جہادِ آزادیٔ کشمیر اور پاکستانی قوم کی ذمہ داری
مظفر آباد سے کشمیر کی ایک غیور بیٹی کا مکتوب

ادارہ

(کشمیری حریت پسند اس وقت فیصلہ کن جہادِ آزادی میں مصروف ہیں اور مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بھارتی فوج کے مظالم سے تنگ آ کر سرحد عبور کر چکی ہے۔ آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفرآباد کشمیری مہاجرین کے سب سے بڑے کیمپ کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہے۔ کشمیری مہاجرین کے احوال اور جہادِ کشمیر کے بارے میں مظفر آباد سے ایک حساس اور غیور خاتون نے اپنے دو عزیزوں جناب شیخ خورشید انور اور جناب شیخ محمد یوسف کے نام مکتوب میں اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے اور پاکستانی قوم کو اس سلسلہ میں اس کے فرائض کی طرف توجہ دلائی۔ مکتوب کے چند حصے قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ ادارہ)

اس وقت شہر میں کم از کم دس ہزار کشمیری لڑکے فروکش ہیں، ان کے قیام و طعام کا بندوبست بہرحال ہماری ذمہ داری ہے۔ لوگوں نے اپنے ڈرائنگ روم ان کے لیے خالی کیے ہوئے ہیں۔ محلوں میں خیمے بھی لگے ہوئے ہیں جہاں عارضی طور پر مجاہدینِ آزادی قیام پذیر ہیں۔ موجودہ حالات میں عوامی تعاون ہی بہترین حکمتِ عملی ہے۔ حکومت جتنا کر رہی ہے اتنا ہی مناسب ہے۔ ہم نے پاکستان کی ان شاء اللہ تکمیل بھی کرنی ہے اور پاکستان کو بچانا بھی ہے۔ اہلِ کشمیر پاکستان کے سچے عاشق ہیں۔ اب وہ اہلِ پاکستان کو اپنی آزادی کے لیے کسی مصیبت میں ڈالنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے بھارت کی گردن پکڑی ہوئی ہے۔ اگر اس نے جھلّا کر پاکستان پر حملہ کیا تو ہم ایک ایک کر کے نثار ہو جائیں گے اور بھارت کا کچھ بھی باقی نہیں چھوڑیں گے۔

آپ کی تسلی کے لیے میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان نوعمر مجاہدین کی اپنی خاص رحمت سے مدد فرما رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے ہمارے رب نے حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری نسبت کو قبول فرما لیا ہے اور گنہگار امتیوں کو ان کی دعاؤں کے سائے میں لے لیا ہے۔ گذشتہ ماہ ۴۴ لڑکوں کا قافلہ جن کی عمریں ۱۵ سے ۲۴ سال کے درمیان تھیں برفانی پہاڑ عبور کرتا ہوا سرحد کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک ان کی نظریں بھارتی فوجیوں پر پڑی، یہ لوگ برفباری میں محفوظ ہوتے ہیں لیکن یک لخت موسم صاف ہو گیا اور بھارتیوں کے سٹارز چمکتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ ان کے گروپ لیڈر نے مجھے بتایا کہ موت کو سامنے دیکھ کر ہم نے میدانِ بدر کی دعا دہرائی کہ اے اللہ! اپنے دین کی سربلندی کے لیے ہمیں دشمن سے نجات بخش۔ عین اسی وقت دھند چھا گئی اور ایک دوسرے کو دیکھنا بھی مشکل ہو گیا۔ ہم نے اسے تائید غیبی سمجھ کر رفتار دگنی کر دی۔ ابھی ایک پہاڑ پر چڑھنا باقی تھا، ہمارے حلق خشک ہو گئے اور زبانیں موٹی ہو گئیں۔ سب نے اپنے جوتوں میں پگھلی ہوئی برف سے لب تر کیے۔ سب کے پاؤں snow bits سے زخمی تھے لیکن ہم بڑھتے چلے گئے۔ ڈھائی گھنٹے دھند ہمارے اوپر سایہ فگن رہی اور جب ہم سرحد کے قریب پہنچے تو دھوپ نکل اچانک ہمیں فوجیوں کے سٹارز پھر چمکتے ہوئے دکھائی دیے۔ غالباً ہم بھٹک کر پکٹ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ہم اپنے سر بازوؤں میں چھپا کر الٹے لیٹ گئے تاکہ شہادت کی صورت میں ہمارے والدین ہمارے چہرے پہچان سکیں۔ اتنے میں فوجی بھاگتے ہوئے ہمارے قریب آئے اور جنت کی سی آواز آئی السلام علیکم Boys! You are welcome to Azad Kashmir

گذشتہ دنوں ڈیڑھ سو لڑکوں کا قافلہ سرحد عبور کر رہا تھا کہ یہ لوگ غلطی سے راستہ بھول کر بھارتی مورچوں پر پہنچ گئے۔ ان میں سترہ لڑکے بھدرواہ سے اباجی کی فیملی سے ہیں۔ بھارتی فوجیوں کو دیکھ کر انہوں نے ’’پاکستان زندہ باد اور اللہ اکبر کے نعرے بلند کیے‘‘۔ بھارتیوں نے سمجھا کہ آزاد کشمیر کے جوشیلے لڑکے پھر کوئی جلوس وغیرہ نکال کر سرحد عبور کر آئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے وائرلیس پر پاکستانی آرمی کے میجر کو گالی دے کر کہا کہ تمہارے یہ لاڈلے پھر ادھر آ گئے ہیں انہیں واپس لے جاؤ ورنہ ہم فائر کھول دیں گے، انہوں نے سرحد کو کھیل بنا رکھا ہے۔ ہمارے میجر نے انتہائی منت سے گذارش کی کہ ہم انہیں خود سزا دے لیں گے، آج کل سکولوں کالجوں میں چھٹیاں ہیں اس لیے یہ شرارتیں کر رہے ہیں، ہم ان کی طرف سے معافی مانگتے ہیں۔ چنانچہ پاک آرمی کے جوان خود بھارتی مورچوں میں جا کر انہیں بحفاظت لے آئے۔ ہمیں اپنی بے مثال فوج کی دانشمندی اور بہادری پر فخر ہے۔ یہ مومن کی بصیرت اور علیؓ کے جگر سے سرحدوں پر چوکس اور ہر دم مصروف ہیں۔ ۱۱ فروری کو چکوٹھی بارڈر پر مظفر آباد کے لشکروں نے جو چیڑھ کے درخت پر پرچم لگایا تھا پاک فوج نے بھارتیوں کو یہ پرچم اتارنے کی جرأت نہیں کرنے دی کیونکہ یہ ہمارے بچوں نے اپنا خون دے کر لگایا تھا جو اب پوری آب و تاب سے لہرا رہا ہے۔

لبریشن فرنٹ کے کمانڈر انچیف ملک یسین کی خبر تو آپ نے ٹی وی پر سن لی ہو گی، اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ وہ سلامت ہیں اور محفوظ مقام پر مصروفِ جہاد ہیں۔ اول تو چار منزلہ عمارت سے چھلانگ لگا کر بچنا ہی محال ہے، پھر سری نگر کی کرفیوز زدہ سڑک پر آرمی کی حفاظت میں ایمبولینس سے فرار اور بھی ناممکن ہے لیکن اس صدی میں ایسا ہوا ہے اور یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔

میں یہ سب باتیں آپ کو اس لیے لکھ رہی ہوں تاکہ آپ کو یقین آجائے کہ آپ لوگوں کی دعائیں ہمیں پہنچ رہی ہیں۔ پاکستانی قوم دنیا کی منفرد اور بے مثال قوم ہے۔ اگر قیادت قائد اعظم جیسی میسر آجائے تو اس قوم میں دنیا کی امامت کرنے کی تمام تر صلاحیتیں موجود ہیں۔ ۴۲ برس میں جو کچھ اس قوم کے ساتھ سلوک ہوا ہے اگر کسی اور کے ساتھ ہوا ہوتا تو پوری قوم پاگل ہو جاتی لیکن پاکستانیوں کے صبر و ہمت اور استقلال کی مثال نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سخت جان قوم سے ضرور کوئی خاص کام لینا ہے اسی لیے اس کی آزمائش بھی کڑی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے یورپ کے تربیت یافتہ مٹھی بھر خواص کو ہدایت دے اور ان کے دلوں میں رحم و خداخوفی بھر دے، یہ بے حیائی اور بے ایمانی ترک کر کے ملک سے کھیلنا چھوڑ دیں اور انتشار کا راستہ بدل لیں۔ ایک مضبوط اور متحد پاکستان اہلِ کشمیر اور اہلِ افغانستان کا ناقابلِ تسخیر قلعہ ہے بلکہ اسلامی بلاک کے خواب کی تعبیر ہے۔

کیا آپ دس کروڑ پاکستانیوں میں چار کروڑ بھی ایسے نہیں جو اپنے خرچے پر جمع ہو کر اسلام آباد جائیں اور حکمرانوں کی منت کریں کہ ہم اس وقت تک یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک آپ میاں نواز شریف، نواب اکبر بگتی اور الطاف حسین کو دل سے تسلیم کر کے انہیں اپنا دوست سمجھنے کا اعلان نہیں کرتے۔ اسی طرح اتنے ہی لوگ میاں نواز شریف، نواب بگتی اور الطاف حسین کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کا گھیراؤ کریں کہ آپ وفاقی حکومت کی اطاعت اور تعاون کا اعلان کریں۔ ایک خوبصورت جمہوری طرزِ عمل ہی اب نفرتوں کے زہر کا تریاق بن سکتا ہے۔ عوام کا شعور بیدار ہو تو حکمرانوں میں سیاسی پختگی خود ہی آجاتی ہے۔ بہتر ہے عوام لیڈروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں اور خود اپنا جمہوری حق استعمال کریں۔ قوم بیدار ہو تو سیاسی کاروبار کی دکانیں خودبخود بند ہو جاتی ہیں۔ ضمیروں کے سودے اور عوامی رائے کی خریدوفروخت تبھی ممکن ہے جب لوگ مایوسیوں کے گرداب میں پھنس جائیں اور اپنی قسمت کے فیصلے خود نہ کر پائیں۔ آپ لیڈروں کو ان کے حال پر چھوڑ کر خود موج در موج قافلہ در قافلہ اٹھیں اور حکمرانوں کو باور کرائیں کہ انہیں امریکی سفیرمسٹر رابرٹ اوکلے کے سامنے اپنی صفائیاں پیش کرنے کی بجائے آپ کے سامنے اپنا عہد نبھانا ہے اور ملک کے مفادات کی حفاظت کرنی ہے۔ اس وقت اللہ کا خوف اور اس کے احکامات کی پابندی کے علاوہ قومی جرأت و غیرت ہی ہماری آئندہ نسلوں کی آزادی اور سلامتی کی ضامن بن سکتی ہے۔ اپنا انفرادی اور مجموعی فرض ادا کریں۔

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(جون ۱۹۹۰ء)

جون ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۶

شریعت بل اور شریعت کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۰ء
ادارہ

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی — رپورٹ، پروگرام، عزائم
ادارہ

امام المحدثین والفقہاء حضرت مولانا ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ
الاستاذ محمد امین درانی

مذاہب اہل السنۃ والجماعۃ کی تاسیس ایک نظر میں
الاستاذ محمد امین درانی

انسانی حقوق کا اسلامی تصور
مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی

’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ کی تفسیر اور پادری برکت اے خان
محمد عمار خان ناصر

حفاظتِ قرآن کا عقیدہ اور پادری کے ایل ناصر
محمد عمار خان ناصر

دو قومی نظریہ نئی نسل کو سمجھانے کی ضرورت ہے
مولانا سعید احمد عنایت اللہ

بھارت میں اردو کا حال و مستقبل
بیگم سلطانہ حیات

جہادِ آزادیٔ کشمیر اور پاکستانی قوم کی ذمہ داری
ادارہ

مثیلِ موسٰی کون ہے؟
محمد یاسین عابد

نو سالہ ماں
حافظ محمد اقبال رنگونی

آپ نے پوچھا
ادارہ

گنٹھیا ۔ جوڑوں کا درد یا وجع المفاصل
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
ادارہ

مکان کیسا ہونا چاہیئے؟
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

قرآنِ کریم کے ماننے والوں کا فریضہ
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

مسلمانوں کی قوت کا راز — خلافت
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter