امام المحدثین والفقہاء حضرت مولانا ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ

الاستاذ محمد امین درانی

امام صاحبؒ کے پوتے عمر بن حماد بن ابی حنیفہؒ کے قول کے مطابق امام صاحبؒ کا نسب یوں ہے: ابوحنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی۔ زوطی اہلِ کابل سے تھے۔ انہوں نے کابل سے کوفہ ہجرت کی اور وہیں آباد ہو گئے۔ ان کے والد بزرگوار ’’ثابتؒ‘‘ پیدائشی مسلمان تھے۔ ثابتؒ کی ملاقات حضرت علی بن ابی طالبؓ سے کوفہ میں ہوئی تھی جب ثابتؓ کو ان کے والد زوطیؒ حضرت علیؓ کی خدمت میں لے گئے تھے، انہوں نے آپ کے لیے دعا کی۔

دوسری روایت آپ کے دوسرے پوتے اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ سے ہے۔ ان کے قول کے مطابق امام ابو حنیفہ، نعمان بن ثابت بن نعمان بن المدزبان ہیں اور وہ فارس (ایران) کے رہنے والے تھے۔ وہاں سے ان کے دادا نے کوفہ ہجرت کی اور وہیں آباد ہوئے۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ للصمیری)

ان دونوں اقوال میں تطبیق ایسی ہے کہ ’’زوطی‘‘ نعمان بن المدزبان کا لقب ہے۔ اس زمانے میں کابل پر اہلِ فارس حکمران تھے۔ کابل، فارس (ایران) کا محکوم علاقہ تھا تو کابل کو فارس میں شمار کر لیا گیا۔

ولادت

اکثر ائمہ سیرت و تاریخ کے اقوال کے مطابق امام ابوحنیفہ ۸۰ھ کو کوفہ میں پیدا ہوئے۔ صرف ائمہ حدیث میں محدث الحسن الخلال نے مشہور محدث زواد بن علیہ سے روایت کی کہ امام ابوحنیفہ ۶۱ھ کو پیدا ہوئے اور ۱۵۰ھ کو وفات پائی۔ تاریخِ وفات میں کوئی اختلاف نہیں سب کے نزدیک ۱۵۰ھ ہے، جس سال امام شافعیؒ کی ولادت ہوئی (مقدمہ جامع المسانید ص   ۲۱ ۔۔۔) دونوں روایتوں کے مطابق وہ قرنِ اول کے آخر میں پیدا ہوئے جو صحابہ کرامؓ کا زمانہ ہے۔ انہوں نے تدریسِ اسلام (تدریسِ حدیث و فقہ) قرنِ ثانی (دوسری صدی) میں کی جو تابعینؒ کی صدی ہے۔ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی تینوں صدیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین صدیاں (خیر القرون) فرمایا اور ان لوگوں کی افضلیت اور عدالت کی شہادت دی جو ان تینوں صدیوں میں ہوں۔

صحابہؓ سے ملاقات

امام ابوحنیفہؒ کے حاسدوں نے مختلف کتابوں میں لکھا ہے کہ آپؒ کے زمانے میں چار صحابہؓ موجود تھے۔ انس ؓ بن مالک بصرہ میں، عبد اللہ ؓ بن ابی کوفہ میں، سہلؓ بن سعد مدینہ منورہ میں، اور عامر بن واثلہؓ مکہ میں، اور کسی سے نہیں ملے۔ تابعینؒ سے ان کی ملاقات ہوئی اور وہ تبع تابعین میں سے ہیں (تاریخ امام ابو زہرۃ مصری) (آخر مشکوٰۃ)

مذکورہ بالا روایت غلط ہے اور اس کے مقابلے میں امام ذہبی نے الخطیب سے بحوالہ تاریخ بغداد نقل کیا ہے کہ وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بصرہ میں ملے اور ان سے احادیث کی روایت کی۔ امام الصمیری نے (اخبار ابی حنیفہ ص ۴۰ میں) لکھا ہے، جب امام صاحبؒ پندرہ سال کے ہوئے تو آپ نے انس ؓ بن مالک کو بصرہ میں دیکھا اور ان سے روایت کی۔ ابوداؤد الطیالسیؒ نے امام ابوحنیفہؒ سے روایت کی، ابوحنیفہؒ نے فرمایا میں ۸۰ھ کو پیدا ہوا، صحابی رسول عبد اللہ بن انیس کوفہ آئے (۹۴ھ) اور میں چودہ سال کا تھا کہ میں نے ان سے یہ حدیث لی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’حبک الشیئ یعص و یعصم‘‘ (کسی چیز کی محبت آپ کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہے)۔ (ص ۲۳ مقدمہ جامع المسانید)

بشر بن الولید قاضی نے امام ابو یوسفؒ سے روایت کی کہ مجھے امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا، میں سولہ سال کا تھا اور حج کے لیے اپنے والد بزرگوار کے ساتھ گیا اور مسجد الحرام میں صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عبد اللہ بن الحارث بن جزی الزبیدی کے حلقۂ درس میں بیٹھا اور ان سے یہ حدیث سنی ’’من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ ھمہ ورزقہ من حیث لا یحتسب‘‘ جو اللہ کے دین میں مہارت حاصل کریں اللہ تعالیٰ اس کی پریشانی دور کرے گا اور اس کو وہاں سے روزی دے گا جو اس کے گمان میں نہ ہو۔

ایسے اور کئی واقعات سیرۃ و تاریخ و اسماء الرجال میں اس حقیقت کی شہادت کرتے ہیں کہ مشکوۃ المصابیح کے اسماء الرجال کے آخرمیں یا ابو زہرہؒ وغیرہ نے جو لکھا ہے وہ غلط ہے اور حقیقت کے خلاف ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ تابعی ہیں۔ انہوں نے صحابہ کرامؓ کو دیکھا ان سے روایت کی۔ اس حقیقت کی تائید امام ابویوسفؒ کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ جب امام ابوحنیفہؒ کے استاد حماد بن ابی سلیمانؒ نے امام صاحب سے کہا کہ حضرت انس ؓ بن مالک کا یہی فتوٰی ہے کہ سجدۂ سہو سلام کے بعد ادا کرنا  ہے۔ اس تحقیق کے لیے امام صاحب بصرہ تشریف لے گئے اور ان سے خود ہی مسئلہ سنا (اخبار ابی حنیفہ للصمیری ص ۵)۔

ہناد بن سری محدث نے امام ابوحنیفہ کی روایت واثلہ بن الاسقع صحابیؓ سے نقل کی اور محدث یحیٰی بن معین نے ابوحنیفہ کی روایت عائشہ بنت عجرو صحابیہؓ سے نقل کی۔ یہ ساری روایات صحیح ہیں اور ان روایات سے یہ حقیقت بخوبی عیاں ہوئی کہ امام ابوحنیفہؒ یقیناً تابعی ہیں۔

ابتدائی تعلیم

امام ابوحنیفہؒ نے قرآن مجید مشہور قاری امام القراءت عاصم بن ابی النجود الکوفی سے حفظ کیا۔ یہ بچپن کا زمانہ تھا۔ امام عاصمؒ نے خود اس کی شہادت کی۔ ’’اتیتنا صغیرًا و اتیناک کبیرًا‘‘ آپ ہمارے پاس چھوٹے آتے تھے اور ہم آپ کے پاس آپ کے بڑے ہونے پر آئے۔ امام عاصمؒ نے اپنے شاگرد ابوحنیفہؒ سے بعد میں احادیث اور فقہی مسائل کی روایت کی۔ امام عاصمؒ مشہور قاری حفصؒ کے استاد ہیں جن کی قراءت کی روایت سے ہم قرآن مجید پڑھتے ہیں۔ (ص ۳۰ س ۳ مقدمہ جامع المسانید)

تعلیمِ حدیث و فقہ

امام ابوحنیفہؒ نے چار ہزار ائمہ شیوخ التابعین سے حدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی اور اکثر حصۂ احادیث اپنے مشہور استاد حماد بن ابی سلیمانؒ سے روایت کی جو مدرسۂ کوفہ کے شیخ الحدیث تھے۔ 

ربیع بن یونس نے روایت کی کہ امام ابوحنیفہ خلیفہ ابو جعفر منصور عباسی کی خدمت میں گئے، عیسٰی بن موسٰی نے خلیفہ منصور سے کہا کہ آج ابوحنیفہ دنیا کا عالم ہے۔ خلیفہ منصور نے پوچھا، اے نعمان! آپ نے کن سے علم کیا؟ امام نے فرمایا عمرؓ بن الخطاب، علیؓ بن ابی طالب، عبد اللہؓ بن مسعود، اور عبد اللہؓ بن عباسؓ کے ساتھیوں سے علم حاصل کیا۔ عبد اللہ بن عباسؓ اپنے وقت کےبڑے عالم تھے (وہ خلیفہ منصور کے اجداد میں سے ہیں) خلیفہ منصور نے کہا، آپ معتمد انسان ہیں آپ پر (دین میں) بھروسہ کیا جا سکتا ہے‘‘۔ (مقدمہ جامع المسانید ص ۳۰ و ص ۳۱)

تدریس

امام حمادؒ بن ابی سلیمان کی وفات کے بعد علماء عراق کے بے حد اصرار پر امام ابوحنیفہؒ نے مدرسہ کوفہ میں احادیث کی تدریس شروع کی اور قرآن و سنت سے مستنبط فقہی احکام کی تعلیم دی۔ جلیل القدر تابعین آپ سے دینی مسائل میں فتوٰی لیتے تھے اور آپ پر اعتماد کرتے تھے۔ ہزاروں لوگوں نے امام ابوحنیفہؒ سے احادیث روایت کیں جن میں چند مشہور محدثین درج ذیل ہیں: (۱) عمرو بن دینار (۲) عبد اللہ بن المبارک (۳) داود الطائی (۴) یزید بن ہارون (۵) عباد بن العوام (۶) محمد بن الحسن الشیبانی (۷) ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری (۸) وکیع بن الجراح (۹) ہمام بن خالد (۱۰) سفیان بن عتیبہ (۱۱) فضیل بن عیاض (۱۲) سفیان الثوری (۱۳) ابن ابی لیلی (۱۴) ابن شبرمد (۱۵) قاری حمزہ بن حبیب (۱۶) آپ کے استاد امام القراء عاصم بن ابی النجود (۱۷) امام القراء نافع بن عبد الرحمٰن المدنی جو امام مالکؒ کے استاد ہیں (۱۸) اکیلے قاری عبد اللہ بن یزید نے امام ابوحنیفہ سے نو سو احادیث کی روایت کی۔ (ص ۲۹ جامع المسانید)۔امام شافعیؒ، امام احمدؒ بن  حنبل، امام بخاریؒ، امام مسلمؒ اوردیگر ائمہؒ حدیث نے آپ کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں سے روایت کی۰

اتنی تعداد میں جلیل القدر ائمہ حدیث کی روایت امام ابوحنیفہؒ سے اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نہ صرف فقیہ بلکہ امام المحدثین ہیں اور علمِ حدیث کے متبحر اور مستند اماموں میں سے ہیں۔ اور آپ کی کتبِ حدیث، احادیث کی ۱۵ مسندیں مع کتاب الاثار، جو امام محمد اور امام ابویوسف کی الگ کتابیں ہیں، دین کی اصحب کتب ہیں اور ان کا درجہ ان کتب حدیث سے اونچا ہے جو امام ابوحنیفہؒ کے بعد مرتب ہوئیں کیونکہ یہ روایات یا تو معتمد جلیل القدر تابعین سے ہیں یا براہِ راست اصحابؓ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہیں۔ جو دوسری کتب حدیث کے رواۃ (جو غیر تابعین اور غیر صحابہ) ہیں ان سے زیادہ معتمد زیادہ افضل اور زیادہ ثقات ہیں اور ازراہِ انصاف اس حقیقت کے مطابق قران مجید کے بعد امام ابوحنیفہؒ کی کتب حدیث اصح الکتب ہیں۔ (امام بخاریؒ گیارہویں طبقہ کے محدث ہیں جبکہ امام ابوحنیفہؒ چھٹے طبقہ کے محدث ہیں)۔اور مقدمہ ابن خلدون کے ص ۳۸۸ پر جو درج ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے سترہ احادیث روایت کی ہیں یہ امام ابوحنیفہؒ کے حاسدوں کی ترجمانی ہے اور غلط بیانی کی انتہا ہے۔ اسی طرح خطیب بغدادی کے اقوال جو امام ابوحنیفہؒ کے خلاف ہیں وہ تعصب پر مبنی ہیں۔

علمی مجلسِ شورٰی

امام ابوحنیفہؒ نے ہزاروں شاگردوں میں سے چالیس ائمہ منتخب کیے جو مجتہدین تھے، ان کو علمی مجلسِ شورٰی کا ممبر بنایا جس کے سیکرٹری امام ابو یوسف تھے۔ امام ابوحنیفہؒ دینی مسئلہ اس مجلس میں پیش کرتے اور اپنے ان مجتہد ائمہ شاگردوں سے وہ احادیث اور آثار سنتے تھے، اور ایک ایک مہینہ اکثر اوقات مذاکرات طویل ہوتے تھے تب ہی کوئی بات تحقیق سے ثابت ہوتی تو امام ابو یوسفؒ اس کو درج کرتے تھے۔ دینی مسائل کی تحقیق کے لیے مجلسِ شورٰی کی تاسیس امام ابوحنیفہؒ کا ایک منفرد عمل ہے جو باقی ائمہ کرامؒ کو نصیب نہیں ہوا۔ امام ابوحنیفہؒ کہا کرتے تھے لوگوں نے مجھے دوزخ کے اوپر پل بنا دیا ہے، سارا بوجھ میرے اوپر ہے، اس لیے میرے ساتھیو! میری مدد کرو۔

امام ابوحنیفہؒ بشر ہیں، اگر کبھی خطا ہو جاتی تو یہ ائمہ کبار ان کو احادیث و آثار سنا کر حق کی طرف واپس کرتے۔  انہوں نے امام ابو یوسفؒ سے کہا، کوئی بات بغیر تحقیق درج نہ کریں، بغیر تحقیق والی بات اگر آج ہے تو کل اسے چھوڑ دوں گا اور اس سے رجوع کروں گا۔ یہ حقیقت اس بات کی شاہد ہے کہ حنفی مسائل اجماعی اور سو فیصد صحیح ہیں۔

مذہب حنفی کی تاسیس

کوفہ عراق کا اہم ترین شہر ہے۔ عراق کے فتح ہونے کے بعد حضرت عمرؓ بن الخطاب خلیفۂ دوم نے صحابہ کرامؓ میں سے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو کوفہ میں تعلیم و تدریس اور قضاء کے لیے منتخب فرمایا اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اس وقت دینِ اسلام کے بہت بڑے فقیہ تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ مکہ مکرمہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے اور مدینہ منورہ میں وصالِ نبویؐ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم رہے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی سفر اور حضر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزاری۔ تمام احکام آپ کے سامنے نازل ہوئے۔ ناسخ و منسوخ کا علم سب سے زیادہ آپؓ کو ہوا کیونکہ باقی اصحابِ رسول کوئی نہ کوئی کام یا کاروبار کرتے تھے جبکہ عبد اللہ بن مسعودؓ کا پیشہ صرف خدمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اس لیے وہ دین کے بہت بڑے عالم اور فقیہ بنے اور اس خوبی کے تحت حضرت عمر فاروقؓ نے آپ کو مدرسہ کوفہ کا پہلا معلم مقرر فرمایا۔ عہدِ فاروقی میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کوفہ میں درس دیا کرتے تھے۔ عہدِ عثمانی میں مدینہ منورہ میں عبد اللہ بن مسعودٌ کی کمی محسوس کی گئی تو خلیفہ سومؓ نےآپ کو وہاں بلایا، پھر مسجد نبویؐ میں درس دیتے رہے اور وفات کے بعد جنت البقیع میں دفن ہوئے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے بعد آپ کے شاگردوں حضرت علقمہ نخعی، مسروق الہمدانی، ابی قاضی شریح، اور ان کے شاگردوں کے شاگردوں ابراہیم النخعی، عامر الشعبی، حاد بن ابی سلیمان، پھر ان کے شاگرد امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہم نے عبد اللہ بن مسعودؓ کی وہ اسلامی تعلیم لوگوں کو سکھائی جو اس جلیل القدر صحابیؓ نے اپنی ساری زندگی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دیکھی تھی۔ اور یہی اسلامی تعلیم مذہب حنفی کے نام سے مشہور ہوئی۔ مذہب حنفی کوئی نیا مذہب نہیں بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ دین ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔

امام ابوحنیفہؒ، عبد اللہ بن مسعودؓ کے قائم کردہ  مدرسے میں تدریسِ حدیث اور فقہ کیا کرتے تھے اور اس علمی خدمت کے ساتھ آپ اونی اور ریشمی کپڑوں کی تجارت کرتے تھے اور تجارت کا منافع اپنے شاگردوں اور دیگر محتاجوں پر خرچ کیا کرتے تھے۔ آپ نے تدریسِ اسلام پر کوئی اجر نہیں لیا۔ امام ابوحنیفہؒ نے جن چالیس اماموں کو تدوینِ فقہ اسلامی کے لیے منتخب کیا تھا ان میں سے چار امامؒ بہت مشہور ہوئے۔

(۱) امام بو یوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاریؒ

(ولادت ۱۱۳ھ وفات ۱۸۲ھ) جن کی مشہور کتاب ’’مسائل الخراج‘‘ ہے جس میں اسلامی ٹیکس، صدقات اور مالی مسائل مذکور ہیں۔ انہوں نے امام ابوحنیفہؒ سے کتاب الآثار اور مسند فی الحدیث کی روایت کی۔امام شافعیؒ کی کتاب الأم کی آخیر ساتویں جلد ص ۸۷ سے ص ۱۵۰ تک امام ابو یوسفؒ کے علمی اقوال درج ہیں۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ وہ انتہائی غریب و نادار تھے اور حدیث و فقہ کے شیدائی تھے۔ ان کے والد ابراہیم الانصاریؒ نے آپ سے کہا ابو حنیفہؒ کی روٹی مرغن ہے اور آپ کو مزدوری کی ضرورت ہے، اس لیے والد کی اطاعت کی خاطر ابوحنیفہؒ کے درس سے چند روز غیر حاضر رہے۔ جب حاضر ہوئے ان سے پوچھا کیوں غیر حاضری کی؟ امام ابویوسفؒ کے بتانے پر سبق کے آخیر میں آپ کو اشارہ کر کے سو درہم کی تھیلی دی اور حاضری کی تلقین کی۔ تھوڑے دنوں کے بعد پھر سو درہم دیے اور وقفہ وقفہ سے امام ابوحنیفہؒ آپ کو سو سو درہم دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ امام ابو یوسفؒ غنی اور مالدار ہوئے (ص ۹۲ اخبار ابی حنیفہ للصمیری)۔

امام ابو یوسفؒ کہا کرتے تھے کہ دنیا کی کوئی مجلس امام ابوحنیفہؒ اور امام ابن لیلیؒ کی مجلسوں سے مجھے زیادہ پسند نہ تھی۔ میں نے ابوحنیفہؒ سے بڑا فقیہ اور ابن ابی لیلی سے بڑا قاضی نہیں دیکھا۔ امام ابو یوسفؒ نے فرمایا، میں امام ابوحنیفہؒ کی صحبت میں سترہ سال رہا، میں نہ عید الفطر اور نہ عید الاضحٰی میں ان سے غیر حاضر رہا سوائے اس صورت میں جبکہ میں بیمار تھا۔ آپ فرماتے تھے ہر نماز اور ہر عبادت کے بعد امام ابوحنیفہؒ کے لیے دعا کرتا رہتا۔ امام حماد بن ابی حنیفہ (امام الاعظم) فرماتے ہیں کہ میرے والد (امام ابوحنیفہؒ) کے دائیں طرف امام ابو یوسفؒ اور بائیں جانب امام زفرؒ تھے۔ مسائل میں ہر ایک دوسرے کے خلاف دلائل پیش کرتے رہے۔ صبح سے ظہر تک دونوں کا مناظرہ جاری تھا، جب ظہر کے لیے مؤذن نے اذان دی امام ابوحنیفہؒ نے اپنا ہاتھ امام زفرؒ کی ران پر مارا اور فرمایا اس شہر میں سربراہی کی امید نہ کر جہاں ابو یوسف موجود ہو۔ امام ابوحنیفہؒ نے امام زفرؒ کے خلاف امام ابو یوسفؒ کے حق میں فیصلہ دیا (اخبار ابی حنیفہ للصمیری ص ۹۵)۔

امام ابو جعفرؒ طحاویؒ نے فرمایا  میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔ محدث علی بن الجعدؒ نے فرمایا، امام ابو یوسفؒ نے ہمیں حدیث کی روایت کی۔ اس وقت لوگوں سے مجلس بھری ہوئی تھی، ایک آدمی نے پوچھا اے ابوالحسن (ابن ابی عمران) کیا آپ کو ابو یوسفؒ یاد ہیں؟ تو محدث علی بن الجعدؒ نے فرمایا جب آپ ابو یوسفؒ کا نام لیتے ہیں تو پہلے اشنان اور گرم پانی سے منہ دھو لیں۔ پھر فرمایا خدا کی قسم میں نے ابو یوسف کی طرح کوئی شخص نہیں دیکھا۔ ابن ابی عمرانؒ فرماتے ہیں کہ محدث علی بن الجعدؒ نے سفیان ثوری، حسن بن صالح، امام مالک، ابن ابی ذیب، لیث بن سعد اور شعبہ بن الحجاج جیسے اماموں رحمۃ اللہ علیہم کو دیکھا تھا، وہ سب پر ابو یوسفؒ کو ترجیح دیتے تھے (اخبار ابی حنیفہ ص ۹۶)

(۲) امام زفر بن الہذیذ بن قیس العنبریؒ

امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد امام حسن بن زیاد الؤلؤی نے فرمایا کہ امام اعظمؒ کے دو شاگرد امام زفرؒ اور امام داود طائی گہرے دوست تھے۔ امام داود طائی نے عبادت کی طرف زیادہ توجہ دی جبکہ امام زفرؒ نے فقہ اور عبادت دونوں کی طرف زیادہ توجہ دی۔ امام زفرؒ امام ابوحنیفہؒ کے جوتوں قریب بیٹھتے تھے جبکہ امام ابو یوسفؒ آپؒ کے دائیں جانب بیٹھا کرتے تھے۔ امام وکیع بن الجراحؒ، جو امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد اور امام شافعیؒ کے استاد ہیں، فرمایا کرتے تھے امام زفرؒ انتہائی پرہیزگار تھے، ان کا حافظہ بہت قوی تھا۔

امام محمد بن وہبؒ فرماتے ہیں کہ امام زفرؒ ابوحنیفہؒ کے ان دس اکابر شاگردوں میں سے ہیں جنہوں نے امام ابوحنیفہؒ کی نگرانی میں کتابیں تالیف کیں۔ اہلِ بصرہ کے علماء امام ابوحنیفہؒ کے تابع اس لیے ہوئے کہ بصرہ کے لوگ امام زفرؒ کے علم سے متاثر ہوئے اور آپ کے علم کو پسند کیا۔ امام زفرؒ نے فرمایا، میں نے یہ علم امام ابوحنیفہؒ سے حاصل کیا ہے تو اہلِ بصرہ احناف بنے۔

امام وکیع بن الجراحؒ نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہؒ کی وفات کے بعد لوگ امام زفرؒ سے پڑھتے تھے اور بہت کم امام ابو یوسفؒ کی مجلس میں ہوتے تھے۔ امام زفرؒ ۱۵۸ھ میں فوت ہوئے تو آپ کے شاگرد بھی امام ابو یوسفؒ سے پڑھنے لگے (اخبار ابی حنیفہ للصمیری ص ۱۰۶)

(۳) امام محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانیؒ

(ولادت ۱۳۲ھ وفات ۱۸۹ھ) آپ کی کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ جس دن امام ابوحنیفہؒ دنیا سے رحلت کر گئے امام محمدؒ اس دن اٹھارہ سالہ نوجوان تھے۔ آپ نے فقہ حنفی کی باقی تعلیم امام ابو یوسفؒ سے حاصل کی۔ اس کے بعد امام سفیانؒ ثوری اور امام اوزاعیؒ سے پڑھا۔ پھر تین سال مدینہ منورہ میں امام مالکؒ سے مزید احادیث کی تعلیم حاصل کی۔ اور جب وہ درس و تدریس کے لیے بیٹھ گئے تو بڑے ائمہ کرام نے آپ سے تعلیم حاصل کی جس میں امام محمد بن ادریس الشافعیؒ بھی ہیں۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں جب امام محمدؒ بات کرتے تو سننے والا یہ گمان کرتا کہ قرآن مجید امام محمدؒ کی لغت (لہجہ) میں نازل ہوا ہے۔ 

آپ نے فقہ حنفی امام اعظم ابوحنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ سے حاصل کی اور عراقی فقہ کے کامل مستند فقیہ بنے۔ اس کے بعد آپ نے حجازی فقہ امام مالکؒ شیخ الحجاز سے حاصل کی۔ اس کے بعد فقہ اہل الشام کی مہارت اہلِ شام کے امام اوزاعیؒ سے حاصل کی۔ آپ کی علمی خدمات کی بدولت آپ کے شاگردوں میں امام شافعیؒ جیسے لوگ پیدا ہوئے اور وہی امام شافعیؒ امام احمدؒ بن حنبل، امام داود الظاہریؒ، امام ابو جعفر طبریؒ اور امام ابو ثور بغدادیؒ کے استاد بنے۔ اس لحاظ سےمذہب شافعی اور مذہب حنبلی دونوں مذہب حنفی کی شاخیں ہیں۔ اور فقہی مسائل میں اختلاف نے اگر امام محمدؒ، امام زفرؒ اور امام ابویوسفؒ کو مذہب حنفی سے نہیں نکالا تو یہ اختلاف امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کو حنفیت سے کیسے نکالے گا؟ امام شافعیؒ فرماتے ہیں میں نے حلال و حرام، ناسخ و منسوخ میں امام ابوحنیفہؒ سے بڑا عالم نہیں دیکھا (اخبار ابی حنیفہ للصمیری ص ۱۲۳) اور فرمایا اگر لوگ فقہاء کے بارے میں انصاف کرتے تو وہ جان لیتے کہ انہوں نے محمد بن الحسنؒ جیسا فقیہ نہیں دیکھا (اخبار ابی حنیفہ للصمیری ص ۱۲۴)۔

یاد رہے کہ امام شافعی امام مالکؒ کے شاگرد بھی رہے ہیں اور اس کے باوجود وہ امام محمدؒ کو بے مثال امام سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معروف مصری محقق محمد ابوزہرہؒ نے اپنی کتاب اصول الفقہ مبحث المجتہدین میں لکھا ہے کہ قرنِ ثانی اور قرنِ ثالث کے کئی علماء کا  یہ ہی نظریہ ہے کہ امام محمدؒ بن الحسن الشیبانی اپنے استاذ امام مالکؒ سے بڑے فقیہ تھے اور فنِ حدیث میں ان کے اوپر سبقت حاصل کی۔ امام احمد بن حنبلؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے دقیق مسائل امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ کی کتابوں سے لیے (اخبار ابی حنیفہ للصمیری ص ۱۲۵)۔

امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمۃ اللہ علیہ نے فقہ حنفی کو عام کرنے میں اہم خدمت کی اور انہوں نے کئی کتابیں تالیف کیں۔ فقہ میں آپ کی تالیفات دو قسم کی ہیں:

(۱) ظاھرالروایۃ

جن کتابوں کو ثقہ اور معتمد علماء جو عوام میں مشہور و معروف تھے انہوں نے امام محمدؒ سے روایت کیا وہ کتب ظاہر الروایۃ یا اصول کے نام سے موسوم ہیں۔ وہ چھ کتابیں ہیں:

(۱) المبسوط (الاصل) ۔ (۲) الجامع الکبیر (۳) الجامع الصغیر (۴) کتاب السیر الکبیر (۵) کتاب السیر الصغیر (۶) الزیادات۔

یہ کتب ظاہر الروایۃ، احادیث آثار (اقوال صحابہؓ اور اقوال تابعینؒ) پر مشتمل ہیں۔ علماء امت نے مذہب حنفی کو باقی مذاہب اہل السنۃ والجماعۃ سے زیادہ صحیح پایا اور اسے اختیار کیا۔ انہوں نے ان کتابوں کے شروح لکھے اور بعض علماء نے انہیں مختصر کیا جنہیں متونِ اربعہ کہتے ہیں:

(۱) کنز الدقائق (۲) مختصر الوقایہ (۳) مختصر القدوری (۴) المختار، جس کے مصنف عبد اللہ بن محمود موصلی الحنفی ہیں۔

یہ چاروں کتب علماء اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک نہایت ہی مستند ہیں اور راقم الحروف کی رائے میں آخری کتاب ’’المختار‘‘ باقی تینوں کتب سے افضل اس لیے ہے کہ وہ مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کے قول کو ذکر کرتا ہے اور پھر خود ہی اس کتاب کی شرح ’’والاختیار لتعلیل المختار‘‘ کے نام سے لکھی اور ہر مسئلہ کے لیے قرآن و حدیث سے دلیلیں لکھیں جس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ امام اعظمؒ کا کوئی قول بھی بغیر دلیل کے نہیں ہے، اور یہ حقیقت بھی عیاں ہوئی کہ امام ابوحنیفہؒ رائے پر عمل نہیں کرتے بلکہ قرآن و حدیث سے حاصل شدہ علم کو امام ابوحنیفہؒ نے ’’رائے‘‘ سے تعبیر کیا۔ امام ابوحنیفہؒ نے کبھی کسی صحیح حدیث کو رد نہیں کیا بلکہ ضعیف حدیث کے لیے بھی قیاس چھوڑا۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ نماز میں قہقہہ (زور سے ہنسنا) از روئے قیاس ناقض وضو نہیں کیونکہ انسانی جسم سے کوئی چیز خارج نہیں ہوتی، لیکن جیسے ہی امام ابوحنیفہؒ کو حدیث پہنچی، جو نماز میں زور سے ہنسا تو وہ نماز اور وضو لوٹائے، امام ابوحنیفہؒ نے قیاس چھوڑا اور فرمایا قہقہہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ امام شافعیؒ نے اس حدیث پر عمل نہیں کیا کیونکہ یہ عقل کے خلاف ہے اور قیاس سے متصادم ہے۔

(۲) نادر الروایۃ

جن کتابوں کی روایت مشہور ثقہ علماء سے نہیں ہے وہ کتابیں نادر الروایۃ کہلاتی ہیں جن میں مشہور الامالی، الکیسانیات، الرقیات، اطعارونیات، الجرجانیات اور کتاب المخارج ہیں۔

امام محمد بن الحسنؒ انتہائی خوددار انسان تھے۔ ایک دن ہارون الرشید خلیفہ عباسی کے قصرِ خلافت میں تھے، خلیفہ باہر سے آئے، امام محمدؒ کے علاوہ تمام وزراء اور اہلِ دربار کھڑے ہوئے۔ کسی درباری نے ہارون الرشید سے تذکرہ کیا، آپ امام محمدؒ سے پوچھا۔ امام محمدؒ نے جواب دیا، آپ نے مجھے عالم مان کر قاضی مقرر کیا ہے، میں علم کی توہین نہیں کرتا اس لیے کھڑا نہیں ہوا، خلیفہ خاموش ہوا۔

(۵) امام الحسن بن زیاد الؤلؤی الکوفی

(المتوفی ۲۰۴ھ) امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں ایک بڑے محدث عالم ہیں، انہوں نے امام ابوحنیفہؒ سے مسند اور دوسری کتب، کتاب المجرد، کتاب ادب القاضی، کتاب الخصال، کتاب معانی الایمان، کتاب النفقات، کتاب الخراج، الفرائض، کتاب الوصایا کی روایت کی۔ انہوں نے محدث ابن جریحؒ سے بارہ ہزار احادیث کی روایت کی۔ امام یحیٰی بن آدمؒ فرماتے ہیں میں نے الحسن بن زیادؒ سے کوئی بڑا فقیہ نہیں دیکھا۔

شخصیات

(جون ۱۹۹۰ء)

جون ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۶

شریعت بل اور شریعت کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۰ء
ادارہ

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی — رپورٹ، پروگرام، عزائم
ادارہ

امام المحدثین والفقہاء حضرت مولانا ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ
الاستاذ محمد امین درانی

مذاہب اہل السنۃ والجماعۃ کی تاسیس ایک نظر میں
الاستاذ محمد امین درانی

انسانی حقوق کا اسلامی تصور
مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی

’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ کی تفسیر اور پادری برکت اے خان
محمد عمار خان ناصر

حفاظتِ قرآن کا عقیدہ اور پادری کے ایل ناصر
محمد عمار خان ناصر

دو قومی نظریہ نئی نسل کو سمجھانے کی ضرورت ہے
مولانا سعید احمد عنایت اللہ

بھارت میں اردو کا حال و مستقبل
بیگم سلطانہ حیات

جہادِ آزادیٔ کشمیر اور پاکستانی قوم کی ذمہ داری
ادارہ

مثیلِ موسٰی کون ہے؟
محمد یاسین عابد

نو سالہ ماں
حافظ محمد اقبال رنگونی

آپ نے پوچھا
ادارہ

گنٹھیا ۔ جوڑوں کا درد یا وجع المفاصل
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
ادارہ

مکان کیسا ہونا چاہیئے؟
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

قرآنِ کریم کے ماننے والوں کا فریضہ
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

مسلمانوں کی قوت کا راز — خلافت
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter