(سینٹ آف پاکستان نے مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیف کا پیش کردہ ’’شریعت بل‘‘ پانچ سال کی طویل بحث و تمحیص کے بعد ۱۳ مئی ۱۹۹۰ء کو متفقہ طور پر ’’نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۰ء‘‘ کے عنوان کے ساتھ منظور کر لیا ہے۔ یہ بل ۱۳ جولائی ۱۹۸۵ء کو ایوانِ بالا میں پیش کیا گیا تھا اور اس پر پانچ سال کے دوران متعدد کمیٹیوں نے کام کیا اور اسے سینٹ سیکرٹریٹ کی طرف سے عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے مشتہر بھی کیا گیا۔ بل میں مختلف حلقوں کی طرف سے متعدد ترامیم پیش کی گئیں اور ترامیم سمیت سینٹ نے بل کا جو آخری مسودہ متفقہ طور پر منظور کیا ہے اس کا متن درج ذیل ہے۔ ادارہ)
ہرگاہ کہ قراردادِ مقاصد کو، جو پاکستان میں شریعت کو بالادستی عطا کرتی ہے، دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان ۱۹۷۳ء کے مستقل حصے کی حیثیت سے شامل کر لیا گیا ہے۔
اور ہر گاہ کہ مذکورہ قراردادِ مقاصد کے اغراض کو بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ شریعت کے فی الفور نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ لہٰذا حسبِ ذیل قانون بنایا جاتا ہے۔
(۱) مختصر عنوان، وسعت اور آغازِ نفاذ
(۱) یہ ایکٹ نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۰ء کے نام سے موسوم ہو گا۔
(۲) یہ پورے پاکستان پر وسعت پذیر ہو گا۔
(۳) یہ فی الفور نافذ العمل ہو گا۔
(۴) اس میں شامل کسی امر کا اطلاق غیر مسلموں کے شخصی قوانین پر نہیں ہو گا۔
(۲) تعریفات
اس ایکٹ میں، تاوقتیکہ متن سے اس سے مختلف مطلوب ہو، مندرجہ ذیل عبارات سے وہ مفہوم مراد ہے جو یہاں ترتیب وار دیا گیا ہے۔
(الف) ’’حکومت‘‘ سے مراد: (اول) کسی ایسے معاملے سے متعلق جسے دستور میں وفاقی قانون سازی کی فہرست یا مشترکہ قانون سازی کی فہرست میں شمار کیا گیا ہو، یا کسی ایسے معاملے کے بارے میں جس کا تعلق ’’وفاق‘‘ سے ہو ’’وفاقی حکومت‘‘ ہے، اور (دوم) کسی ایسے معاملے سے متعلق جسے مذکورہ فہرستوں میں سے کسی ایک میں شمار نہ کیا گیا ہو، یا کسی ایسے معاملے کے بارے میں جس کا تعلق صوبے سے ہو ’’صوبائی حکومت‘‘ ہے۔
(ب) شریعت کی تشریح و تفسیر کرتے وقت قرآن و سنت کی تشریح و تفسیر کے مسلّمہ اصول و قواعد کی پابندی کی جائے گی اور راہنمائی کے لیے اسلام کے مسلّمہ فقہاء کی تشریحات اور آراء کا لحاظ رکھا جائے گا جیسا کہ دستور کی دفعہ ۲۲۷ شق (۱) کی تشریح میں ذکر کیا گیا ہے۔
(ج) ’’عدالت‘‘ سے کسی عدالتِ عالیہ کے ماتحت کوئی عدالت مراد ہے۔ اس میں وہ ٹربیونل یا مقتدرہ شامل ہے جسے فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کی رو سے یا اس کے تحت قائم کیا گیا ہو۔
(د) ’’قراردادِ مقاصد‘‘ سے مراد وہ قراردادِ مقاصد ہے جس کا حوالہ دستور کے آرٹیکل ۲ (الف) میں دیا گیا ہے اور جس کو دستور کے ضمیمے میں درج کیا گیا ہے۔
(ز) ’’مقررہ‘‘ سے مراد اس ایکٹ کے تحت مقررہ قواعد ہیں۔
(د) ’’مستند دینی مدرسہ‘‘ سے مراد پاکستان یا بیرونِ پاکستان کا وہ دینی مدرسہ ہے جسے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن یا حکومت قواعد کے مطابق تسلیم کرتی ہو۔
(ھ) ’’مفتی‘‘ سے مراد شریعت سے کماحقہ واقف وہ مسلمان عالم ہے جو کسی باقاعدہ دینی مدرسہ کا سند یافتہ اور تخصیص فی الفقہ کی سند حاصل کر چکا ہو اور پانچ سال کسی مستند دینی مدرسہ میں علومِ اسلامی کی تدریس یا افتاء کا تجربہ رکھتا ہو، یا دس سال تک کسی مستند دینی مدرسے میں علومِ اسلامی کی تدریس یا افتاء کا تجربہ رکھتا ہو، اور جسے اس قانون کے تحت شریعت کی تشریح اور تعبیر کرنے کے لیے عدالتِ عظمٰی، کسی عدالتِ عالیہ، یا وفاقی شرعی عدالت کی اعانت کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔
(۳) شریعت کی بالادستی
شریعت پاکستان کا اعلیٰ ترین قانون ہو گی اور اسے مذکورہ ذیل طریقے سے نافذ کیا جائے گا اور کسی دیگر قانون، رواج یا دستور العمل میں شامل کسی امر کے علی الرغم مؤثر ہو گی۔
(۴) عدالتیں شریعت کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کریں گی
(۱) اگر کسی عدالت کے سامنے یہ سوال اٹھایا جائے کہ کوئی قانون یا قانون کا کوئی حکم شریعت کے منافی ہے تو عدالت، اگر اسے اطمینان ہو کہ سوال غور طلب ہے، ایسے معاملات کی نسبت، جو دستور کے تحت وفاقی شرعی عدالت کے اختیارِ سماعت کے اندر آتے ہوں، وفاقی شرعی عدالت سے استصواب کرے گی۔ اور مذکورہ عدالت مقدمہ کا ریکارڈ طلب کر سکے گی اور اس کا جائزہ لے سکے گی اور امرِ تنقیح طلب کا ساٹھ دن کے اندر اندر فیصلہ کرے گی۔
مگر شرط یہ ہے کہ اگر سوال کا تعلق کسی ایسے مسئلے سے ہو جو دستور کے تحت وفاقی شریعت کورٹ کے دائرۂ اختیار سے باہر ہو تو عدالت امرِ تنقیح طلب کو عدالتِ عالیہ کے حوالے کر دے گی جو اس کا ساٹھ دن کے اندر اندر فیصلہ کرے گی۔
مزید شرط یہ ہے کہ عدالت کسی ایسے قانون یا قانون کے حکم کی نسبت اس کے شریعت کے منافی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کسی سوال پر غور نہیں کرے گی جس کا وفاقی شرعی عدالت یا عدالتِ عظمٰی کی شرعی مرافعہ بینچ پہلے ہی جائزہ لے چکی ہو اور اس کے شریعت کے منافی نہ ہونے کا فیصلہ کر چکی ہو۔
(۲) ذیلی دفعہ (۱) کا دوسرا فقرہ شرطیہ وفاقی شرعی عدالت یا عدالتِ عظمٰی کی شرعی مرافعہ بینچ کی جانب سے دیے گئے کسی فیصلے یا صادر کسی حکم پر نظرثانی کرنے کے اختیار پر اثرانداز نہیں ہو گا۔
(۳) عدالتِ عالیہ خود اپنی تحریک پر، یا پاکستان کے کسی شہری، یا وفاقی حکومت، یا کسی صوبائی حکومت کی درخواست پر، یا ذیلی دفعہ (۱) کے پہلے فقرہ شرطیہ کے تحت، اس سے کیے گئے کسی استصواب پر اس سوال کا جائزہ لے سکے گی اور فیصلہ کر سکے گی کہ آیا کوئی مسلم شخصی قانون، کسی عدالت یا ٹربیونل کے ضابطۂ کار سے متعلق کوئی قانون، یا کوئی اور قانون جو وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار سے باہر ہو، یا مذکورہ قانون کا کوئی حکم، شریعت کے منافی ہے یا نہیں۔
مگر شرط یہ ہے کہ سوال کا جائزہ لیتے ہوئے عدالتِ عالیہ توضیح طلب سوال سے متعلقہ شعبہ کا تخصیصی ادراک رکھنے والے ماہرین میں سے، جن کو وہ مناسب سمجھے، طلب کرے گی اور ان کے نقطۂ نظر کی سماعت کرے گی۔
(۴) جبکہ عدالتِ عالیہ ذیلی دفعہ (۲) کے تحت کسی قانون یا قانون کے حکم کا جائزہ لینا شروع کرے اور اسے ایسا قانون یا قانون کا حکم شریعت کے منافی معلوم ہو، تو عدالتِ عالیہ
- ایسے قانون کی صورت میں جو دستور میں وفاقی فہرست قانون سازی یا مشترکہ فہرست قانون سازی میں شامل کسی معاملے سے متعلق ہو، وفاقی حکومت کو
- یا کسی ایسے معاملے سے متعلق کسی قانون کی صورت میں جو ان فہرستوں میں سے کسی ایک میں بھی شامل نہ ہو، صوبائی حکومت کو
ایک نوٹس دے گی جس میں ان خاص احکام کی صراحت ہو گی جو اسے بایں طور پر منافی معلوم ہوں، اور مذکورہ حکومت کو اپنا نقطۂ نظر عدالتِ عالیہ کے سامنے پیش کرنے کے لیے مناسب موقع دے گی۔
(۵) اگر عدالتِ عالیہ فیصلہ کرے کہ کوئی قانون یا قانون کا کوئی حکم شریعت کے منافی ہے تو وہ اپنے فیصلے میں حسبِ ذیل بیان کرے گی۔
(الف) اس کی مذکورہ رائے قائم کرنے کی وجوہ۔
(ب) وہ حد جہاں تک ایسا قانون یا حکم بایں طور پر منافی ہے، اور
(ج) اس تاریخ کا تعین جس پر وہ فیصلہ نافذ العمل ہو گا۔
مگر شرط یہ ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ اس میعاد کے گزرنے سے پہلے، جس کے اندر عدالتِ عظمٰی میں اس کے خلاف اپیل داخل ہو سکتی ہو، یا جبکہ اپیل بایں طور پر داخل کر دی گئی ہو، اس اپیل کے فیصلے سے پہلے نافذ العمل نہیں ہو گا۔
(۶) عدالتِ عالیہ کو اس دفعہ کے تحت اپنے دیے ہوئے کسی فیصلے یا صادر کردہ کسی حکم پر نظرثانی کرنے کا اختیار ہو گا۔
(۷) اس دفعہ کی رو سے عدالتِ عالیہ کو عطا کردہ اختیارِ سماعت کو کم از کم تین ججوں کی کوئی بینچ استعمال کرے گی۔
(۸) اگر ذیلی دفعہ (۱) یا ذیلی دفعہ (۲) میں محولہ کوئی سوال عدالتِ عالیہ کی یک رکنی بینچ یا دو رکنی بینچ کے سامنے اٹھے تو اسے کم از کم تین ججوں کی بینچ کے حوالے کیا جائے گا۔
(۹) اس دفعہ کے تحت کسی کارروائی میں عدالتِ عالیہ کے قطعی فیصلے سے ناراض کوئی فریق مذکورہ فیصلے سے ساٹھ دن کے اندر عدالتِ عظمٰی میں اپیل داخل کر سکے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ وفاق یا کسی صوبے کی طرف سے اپیل مذکورہ فیصلے کے چھ ماہ کے اندر داخل کی جا سکے گی۔
(۱۰) اس قانون میں شامل کوئی امر یا اس کے تحت کوئی فیصلہ، اس قانون کے آغازِ نفاذ سے قبل کسی عدالت یا ٹربیونل یا مقتدرہ کی طرف سے کسی قانون کے تحت دی گئی سزاؤں، دیے گئے احکام یا سنائے ہوئے فیصلوں، منظور شدہ ڈگریوں، ذمہ کیے گئے واجبات، حاصل شدہ حقوق، کی گئی تشخیصات، وصول شدہ رقوم، یا اعلان کردہ قابلِ ادا رقوم پر اثر انداز نہیں ہو گا۔
تشریح: اس ذیلی دفعہ کی غرض کے لیے ’’عدالت‘‘ یا ’’ٹربیونل‘‘ سے مراد اس قانون کے آغازِ نفاذ سے قبل کسی وقت کسی قانون یا دستور کی رو سے یا اس کے تحت قائم شدہ کوئی عدالت یا ٹربیونل ہو گی۔ اور لفظ ’’مقتدرہ‘‘ سے مراد فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت قائم شدہ کوئی مقتدرہ ہو گی۔
(۱۱) کوئی عدالت یا ٹربیونل بشمول عدالتِ عالیہ کسی زیرسماعت یا اس قانون کے آغازِ نفاذ کے بعد شروع کی گئی کسی کارروائی کو محض اس بنا پر موقوف یا ملتوی نہیں کرے گی کہ یہ سوال — کہ آیا کوئی قانون یا قانون کا حکم شریعت کے منافی ہے یا نہیں — عدالتِ عالیہ یا وفاقی شرعی عدالت کے سپرد کر دیا گیا ہے، یا یہ کہ عدالتِ عالیہ نے اس سوال کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔ اور ایسی کارروائی جاری رہے گی اور اس میں امرِ دریافت طلب کا فیصلہ فی الوقت نافذ العمل قانون کے مطابق کیا جائے گا۔ بشرطیکہ عدالتِ عالیہ ابتدائی سماعت کے بعد یہ فیصلہ نہ دے دے کہ زیرسماعت مقدمات کو عدالت کے فیصلے تک روک دیا جائے۔
(۵) شریعت کے خلاف احکامات دینے پر پابندی
انتظامیہ کا کوئی بھی فرد بشمول صدر مملکت، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ شریعت کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکے گا، اور اگر ایسا کوئی حکم دے دیا گیا ہو تو اسے عدالتِ عالیہ میں چیلنج کیا جا سکے گا۔
(۶) عدالتی عمل اور احتساب
حکومت کے تمام عمال دستور کے تابع رہتے ہوئے اسلامی نظامِ انصاف کے پابند ہوں گے اور شریعت کے مطابق عدالتی احتساب سے بالاتر نہیں ہوں گے۔
(۷) علماء کو جج اور معاونینِ عدالت مقرر کیا جا سکے گا
(۱) ایسے تجربہ کار اور مستند علماء جو اس قانون کے تحت مفتی مقرر کیے جانے کے اہل ہوں، عدالتوں کے ججوں اور معاونینِ عدالت کے طور پر مقرر کیے جانے کے بھی اہل ہوں گے۔
(۲) ایسے اشخاص جو پاکستان یا بیرون ملک اس مقصد کے لیے متعلقہ حکومت کے تسلیم شدہ اسلامی علوم کے معروف اداروں اور مستند دینی مدارس سے شریعت کا راسخ علم رکھتے ہوں، فی الوقت نافذ العمل کسی دیگر قانون میں شامل کسی امر کے باوجود، شریعت کی تشریح اور تعبیر کے لیے عدالت کے سامنے اس مقصد کے لیے وضع کیے جانے والے قواعد کے مطابق پیش ہونے کے اہل ہوں گے۔
(۳) صدر، چیف جسٹس عدالتِ عالیہ کے مشورے سے ذیلی دفعہ (۱) کی غرض کے لیے قواعد مرتب کرے گا، جن میں ججوں اور عدالتوں میں معاونینِ عدالت کی حیثیت سے تقرر کے لیے مطلوبہ اہلیت اور تجربہ کی وضاحت ہو گی۔
(۴) ایسے اشخاص جو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد یا کسی دیگر یونیورسٹی سے قانون اور شریعت میں گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ڈگریاں رکھتے ہوں، فی الوقت نافذ العمل کسی دیگر قانون میں شامل کسی امر کے باوجود، اس غرض کے لیے حکومت کے وضع کردہ قواعد کے مطابق ایڈووکیٹ کی حیثیت سے اندراج کے اہل ہوں گے۔
(۵) اس دفعہ کے احکام کسی طور پر بھی قانون پیشہ اشخاص اور مجالسِ وکلاء سے متعلق قانون کے تحت اندراج شدہ وکلاء کے مختلف عدالتوں، ٹربیونلوں اور دیگر مقتدرات بشمول عدالتِ عظمٰی، کسی عدالتِ عالیہ، یا وفاقی شرعی عدالت میں پیش ہونے کے حق پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔
(۸) مفتیوں کا تقرر
(۱) صدر، چیف جسٹس پاکستان یا چیف جسٹس وفاقی عدالت اور چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے مشورہ سے، جس طرح وہ مناسب تصور کرے، ایسے اور اتنے مفتیوں کا تقرر کرے گا جو عدالتِ عظمٰی، عدالتِ عالیہ، اور وفاقی شرعی عدالت کی شریعت کے احکام کی تعبیر و تشریح میں اعانت کے لیے مطلوب ہوں۔
(۲) ذیلی دفعہ (۱) کے تحت مقرر کردہ کوئی مفتی صدر کی رضامندی کے دوران اپنے عہدہ پر فائز رہے گا اور اس کا عہدہ فی الوقت کسی نائب اٹارنی جنرل برائے پاکستان کے برابر ہو گا۔
(۳) مفتی کا یہ فرض ہو گا کہ وہ حکومت کو ایسے قانونی امور کے بارے میں، جن پر شریعت کی تشریح و تعبیر درکار ہو، مشورہ دے۔ اور ایسے دیگر فرائض انجام دے جو حکومت کی طرف سے اس کے سپرد یا اس کو تفویض کیے جائیں۔ اور اسے حق حاصل ہو گا کہ اپنے فرائض کی بجا آوری میں عدالتِ عظمٰی اور عدالتِ عالیہ میں، جب کہ وہ اس قانون کے تحت اختیارِ سماعت استعمال کر رہی ہوں، اور وفاقی شرعی عدالت میں سماعت کے لیے پیش ہو۔
(۴) کوئی مفتی کسی فریق کی وکالت نہیں کرے گا بلکہ کارروائی سے متعلق اپنی دانست کے مطابق شریعت کے حکم بیان کرے گا، اس کی توضیح، تشریح و تعبیر کرے گا، اور شریعت کی تشریح کے بارے میں اپنا تحریری بیان عدالت میں پیش کرے گا۔
(۵) حکومتِ پاکستان کی وزارتِ قانون و انصاف مفتیوں کے بارے میں انتظامی امور کی ذمہ دار ہو گی۔
(۹) شریعت کی تدریس و تربیت
(۱) مملکت، اسلامی قانون کے مختلف شعبوں میں تعلیم و تربیت کے لیے مؤثر انتظامات کرے گی تاکہ شریعت کے مطابق نظامِ عدل کے لیے تربیت یافتہ افراد دستیاب ہو سکیں۔
(۲) مملکت، ماتحت عدلیہ کے ارکان کے لیے وفاقی جوڈیشنل اکادمی اسلام آباد اور اس طرح کے دیگر اداروں میں مسلّمہ مکاتبِ فکر کے فقہ اور اصولِ فقہ کی تدریس و تربیت، نیز باقاعدہ وقفوں سے تجدیدی پروگراموں کے انعقاد کے لیے مؤثر انتظامات کرے گی۔
(۳) مملکت، پاکستان کے لاء کالجوں میں مسلّمہ مکاتبِ فکر کے فقہ اور اصولِ فقہ کے جامع اسباق کو نصاب میں شامل کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے گی۔
(۱۰) معیشت کو اسلامی بنانا
(۱) مملکت اس امر کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے گی کہ پاکستان کے معاشی نظام کی تعمیر اجتماعی عدل کے اسلامی معاشی اصولوں، اقدار اور ترجیحات کی بنیاد پر کی جائے۔ اور دولت کمانے کے ان تمام ذرائع پر پابندی ہو جو خلافِ شریعت ہیں۔
(۲) صدر، اس قانون کے آغازِ نفاذ کے ساٹھ دن کے اندر ایک مستقل کمیشن مقرر کرے گا جو ماہرینِ معاشیات، علماء اور منتخب نمائندگانِ پارلیمنٹ پر مشتمل ہو گا جن کو وہ موزوں تصور کرے، اور ان میں سے ایک کو اس کا چیئرمین مقرر کرے گا۔
(۳) کمیشن کے چیئرمین کو حسبِ ضرورت مشیر مقرر کرنے کا اختیار ہو گا۔
(۴) کمیشن کے کارہائے منصبی حسبِ ذیل ہوں گے:
(الف) معیشت کو اسلامی بنانے کے عمل کی نگرانی کرنا اور عدمِ تعمیل کے معاملات وفاقی حکومت کے علم میں لانا۔
(ب) کسی مالیاتی قانون، یا محصولات اور فیسوں کے عائد کرنے اور وصول کرنے سے متعلق کسی قانونی یا بنکاری اور بیمہ کے عمل اور طریقہ کار کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سفارش کرنا۔
(ج) دستور کے آرٹیکل ۳۸ کی روشنی میں عوام کی سماجی اور معاشی فلاح و بہبود کے حصول کے لیے پاکستان کے معاشی نظام میں تبدیلیوں کی سفارش کرنا، اور
(د) ایسے طریقے اور اقدامات تجویز کرنا جن میں ایسے موزوں متبادلات شامل ہوں جن کے ذریعے وہ نظامِ معیشت نافذ کیا جا سکے جسے اسلام نے پیش کیا ہے۔
(۵) کمیشن کی سفارش پر مشتمل ایک جامع رپورٹ اس کے تقرر کی تاریخ سے ایک سال کی مدت کے اندر وفاقی حکومت کو پیش کی جائے گی اور اس کے بعد کمیشن حسبِ ضرورت وقتاً فوقتاً اپنی رپورٹیں پیش کرتا رہے گا، البتہ سال میں کم از کم ایک رپورٹ پیش کرنا لازمی ہو گا۔ کمیشن کی رپورٹ حکومت کو موصول ہونے کے ۳ ماہ کے اندر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے سامنے بحث کے لیے پیش کی جائے گی۔
(۶) کمیشن کو ہر لحاظ سے، جس طرح وہ مناسب تصور کرے، اپنی کارروائی کے انصرام اور اپنے طریقہ کار کے انضباط کا اختیار ہو گا۔
(۷) جملہ انتظامی مقتدرات، ادارے اور مقامی حکام کمیشن کی اعانت کریں گے۔
(۸) وزارتِ خزانہ حکومتِ پاکستان اس کمیشن سے متعلق انتظامی امور کی ذمہ دار ہو گی۔
(۱۱) ذرائع ابلاغِ عامہ اسلامی اقدار کو فروغ دیں گے
مملکت کی یہ ذمہ داری ہو گی کہ وہ ایسے مؤثر اقدام کرے جن کے ذریعے ذرائع ابلاغِ عامہ سے اسلامی اقدار کو فروغ ملے، نیز نشر و ابلاغ کے ہر ذریعہ سے خلافِ شریعت پروگرام، فحاشی اور منکرات کی اشاعت پر پابندی ہو گی۔
(۱۲) تعلیم کو اسلامی بنانا
(۱) مملکت اسلامی معاشرہ کی حیثیت سے جامع اور متوازن ترقی کے لیے مؤثر اقدامات کرے گی تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ پاکستان کے نظامِ تعلیم و تدریس کی اساس اسلامی اقدار پر ہو۔
(۲) صدر مملکت اس قانون کے آغازِ نفاذ سے ساٹھ دن کے اندر تعلیم اور ذرائع ابلاغ کو اسلامی سانچہ میں ڈھالنے کے لیے ایک کمیشن مقرر کرے گا جو ماہرینِ تعلیم، ماہرینِ ابلاغِ عامہ، علماء اور منتخب نمائندگانِ پارلیمنٹ پر مشتمل ہو گا، جن کو وہ موزوں تصور کرے، اور ان میں سے ایک کو اس کا چیئرمین مقرر کرے گا۔
(۳) کمیشن کے چیئرمین کو حسبِ ضرورت مشیر مقرر کرنے کا اختیار ہو گا۔
(۴) کمیشن کے کارہائے منصبی یہ ہوں گی:
(الف) دفعہ ۱۱ اور اس دفعہ کی ذیلی دفعہ (۱) میں متذکرہ مقصد کے حصول کے لیے پاکستان کے تعلیمی نظام اور ذرائع ابلاغ کا جائزہ لے اور اس بارے میں سفارشات پیش کرے۔
(ب) تعلیم اور ذرائع ابلاغ کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کے عمل کی نگرانی کرے اور عدمِ تعمیل کے معاملات وفاقی حکومت کے علم میں لائے۔
(۵) کمیشن کی سفارشات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ اس کے تقرر کی تاریخ سے ایک سال کی مدت کے اندر وفاقی حکومت کو پیش کی جائے گی اور اس کے بعد کمیشن حسبِ ضرورت وقتاً فوقتاً اپنی رپورٹیں پیش کرتا رہے گا۔ البتہ سال میں کم از کم ایک رپورٹ پیش کرنا لازمی ہو گا۔ کمیشن کی رپورٹ حکومت کو موصول ہونے کے تین ماہ کے اندر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے سامنے بحث کے لیے پیش کی جائے گی۔
(۶) کمیشن کو ہر لحاظ سے، جس طرح وہ مناسب تصور کرے، اپنی کارروائی کے انصرام اور اپنے طریقہ کار کے انضباط کا اختیار ہو گا۔
(۷) جملہ انتظامی مقتدرات، ادارے اور مقامی حکام کمیشن کی اعانت کریں گے۔
(۸) وزارتِ تعلیم حکومتِ پاکستان اس کمیشن سے متعلق انتظامی امور کی ذمہ دار ہو گی۔
(۱۳) عمّالِ حکومت کے لیے شریعت کی پابندی
انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے تمام مسلمان ارکان کے لیے فرائضِ شریعت کی پابندی اور کبائر سے اجتناب لازم ہو گا۔
(۱۴) قوانین کی تعبیر شریعت کی روشنی میں کی جائے گی
اس قانون کی غرض کے لیے
(اول) قانونِ موضوعہ کی تشریح و تعبیر کرتے وقت، اگر ایک سے زیادہ تشریحات اور تعبیرات ممکن ہوں، تو عدالت کی طرف سے اس تشریح و تعبیر کو اختیار کیا جائے گا جو اسلامی اصولوں اور فقہی قواعد و ضوابط اور اصولِ ترجیح کے مطابق ہو، اور
(دوم) جب کہ دو اور دو سے زیادہ تشریحات و تعبیرات مساوی طور پر ممکن ہوں تو عدالت کی طرف سے اس تشریح و تعبیر کو اختیار کیا جائے گا جو اسلامی احکام اور دستور میں بیان کردہ حکمتِ عملی کے اصولوں کو فروغ دے۔
(۱۵) بین الاقوامی مالی ذمہ داریوں کا تسلسل
اس قانون کے احکام یا اس کے تحت دیے گئے کسی فیصلے کے باوجود اس قانون کے نفاذ سے پہلے کسی قومی ادارے اور بیرونی ایجنسی کے درمیان عائد کردہ مالی ذمہ داریاں اور کیے گئے معاہدے مؤثر، لازم اور قابل عمل رہیں گے۔
تشریح: اس دفعہ میں ’’قومی ادارے‘‘ کے الفاظ میں وفاقی حکومت یا کوئی صوبائی حکومت، کوئی قانونی کارپوریشن، کمپنی، ادارہ، تجارتی ادارہ اور پاکستان میں کوئی شخص شامل ہوں گے۔ اور ’’بیرونی ایجنسی‘‘ کے الفاظ میں کوئی بیرونی حکومت، کوئی بیرونی مالی ادارہ، بیرونی سرمایہ منڈی بشمول بینک، اور کوئی بھی قرض دینے والی بیرونی ایجنسی بشمول کسی شخص کے شامل ہوں گے۔
(۱۶) موجودہ ذمہ داریوں کی تکمیل
اس قانون میں شامل کوئی امر یا اس کے تحت کوئی دیا گیا فیصلہ کسی عائد کردہ مالی ذمہ داری کی باضابطگی پر اثر انداز نہیں ہو گا، بشمول ان ذمہ داریوں کے جو وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت یا کسی مالی یا قانونی کارپوریشن یا دیگر ادارے نے کسی دستاویزات کے تحت واجب کی ہوں یا اس کی طرف سے کی گئی ہوں، خواہ وہ معاہداتی ہوں یا بصورتِ دیگر ہوں، یا ادائیگی کے وعدے کے تحت ہوں۔ اور یہ تمام ذمہ داریاں، وعدے اور مالی پابندیاں قابلِ عمل، لازم اور مؤثر رہیں گی۔
(۱۷) قواعد
متعلقہ حکومت سرکاری جریدے میں اعلان کے ذریعے اس قانون کی اغراض کی بجاآوری کے لیے وضع کر سکے گی۔