گوجرانوالہ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے نام سے پرائیویٹ اسلامی یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ جو کچھ عرصہ پہلے تک محض ایک خواب نظر آتا تھا اب جمعیۃ اہل السنۃ کے باہمت راہنماؤں کی مسلسل محنت اور تگ و دو کے نتیجہ میں زندہ حقیقت کا روپ اختیار کر رہا ہے اور ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے لیے نہ صرف جی ٹی روڈ پر گوجرانوالہ سے لاہور کی جانب اٹاوہ کے پاس دو سو ساٹھ کنال جگہ حاصل کر لی گئی ہے بلکہ اس پر تعمیر کا کام بھی شروع ہو چکا ہے۔ یہ ساری زمین قیمتاً خریدی گئی ہے اور اب تک زمین کی خریداری اور دیگر تعمیری و انتظامی اخراجات پر چالیس لاکھ روپے کے قریب رقم خرچ ہو چکی ہے جو گوجرانوالہ کے مخیر مسلمانوں کے تعاون سے حاصل ہوئی ہے۔
پرائیویٹ اسلامی یونیورسٹی قائم کرنے کا خیال سب سے پہلے جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ گوجرانوالہ کے صدر الحاج میاں رفیق کے ذہن میں آیا جو شہر کے معروف صنعتکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک ملک کے انتظامی اور عدالتی شعبوں میں اسلامی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور افراد کلیدی عہدوں پر نہیں آئیں گے اس وقت تک نہ تو موجودہ نظام کی اصلاح ہو سکتی ہے اور نہ ہی اسلامی قوانین و اقدار کے نفاذ کی طرف کوئی عملی پیشرفت ممکن ہے، اس لیے ہمیں سکولوں، کالجوں اور دینی مدارس کے روایتی انداز سے ہٹ کر ایک ایسے نظامِ تعلیم کی بنیاد رکھنی چاہیئے جس کے ذریعے ایک طرف نئی نسل کو معیاری جدید تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا جائے، اور دوسری طرف دینی مدارس کے فارغ التحصیل علماء کو جدید علوم اور ضروریات سے اس حد تک بہرہ ور کر دیا جائے کہ وہ ملک کے اجتماعی نظام میں بھی مؤثر طور پر شریک ہو سکیں۔
میاں صاحب نے آج سے پانچ سال قبل اپنے رفقاء کے سامنے یہ تجویز پیش کی جسے قبول کر لیا گیا۔ شہر کی بزرگ علمی شخصیات شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کے سامنے تجویز رکھی گئی، انہوں نے بھی اسے پسند کیا اور اپنے بھرپور تعاون اور سرپرستی کا یقین دلایا۔ یونیورسٹی کے لیے مختلف نام سامنے آئے اور برصغیر پاک و ہند کے عظیم مفکر شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے نام پر اس تعلیمی ادارہ کا نام ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ تجویز کر لیا گیا۔ اس کے لیے جی ٹی روڈ پر لاہور کی جانب قلعہ چند بائیپاس چوک سے دو فرلانگ آگے ریلوے لائن کے ساتھ اٹاوہ میں تھوڑی تھوڑی کر کے بتدریج زمین خریدی گئی جو اب ساڑھے بتیس ایکڑ یعنی دو سو ساٹھ کنال ہو چکی ہے۔
شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے تعلیمی نصاب اور نظام کی ترتیب کے لیے ممتاز علماء، وکلاء اور پروفیسر صاحبان پر مشتمل ’’تعلیمی کمیٹی‘‘ کام کر رہی ہے جس کے سربراہ مولانا زاہد الراشدی ہیں اور مولانا مفتی محمد عیسٰی، پروفیسر میاں محمد اکرم، پروفیسر غلام رسول عدیم، ڈاکٹر محمد اقبال لون، پروفیسر عبد الرحیم ریحانی، پروفیسر حافظ عبید اللہ عابد، قاری گلزار احمد قاسمی، مفتی فخر الدین عثمانی، ارشد میر ایڈووکیٹ اور میاں محمد عارف ایڈووکیٹ شامل ہیں۔ تعلیمی کمیٹی نے نظام اور نصاب کا جو خاکہ بنایا ہے اس کے مطابق مندرجہ ذیل شعبے رکھے گئے ہیں:
- تعلیمی کام کا آغاز کالج سے کیا جائے گا جس میں میٹرک پاس طلبہ لیے جائیں گے اور انہیں چار سال میں بی اے کا مروجہ نصاب پڑھایا جائے گا۔ اس نصاب میں عربی اور اسلامیات کا کورس ازسرنو مرتب کیا جائے گا اور تمام تر نظام اقامتی ہو گا یعنی طلبہ کو ۲۴ گھنٹے یونیورسٹی میں رہنا ہو گا۔ اس ضمن میں تعلیمی کمیٹی کا ہدف یہ ہے کہ طالب علم چار سال میں اچھے نمبروں کے ساتھ بی اے پاس کرنے کے علاوہ عربی اور اسلامیات میں اس قدر مہارت حاصل کر لے کہ قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ کی صلاحیت اس میں پیدا ہو جائے اور اس کے ساتھ ایسا تربیتی نظام رکھا جائے کہ وہ ایک سچا، با اخلاق اور با کردار مسلمان ثابت ہو۔
- دینی مدارس کے طلبہ کے لیے دو شعبے رکھے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل علماء میں سے جو عمر اور ذہانت کے مطلوبہ معیار پر پورے اترتے ہوں انہیں پانچ سالہ کورس کے ذریعے مقابلہ کے امتحان کے لیے تیار کیا جائے گا تاکہ وہ سول سوروسز میں جا سکیں۔ اور جو فضلاء اس معیار پر پورے نہ اترتے ہوں انہیں انگریزی، تاریخ، پبلک ڈیلنگ اور دوسری ضروریات پر مشتمل دو سالہ کورس کرا کے کسی ایک مضمون میں ایم اے کا امتحان دلایا جائے گا۔
- گریجویٹ طلبہ کے لیے مختلف مضامین میں ایم اے کے امتحان کی تیاری کا اہتمام کیا جائے گا۔
- فقہ، حدیث، تفسیر، تاریخ، ادب، عربی اور دیگر مضامین میں تخصص (سپیشلائزیشن) کی کلاسیں شروع کی جائیں گی۔
- تاجروں، وکلاء اور ملازمت پیشہ طبقات کے لیے ان کی سہولت کے مطابق خصوصی اسلامی کورسز کا اہتمام کیا جائے گا۔
- جب تک ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کی اپنی اسناد ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں ہو جاتیں اس وقت تک امتحانات مروجہ سسٹم کے مطابق بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی کے ذریعے دلوائے جائیں گے اور اسناد منظور ہو جانے کے بعد نیا نظام وضع کیا جائے گا۔
یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے آرکیٹیکٹس کی معروف فرم ’’سلیم ایسوسی ایٹس قرطبہ چوک لاہور‘‘ کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ طے پا گیا ہے اور فرم نے یونیورسٹی کا ماسٹر پلان مرتب کر دیا ہے جس کے مطابق ایک انتظامی بلاک، چھ تعلیمی بلاک، دو ہوسٹل، ایک مسجد، تین اسٹاف کالونیاں، دو آڈیٹوریم، ایک بڑی لائبریری اور دیگر ضروریات کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ تمام تعلیمی بلاک دو منزلہ ہوں گے اور ہر بلاک میں اٹھارہ کلاس رومز اور اساتذہ کے پندرہ کمرے ہوں گے۔
اس وقت تک اٹاوہ ریلوے کراسنگ سے یونیورسٹی تک پختہ سڑک تعمیر ہو چکی ہے جس کے لیے ضلع کونسل کے چیئرمین رانا نذیر احمد ایم این اے نے خصوصی منظوری دی ہے اور آفس بلاک کی تعمیر بھی مکمل ہو گئی ہے جس میں ایک آفس، ایک میٹنگ روم اور تعمیری سامان کے دو گودام شامل ہیں۔ جبکہ پہلے تعلیمی بلاک کی بنیادوں کی کھدائی مکمل ہونے کے بعد بھرائی کا کام جاری ہے۔ آرکیٹیکٹ کے بتائے ہوئے اندازے کے مطابق ایک بلاک پر کم و بیش ستر لاکھ روپے خرچ ہوں گے اور ایک سال میں اس کی تعمیر مکمل ہو گی۔ جبکہ انتظامیہ کا پروگرام یہ ہے کہ سالِ رواں کے اختتام تک بلاک کی تعمیر مکمل کر کے جنوری ۱۹۹۱ء سے ایف اے کی کلاسوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا جائے گا، ان شاء اللہ العزیز۔
انتظامیہ نے یونیورسٹی کے تمام اخراجات اصحابِ خیر کے تعاون سے پورے کرنے کا عزم کر رکھا ہے اور بطور پالیسی یہ بات طے کر لی گئی ہے کہ کسی قسم کی سرکاری گرانٹ حاصل نہیں کی جائے گی، البتہ نصاب کی بہتری اور اسناد کی منظوری جیسے ضروری امور کے لیے حکومتی محکموں کا تعاون حسب ضرورت حاصل کیا جائے گا۔
گوجرانوالہ کے اصحابِ خیر کی دلچسپی اور تعاون حوصلہ افزا ہے اور نہ صرف یہ کہ اب تک خرچ ہونے والے چالیس لاکھ روپے کی کم و بیش ساری رقم گوجرانوالہ کے اصحابِ خیر نے فراہم کی ہے بلکہ آئندہ سال کے بجٹ کے لیے رمضان المبارک کے دوران انتظامیہ کے سرکردہ حضرات نے شہر کا دورہ کیا تو گوجرانوالہ کے زندہ دل شہریوں نے بھرپور تعاون کا اظہار کیا۔ مختلف حضرات نے تعلیمی بلاک میں اپنی طرف سے ایک ایک کمرہ بنانے کا وعدہ کیا ہے جبکہ کلاس روم کی تعمیر کا تخمینہ نوے ہزار روپے اور چھوٹے کمرہ کا تخمینہ پینتالیس ہزار روپے لگایا گیا ہے۔ بعض حلقوں نے یونیورسٹی میں مسجد کی تعمیر کا وعدہ کیا ہے جو آٹھ کنال کے رقبہ میں تعمیر کی جا رہی ہے اور بیشتر حضرات نے نقد فنڈ کی صورت میں معقول حصہ ڈالا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک بلاک کی تعمیر کے اخراجات میں سے نصف کا ٹارگٹ حاصل ہو چکا ہے اور بقیہ کے لیے مہم جاری ہے۔
یونیورسٹی کے انتظامات کے لیے ایک باقاعدہ ٹرسٹ بنایا جا رہا ہے۔ اس کی تشکیل کے لیے مختلف ٹرسٹ اداروں کے قواعد و ضوابط حاصل کیے گئے ہیں جن کی روشنی میں ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی ٹرسٹ‘‘ کے اصول اور قواعد و ضوابط مرتب کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ سالِ رواں کے اختتام تک ٹرسٹ کی باقاعدہ تشکیل مکمل ہو جائے گی۔
یونیورسٹی کا نظریاتی تعلق اہل السنۃ والجماعۃ سے ہے اور اس کے تمام مذہبی معاملات شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور ان کے عظیم علمی خاندان کی تعلیمات کی روشنی میں طے ہوں گے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی پر کسی فرقہ یا مذہبی مکتب فکر کی چھاپ نہیں ہو گی اور ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ فرقہ بندی کی مروجہ حدود سے بالاتر ہو کر قرآن و سنت، ائمہ اہل سنت اور خانوادۂ ولی اللّٰہی کی تعلیمات کی روشنی میں علمی اور دینی خدمت سرانجام دے گی۔
اس مہم میں جو حضرات پیش پیش ہیں ان میں سے مولانا زاہد الراشدی، الحاج میں محمد رفیق، میاں محمد عارف، بابو محمد شمیم، میر ریاض انجم، شیخ محمد یوسف وزیرآبادی، جناب ایس اے حمید، جناب عبد القادر پھلرواں، حاجی محمد رفیق، حاجی شیخ محمد صدیق، جناب علاء الدین، جناب شریف بیگ، میاں محمد اکرم، جناب محمد مشتاق، شیخ محمد اشرف، شیخ محمد ابراہیم طاہر، حاجی شیخ محمد یعقوب، شیخ شکیل احمد، پروفیسر غلام رسول عدیم، ڈاکٹر محمد اقبال لون، پروفیسر عبد الرحیم ریحانی اور حافظ عبید اللہ عابد بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ جبکہ مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور مولانا عبد الحمید سواتی بھرپور طریقے سے اس کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ دونوں بزرگ کئی بار اٹاوہ تشریف لے جا چکے ہیں اور یونیورسٹی کے ابتدائی تعمیری کام کا آغاز بھی دونوں بزرگوں کی موجودگی میں ان کی دعاؤں کے ساتھ ہوا تھا۔ گذشتہ دنوں یونیورسٹی کے رفقاء کی ایک تقریب بھی شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی صدارت میں یونیورسٹی کی گراؤنڈ میں منعقد ہو چکی ہے جس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت شیخ الحدیث نے اس بات پر بطور خاص زور دیا کہ علماء کرام کے لیے انگریزی زبان اور جدید علوم سے واقفیت ازحد ضروری ہے۔ انہوں نے اپنے دورۂ برطانیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مجھے وہاں جا کر اس کا احساس ہوا کہ اگر میں انگریزی زبان سے واقف ہوتا تو کہیں بہتر طریقہ سے اسلام کی خدمت کر سکتا تھا۔
شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے سائٹ آفس کے افتتاح کے موقع پر مکہ مکرمہ کے ممتاز عالم دین اور حرم پاک کے مدرس فضیلۃ الشیخ مولانا محمد مکی حجازی بھی تشریف لائے تھے اور دعا کے ساتھ یونیورسٹی کے سائٹ آفس کا افتتاح کیا تھا۔ اس موقع پر مولانا محمد مکی حجازی نے اس عظیم تعلیمی منصوبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام کے ایک عظیم مجدد اور مصلح امام ولی اللہ دہلویؒ سے منسوب یہ تعلیمی ادارہ ملتِ اسلامیہ میں ایک نئے فکری اور علمی انقلاب کا ذریعہ بنے گا۔
جمعیۃ اہل السنۃ کے سیکرٹری جنرل شیخ محمد اشرف نے ایک ملاقات میں یہ تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ امام کعبہ فضیلۃ الشیخ عبد اللہ السبیل مدظلہ تشریف لائیں اور اپنے دستِ مبارک سے یونیورسٹی کے کسی تعلیمی بلاک کا سنگِ بنیاد رکھیں۔ ان سے ہمارا رابطہ قائم ہے اور ان شاء اللہ العزیز بہت جلد ہم ان کی تشریف آوری پر میزبانی کی سعادت حاصل کر سکیں گے۔ صدر انتظامیہ الحاج میاں محمد رفیق اور سیکرٹری جنرل شیخ محمد اشرف نے شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے لیے زمین کی خریداری اور تعمیری اخراجات کے سلسلہ میں حوصلہ افزا تعاون پر گوجرانوالہ کے شہریوں کا شکریہ ادا کیا ہے اور ان سے اپیل کی ہے کہ وہ اس تعاون کی رفتار میں اور اضافہ کریں اور مزید جوش و خروش کے ساتھ اس مہم میں شریک ہوں تاکہ ہم پروگرام کے مطابق پہلے تعلیمی بلاک کی تعمیر مکمل کر کے جنوری ۱۹۹۱ء سے ایف اے کی کلاسوں کا آغاز کر سکیں۔