مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ

کل مضامین: 3

انبیاءؑ کے حق میں ذنب و ضلال کا مفہوم

اہلِ اسلام کے نزدیک انبیاءؑ کی عصمت عقلاً اور نقلاً ثابت ہے اور اس کی عقلی اور نقلی دلیلیں علم کلام کی کتابوں میں مرقوم ہیں۔ اور یہ بات بھی ان کے نزدیک ضروری اور مدلل ہے کہ جو لفظ لغت سے شرع میں منقول ہوئے ہیں مثلاً صلوٰۃ اور زکوٰۃ اور حج وغیرہا، جب خدا اور رسول کے کلام میں مستعمل ہوتے ہیں تو وہ ان کے معانی شرعیہ مراد لیتے ہیں۔ اور جب تک کوئی عقلی یا نقلی دلیل قطعی ایسی نہ ہو کہ معنے شرعی کے مراد لینے سے منع کرے تب تک وہی معانی مراد لیتے...

قرآنِ کریم میں تکرار و قصص کے اسباب و وجوہ

عرب کے لوگ اکثر مشرک و بت پرست تھے اور خداوند کی توحید اور انبیاء کی نبوت اور قیامت کے آنے کا بالکل انکار کرتے تھے اور ان میں سے بعض کچھ افراط و تفریط کرتے تھے، اس لیے قرآن کے اندر مذکورہ تینوں امور کا بکثرت ذکر آیا ہے نیز تکرار و قصص کے اور بھی کئی اسباب ہیں۔ سبب اول: یہ کہ قرآن مجید فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی معجزہ ہے اس لیے ان میں ان قصص کو اللہ تعالیٰ نے بار بار ذکر کیا ہے، کہیں طویل اور کہیں مختصر، اور ہر جگہ ان کو بلاغت کے اعلیٰ درجہ پر رکھا اور پچھلی دفعہ سے زیادہ لطف مہیا...

آیت ’’توفی‘‘ کی تفسیر

سورۃ آل عمران کی آیت ۵۵ یوں ہے: اذ قال اللہ یا عیسٰی انی متوفیک و رافعک الی ومطہرک الخ۔ ترجمہ از شاہ عبد القادر صاحبؒ: ’’جس وقت کہا اللہ نے اے عیسٰیؑ! میں تجھ کو پھر لوں گا (یعنی تجھ کو لے لوں گا اور قبض کر لوں گا زمین سے) اور اٹھا لوں گا اپنی طرف (یعنی اپنے آسمان کی طرف جو کرامت کی جگہ اور ملائکہ کا مقام ہے) اور پاک کر دوں گا کافروں (کی ہمسائگی اوربرے قصد) سے‘‘۔ پہلا معنٰی: اس صورت میں لفظ ’’متوفیک‘‘ کا معنی ’’قابضک‘‘ کا ہے جیسے کہتے ہیں ’’توفیت مالی‘‘ یعنی قبض کیا اور واپس لیا میں نے اپنے مال کو اور یہی معنی جلالین میں مذکور...
1-3 (3)