دو قومی نظریہ نئی نسل کو سمجھانے کی ضرورت ہے

مولانا سعید احمد عنایت اللہ

ایک ہی آدم حوا کی اولاد، ایک علاقہ کے باسی، ایک ہی بولی بولنے والے، ایک ہی رنگ و نسل بلکہ ایک ہی شکمِ مادر سے پیدا ہونے والے دو افراط کو نظریہ اور عقیدہ دو قومیں بنا دیتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

’’اللہ تعالیٰ کی بزرگ و برتر ذات نے تم کو پیدا کیا، تم میں کوئی مومن ہے کوئی کافر‘‘ (التغابن)

اسلامی اور غیر اسلامی عقیدہ کے حامل دو اشخاص کا دو قومیت میں تقسیم ہونا خدائی عمل ہے۔ ظاہر ہےکہ ایمان و توحید کے حامل کا قلب و کردار و اعمال و طبیعت و افتاد الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں ایک مومن غیر مومن سے مختلف ہے۔ اس لیے کہ مومن کے لیے محور تو ذات حق تعالٰی ہے جن سے وہ زندگی کے ہر موڑ پر رشد و ہدایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے حاصل کر کے قدم اٹھاتا ہے۔ وہ ہر ایک کی غلامی سے آزاد ہو کر مکمل طور پر ذاتِ برحق کی غلامی میں آجاتا ہے، پھر وہ اپنے آپ کو مکلف سمجھتا ہے کہ اپنے ماحول و سوسائٹی کو بھی اسی نظریہ کی دعوت پر پورے وثوق کے ساتھ دے کہ انفرادی اور اجتماعی حیات اسی  میں ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

’’اے ایمان والو! تم خدا اور رسولؐ کی مکمل اطاعت کو لازم پکڑو کہ اس میں تمہاری زندگی ہے۔‘‘

یہی وہ عظیم فکر تھی اور عالی نظریہ تھا جس نے برصغیر کے بسنے والوں، چاہے وہ سب علاقائی اور لسانی طور پر متحد تھے، دو قومیں بنا دیا اور ان کا جغرافیائی اتحاد نظریاتی اختلاف کے سامنے تارِ عنکبوت بن گیا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، پھر تحریکِ خلافت کے روح رواں اور ہمارے مسلم زُعماء اسی نظریہ کے علمبردار تھے۔ برصغیر کے عوام کی مسلم اکثریت نے بھی اظہار کیا کہ مسلم اور ہندو ایک ساتھ ایک پرچم تلے زندگی نہیں گزار سکتے جبکہ ان کا عقیدہ، ایمان، تہذیب و تمدن الگ الگ ہے۔

مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پرچم تلے قائد اعظم، لیاقت علی خان، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا ظفر علی خان اور اپنے دیگر زعماء (رحمہم اللہ) کی قیادت میں ایک ایسے خطۂ ارض کا مطالبہ کیا جہاں وہ اسلامی نظریات اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کریں۔ وہ اسلامی ثقافت کے مطابق نشوونما پائیں اور اسلام کے عدلِ عمرانی کے اصول پر آزادانہ طور پر عمل کر سکیں۔ اسی لیے تو پورے برصغیر میں ہر بوڑھے بچے، لکھے پڑھے، ان پڑھ کی وردِ زبان تھا:

’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘

متحدہ ہندوستان کے وہ علاقے جہاں پر مسلمانوں کی آبادی اقلیت میں تھی اور انہیں یقین تھا کہ وہ پاکستان کے نقشے سے بعید ہیں وہ بھی اس مطالبے کے منوانے اور اس نظریاتی مملکت کے قیام کے لیے جہاد میں پیچھے نہ تھے۔ بلکہ ان کو تو قیامِ پاکستان کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی، ان میں سے کچھ کو اپنے موطن و مولد کو چھوڑ کر ہجرت کا عظیم عمل کرنا پڑا اور خونی دریا عبور کر کے پاکستان پہنچے، کچھ وہیں مقیم رہے اور ہندو سامراج کے ظلم کا آج تک نشانہ بن رہے ہیں۔

مسلم قوم کی مالی و جانی اور بیش بہا قربانیوں کے صدقے وجود میں آنے والی ارضِ پاک کی حدود میں شریعتِ اسلامیہ کا نفاذ اس کا بنیادی حق اور باعثِ قیام ہے جس سے سرِمو انحراف ان تمام قربانیوں کو ضایع کرنے کے ساتھ ساتھ ان اکابر سے دھوکا اور اس رب العالمین سے غداری ہے جس کے نام کا کلمہ پڑھ کر اس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ کس قدر ڈھٹائی ہے ان بے باک اور بدطینت افراد کی، چاہے وہ کسی بھی طبقہ یا کسی بھی سیاسی جماعت سے ہوں، جو آج قیامِ پاکستان کے مقصد کی کچھ اور تفسیر کر کے نظریاتی تحریف کے جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ حالانکہ قائد اعظم نے اکتوبر ۱۹۴۷ء میں مملکت کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے اپنے خطاب میں انہوں نے یہ فرمایا:

’’پاکستان کا قیام جس کے لیے ہم گذشتہ دس سال سے مسلسل کوشش کر رہے تھے اب خدا کے فضل سے ایک حقیقتِ ثانیہ بن کر سامنے آ چکا ہے، لیکن ہمارے لیے اس آزاد مملکت کا قیام ہی مقصود نہیں تھا بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ تھا۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ایسی مملکت مل جائے جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں اور جس میں ہم اپنی اسلامی روشنی اور ثقافت کے مطابق نشوونما پا سکیں اور اسلام کے عدلِ عمرانی کے اصول پر آزادانہ عمل کر سکیں۔‘‘

دو قومی نظریے کے عظیم قرآنی تصور نے مختلف لسانی اور علاقائی انسانی مجموعوں کو ایک اور صرف ایک قوم بنا دیا، پھر ۱۹۴۷ء میں دنیا کے نقشے پر ایک عظیم اسلامی سلطنت کو وجود بخشا جس سے پورے عالم کے مسلمانوں کی بہت توقعات وابستہ تھیں اور ان کو دلی خوشی تھی کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی یہ نئی ریاست اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور ان کی عظمت رفتہ کو واپس لانے کا سبب بنے گی، مگر بدقسمتی سے برسراقتدار طبقہ کی اکثریت نظریہ پاکستان سے قلبی و ذہنی طور پر لاتعلق تھی پھر نظریہ دشمن عناصر کی ریشہ دوانیاں۔ اسی طرح عظیم مقصد سے انحراف نے حالات کو ۔۔۔ کہ ۱۹۷۱ء میں ملک دولخت ہو گیا اور اس عظیم حادثہ کے بعد بھی پاکستان کے اہلِ اقتدار نے نظریہ پاکستان کی عملی طور پر پاسداری کرنے کی بجائے اپنے اقتدار کی حفاظت میں تمام تر قوتوں کو صرف کر دیا تو علاقائی اور لسانی بنیادوں پر نئے فتنوں نے جنم لیا، مزید قومیتوں میں تقسیم ہونے کا احساس پیدا ہو گیا۔

کاش کہ ہماری آنکھیں کھل جائیں۔ اے کاش کہ ہم جان لیں، اہل اقتدار بھی اور عوام من حیث القوم کہ ہمارے معاشرے کی تمام خرابیوں کی جڑ اور ہمارے تمام حقوق کے استحصال کا موجب نظریۂ پاکستان سے عملاً انحراف ہے۔ اگر ہم وطن عزیز کو اس کا بنیادی حق دلا دیں اور اسلامی نظام کی تنفیذ سے کم کسی مطالبے کو تسلیم ہی نہ کریں تو ہماری تمام شکایتیں بھی دور ہو جائیں اور انفرادی اور اجتماعی مسائل کا  حل بھی بطریق احسن ہو۔ اپنے اسلاف کی ارواح کو سکون بخشیں، ہماری طرف سے ان کی خدمت میں خراجِ عقیدت پیش کرنے کی بہترین صورت یہی ہے۔ خدائے ذوالجلال سے کیے گئے وعدے کا ایفا بھی ہو جائے گا۔ قربانی دینے والوں کی قربانیوں کی بھی قدر ہو گی۔ آئندہ نسلوں کی بھی بہترین خدمت، جن کی اسلامی اصولوں پر نشوونما اور ذہنی فکری تربیت بھی مادی تربیت کے ساتھ ساتھ ہمارے ذمہ ہے۔ ان کی اصلاح سے ہم آرام سے رہیں گے اور عند اللہ ماجور ہی نہیں بلکہ ان کے عملی اور ذہنی بگاڑ پر ہم سے باز پرس ہو گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’والد کی طرف سے اولاد کے لیے بہترین تحفہ اس کی اعلیٰ تربیت ہے۔‘‘

اولاد اور نئی نسلوں کو ان کے اس حق سے محروم رکھ کر نہ ہم اس دنیا میں پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں نہ آخرت میں ان کے شر سے محفوظ رہیں گے۔ قرآن حکیم میں ہے، بگڑی ہوئی نسلیں اپنے بڑوں اور بزرگوں کے لیے اپنے سے دگنے عذاب کا مطالبہ پیش کریں گے کہ ان کی غلط روش نے اور ہماری تربیت میں کوتاہی نے ہمیں راہ راست سے دور رکھا اور ہم اپنی منزل نہ پا سکے۔ لہٰذا اس وقت نظریۂ پاکستان کی اہمیت کو بزرگ اپنی نئی نسلوں کے سامنے واضح کریں۔ نوجوانوں کو سمجھائیں، ہر ذی شعور اس کے لیے محنت اور کوشش کرے اور تعلیم و تربیت اور ابلاغ و اعلام کے جملہ وسائل کو اہلِ اقتدار اس عظیم مقصد کو سمجھانے کے لیے صرف کریں اور ہم پاکستانی بطور قوم نظریۂ پاکستان، اسلام کی عملی تنفیذ کے بغیر اپنے آپ کو سب سے بڑے حق سے محروم سمجھیں تاکہ نظریہ دشمن عنصر ہمارے ملک یا ہماری قوم کے لیے مزید پریشانیوں کا باعث نہ بن سکیں اور ہم اپنے احوال کو بھی سنوار سکیں۔

آراء و افکار

(جون ۱۹۹۰ء)

جون ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۶

شریعت بل اور شریعت کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۰ء
ادارہ

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی — رپورٹ، پروگرام، عزائم
ادارہ

امام المحدثین والفقہاء حضرت مولانا ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ
الاستاذ محمد امین درانی

مذاہب اہل السنۃ والجماعۃ کی تاسیس ایک نظر میں
الاستاذ محمد امین درانی

انسانی حقوق کا اسلامی تصور
مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی

’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ کی تفسیر اور پادری برکت اے خان
محمد عمار خان ناصر

حفاظتِ قرآن کا عقیدہ اور پادری کے ایل ناصر
محمد عمار خان ناصر

دو قومی نظریہ نئی نسل کو سمجھانے کی ضرورت ہے
مولانا سعید احمد عنایت اللہ

بھارت میں اردو کا حال و مستقبل
بیگم سلطانہ حیات

جہادِ آزادیٔ کشمیر اور پاکستانی قوم کی ذمہ داری
ادارہ

مثیلِ موسٰی کون ہے؟
محمد یاسین عابد

نو سالہ ماں
حافظ محمد اقبال رنگونی

آپ نے پوچھا
ادارہ

گنٹھیا ۔ جوڑوں کا درد یا وجع المفاصل
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
ادارہ

مکان کیسا ہونا چاہیئے؟
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

قرآنِ کریم کے ماننے والوں کا فریضہ
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

مسلمانوں کی قوت کا راز — خلافت
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter