سیالکوٹ کے ایک مسیحی عالم ماسٹر برکت اے خان اپنی کتاب ’’تبصرہ انجیل برناباس‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید میں جناب عیسٰی المسیح کی صلیبی موت کی منفی نہیں کیونکہ لکھا ہے کہ ’’اور تحقیق وہ (عیسٰی) البتہ علامت قیامت کی ہیں‘‘ (سورہ زخرف ۶۱) ترجمہ: شاہ رفیع الدین محدث دہلوی ۔۔۔۔ قیامت کے معنی ہیں دوبارہ زندہ ہونا۔ چنانچہ جب عیسٰی المسیح مصلوب تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھے تو یہ ان کی قیامت کی علامت اور نشان تھا۔ لہٰذا قیامت کے بارے میں شک کرنے والوں کو جناب عیسٰی المسیح کی زندہ مثال دے کر سمجھایا گیا کہ روزِ قیامت کے بارے میں شک نہ کرو۔ جس طرح عیسٰی المسیح مردوں میں سے جی اٹھے تھے اسی طرح روزِ قیامت تم بھی زندہ کیے جاؤ گے۔‘‘ (ص ۶۴)
(۱) پادری صاحب موصوف نے سورہ زخرف کی جو ۶۱ ویں آیت درج کی ہے اس کی تفسیر شیخ الاسلام علامہ عثمانیؒ کے قلم سے ملاحظہ کیجئے:
’’(مسیح کا) دوبارہ آنا قیامت کا نشان ہو گا۔ ان کے نزول سے لوگ معلوم کر لیں گے کہ قیامت بالکل نزدیک آ گئی ہے‘‘۔ (فوائد)
معلوم ہوا کہ یہ آیت کلمۃ اللہ المسیحؑ کی آمد ثانی سے متعلق ہے، اناجیل اربعہ کی مزعومہ قصۂ قیامت مسیح سے اس آیت کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
(۲) آیتِ مذکور میں اصل لفظ ’’الساعۃ‘‘ ہے جو اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوا ہے، قیامت کا لفظ ترجمہ میں استعمال ہوا ہے۔ ’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ عیسٰیؑ قیامت کی نشانی ہیں، قیامت کے قریب آئیں گے۔ اصل عربی لفظ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں قیامت سے مراد ’’تیسرے دن جی اٹھنا‘‘ ہے۔ علاوہ ازیں کس لفظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ قصہ باطلہ قیامت مسیح مشار الیہ ہے؟
(۳) آیت کریمہ میں مسیحؑ (کی آمد ثانی) کو قیامت کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس پادری برکت صاحب لکھتے ہیں:
’’جب عیسٰی المسیح مصلوب تیسرے دن مردوں میں جی اٹھے تو یہ ان کی قیامت کی علامت اور نشان تھا۔‘‘
یعنی ’’قیامتِ مسیح‘‘ قیامت کا نشان ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو جبکہ قیامت مسیحؑ واقع ہو چکی ہے تو قرآن کریم میں حتمی الفاظ میں قیامت مسیح کو روزِ قیامت کی علامت قرار دینا کیسے جائز ٹھہرا کیونکہ آیت شریفہ میں پچھلے کسی قصہ کا ذکر نہیں ہے بلکہ آئندہ ظہور پذیر ہونے والی آمد ثانی کا ذکر ہے۔ پادری صاحب کے مفروضہ کے بموجب آیت میں قیامت مسیح کا ذکر ہے تو لازم آتا ہے کہ قیامت مسیح تاحال ظہور پذیر نہ ہوئی ہو بلکہ قریب قیامت ظاہر ہونی ہو۔
(۴) ’’اور بے شک عیسٰیؑ قیامت کی علامت ہیں۔ سو تم قیامت کے بارے میں شک نہ کرو‘‘۔
پادری صاحب لکھتے ہیں:
’’روزِ قیامت کے بارے میں شک نہ کرو جس طرح عیسٰی المسیح مردوں میں سے جی اٹھے تھے اسی طرح روزِ قیامت تم بھی زندہ کیے جاؤ گے۔‘‘
۔۔۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ روز قیامت بارے شک کرنے والوں کو تنبیہ ہے لیکن اس کو مسیحؑ کے مردوں میں سے اٹھنے سے کیا ربط و علاقہ ہے؟ پادری صاحب آیتِ کریمہ سے قیامتِ مسیح اور صلیبی موت کا اثبات کرنے تو چل نکلے ہیں لیکن عربی زبان سے ناواقفی اور اصولِ تفسیر سے بے گانگی کے باعث اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے ۔۔۔
؏ اے بادِ صبا ایں ہمہ آوردہ تست