ترکی میں ایک نو سالہ لڑکی نے ایک صحت مند بچے کو جنم دیا ہے۔ نو عمر ماں کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ زچہ و بچہ ٹھیک ہیں۔ اس لڑکی نے مغربی شہر افیاں میں آپریشن کے ذریعے لڑکے کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک انٹرنیشنل میڈیکل لٹریچر کی لسٹ کا تعلق ہے دنیا کی نو عمر ترین ماں کی عمر پانچ برس ہے، تاہم ترکی کے ریکارڈ کے مطابق اس سے قبل ملک کی نو عمر ماں کی عمر بارہ سال تھی۔ لڑکی کو جب ہسپتال لایا گیا تو وہ آٹھ ماہ کی حاملہ تھی۔ (جنگ لندن ۔ ۱۶ مارچ ۱۹۹۰ء)
قارئین کرام نے پہلے بھی یہ خبریں پڑھی ہوں گی کہ ماریلا ایلا نے نو سال کی عمر میں (جنگ ۔ ۱۰ اپریل ۱۹۸۶ء) اور مارتھا نے بھی نو سال کی عمر میں لڑکی کو جنم دیا تھا (ملت لندن ۔ ۲۱ جنوری ۱۹۸۹ء) اور مذکورہ خبر میں بھی یہ ہی ہے، پھر اس میں ’’نو عمر ترین ماں کی عمر‘‘ بھی پیشِ نظر رہے۔ یوں تو ماریا، مارتھا اور مذکورہ لڑکی کا دنیا کی کم سن ماں بن جانا ایک عجوبہ سے کم نہیں اور کئی لوگ اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے لیکن یہ واقعہ خواہ کتنا ہی عجیب و غریب کیوں نہ ہو چونکہ وجود میں آ چکا ہے اس لیے ہر خاص و عام، دانشور و مفکر اس کی سچائی و اصلیت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور کسی کی زبان پر یہ نہیں آتا کہ یہ کیونکر اور کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک نو سالہ لڑکی صحت مند بچے کو جنم دے دے۔ لیکن ہمارے معاشرے کے یہی عاقل و دانشور، مفکر و محقق کتبِ احادیث میں جب یہ پڑھتے ہیں کہ
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم تزوجھا وھی بنت ست سنین و ادخلت علیہ وھی تسع و مکثت عندہ تسعا (صحیح بخاری ج ۲ ص ۷۷۱)
(ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ) نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح فرمایا جب آپؓ چھ سال کی تھیں اور جب آپؓ کی رخصتی ہوئی تو آپؓ نو سال کی تھیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں نو سال رہیں)۔
تو ہمارے یہ دانشور و مفکر نہ صرف حضراتِ محدثین کو برا بھلا کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں بلکہ خود حدیث پاک پر سے بھی بے اعتمادی پیدا کرنے کے لیے کافی حد مصروفِ جہاد ہو جاتے ہیں حالانکہ نو دس سال کی عمر میں شادی کا ہونا کوئی معیوب نہیں۔ خود بانیٔ پاکستان جناب محمد علی جناح صاحب کے بارے میں لکھا ہے کہ
’’نو عمر جناح لگ بھگ ۱۵ سال کے تھے اور دلہن ۹۔۱۰ سال کی‘‘۔ (جنگ لندن ۔ ۳۱ مارچ ۱۹۹۰ء)
سو امر واقع یہ ہے کہ صحیح البخاری کی مذکورہ روایت جعلی اور موضوع نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفسرین و محدثین فقہاء کرامؒ نے اس روایت کی روشنی میں بہت سے مسائل و احکام اخذ کیے جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ان حضرات گرامی قدر کے نزدیک یہ روایت صحیح اور مبنی بر حقیقت ہے۔ لیکن برا ہو عقل کے ترازو پر ہر چیز تولنے والوں کا کہ انہوں نے جہاں اور بہت سے عقائد و مسائل پر طعن و تشنیع کے نشتر چبھوئے انہیں میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے۔ ان دانشوروں نے اس روایت کے انکار کے لیے یہ مفروضہ قائم کر دیا کہ نو سالہ لڑکی بالغ اور ماں کیسے بن سکتی ہے؟ لیکن جب یہی دانشور اخبارات کی زبانی اور تصاویر کی روشنی میں نو سالہ لڑکی کے نہ صرف بالغ ہونے بلکہ صحتمند بچے کو جنم دے کر ماں بن جانے کی خبر پڑھتے ہیں تو اسے تسلیم کرنے میں انہیں ذرا بھی جھجھک نہیں ہوتی۔ ’’یوں ہو سکتا ہے‘‘ کہہ کر اس کا برملا اعتراف کر لیتے ہیں، کسی قسم کا کوئی اشکال کوئی شرم و عار محسوس نہیں کرتے۔ نہ اخباری رپورٹوں کو کوسا جاتا ہے نہ مصوروں کو برا کہا جاتا ہے۔ مگر جب یہی بلکہ اس سے کم بات اگر کسی حدیث میں پڑھتے ہیں تو قیامت برپا ہو جاتی ہے، جی بھر کر گالیاں دی جاتی ہیں، حدیث کی اصلاح کا مشورہ دیا جاتا ہے، عجمی سازش کی رٹ لگائی جاتی ہے، ملا اور ملائیت کے خلاف ایک طوفانِ بدتمیزی برپا کر دیا جاتا ہے۔
آخر اس انکار کا مقصد کیا ہے؟ کیا بات ہے کہ اخبار کی خبر بلا چون و چرا مان لی جائے اور کتبِ احادیث کی تکذیب کر دی جائے؟ کیا اس کا صاف مقصد یہ نہیں کہ اہلِ اسلام کے قلوب سے احادیث اور محدثین کی عظمت و وقعت گرا دی جائے۔ مسائل و احکام میں من مانی کی اجازت دی جائے۔ اور قرآن کی تشریح میں ہر شخص کو آزاد کر دیا جائے۔ سوچئے اس کا انجام کیا ہو گا؟ اللہ سب کو عقلِ سلیم اور قلبِ صحیح نصیب فرما دے، آمین۔