جدید نظریاتی چیلنج اور علمائے کرام

مولانا محمد عیسٰی منصوری

موجودہ دور کا سب سے بڑا مسئلہ ان افکار و نظریات کا ہے جو اس زمانہ میں مذہب کی جگہ لے چکے ہیں۔ اسلام ایک واضح فکر و عقیدہ کا نام ہے جو اپنی سادگی، حقانیت، فطرت اور عقلِ سلیم کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے اپنے اندر زبردست کشش و قوت رکھتا ہے۔ دشمنانِ اسلام ہمیشہ اسلام کی دعوت و فکر کی طاقت سے خوفزدہ رہے۔ یورپ صلیبی جنگوں کے بعد یہ حقیقت سمجھ چکا تھا کہ اسلام کو نہ نظریہ و فکر کے میدان میں شکست دی جا سکتی ہے اور نہ عسکری میدان میں، اس صدیوں کے غور و فکر مطالعہ و تحقیق کے بعد مسلمانوں کو رام کرنے کے لیے ایسا راستہ اختیار کیا جس سے مسلمان اپنی پوری تاریخ میں نا آشنا تھے۔ اسلام کے شاطر دشمنوں نے خلافِ اسلام افکار و نظریات کو خوشنما بنا کر جدید انداز میں اس طرح مسلمانوں کے دل و دماغ میں اتار دیا کہ جن کے قبول کرنے کے بعد خودبخود اسلام کی صداقت و حقانیت میں شکوک و شبہات پیدا ہو کر انسان اسلام کی بنیادی صداقتوں اور اسلامیات سے بے گانہ ہو جاتا ہے۔ 

اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ کسی بھی پہلو سے اسلام کا کھلم کھلا حریف بننے کے بجائے مذہب کا ایسا تصور پیش کر دیا جائے اور اس پر چاروں طرف سے ایسے افکار و نظریات کی یلغار کر دی جائے جو اسلام کے بنیادی عقائد و نظریات کو متزلزل کر دے، اور مسلمان کو اس بات کا شبہ تک نہ ہو کہ وہ اسلام کی مخالف سمت میں جا رہا ہے۔ کیونکہ دشمن اس حقیقت سے بخوبی واقف تھا کہ مسلمان اپنے مذہب کے بارے میں انتہائی ذکی الحس واقع ہوا ہے، اور اسلام کی چھوٹی چھوٹی بات کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنا اس کے لیے معمولی چیز ہے۔ اس لیے گزشتہ ڈیڑھ دو صدی سے اس کا حملہ ایک ایسی سمت سے ہو رہا ہے جس سے پوری تاریخ میں مسلمان ناواقف رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ آہستہ آہستہ اسلام سے بیگانہ ہو کر ایسے افکار و نظریات کو اپنا چکے ہیں جس کے نتیجے میں انسان اسلام کے بنیادی عقائد و افکار سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ یہ خاموش فکری حملہ گزشتہ صدیوں کے دوران عالمِ اسلام پر یورپ کی عسکری و سیاسی ساخت کے پس پشت تعلیم، جدید افکار کے نام پر اسلام سے تصادم کیے بغیر اس خاموشی سے داخل ہو گیا کہ مسلم علماء و مفکرین کو عرصہ تک اس کا احساس تک نہیں ہو سکا کہ اس سے کتنی تباہی آئی ہے۔ 

اب بھی مغرب کی یلغار برابر جاری ہے، اس کی تکنیک اور طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ اسلام کے مقابلہ پر نہیں آتا اور نہ صراحتاً‌ اسلام کی تردید کرتا ہے، بلکہ بظاہر اسلام سے بالکل لاتعلق و اجنبی نظر آتا ہے اور اسلام سے اس طرح قطع نظر کرتا ہے گویا وہ جانتا ہی نہیں کہ یہ سب کچھ اسلام کے عین ضد اور مقابل ہے۔ وہ علم و تحقیق، عقلی استدلالات، اور جدید نظریات کے نام پر انسان اور کائنات کی ایسی تشریح و توضیح کرتا ہے جس سے خدا، رسالت و آخرت اور سرے سے مذہب کی کوئی گنجائش و ضرورت نہیں رہی۔ کسی مسلمان کو ذرہ برابر شک نہیں ہوتا کہ ان افکار و نظریات کا قائل ہوتا اور تسلیم کرنا اسلام کے انکار کو مستلزم ہے۔ 

عالمِ اسلام یورپ کی سائنسی و ٹیکنالوجی ترقی اور دیگر عصری علوم کے میدان میں اس کی متواتر کامیابیوں اور سبقت سے مرعوبیت کے سبب علم و عقل کی اور شریعت کی کسوٹی پر کسے بغیر ان اوہام و خرافات کو علم و عقل، شعور و آگہی اور ترقی کے نام پر قبول کر چکے ہیں۔ جب مسلمان ان افکار و نظریات کو اختیار کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ علم و آگہی، ترقی یافتہ نظریات، اور جدید فلسفوں کو اختیار کر رہا ہے۔ اس طرح یہ خلافِ اسلام باطل افکار اس طرح قبول کر لیے جاتے ہیں کہ ان کے دل میں اس بات کی کھٹک تک نہیں ہوتی کہ ان کے قبول کرنے سے اسلام کی نفی ہو رہی ہے۔ غرض یہ بات حرف بحرف صحیح ہے کہ اس پیمانے پر اس نوعیت کا فتنہ جسے بجا طور پر ایک جدید ارتداد کہا جا سکتا ہے، اسلام کی پوری تاریخ میں کبھی رونما نہیں ہوا۔ 

اس ماڈرن ارتداد کی تکنیک اور طریقہ واردات سے عام مسلمان تو کجا، ہمارے مذہبی رہنما اور علمائے کرام تک اتنے بے خبر اور ناواقف ہیں کہ انہیں اس کی اتنی بھی فکر نہیں ہوتی جتنی گزشتہ زمانہ میں چند مسلمانوں کے عیسائی یا ہندو ہو جانے سے ہوتی تھی۔ معلوم ہوتا ہے وہ اس طوفان کی زہرناکی، منفی اثرات، گہرائی و گیرائی کا کماحقہ شعور و احساس نہ کر سکے۔ علم و جدید فکر کی اس نظریاتی یلغار کو بجا طور پر جدید ارتداد کہا جا سکتا ہے۔ 

مذاہب اور ارتداد کی تاریخ کا بہ نظر غائر مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی معاشرہ میں ارتداد دفعتاً‌ نہیں آتا بلکہ اس کے اثرات تدریجاً‌ رونما ہوتے ہیں۔ پہلے باطل نظریات و افکار سے دل و دماغ متاثر ہوتا ہے، اسلام کے بنیادی عقائد و تصورات سے اعتماد متزلزل ہوتا ہے، ایمانیات میں شکوک و شبہات در آتے ہیں، پھر اس کے اثرات عمل پر پڑتے ہیں، اجتماعی معاملات (اقتصادیات، سیاست، نظم و نسق اور قانون) میں اسلام ناقابل عمل نظر آتا ہے۔ پھر عبادت، نماز، روزہ وغیرہ میں ضعف اور اضمحلال پیدا ہوتا ہے۔ اس کے آخر میں زبان پر بھی آتا ہے۔ یعنی لسانی سے پہلے قلبی و عملی ارتداد آتا ہے۔ 

اب مغرب کے جدید تکنیک و طریقہ واردات نے یہ سہولت بھی مہیا کر دی ہے کہ زبان پر لانے کی ضرورت ہی نہیں۔ اس کے نزدیک مسلم معاشروں میں داخل رہ کر ہی اس کی بہترین خدمت انجام دی جا سکتی ہے۔ پہلے زمانہ میں جب کوئی مسلمان کسی باطل مذہب کے اثرات قبول کرتا تھا تو ضروری تھا کہ وہ کسی گرجا یا مندر میں جا کر شدھی یا بپتسمہ کی رسمی کارروائی سے گزرے۔ گلے میں صلیب ڈالے یا ماتھے پر قشقہ لگائے۔ اس کے بعد وہ مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہو جاتا اور اسلام سے اس کی دشمنی آشکارا ہو جاتی اور دوسرے مسلمان اس کی طرف سے ہوشیار اور چوکنا ہو جاتے۔ لیکن اسلام پر یہ نیا حملہ کسی مذہب کے نام پر نہیں بلکہ علم و عقل، شعور و آگہی، فلسفہ و نظریات کے نام پر ہوا ہے اور اس نے اپنے پرستاروں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی عقائد و افکار و نظریات سے الگ ہو کر بھی مسلمانوں کے معاشرہ میں مسلمان بن کر رہیں، ان ہی میں شادی بیاہ کریں، دوستی، رشتہ داری، میل ملاپ اور کھانے پینے کے تعلقات قائم رکھیں۔ کبھی کبھی رسمی طور پر ان کی عبادات (جمعہ، عیدین) میں بھی شریک ہوں۔ ان لوگوں کو مسلم معاشرہ میں ان کے تمول اور تعلیم و سیاست میں امتیاز کی وجہ سے خصوصی عزت و توقیر کا مستحق سمجھا جاتا ہے اور سوسائٹی میں امتیازی درجہ دیا جاتا ہے، وہ بڑی شان و شوکت سے مسلم گھرانوں میں شادی رچاتے ہیں، مرنے کے بعد بڑے بڑے مجمع ان کا جنازہ پڑھتے ہیں، مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہوتے ہیں۔ 

یہ اسلام کے ماڈرن مرتد فقط اپنی ذات تک ہی ایسی راہ اختیار نہیں کرتے جو اسلام کے بالکل برعکس سمت میں جاتی ہے، بلکہ آگے بڑھ کر یہ حضرات تعلیم و سیاست میں ممتاز ہونے کی وجہ سے سیاست و حکومت، کونسلوں اور اسمبلیوں، وزارتوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو کر اور اونچی اونچی کرسیوں پر براجمان ہو کر مسلمانوں کے اعلانیہ نمائندے کہلاتے ہیں۔ بلکہ ان کے حساس ترین اور کلیدی مسائل کو اپنے نظریات و صوابدید کے مطابق طے کرتے ہیں۔ دشمنانِ اسلام (یہود و نصاری، ہنود) سے سیاست و حکمرانی، ثقافت و کلچر، اقتصادیات و تجارت، تعلیم و آرٹ کے حوالہ سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ بیرونی اسلام دشمن طاقتیں انہیں اپنا نمائندہ بنا کر جوش و خروش سے ان کا استقبال کرتی ہیں کیونکہ فی الحقیقت یہ لوگ اپنی بڑی طاقتوں کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ مغربی میڈیا انہیں مسیحا بنا کر پیش کرتا ہے اور بڑی طاقتیں ان کے واسطے سے ترقی و خوشحالی کے نام پر مسلم ملکوں اور معاشروں میں اپنی پالیسیاں، نظریات، ثقافت و کلچر پوری آزادی و سہولت سے نافذ کرتی ہیں۔ اور ان لوگوں کے واسطے سے مسلم ملکوں کی اقتصادیات، تجارت، تعلیمی و تمدنی مراکز، معاشرت، غرض ہر ہر میدان میں اپنا اثر و نفوذ بڑھاتی جاتی ہیں۔ 

ان بیرونی طاقتوں کے لیے یہ راستہ براہ راست مسلم قوموں و ملکوں کو غلام بنا کر ان پر کنٹرول کرنے کی ہزاروں دقتوں اور پریشانیوں کی نسبت آسان و کم خرچ اور بے خطر نظر آتا ہے۔ جب کبھی یہ اسلام دشمن طاقتیں یہ دیکھتی ہیں کہ ان لوگوں میں کوئی اپنے عوام پر گرفت کھو چکا ہے اور اس کے واسطے سے اپنی تجارتی و معاشی، تہذیبی و تمدنی، فکری و نظریاتی پالیسیاں جاری رکھنی دشوار ہو گئی ہیں، یہ عام لوگ ان سے بیزار ہو کر اسلام کی طرف دیکھنے لگے ہیں، تو بڑی چابک دستی و ہوشیاری سے وہ اس مہرہ کو ہٹا کر دوسرا مہرہ لے آتی ہیں جو ان کی حسب ہدایت وقتاً‌ فوقتاً‌ اسلام بھی پڑھتا ہے اور ضرورت پڑے تو عمرے بھی کرتا ہے، ہاتھ میں تسبیح پکڑ لیتا ہے، پھر دوبارہ عالمی میڈیا (جس پر اسلام دشمن طاقتوں کی مکمل اجارہ داری ہے) اس کا امیج بنانے میں جت جاتا ہے۔ اس طرح مسلم قوم اور ملک اس دوسرے مہرے کے ساتھ چلنے لگتے ہیں۔

استعماری طاقتوں سے سیاسی آزادی حاصل کرنے کے بعد ہر مسلم ملک کی یہی مسلسل کہانی ہے کہ ان کے حکمرانوں اور سربرآوردہ طبقہ کے دل و دماغ پر قرآن اور محمدؐ کے بجائے مغربی افکار و نظریات کی حکمرانی رہی۔ مسلم دنیا کی بھاری اکثریت جو اسلام اور قرآن پر غیر متزلزل یقین و ایمان رکھتی ہے، وہ اپنی سادگی و سادہ لوحی سے یہ سمجھتی ہے کہ پہلے چند سال ملک کو معاشی استحکام و خوشحالی ہو جائے تو ہمارے حکمران خودبخود قرآن و سنت کی شاہراہ پر لے چلیں گے۔ اس خوش فہمی میں قوم ان کے قدم بقدم ساتھ چلتی رہتی ہے۔ 

مسلم ملکوں میں اگرچہ مغربی تہذیب و افکار کے نمائندوں کی تعداد ۲-۴ فیصد سے زیادہ سے زائد نہیں، مگر ان افراد کی طاقت اور وسعتِ اختیار کا یہ حال ہے کہ وہ سیاست و حکومت، تجارت و معیشت، تعلیم و ذرائع ابلاغ پر پوری طرح حاوی و قابض ہونے کی وجہ سے بآسانی اسلام کا درد و فکر رکھنے والی جماعتوں، تنظیموں اور علماء کو کچل دیتے ہیں۔ اور جدید ذرائع ابلاغ کے پراپیگنڈے کے زور پر انہیں علم و سائنس اور ترقی و خوشحالی کا دشمن ظاہر کر کے پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ دینی جماعتیں اور علماء ذرائع ابلاغ میں اپنا نقطۂ نظر تک پیش نہیں کر پاتیں اور اس گھناؤنے طریقے پر ان کی کردارکشی کی جاتی ہے کہ وہ دیوار سے لگ جاتے ہیں۔ اور اس سارے عمل میں انہیں بیرونی اسلام دشمن طاقتوں اور عالمی میڈیا کی بھر پور آشیر باد حاصل رہتی ہے۔ پھر اطمینان سے یہ لوگ اپنے بیرونی سرپرستوں اور آقاؤں کے مفادات پورے کرنے لگ جاتے ہیں۔ 

یہ بات پورے وثوق سے کی جا سکتی ہے کہ تاریخ میں اس سے پہلے کبھی اسلام کو اس صورت حال سے اور اس نوعیت کے فکری و نظریاتی حملہ سے سابقہ نہیں پڑا تھا۔ یہ فکری یلغار جتنی عام اور ہمہ گیر تھی، بظاہر اتنی ہی سادہ اور مذہب سے بے تعلق دکھائی دیتی تھی۔ بدقسمتی سے مذہبی طبقہ اور علمائے کرام گزشتہ کئی صدیوں سے علمی و فکری اعتبار سے دورِ زوال میں ہیں، انہوں نے خود اپنے اوپر علم و تحقیق و اجتہاد کے دروازے بند کر لیے ہیں۔ وہ قرونِ وسطی کی اُن لایعنی لفظی بحثوں کے امیر ہو کر رہ گئے ہیں جن کی اس دور میں کوئی افادیت و اہمیت باقی نہیں رہ گئی، خاص طور پر گزشتہ دو صدیاں عالمِ اسلام کے لیے انتہائی نکبت و ادبار، شکستگی و مایوسی، غلامی و غیروں کی نقالی میں گزری ہیں۔ ان میں علماء کا جمود و حالات سے بے خبری، عصری علوم سے ناواقفیت، جدید افکار و نظریات سے بے تعلقی اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ وہ اپنے زمانہ کے تقاضوں کو سمجھنے کی بصیرت و شعور سے دور جا پڑے تھے۔ اس لیے وہ ان جدید افکار و نظریات کی چھان پھٹک کر کے انہیں قرآن و سنت اور علم و عقل کی میزان پر تولنے کے قابل نہیں رہ گئے تھے۔ 

اس طرح علمائے کرام اس نئے آنے والے فکری طوفان سے بڑی حد تک غافل اور بے خبر رہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ اب تک اس نئے حملے کی نوعیت و گہرائی کو سمجھ نہیں پائے کیونکہ اسلام کے فکری نظام اور بنیادی عقائد پر تیشہ چلانے والے یہ کفریہ افکار و نظریات کسی مذہب کے نام پر نہیں بلکہ عقل و دانش اور جدید تھیوری و فلسفوں کے نام سے داخل ہوئے تھے۔ ان کے اثر و نفوذ کا یہ عالم ہے کہ کروڑہا مسلمان اس کی زد میں بہہ کر اسلام کی اساسیات اور بنیادی عقائد سے بیگانہ ہو گئے، اور خبر تک نہیں ہوئی کہ ماڈرن نظریات کے نام پر کتنی زبر دست تباہی ملتِ اسلامیہ میں آئی ہے۔ 

اس مسئلہ کی طرف نصف صدی پیشتر غالباً‌ سب سے پہلے جدید طبقہ میں ڈاکٹر رفیع الدین صاحب مرحوم نے توجہ دلائی تھی اور طبقہ علماء میں مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے اس پر لکھا۔ ان کے بعد مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے دمشق سے نکلنے والے ’’اخوان المسلمین‘‘ کے آرگن رسالہ ’’المسلمون‘‘ میں ’’ردۃ جديدۃ‘‘ کے نام سے دو قسطوں میں ایک مضمون لکھا جس کا اردو ترجمہ اس وقت ’’الفرقان‘‘ میں مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی نے ’’نیا طوفان اور اس کا مقابلہ‘‘کے نام شائع کیا۔ اس کے بعد پھر مسلسل خاموشی ہے، حالانکہ مرض کی صحیح نشاندہی کے بعد اس عرصہ میں کئی علمی و تحقیقی ادارے جدید تعلیم یافتہ ذہنوں کو سامنے رکھ کر عصری اسلوب میں طاقتور لٹریچر اور جدید علمِ کلام کا پورا کتب خانہ وجود میں آ جانا چاہیے تھا۔ 

میں معذرت کے ساتھ پھر وہی بات کہوں گا کہ عالمِ اسلام کی سیاسی آزادی کے بعد بھی ہمیں علمی و فکری غلامی سے نجات نہ مل سکی۔ اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری علمائے کرام پر عائد ہوتی ہے، ضرورت ہے کہ وہ اس خول سے باہر نکلنے کی جرأت کریں جو انہوں نے قرونِ وسطیٰ میں قرآن و سنت کی تعبیر و تفہیم کے لیے یونانی و اشراقی باطل افکار کا حصار اپنے گرد بنا رکھا ہے۔ اس طرح وہ اب تک ان لفظی موشگافیوں اور لایعنی فرسودہ افکار کے دھندلکے کی وجہ سے عصرِ حاضر کو نہیں دیکھ پا رہے ہیں، اور بزعم خود یہ سمجھ رہے ہیں کہ ارسطو و جالینوس، فارابی و بو علی سینا کے افکار و نظریات کی تردید سے انہیں خودبخود آج کے جدید افکار و نظریات کا بھی جواب مل جاتا ہے، اس لیے انہیں ان کے مطالعہ و تحقیق اور تجزیہ کی زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ وقت کا تقاضا ہے کہ جدید نظریات سے آنکھیں چرانے کے بجائے جرأت سے ان کا سامنا کریں اور انہیں قرآن و سنت اور علم و عقل کی کسوٹی پر پرکھیں اور ان کا پوسٹ مارٹم کر کے ان سے غیر اسلامی اجزاء کو اس طرح خارج کریں جس طرح ان کے اسلاف نے تیسری صدی ہجری میں یونانی و اشراقی افکار کا کیا تھا۔ 

ہمارے نزدیک صورت حال کا حل صرف اور صرف یہ ہے کہ علمائے کرام اس فاصلہ کو ختم کریں جو گزشتہ کئی صدیوں سے ان کے اور نئی نسل کے درمیان، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں ان کے اور عصری علوم و تقاضوں کے درمیان پیدا ہو گیا ہے۔ اور عصری علوم و افکارت بے خبری کو ختم کریں۔ موجودہ فکری و نظریاتی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ یورپین زبانوں، سائنٹفک طرز تحریر، جدید ترین ذرائع ابلاغ، عصری تکنیک و اسلحہ سے پوری طرح واقف ہوں، اور قرونِ وسطیٰ کے فلسفہ اور منطق اور یونانی و ایرانی افکار کے ماحول سے باہر نکلیں جو اُس وقت ایک وقتی ضرورت کے تحت اختیار کیے گئے تھے۔ تو انہیں قرآن و سنت سے عصری گمراہیوں اور فکری چیلنجوں کا علمی و فکری میدان میں جواب دینے کی پوری رہنمائی ملے گی، اس لیے کہ قرآن و سنت ہر ہر دور کی کجی و بے راہ روی اور فکری و نظریاتی ضلالت و گمراہی سے نکل کر شاہراہِ علم و حقیقت، فوز و کامرانی پر گامزن کرنے کے لیے بالکل کافی ہے، شرط یہ ہے کہ دل و دماغ کے دروازے کھلے رکھے جائیں۔


اسلام اور عصر حاضر

(جولائی ۱۹۹۶ء)

جولائی ۱۹۹۶ء

جلد ۷ ۔ شمارہ ۳

حکومت اور دینی مدارس کی کشمکش کا ایک جائزہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تعلیمِ کتاب و حکمت: سنتِ نبویؐ
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور اس کے تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جدید نظریاتی چیلنج اور علمائے کرام
مولانا محمد عیسٰی منصوری

دینی مدارس، پس منظر اور مقاصد و خدمات
مولانا حافظ صلاح الدین یوسف

دینی مدارس، بنیاد پرستی اور انسانی حقوق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

برق گرتی ہے تو بیچارے ملاؤں پر
خورشید احمد گیلانی

تعلیم کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار
شکور طاہر

شرح خواندگی میں اضافہ اور دینی مراکز
پروفیسر غلام رسول عدیم

دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس سے جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کا خطاب
جسٹس محمد رفیق تارڑ

خیر مقدم
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

موسم برسات میں ہیضہ سے بچاؤ کے لیے خصوصی تدابیر
حکیم عبد الرشید شاہد

دینی مدارس اور زمانے کے تقاضے
مولانا ابوالکلام آزادؒ

دینی تعلیم کے مراکز اور آج کے تقاضے
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

انگریزی زبان اور علمِ نافع
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter