپائن — ۴ء۸۵٪ 

سری لنکا — ۱ء۸۷٪ 

تھائی لینڈ — ۹۱٪ 

عوامی کوریا — ۹۳٪ 

جاپان — ۳ء۹۹٪

یہ صرف ایشائی ممالک میں سے بعض کی جھلک ہے، مغربی دنیا سے اس سلسلے میں مقابلہ ہی نہیں۔

حضرات! اگر خواندگی میں کمی کے وجوہ کا جائزہ لیا جائے تو کئی اسباب سامنے آئیں گے جن میں سے چند یہ ہیں:

۱۔ آبادی میں روز بروز اضافہ: پاکستان کی آبادی ۳٪ سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے یعنی ۳۵ لاکھ بچوں کے لیے سالانہ تعلیمی سہولتیں مطلوب ہوتی ہیں۔ آبادی میں تو اضافہ ہو رہا ہے اور سکولوں کی تعداد میں اس شرح سے اضافہ نہیں ہو رہا۔ 

۲۔ تعلیم پر خرچ:  یونیسکو (UNESCO) کی سفارش کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو کم از کم مجموعی قومی آمدنی کا ۴٪ تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے جبکہ پاکستان صرف ۲٪ خرچ کرتا ہے۔ 

۳۔ تعلیم کی اہمیت:  چونکہ کثیر تعداد ناخواندہ افراد پر مشتمل ہے اس لیے وہ تعلیم کی اہمیت ہی کو نہیں سمجھتے۔

۴۔ پرائمری سکولوں میں داخلہ:  پاکستان میں ۵ سے ۱۰ سال کی عمر کے بچوں کی تعداد کا صرف ۴۵٪ حصہ سکولوں میں داخلہ لے پاتا ہے۔ اس میں بھی ۶۶٪ لڑکوں اور ۳۳٪ لڑکیوں کو داخلہ ملتا ہے۔ 

۵۔ ترک تعلیم:  ساتویں پانچ سالہ منصوبے کے مطابق ۶۴٪ بچے سکولوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ باقی ۳۶٪ ناخواندگی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اور داخلہ لینے والوں میں ۵۰٪ پرائمری پاس کر کے تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔

۶۔ معاشی مجبوریاں:  غریب والدین بالکل چھوٹی عمر میں بچوں کو کام پر لگا دیتے ہیں۔ وہ تعلیم سے یکسر محروم رہ کر ناخواندگی میں اضافے کا موجب بنتے ہیں۔ 

۷۔ ناقص منصوبہ بندی: تعلیمِ عام کے حکومتی منصوبوں میں انتظامی اور ناقص منصوبہ بندی کے بڑے بڑے خلا ہیں۔ 

حکومت نے بلاشبہ کسی حد تک خواندگی کی شرح بڑھانے کی طرف پیش رفت کی ہے مگر تاحال مقاصد حاصل نہیں ہو سکے۔  سہ پہری سکول، کچی آبادی پراجیکٹ، رضا کار معلم پراجیکٹ، مسجد سکول، محلہ سکول، نئی روشنی سکول، سپاہ تدریس پراجیکٹ جیسے منصوبے زیر عمل آئے مگر نتائج کچھ نہیں نکلے۔ سکولوں اور کالجوں میں بھی میٹرک، ایف اے اور بی اے کے طلبہ میں خاص منصوبے کے تحت یہ مہم چلائی گئی مگر وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ دینی مراکز اس سمت میں کیا رول ادا کر سکتے ہیں۔ 

حضرات! یہ بات تو آپ حضرات سے پوشیدہ نہیں کہ قرآن مجید کا آغازِ نزول ہی لفظ اقرا سے ہوتا ہے اور ن والقلم میں قلم کی عظمت کا اعتراف قسم کے لہجے میں صاف نظر آتا ہے۔ جہاں دینی مراکز کا فریضہ تہذیبی و تمدنی اقدار کا فروغ ہے، جہاں ان کا کام ہے کہ وہ اسلامی تراث کا احیا کریں، وہاں ان پر بہت بڑی ذمہ داری یہ بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش میں ناخواندگی کا قلع قمع کر کے پورے ماحول کو علم و دانش اور تفقہ فی الدین کے نور سے جگمگا دیں۔ یہ مراکز منارہ ہائے نور ہیں مگر کتنی الم انگیز صورت حال ہے کہ انہیں کے سائے میں نوشت و خواند اور حرف شناسی سے بے بہرہ محروم القسمت بھی موجود ہیں۔

میری رائے میں:

(۱) دینی مراکز کے اساتذہ، جو علم و فضل کے کوہ ہائے گراں ہیں، اپنے طلبہ میں خواندگی کی اہمیت اجاگر کریں۔ وہ ان کے ذہن میں یہ نقش مرتسم کر دیں کہ وہ خود تو دینی علوم کے حصول کے لیے شبانہ روز محنت میں سرگرمِ عمل رہتے ہیں، انہیں اَن پڑھ لوگوں کی بھی خبر لینا چاہیے۔ کیونکہ ایسے لوگ دینی فرائض کو بوجوہ احسن ادا نہیں کر سکیں گے۔ یوں طلبہ میں ذہنی طور پر ایک مثبت فکر اور دلی طور پر ایک داعیہ پیدا کر دیا جائے کہ وہ اس میدان میں ناخواندگی اور جہالت کے خلاف سپاہی بن کر اٹھ کھڑے ہوں۔ 

(۲) دینی درسگاہیں ناخواندگی کے ازالے کے لیے جو اہم کام کر سکتی ہیں، وہ یہ کہ عامتہ الناس میں نوشت و خواند کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے کلاسوں کا اہتمام کریں۔ دینی مدارس کے طلبہ اپنی تعلیم سے کچھ وقت نکال کر ان ناخواندہ لوگوں کو تعلیم دیں۔ اپنے ٹائم ٹیبل میں اس کار خیر کے لیے گنجائش پیدا کریں۔

(۳) ہر طالب علم اپنی نجی حیثیت میں Each one teach one (ایک پڑھائے ایک) کے Slogan کے ساتھ ایک سال میں کم از کم ایک ناخواندہ فرد کو خواندگی کی حد تک با صلاحیت کر دے۔ وہ ناخواندہ افراد کو باور کرا دیں کہ نعم الانيس اذا خلوت كتاب۔

(۴) تشویق و ترغیب میں قدرے اجباری پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے دینی مراکز کے مہتمم حضرات کسی طالب علم کو سند فراغ اس وقت جاری کریں جب وہ یہ ثابت کر دے کہ اس نے دورانِ سال میں کم از کم ایک ناخواندہ شخص کو پڑھنے لکھنے کے قابل بنا دیا ہے۔ 

(۵) دینی درسگاہوں کے طالب علم کچھ وقت کے لیے معاشرے کے مختلف طبقوں سے ارتباط پیدا کریں اور ناخواندہ افراد کو تلاش کر کے ان کو تعلیم دیں۔ اس تجویز سے دوہرے فائدے کا حصول ممکن ہے۔ جب وہ اپنے مخصوص اور محدود ماحول سے نکل کر خواندگی کے مراکز قائم کریں گے تو ایک تو وہ خواندگی میں اضافہ کر رہے ہوں گے، دوسرے اپنے زیر اثر افراد میں اپنے نقطہ نگاہ کا پرچار کر رہے ہوں گے۔ یوں تبلیغ و دعوت کا فریضہ بھی انجام پذیر ہو گا۔ اس ارتباط و اختلاط سے ایک اور فائدے کی بھی توقع کی جا سکتی ہے کہ دینی درسگاہوں کے طلبہ جو کئی سال دینی مرکز ہی میں گزار کر باہر نکلتے ہیں تو معاشرے میں اپنے آپ کو Unfit نہ سہی Misfit ضرور پاتے ہیں۔ یوں وہ معاشرے میں اپنے گرد و پیش کے محاسن و معایب سے خوب باخبر ہو سکیں گے۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ انہیں لوگوں میں کامیاب زندگی گزار سکیں گے جن کی انہیں مستقبل میں رہنمائی کرناہے۔ 

(۶) حکومت نے بھی ناخواندگی کے خلاف کچھ منصوبے شروع کر رکھے ہیں مگر وہ انتظامی کمزوریوں اور روایتی حکومتی التوائی حیلوں کی نذر ہو رہے ہیں۔ اگر دینی مراکز کے اہل حل و عقد اس طرف توجہ فرمائیں تو ان حکومتی منصوبوں میں ہاتھ بٹا کر انہیں فعال بنا سکتے ہیں۔ دینی مراکز کے ارباب بست و کشاد اگر اپنے اندر قدرے لچک پیدا کر لیں تو ان کے پاس جو سرمایہ ہے، یعنی ان کے طالب علم، قوم و ملک کا سرمایہ افتخار بن سکتے ہیں۔ 

(۷) حکومت اور فلاحی ادارے بھی اس سمت میں اگر ان طلبہ کی خدمات لینا چاہیں تو وہ ان کی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس کے لیے وہ انہیں فنڈ مہیا کر سکتے ہیں۔ اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر دینی مراکز کے انتظامی، علمی، تعلیمی، تدریسی اور فکری پروگرام میں دخیل ہوئے بغیر وہ ان سے کام لے سکتے ہیں۔ اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ جس تڑپ، لگن اور خلوصِ نیت سے دینی مراکز کے خدا ترس اور تقویٰ شعار لوگ اس صلاحی و فلاحی کام میں حصہ لیں گے، دوسرے لوگ نہیں لے سکتے۔

حضرات! حرفِ آخر کے طور پر عرض کروں گا کہ اگر ان تجاویز پر عمل کیا جائے، یا ان کو زیر بحث لاکر مزید رائے زنی کر کے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار کر لیا جائے تو پاکستان میں افسوسناک شرح خواندگی میں حوصلہ افزا حد تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔


تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(جولائی ۱۹۹۶ء)

جولائی ۱۹۹۶ء

جلد ۷ ۔ شمارہ ۳

حکومت اور دینی مدارس کی کشمکش کا ایک جائزہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تعلیمِ کتاب و حکمت: سنتِ نبویؐ
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور اس کے تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جدید نظریاتی چیلنج اور علمائے کرام
مولانا محمد عیسٰی منصوری

دینی مدارس، پس منظر اور مقاصد و خدمات
مولانا حافظ صلاح الدین یوسف

دینی مدارس، بنیاد پرستی اور انسانی حقوق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

برق گرتی ہے تو بیچارے ملاؤں پر
خورشید احمد گیلانی

تعلیم کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار
شکور طاہر

شرح خواندگی میں اضافہ اور دینی مراکز
پروفیسر غلام رسول عدیم

دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس سے جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کا خطاب
جسٹس محمد رفیق تارڑ

خیر مقدم
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

موسم برسات میں ہیضہ سے بچاؤ کے لیے خصوصی تدابیر
حکیم عبد الرشید شاہد

دینی مدارس اور زمانے کے تقاضے
مولانا ابوالکلام آزادؒ

دینی تعلیم کے مراکز اور آج کے تقاضے
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

انگریزی زبان اور علمِ نافع
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter