انسانی حقوق کا اسلامی تصور

مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی

انسانی طرز عمل انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کیا ہونا چاہیئے؟ قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں زندگی کی پوری اسکیم کا عملی نقشہ ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں۔

  • اس اسکیم کا ایک حصہ ہماری اخلاقی تعلیم و تربیت ہے جس کے مطابق افراد کی سیرت اور ان کے کردار کو ڈھالا جاتا ہے۔
  • اس اسکیم کے مطابق ہمارا معاشرتی اور سماجی نظام تشکیل پاتا ہے جس میں مختلف قسم کے انسانی تعلقات کو منضبط کیا جاتا ہے۔
  • اس اسکیم کا ایک حصہ ہمارے معاشی اور اقتصادی نظام کی شکل میں سامنے آتا ہے جس کے مطابق ہم دولت کی پیدائش، تقسیم، تبادلے اور اس پر لوگوں کے حقوق کا تعین کرتے ہیں۔
  • اور اس اسکیم کا ایک جز ہمارا سیاسی نظام ہے جس میں اس اسکیم کو نافذ کرنے کے لیے سیاسی اقتدار کی ضرورت ہے۔

اس پوری اسکیم کا بنیادی مقصد انسانی زندگی کے نظام کو معروفات پر قائم کرنا اور منکرات سے پاک کرنا ہے۔ یہ اسکیم سوسائٹی کے پورے نظام کو اس طرز پر ڈھالتی ہے کہ

  • خدا کی بنائی ہوئی فطرت کے مطابق ایک ایک بھلائی اپنی پوری پوری صورت میں قائم ہو، ہر طرف سے اس کو پروان چڑھنے میں مدد ملے اور ہر وہ رکاوٹ جو کسی طرح اس کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے دور کی جائے۔
  • اسی طرح فطرتِ انسانی کے خلاف ایک ایک برائی کو چن چن کر زندگی سے نکالا جائے، اس کی پیدائش اور نشوونما کے اسباب دور کیے جائیں، جدھر جدھر سے  وہ زندگی میں داخل ہو سکتی ہے اس کا راستہ بند کیا جائے، اور اس سارے انتظام کے باوجود اگر وہ سر اٹھا ہی لے تو اسے سختی سے دبا دیا جائے۔

معروف و منکر کے متعلق یہ احکام ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ اسکیم ایک صالح نظامِ زندگی کا پورا نقشہ دیتی ہے اور اس غرض کے لیے فرائض اور حقوق کا ایک پورا نظام ہے، ایک مکمل نقشہ ہے۔ ایک پوری اسکیم ہے جس کا ہر حصہ دوسرے حصہ کے ساتھ اعضائے جسمانی کی طرح جڑا ہوا ہے۔ اس اسکیم کا ایک حصہ انسانی حقوق کا چارٹر ہے۔ عرب کے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چارٹر اس وقت پیش کیا تھا جب نہ کسی اقوامِ متحدہ کا وجود تھا اور نہ انسان مادی ترقی کی اس معراج پر پہنچا تھا جہاں آج نظر آتا ہے۔

(۱) انفرادی حقوق

(۱) مذہبی آزادی

’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، صحیح بات غلط خیالات سے چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے‘‘۔ (البقرہ ۲۵۶)

’’اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے، پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟‘‘ (یونس ۹۹)

یعنی حجت اور دلیل سے ہدایت و ضلالت کا فرق کھول کر رکھ دینے کا جو حق تھا وہ تو پورا پورا ادا کر دیا گیا ہے۔ اب رہا جبری ایمان، تو یہ اللہ کو منظور نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ خود ہی انسانوں کو ایمان لانے یا نہ لانے اور اطاعت اختیار کرنے یا نہ کرنے میں آزاد رکھنا چاہتا ہے۔ 

(۲) عزت کے تحفظ کا حق

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مرد کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے، جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں‘‘۔ (الحجرات ۱۱)

ایک دوسرے کی عزت پر حملہ کرنا، ایک دوسرے کی دل  آزاری، ایک دوسرے سے بدگمانی درحقیقت ایسے اسباب ہیں جن سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اور پھر دوسرے اسباب سے مل کر ان سے بڑے بڑے فتنے جنم لیتے ہیں۔ اسلام ہر فرد کی بنیادی عزت کا حامی ہے جس پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔

(۳) نجی زندگی کے تحفظ کا حق

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، اور تجسس نہ کرو‘‘۔ (الحجرات ۱۲)

یعنی لوگوں کے دل نہ ٹٹولو، ایک دوسرے کے عیب تلاش نہ کرو، دوسروں کے حالات اور معاملات کی ٹوہ نہ لگاتے پھرو، لوگوں کے نجی خطوط پڑھنا، دو آدمیوں کی باتیں کان لگا کر سننا، ہمسایوں کے گھر میں جھانکنا، اور مختلف طریقوں سے دوسروں کی خانگی زندگی یا ان کے ذاتی معاملات کی کھوج کرنا ایک بڑی بداخلاقی ہے جس سے طرح طرح کے فساد رونما ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر انسان کو اپنی نجی زندگی کے تحفظ کا حق دیا گیا ہے اور دوسروں کو اس میں دخل اندازی سے روکا گیا ہے۔

(۴) صفائی پیش کرنے کا حق

’’تم چھپا کر ان کو دوستانہ پیغام بھیجتے ہو حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو ہر چیز کو میں بخوبی جانتا ہوں‘‘۔ (الممتحنہ ۱)

یہ اشارہ بدری صحابی حضرت حاطبؓ بن بلتعہ کی طرف ہے۔ مشرکینِ مکہ کے نام ان کا ایک خط مکہ معظمہ پر حملہ کی خبر کے بارے میں پکڑا گیا تھا۔ مگر اس سنگین جرم کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کھلے عام اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا پورا موقعہ دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جرم کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو صفائی کا موقع دیے بغیر سزا دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اسلام نے انسان کے اس بنیادی حق کی پاسبانی نازک سے نازک موقعہ پر بھی کر دکھائی ہے۔

(۵) اظہارِ رائے کی آزادی

قرآن مجید کی سورہ الشورٰی کی آیت ۳۸ میں فرمایا کہ وہ اپنے معاملات آپس کے مشورہ سے چلاتے ہیں۔ دوسری جگہ سورہ آل عمران کی آیت ۱۵۹ اس طرح ہے کہ:

’’(اے پیغمبرؐ!) ان کے قصور معاف کر دو، ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو۔ پھر جب تمہارا عزم (مشورے کے نتیجہ میں) کسی رائے پر مستحکم ہو  جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو۔‘‘

مشاورت اسلامی طرز زندگی کا ایک اہم ستون ہے۔ مشاورت کا اصول اپنی نوعیت اور فطرت کے  لحاظ سے اس کا متقاضی ہے کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفادات سے تعلق رکھتے ہیں انہیں اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو، اور مشورہ دینے والے اپنے علم، ایمان اور ضمیر کے مطابق رائے دے سکیں۔

(۲) سماجی حقوق

(۱) انسانی مساوات

’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملہ کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے‘‘۔ (الاحزاب ۳۶)

یہ مذکورہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زیدؓ کے لیے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینبؓ بنت جحش سے نکاح کا پیغام دیا تھا۔ حضرت زینبؓ کو اپنے نسلی اور خاندانی فخر کے باوجود اس حکم کے سامنے سر جھکانا پڑا اور اس طرح نسلی امتیاز کے بت کو توڑ کر انسانی مساوات کا بہترین عملی نمونہ کاشانۂ نبوت سے سماج کے سامنے پیش کیا گیا۔

(۲) اجر و ثواب میں مرد و زن کی برابری

’’جو مرد اور عورتیں اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے‘‘۔ (الاحزاب ۳۵)

یہ اسلام کی وہ بنیادی قدریں ہیں جنہیں ایک فقرے میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ ان قدروں کے لحاظ سے مرد اور عورت کے درمیان دائرۂ عمل کا فرق تو ضرور ہے مگر اجر و ثواب میں دونوں مساوی ہیں۔

(۳) والدین کے لیے حسنِ سلوک

’’ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے‘‘۔ (العنکبوت ۸)

انسان پر مخلوقات میں سے کسی کا حق سب سے بڑھ کر ہے تو  وہ اس کے ماں باپ ہیں۔ صاف ستھرے سماج کے قیام کے لیے یہ ایک اہم چیز ہے۔

(۴) انسانی جان کی حرمت

’’اور جو اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے‘‘۔ (الفرقان ۶۸)

ایک دوسری جگہ بلا خطا کسی کی جان لینے کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ انسانی جان کی حرمت سماج کے ان بنیادی حقوق میں سے ہے جس کے بغیر کوئی سماج زندہ نہیں رہ سکتا۔

(۵) ازدواجی زندگی

’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی‘‘۔ (الروم ۲۱)

ایک پاکیزہ سماج میں یہ ضروری ہے کہ شادی کے قابل لوگ زیادہ دیر مجرد نہ رہیں تاکہ بلاوجہ کی شہوانی لہر سماج کی فضا کو زہرآلود نہ کر سکے۔ شادی کے نتیجے میں ایک دوسرے کے لیے سکون و اطمینان کے ساتھ مؤدت و رحمت وہ بنیادی چیز ہے جو انسانی نسل کے برقرار رہنے کے علاوہ انسانی تہذیب و تمدن کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس کی بدولت گھر بنتا ہے، خاندان اور قبیلے وجود میں آتے ہیں، اور اس کی بدولت انسانی زندگی میں تمدن کا نشوونما ہوتا ہے۔ اس لیے ازدواجی زندگی ایک سماجی حق بھی ہے اور اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی سنت اور طریقہ قرار دے کر اس کو عبادت کا تقدس بھی بخش دیا ہے۔

(۳) سیاسی حقوق

(۱) اسلام کے سیاسی نظام کی اولین دفعہ

’’اے ایمان لانے والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں‘‘۔ (النساء ۵۹)

قرآنِ مجید کی یہ آیت اسلام کے سیاسی نظام کی بنیادی اور اولین دفعہ ہے۔ اسلامی نظام میں اصل مطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ اور رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت کی واحد عملی صورت ہے۔ رسولؐ ہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں۔ اولی الامر کی اطاعت خدا اور رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔

(۲) عمومی اور مقصدی تعلیم

اسلام کے سیاسی نظام میں عمومی اور مقصدی تعلیم کا ایک بنیادی حق ہے۔ ارشاد ہے:

’’ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقہ کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ غیر مسلمانہ روش سے پرہیز کریں‘‘۔ (التوبہ ۱۲۱)

(۳) سیاسی ولایت کا حق

اسلام کے سیاسی نظام میں ولایت کا حق صرف ان باشندوں کو ہے جو اسلامی مملکت کی حدود میں ہوں۔ لیکن اخوت کا رشتہ بدستور ہے اور بین الاقوامی ذمہ داریوں نیز اخلاقی حدود کا پاس رکھتے ہوئے مظلوم کی امداد مسلم حکومت کی ذمہ داری ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:

’’وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے (دارالسلام میں) نہیں آئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آجائیں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن ایسی کسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے‘‘۔ (الانفال ۷۲)

(۴) سیاسی سربراہ منتخب کرنے کا حق

اسلام کے سیاسی نظام میں اس کی بڑی اہمیت ہے کہ قوم کے معاملات چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے، اور وہ قومی معاملات کو ایسے صاحبِ رائے لوگوں کے مشورے سے چلائے جن کو قوم قابلِ اعتماد سمجھتی ہو، اور وہ اس وقت تک سربراہ رہے جب تک قوم خود اسے اپنا سربراہ بنائے رکھنا چاہے۔ یہ چیز ’’امرھم شورٰی بینھم‘‘ (الشورٰی ۳۸) کا ایک لازمی تقاضا اور سیاسی نظام کی ایک اہم دفعہ ہے۔ 

(۵) بے لاگ انصاف کا حصول

’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں‘‘۔ (الشورٰی ۱۵)

اسلام کے سیاسی نظام میں بے لاگ اور سب کے لیے یکساں انصاف مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے جس میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو سکے۔

(۶) حقوق کی یکسانیت

بہترین نظام وہ ہے جس میں ہر ایک کے حقوق یکساں ہوں۔ یہ نہیں کہ ملک کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر کے کسی کو مراعات و امتیازات سے نوازا جائے اور کسی کو محکوم بنا کر دبایا، پیسا اور لوٹا جائے۔ اسلامی نظامِ حکومت میں نسل، رنگ، زبان، یا طبقات کی بنا پر کوئی امتیاز نہیں ہے۔ البتہ اصول اور مسلک کے اختلاف کی بنا پر سیاسی حقوق میں یہ فرق ہو جاتا ہے کہ جو اس کے اصولوں کو تسلیم کرے وہی زمامِ حکومت سنبھال سکتا ہے۔ قرآن مجید میں فرعون کی حکومت کی برائی ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:

’’واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا، ان میں سے ایک گروہ کو ذلیل کرتا تھا‘‘۔ (القصص ۴)

(۴) اقتصادی حقوق

(۱) قرآن کا معاشی نقطۂ نظر

’’تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا  ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے، وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے۔ اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی‘‘۔ (بنی اسرائیل ۳۰ و ۳۱)

قرآن مجید کا معاشی نقطۂ نظر، جو مذکورہ آیتوں سے واضح ہو جاتا ہے، یہ ہے کہ رزق اور وسائلِ رزق میں تفاوت بجائے خود کوئی برائی نہیں ہے، جسے مٹانا اور مصنوعی طور پر ایک بے طبقات سوسائٹی پیدا کرنا کسی درجہ میں بھی مطلوب ہو۔ صحیح راہِ عمل یہ ہے کہ سوسائٹی کے اخلاق و اطوار اور قوانینِ عمل کو اس انداز پر ڈھال دیا جائے کہ معاشی تفاوت کسی ظلم و بے انصافی کا موجب بننے کے بجائے ان بے شمار اخلاقی، روحانی اور تمدنی فوائد و برکات کا ذریعہ بن جائے جن کی خاطر ہی دراصل خالقِ کائنات نے اپنے بندوں کے درمیان یہ فرق و تفاوت رکھا ہے۔

کھانے والوں کو گھٹانے کی منفی کوشش کے بجائے افزائشِ رزق کی تعمیری کوششوں کی طرف انسان کو متوجہ کیا گیا ہے اور تنبیہ کی گئی ہے کہ اے انسان! رزق سانی کا انتظام تیرے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ اس پروردگار کے ہاتھ میں ہے جس نے تجھے زمین میں بسایا ہے۔ جس طرح وہ پہلے آنے والوں کو روزی دیتا رہا ہے بعد کے آنے والوں کو بھی دے گا۔ تاریخ کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ دنیا میں کھانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی اتنے ہی معاشی ذرائع وسیع ہوتے چلے گئے۔

(۲) دولت کی گردش

’’تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے‘‘۔ (الحشر ۷)

اس آیت میں اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں ہی میں گھومتا رہے، یا امیر روز بروز امیر تر اور غریب دن بدن غریب تر ہوتے چلے جائیں۔ اس مقصد کے لیے سود حرام کیا گیا، زکوٰۃ فرض کی گئی، مالِ غنیمت میں خمس مقرر کیا گیا، صدقات کی تلقین کی گئی۔ مختلف قسم کے کفاروں کی ایسی صورتیں تجویز کی گئیں جن سے دولت کے بہاؤ کا رخ معاشرے کے غریب طبقات کی طرف پھر جائے۔ میراث کا ایسا قانون بنایا گیا کہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زیادہ وسیع دائرے میں پھیل جائے۔ اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابلِ مذمت اور فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا۔ غرض وہ انتظامات کیے گئے کہ دولت کے ذرائع پر مالدار اور با اثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو اور دولت کا بہاؤ امیروں سے غریب کی طرف ہو جائے۔

(۳) ناپ تول میں کمی نہ ہو

’’وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو‘‘۔ (الاعراف ۸۵)

انسان کے معاشی حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ خریدار کو اس کے پیسے کے بدلے میں پوری اور بے میل چیز ملے۔ اسلام تجارت میں دیانت داری کو ایک پالیسی سے زیادہ ایک فرض کے طور پر ابھارتا ہے۔

(بشکریہ ماہنامہ دارالسلام، مالیر کوٹلہ)

دین اور معاشرہ

(جون ۱۹۹۰ء)

جون ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۶

شریعت بل اور شریعت کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۰ء
ادارہ

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی — رپورٹ، پروگرام، عزائم
ادارہ

امام المحدثین والفقہاء حضرت مولانا ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ
الاستاذ محمد امین درانی

مذاہب اہل السنۃ والجماعۃ کی تاسیس ایک نظر میں
الاستاذ محمد امین درانی

انسانی حقوق کا اسلامی تصور
مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی

’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ کی تفسیر اور پادری برکت اے خان
محمد عمار خان ناصر

حفاظتِ قرآن کا عقیدہ اور پادری کے ایل ناصر
محمد عمار خان ناصر

دو قومی نظریہ نئی نسل کو سمجھانے کی ضرورت ہے
مولانا سعید احمد عنایت اللہ

بھارت میں اردو کا حال و مستقبل
بیگم سلطانہ حیات

جہادِ آزادیٔ کشمیر اور پاکستانی قوم کی ذمہ داری
ادارہ

مثیلِ موسٰی کون ہے؟
محمد یاسین عابد

نو سالہ ماں
حافظ محمد اقبال رنگونی

آپ نے پوچھا
ادارہ

گنٹھیا ۔ جوڑوں کا درد یا وجع المفاصل
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
ادارہ

مکان کیسا ہونا چاہیئے؟
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

قرآنِ کریم کے ماننے والوں کا فریضہ
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

مسلمانوں کی قوت کا راز — خلافت
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter