حفاظتِ قرآن کا عقیدہ اور پادری کے ایل ناصر

محمد عمار خان ناصر

حفاظتِ قرآن کا مسئلہ امتِ مسلمہ کا اجماعی عقیدہ ہے، کسی زمانے میں بھی کسی مسلمان عالم یا فاضل نے اس پر شک کی گنجائش نہیں دیکھی۔ البتہ روافض میں سے بعض کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم اصلی حالت میں محفوظ نہیں رہا۔ اس مسئلہ کو اگرچہ اس گمراہ فرقہ کے بعض مشاہیر علماء نے دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی تاہم ان کا قول قطعاً بے دلیل و بے حجت ہے۔ دورِ حاضر کے مشہور ایرانی دانشور اور مصنف جناب مرتضٰی مطہری قرآن میں تحریف کے قائلین کو ’’متعصب یہودی اور عیسائی‘‘ قرار دیتے ہیں (دیکھئے ان کی کتاب ’’وحی و نبوت ص ۶۹)۔

عیسائی پادریوں کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح سے بائیبل محرف کو قرآن کے بالمقابل لایا جائے، یا پھر قرآن کریم کی عظمت و صداقت کے بارے میں شبہات ڈالے جائیں۔ چنانچہ اکثر لاٹ پادریوں نے خودساختہ مطالب اخذ کرتے ہوئے اور روایات کا تیاپانچہ کرتے ہوئے اس مسئلہ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔ پاکستان میں آج کل بالخصوص پادری صاحبان کے مجددین و محقققین اس مسئلہ پر خامہ فرسائی میں مصروف ہیں۔ انہی میں سے ایک صاحب گوجرانوالہ تھیولاجیکل سیمنری کے چیف اور مسیحی ماہنامہ ’’کلام حق‘‘ کے مدیر اعلیٰ پادری کے ایل ناصر ہیں جو ماہرِ اسلامیات و عربی دان ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں اور اس کا ثبوت دینے کی کوشش میں ۔۔۔۔ اسلامی علوم کی مضحکہ خیز حد تک غلط تعبیر کے مرتکب بھی ہوئے۔ ۱۰ فروری ۱۹۹۰ء کو بذریعہ ڈاک ان کا ایک قلمی مقالہ موصول ہوا جو ۲۸ صفحات پر مشتمل ہے، اس میں نہ صرف پادری موصوف نے قرآن کریم کے متن کے ’’بچھا کچھا‘‘ ہونے کو قطعی نتیجہ قرار دیا بلکہ روایات سے یہ ثابت کرنے کی کوششِ نامراد کی کہ قرآن کریم کا متن محفوظ نہ رہا۔ جس کو پڑھ کر بے اختیار لبوں پر یہ شعر آگیا ؎

پھر آج آئی تھی اک مرجۂ ہوائے طرب
سنا گئی فسانے اِدھر اُدھر کے مجھے

آئیے پادری صاحب کی تحقیق کا مطالعہ بھی کریں۔

(۱) مختصرًا گزارش یہ ہے کہ قرآنِ کریم کا متن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لکھا جا چکا تھا، تاہم یکجا جمع و مرتب نہ تھا۔ حضورؐ کی وفات کے بعد جنگ یمامہ تک کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ قرآن کریم جمع ہو جانا چاہیئے۔ حضرت عمرؓ نے جنگ یمامہ کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ اور حضرت زید بن ثابتؓ کو راضی کیا کہ اس وقت اس کی ضرورت ہے۔ چنانچہ خلیفہ ابوبکرؓ نے زید بن ثابتؓ کے ساتھ پچھتر اصحابؓ کی جماعت مقرر کی جنہوں نے قرآن کریم کی ہر آیت کو دو دو گواہوں یعنی حفظ اور کتابت کےبعد یکجا جمع کیا۔ نہایت احتیاط کے ساتھ قرآن کریم کا مکمل متن ایک صحیفہ میں جمع کیا گیا۔ اس نسخہ میں منسوخ التلاوت آیات اور سبعۃ احرف بھی درج تھے۔

پھر حضرت عثمانؓ کے زمانے میں جب دیکھا گیا کہ مختلف قراءات کی وجہ سے، جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جائز قرار دیا تھا، ملک میں بَداَمنی پھیلنے کاخدشہ ہے کیونکہ ہر کوئی اپنی قراءت کو درست کہتا تھا اور دوسرے کی قراءت کو غلط، تو حضرت عثمانؓ نے یہ کیا کہ مشاورت کے بعد قرآن شریف کی صرف ایک قراءت کو، جو کہ قریش کی تھی، مروّج کرنے کا حکم دیا۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ لوگوں کے پاس جو مختلف قراءت والے نسخے ہیں ان کو ختم کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر بَداَمنی ختم نہ ہو سکتی تھی۔ لہٰذا حضرت عثمانؓ نے حضرت ابوبکرؓ والے مصحف سے قرآن کریم کو نقل کروایا اور حکم دیا کہ قریش کی قراءت نقل کی جائے۔ اس نسخہ میں منسوخ التلاوت آیات کو بھی نکال دیا گیا۔ اس نسخہ کی سات نقول مختلف مرکزی مقامات کو بھیج دی گئیں اور لوگوں سے باقی تمام نسخے لے کر جلا دیے گئے اور صرف ایک معتبر نسخہ رائج کر دیا۔

پادری صاحبان حضرت عثمانؓ کے اس کام کو تحریف قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے اپنی مرضی کی آیات رکھ کر باقی کو ضائع کر دیا جو کہ دلیل سے معرا ہے۔ پادری ناصر حضرت ابوبکرؓ کے جمع قرآن کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ:

’’قرآن شریف قاریوں کو زبانی یاد (حفظ) کرایا گیا تھا، بہت سے قاری قتل یمامہ میں شہید ہو گئے تھے۔ نامعلوم قرآن شریف کا کتنا حصہ کس کس قاری کے ساتھ ہمیشہ تلف ہو گیا۔‘‘

ہم عرض کرتے ہیں کہ پادری صاحب نے کم فہمی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ سمجھا ہے کہ ہر قاری کو الگ الگ قرآن یاد تھا، یا ہر قاری کو پورا قرآن یاد نہیں تھا، تاہم اگر یہ تسلیم کر لیا جائے تو خود بائبل کا متن بھی پادری صاحب کے بقول ہی محفوظ نہیں رہتا۔ پادری برکت اپنی کتاب ’’صحت کتب مقدسہ‘‘ میں کہتے ہیں کہ:

’’قیاصرہ روم کی ایذا رسانیوں اور حوادث زمانہ کے دستبرد سے یہ ہزاروں نسخے نہ بچ سکتے تھے اور نہ بچے۔‘‘ (ص ۲۲۰)

پادری صاحب کی بیان کردہ عبارت کی روشنی میں یہی ثابت ہوتا ہے کہ بائیبل کا کافی حصہ ان  نسخوں کی صورت میں ضائع ہو گیا تھا۔

؏  لو دام میں اپنے خود صیاد آگیا

(۲) شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں کہ:

’’جب قرآن شریف مصحف میں یکجا ہو گیا، برسوں آپ (یعنی حضرت عمرؓ) اس کی تصحیح میں سرگرم رہے اور بارہا صحابہؓ سے اس کے متعلق مناظرے کیے۔ کبھی حق اس لکھے ہونے کے موافق ظاہر ہوتا اور آپ اس کو اسی حالت میں رہنے دیتے اور لوگوں کو اس کی مخالفت سے منع کر دیتے۔ اور کبھی اس کے خلاف ظاہر ہوتا، اس حالت میں آپ اس آیت کو چھیل ڈالتے اور اس کی جگہ پر جو حق ثابت ہوتا لکھ دیتے۔‘‘ (ازالۃ الخفا ج ۲ ص ۲۱۱)

اس پر پادری صاحب کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے:

’’مندرجہ بالا بیان کا مفہوم بالکل صاف ہے کہ جس مصحف کو زید بن ثابتؓ نے حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ کے حکم سے جمع کیا تھا اس مجموعۂ متن پر حضرت عمرؓ کو مطلق اعتبار نہ تھا اور آپ نے کئی برس اس متن کی اصلاح و ترمیم کی اور اس کی تصحیح میں آپ سرگرم رہے اور صحابہؓ سے متن کی صحت اور عدمِ صحت کے بارے میں مناظرے کرتے رہے۔‘‘ ۔۔۔

حیرت ہے کہ حضرت عمرؓ کے پرخلوص کام اور محنت کو پادری صاحب الٹا انہیں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ کی رضا اور مشورہ ہی سے وہ مجموعہ متن تیار ہوا اور پادری صاحب اسے ان کے نزدیک ناقابل اعتبار ٹھہرا رہے ہیں ؎

ہم وفا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نقطہ نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا

پادری صاحب نے فقط اپنی مرضی کا بیان چنا۔ ایسے واقعات اکا دکا اور بے ارادہ ہوئے تھے۔ شاہ صاحبؒ نے کتاب کے اسی صفحہ پر ان کی مثال کے طور پر دو واقعات بھی بیان فرمائے ہیں:

  • ایک قصہ کے مطابق حضرت عمرؓ کہیں جا رہے تھے کہ ایک آدمی کو آیت پڑھتے دیکھا، وہ صحیح پڑھ رہا تھا، حضرت عمرؓ کو محسوس ہوا کہ وہ غلط پڑھ رہا ہے، احباب و اصحاب سے پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ صحیح وہی ہے جو وہ آدمی پڑھ رہا ہے۔ یہ مثال اس کی ہے جب کوئی آیت یا لفظ صحیح ثابت ہوا۔
  • اور دوسرے قصہ کے مطابق ایک آدمی آیت میں قراءت شاذہ کو ملا کر پڑھ رہا تھا۔ حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے اصحاب اور اس قراءت شاذہ کے استاد ابی بن کعبؓ وغیرہ سے معلوم کیا تو انہوں نے رجوع کر لیا اور حضرت عمرؓ کی بات مان لی۔

پادری صاحب کے دعوٰی کی حقیقت یہی ہے کہ انہوں نے تعصب کی نگاہ سے شاہ صاحب کے بیان کو پڑھا اور لکھا ہے ؎

خواہش کا نام عشق نمائش کا نام حسن
اہلِ ہوس نے دونوں کی مٹی خراب کی

پادری صاحب نے مقالہ کا نام ’’قرآن شریف کے متن کا تاریخی مطالعہ‘‘ رکھا ہے، اس لیے مختلف نسخہ جات کا تعارف بھی ذکر کیا ہے۔ چونکہ ہم ’’حفاظتِ قرآن‘‘ کے برخلاف پادری صاحب کے چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں اس لیے ان تعارف و تبصرہ وغیرہ پر بالذات بحث نہیں کر سکتے۔ پادری صاحبان حضرت عثمانؓ کے دور میں جمع قرآن کو قرآن میں ردوبدل کا تاریخی واقعہ قرار دیتے ہیں لہٰذا قرآن پاک کو درحقیقت ’’تالیفِ عثمانی‘‘ کہتے ہیں۔ اس ضمن میں پادری صاحب موصوف رقم طراز ہیں:

’’کتب احادیث و تفاسیر و تواریخ سے ظاہر ہے کہ حضرت عثمانؓ نے سوا زیدؓ بن ثابت نوجوان کے کسی اور کو قرآن شریف کے متن کو جمع کرنے کے لیے شامل نہ کیا۔ حضرت عثمانؓ نے قرآن شریف کی تنزیل کو بدل ڈالا۔ آپ نے قرآن شریف کی سات قراءتوں کو مٹا ڈالا اور ایک قراءت قریش مقرر کر دی۔ باقی کل مصاحف اور اوراق وغیرہ جو حضرت محمد صلعم کے  زمانے میں لکھے گئے تھے اور حضرات شیخین کے زمانے تک محفوظ چلے آتے تھے اور تبرکات وحی تھے خود حضرت محمد صلعم نے اپنے کاتبوں سے لکھوایا تھا وہ قابلِ قدر اور قابلِ حفاظت تھے ان سب کو جلا دیا۔ حضرت عثمانؓ نے اس مہم میں تعاون نہ کرنے والوں پر بے حد سختی کی مثلاً عبد اللہ ابن مسعودؓ کے ساتھ، مروان بن حاکم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا محنت شاکہ سے جمع کیا ہوا قرآن اور عرق ریزی سے تصحیح کیا ہوا قرآنی متن بھی جلا ڈالا۔‘‘

ہم بالترتیب پادری صاحب کے دعاوٰی کا مطالعہ کریں گے:

(۱) یہ کہنا کہ حضرت عثمانؓ نے زیدؓ بن ثابت کے سوا کسی کو جمع قرآن میں شامل نہ کیا تھا، سراسر غلط ہے حافظ سیوطیؒ امام بخاری کے حوالہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ:

فامر زید بن ثابت و عبد اللہ بن الزبیر و سعید ابن العاص و عبد الرحمان بن الحارث بن ھشام فنخوھا فی المصاحف (الاتقان ج ص ۵۹)

ترجمہ: ’’حضرت عثمان نے زید بن ثابت، عبد اللہ ابن زبیر، سعید بن العاص اور عبد الرحمٰن بن حارث بن ہشام کو نسخہ کو نقل کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے مصاحف میں نقل کیا۔‘‘

(۲) حضرت عثمانؓ پر قرآن شریف کی تنزیل کو بدل ڈالنے کا جو الزام پادری صاحب نے لگایا ہے وہ حقیقت سے سراسر متضاد ہے۔ اس بات پر تو اتفاق ہے کہ قرآن کریم کی موجودہ ترتیب نزولِ قرآن کے مطابق نہیں، لیکن یہ کسی انسان کا کارنامہ بھی نہیں کیونکہ جیسے جیسے وحی آتی جاتی تھی جبرئیل امین خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایات بھی دیتے تھے کہ اس آیت کو کون سی سورۃ میں کون سے نمبر پر رکھنا ہے۔ قرآن کریم کو اسی طرح حفظ کیا گیا اور اسی طرح نقل کیا گیا۔ پادری صاحب کی ہوشمندی دیکھیں کہ سات قراءتوں کے مٹ جانے پر بھی اصرار فرما رہے ہیں اور قراءت قریش کو بھی مان رہے ہیں ؎

بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

بہرحال یہ الزام بھی مفروضہ اور ناقابلِ اعتماد، سماع و افواہ پر مبنی ہے۔ علامہ ابن حزمؒ رقم طراز ہیں:

واما قول من قال ابطل الاحرف الستۃ فقد کذب من قال ذلک ولو فعل عثمان ذلک او ارادہ لخرج عن الاسلام ولما مطل ساعۃ بل الاحرف السبعۃ کلھا موجودۃ عندنا قائمۃ کما کانت مثبوثۃ فی القرآت المشہورۃ الماثورۃ (الملل والنحل ج ۲ ص ۷۸)

ترجمہ: ’’یہ کہنا کہ عثمانؓ نے چھ حرف (قراءتیں) مٹا دیے تو جو یہ کہتا ہے وہ جھوٹا ہے۔ اگر عثمانؓ ایسا کرتے یا ایسا کرنے کا ارادہ کرتے تو اسلام سے خارج ہو جاتے اور ایک ساعت بھی نہ ٹھہرتے۔ یہ ساتوں  حروف (قراءات) ہمارے پاس موجود ہیں اور جیسے تھے ویسے ہی قائم ہیں، مشہور و منقول و ماثور قراءتوں میں محفوظ و ثابت ہیں۔‘‘

پادری صاحب کو اسلامی علوم کی ہوا بھی لگی ہوتی تو اس قدر غلط بیانی نہ کرتے۔ بزعم خویش محقق بننے سے کچھ نہیں ہو جاتا اس کے لیے کچھ قابلیت چاہیئے۔

(۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خود لکھوائے ہوئے تبرکاتِ وحی اور قابلِ قدر و قابلِ حفاظت مصاحف و اوراق کے جلانے کا تذکرہ بالخصوص کہیں نہیں ملتا، اور اگر جلا بھی دیا تھا تو وہ سارے تبرکات حضرت ابوبکرؓ نے نقل فرما لیے تھے، اس میں کون سی قیامت آگئی؟ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا ’’محنتِ شاکہ‘‘ سے جمع کیا ہوا قرآن بجنسہ ہمارے پاس موجود ہے۔ علماء نے جمع صدیقی اور جمع عثمانی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ جمع عثمانی میں منسوخ آیات اور سبعۃ احرف نہیں تھے کیونکہ سبعہ احرف کی اجازت ابتدائی دور اور حالات کے پیشِ نظر تھی اور بعد میں ان کی وجہ سے امت میں افتراق پیدا ہونے کا خدشہ تھا بلکہ تقریباً ہو چکا تھا۔

(۴) حضرت عبد اللہ ؓ ابن مسعود کے ساتھ سختی اس لیے کی کہ وہ صحابہ کرامؓ کے اتفاق کے برخلاف کام کر رہے تھے۔ اس وقت امت میں افتراق ایک بہت بڑا حادثہ ثابت ہوتا اور پھر حضرت عبد اللہ ؓ ابن مسعود نے اپنے موقف پر اصرار بھی نہیں کیا بلکہ رجوع فرما لیا تھا اور جمع قرآن کی مخالفت نہ کی تھی۔ حافظ ابن کثیر کی تاریخ میں لکھا ہے:

فاناب واجاب الی المتابعۃ و ترک المخالفۃ (البدایہ والنہایہ ج ۷ ص ۲۱۸)

ترجمہ: ’’عبد اللہ ابن مسعودؓ نے رجوع کر لیا اور پیروی کرنے اور مخالفت ترک کرنے کا وعدہ کیا۔‘‘

ابن سعد کہتے ہیں کہ دونوں بزرگوں میں صلح صفائی ہو گئی تھی اور دونوں نے ایک دوسرے کے لیے استغفار کیا تھا۔ (دیکھئے طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۱۳)

اب ہم پادری صاحب کی پیش کردہ اس روایت پر بحث کریں گے جس کو انہوں نے نہ صرف موقع محل سے ہٹا کر بلکہ اس کی مسلم تفسیر سے علیحدہ من مانی تفسیر کر کے پیش کیا ہے۔ حضرت علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی کتاب ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں نسخ کی تیسری قسم ’’منسوخ التلاوت‘‘ کے تحت یہ روایت نقل فرمائی ہے:

عن ابن عمر قال لیقولن احدکم قد اخذت القراٰن کلہ و ما یدریہ ما کلہ قد ذھب منہ قراٰن کثیر ولکن لیقل قد اخذت منہ ما ظہر (ص ۲۵ ج ۲)

ترجمہ: ’’عبد اللہ ابن عمرؓ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی یہ کہے گا کہ میں نے سارا قرآن لے لیا ہے لیکن اس کو یہ معلوم نہیں کہ سارا قرآن کیا ہے۔ اس میں سے بہت سا حصہ چلا گیا ہے لیکن وہ یہ کہے کہ میں نے اس سے وہی چیز لی ہے جو کہ ظاہر ہوئی۔‘‘

اس پر پادری صاحب کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

’’بعض لوگ حضرت ابن عمرؓ کے اس قول ’’قد ذھب منہ قراٰن کثیر‘‘ کی تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد وہ آیات ہیں جو منسوخ التلاوت تھیں لیکن یہ تاویل بالکل غلط ہے کیونکہ اگر یہی تاویل مراد ہوتی تو ’’ذھب‘‘ کے عوض ’’نسخ‘‘ فرماتے اور پھر اس کو قرآن کثیر نہ فرماتے اور نہ اس پر افسوس کرتے کیونکہ منسوخ التلاوت آیات تو اس قابل نہیں کہ نکال دی جائیں۔ کیا کوئی شخص ایسا ہو گا کہ وہ اپنے ان اشعار یا عبارات پر افسوس کرتا ہو جن کو خود اس نے کاٹ دیا ہو یا نکال دیا ہو۔‘‘

اس مقام پر بھی ہم اس عبارت کا شق وار مطالعہ کریں گے:

(۱) یہ کہنا کہ ’’قرآن کثیر‘‘ سے مراد ’’منسوخ التلاوت‘‘ آیات ہیں، بعض کا نہیں بلکہ خود مصنف علیہ الرحمۃ کا قول ہے۔ آئیے دیکھیں کہ سیوطی اس روایت کو کس ضمن میں سمجھے ہیں:

الضرب الثالث ما نسخ تلاوتہ دون حکمہ ۔۔۔۔ وامثلۃ ھذا الضرب کثیرۃ قال ابوعبیدۃ حدثنا اسمٰعیل بن ابراھیم عن ایوب عن نافع عن ابن عمر قال ۔۔۔۔ (الاتقان ج ۲ ص ۲۴ و ۲۵)

ترجمہ: ’’(نسخ کی) تیسری قسم یہ ہے کہ تلاوت منسوخ ہو گئی ہو اور حکم باقی ہو، اور اس قسم کے نسخ کی مثالیں بہت ہیں (دلیل یہ ہے کہ ) ابوعبیدۃ نے کہا کہ ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب سے، اس نے نافع سے، اس نے ابن عمرؓ سے بیان کیا کہ انہوں نے فرمایا ۔۔۔‘‘

جب صاحبِ کتاب نے خود اپنی مراد واضح کر دی تو پادری کس برتے پر چیلنج کرتے پھر رہے ہیں ؎

وہ کہ خالی ہاتھ پھیلائے فضا میں رہ گئے
منتشر کچھ اس طرح ہستی کا شیرازہ ہوا

(۲) ’’ذھب‘‘ اس لیے فرمایا کہ منسوخ التلاوت آیات کا حکم باقی ہے فقط قراءت ممنوع ہے۔ اور منسوخ الحکم والتلاوت اور منسوخ الحکم دونوں قسموں میں حکم جو کہ مقصود ہے وہ فوت ہو چکا ہے اور اس قسم ثالث میں حکم باقی ہے۔ لہٰذا ’’نسخ‘‘ کی بجائے ’’ذھب‘‘ فرمایا کیونکہ اصل مقصود چیز منسوخ نہیں ہوئی ہے۔ یہ ہے ساری روایت کی حقیقت جس کو پادری صاحب نے ہوا بنا کر پیش کر دیا۔ قرآن کثیر فرما دیا تو کیا حرج ہوا؟ کوئی وجہ بھی تو بیان فرمائیں۔ باقی یہ کہنا کہ منسوخ التلاوت آیات اس قابل نہیں کہ نکال دی جائیں، یہ پادری صاحب کی نام نہاد علمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جس کو خود منسوخ التلاوۃ کہہ رہے ہیں اس کو باقی رکھنے پر اصرار کا آخر معنٰی کیا ہے؟ نیز پادری صاحب کی حاشیہ آرائی دیکھئے کہ خواہ مخواہ افسوس اور غم ابن عمر رضی اللہ عنہ کے سر تھوپ رہے ہیں۔ نامعلوم کس جملہ یا کس لفظ سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ پادری صاحب سے گزارش ہے کہ اپنی علمیت کے جوہر دکھاتے ہوئے اس کی وضاحت فرمائیں۔

قارئین! پادری صاحب کے ’’حفاظتِ قرآن‘‘ پر اعتراضات کو ملاحظہ کرنے اور ان کی صحت و سقم کو پرکھنے کے بعد ہم اس قطعی نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ قرآن شریف بحمدہ تعالیٰ اصل حالت میں نزول کے وقت سے لے کر ہم تک پہنچا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پادری صاحب نے یہ نہیں کہا کہ حضرت عثمانؓ نے اپنی مرضی کی آیات بھی اس میں ڈال دی تھیں۔ اور یہ امر واقعہ ہے کہ حضرت عثمانؓ کے بعد کسی دور میں بھی اس کا کوئی ثبوت پادری صاحبان پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ پھر یہ حقیقت کہ پادری صاحبان قرآن میں ادخال کا الزام نہیں لگاتے، اس بات پر شاہد ہے کہ قرآن کریم سابقہ کتب کے برخلاف تحریف سے قطعی محفوظ و مصئون ہے کیونکہ اگر قرآن شریف میں تحریف ممکن الوقوع ہوتی تو یہ صرف حضرت عثمانؓ کے دور کے ساتھ مخصوص اور صرف اخراج و ضیاع تک محدود نہ ہوتی۔ فلہٰذا اس امر کی حیثیت محض مفروضہ اور وہم و گمان سے زیادہ نہیں ہے۔۔۔۔

مذاہب عالم

(جون ۱۹۹۰ء)

جون ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۶

شریعت بل اور شریعت کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۰ء
ادارہ

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی — رپورٹ، پروگرام، عزائم
ادارہ

امام المحدثین والفقہاء حضرت مولانا ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ
الاستاذ محمد امین درانی

مذاہب اہل السنۃ والجماعۃ کی تاسیس ایک نظر میں
الاستاذ محمد امین درانی

انسانی حقوق کا اسلامی تصور
مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی

’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ کی تفسیر اور پادری برکت اے خان
محمد عمار خان ناصر

حفاظتِ قرآن کا عقیدہ اور پادری کے ایل ناصر
محمد عمار خان ناصر

دو قومی نظریہ نئی نسل کو سمجھانے کی ضرورت ہے
مولانا سعید احمد عنایت اللہ

بھارت میں اردو کا حال و مستقبل
بیگم سلطانہ حیات

جہادِ آزادیٔ کشمیر اور پاکستانی قوم کی ذمہ داری
ادارہ

مثیلِ موسٰی کون ہے؟
محمد یاسین عابد

نو سالہ ماں
حافظ محمد اقبال رنگونی

آپ نے پوچھا
ادارہ

گنٹھیا ۔ جوڑوں کا درد یا وجع المفاصل
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
ادارہ

مکان کیسا ہونا چاہیئے؟
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

قرآنِ کریم کے ماننے والوں کا فریضہ
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

مسلمانوں کی قوت کا راز — خلافت
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter