(پھلت ضلع مظفر نگر (انڈیا) میں ایک دینی مدرسہ کے افتتاح کے موقع پر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ کا بصیرت افروز خطاب)
حضراتِ علماء کرام، برادرانِ عزیز! پھلت کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی ہر صاحبِ علم کو، خاص طور پر جو تاریخ کا طالب علم رہا ہو خصوصًا ہندوستان کی تاریخ کا، اس کے لیے یہ بالکل قدرتی بات ہے کہ اسے پھلت کے وہ نامور (افراد) یاد آجائیں جو صرف پھلت ہی کے لیے باعث فخر نہیں بلکہ تمام عالمِ اسلام کے لیے۔ بارہویں صدی ہجری جس میں اس عہد کا سب سے بڑا عالمِ دین، یہ میں پوری بصیرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اسرارِ شریعت کا سب سے بڑا شارح، مسلمانوں کی زندگی کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کا قائد یعنی حضرت شاہ ولی اللہؒ، مجھے تاریخ لکھنے کے سلسلے میں خصوصاً شاہ ولی اللہؒ کے عہد کی شخصیتوں، تحریکوں پر قلم اٹھانے کے سلسلہ میں اس عہد کا مطالعہ کرنا پڑا، علامہ اقبالؒ نے مجدد الف ثانیؒ کے بارے میں کہا تھا:
وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہبان
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
میں اسی مطالعہ اور فکر کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ اس پورے برصغیر میں اب تک حضرت شاہ ولی اللہؒ کا شروع کیا ہوا دور چل رہا ہے۔ عربی مدارس، دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور، ندوۃ العلماء لکھنؤ، اور جتنے بھی مدارسِ اسلامیہ ہیں، یہ سب امتداد اور تسلسل ہے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے مسلک و مزاج کا۔ ان کا مزاج ہے ولی اللہ اور اس وقت تک ہی ان میں خیر و برکت اور افادیت ہے جب تک ان میں ولی اللہ کا مزاج قائم ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے لیے پھلت سیرگاہ نہیں بلکہ زیارت گاہ ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اخلاف اور خلفاء دونوں عطا کیے ہیں۔ اخلاف میں امام الہند شاہ عبد العزیزؒ، علومِ عقلیہ کے امام شاہ رفیع الدین دہلویؒ اور شاہ عبد القادرؒ جن کا ترجمہ قرآن پاک مشہور ہے۔ غیر عربی میں اب تک کسی بھی زبان میں ان سے بہتر کسی نے نہیں کیا۔ پھر ان کے چوتھے صاحبزادے شاہ عبد الغنی جن کو موقع نہیں ملا، اللہ نے ان کو نعم البدل یہ عطا فرمایا کہ شاہ اسماعیل شہیدؒ جیسا من اذکیاء العالم فرزند ملا۔ یہ تو ان کے اخلاف تھے۔ اور خلفاء میں آپ دیکھیں سید احمد شہیدؒ خلیفہ شاہ عبد العزیزؒ، مولانا عبد الحی شاہؒ، شاہ محمد اسحاقؒ جو درس و تدریس کے بھی امام ہیں اور سلسلۂ تصوف شریعت کے بھی ہیں۔ دہلی کو یہ خانوادہ پھلت کا عطیہ ہے۔ پھلت میں داخل ہوتے ہی یہ تمام تاریخ سامنے آ جاتی ہے اور یہ تاریخ وہی ہے عالمِ اسلام کی کہ جب دارالحکومت میں عہدوں کو حاصل کرنے کی وجہ سے، مصنوعی زندگی کی بنا پر قویٰ سست ہونے لگے، رگوں میں خون منجمد ہونے لگا تو قصبات نے نیا خون عطا کیا۔ آپ نے نہ صرف سلطنتِ مغلیہ کے دارالخلافہ بلکہ مرکزِ علم و سلوک و جذبۂ جہاد دہلی کو پھلت نے اتنا بڑا تحفہ عطا کیا۔ خانوادۂ ولی اللّٰہی، اس سے بڑھ کر تحفہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ جس طرح لکھنؤ کو سہالی کے ایک قصبہ نے خانوادۂ علماء فرنگی محل عطا کیا ایسے ہی جب بغداد میں اضمحلال پیدا ہوا، حکومت کے شر نے قویٰ کو مضمحل کر دیا اور سوائے حصولِ منصب کے کوئی مقصد لوگوں کے سامنے نہ رہا تو ایران کے ایک قصبہ جیلان نے سیدنا عبد القادر جیلانیؒ کا تحفہ دیا جس نے پورے عالمِ اسلام کو عشقِ الٰہی کے سوز سے بھر دیا، جس کی لہریں افریقہ تک پہنچیں۔ ایسے ہی ایران کے ایک معمولی قصبہ نے امام غزالیؒ جیسا مفکر عطا کیا۔
الغرض قصبات نے ہر دور میں دارالحکومت کو ایسا چمکتا ہوا، چمکتا ہوا نیا خون عطا کیا جس نے پورے پورے ملکوں کو گرما دیا۔ بہت سے لوگ اس کو بھول جاتے ہیں کہ یہ نیا خون کس نے عطا کیا، بڑے بڑے شہروں کی تاریخ سامنے آجاتی ہے اور وہ آڑ بن جاتی ہے۔ جہاں ایسے مردم خیز قصبوں میں جا کر یہ احساس ہوتا ہے کہ یہاں کیسے کیسے باکمال پیدا ہوئے۔ خدا کے دین کی بھی کوئی حد نہیں، اس کی قدرت کی وسعت معلوم ہوتی ہے وہاں یہ ذہن بھی جاتا ہے جو نفسیاتی ردعمل بھی ہے کہ اب ایسے لوگ پیدا نہیں ہو سکتے۔ اور خدا کی مردے سے زندہ کو پیدا کرنے کی جو قوت ہے ’’یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ‘‘ (الروم ۱۹) اس کو بھول کر ذہن کے کسی گوشہ میں یہ بات ضرور آتی ہے کہ اب تو بس تاریخ کو اور ان کے کارناموں کو پڑھنا چاہیئے اور اپنے معاش میں لگنا چاہیئے تو آپ کے سامنے پھلت کا جو تاریخی تعارف کرایا گیا ہے اس نے مجھے آمادہ کیا کہ میں یہ آیت پڑھ کر سناؤں:
کُلًا نُّمِدُّ ھٰؤُلَآءِ وَ ھٰؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ وَ مَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا۔ (الاسراء ۲۰)
ہم ان کو بھی بھر بھر کر دیتے ہیں اور ان کو بھی ھؤلاء و ھؤلاء اور دیتے رہیں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ مضارع کا صیغہ حال اور مستقبل دونوں کے معنی دیتا ہے۔ یعنی یوں کہنا کہ ’’ہم دیتے ہیں‘‘ صحیح نہیں، اور ’’دیتے رہیں گے‘‘ یہ بھی صحیح نہیں۔ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ’’دیتے رہیں گے‘‘۔ تمہارے رب کی دین میں کوئی راشننگ ہی نہیں ہے کہ اب اگر دے دیا تو انتظار کروائے گا برس کا۔ ہمارے رب کی عطاء میں کوئی راشن بندی نہیں کیونکہ اس کی بخشش لامحدود ہے۔ ’’وَمَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا‘‘۔ اکبر الٰہ آبادی مرحوم نے کہا تھا:
اللہ کی راہ اب تک ہے کھلی، آثار و نشاں بھی قائم ہیں
اللہ کے بندوں نے لیکن اس راہ پہ چلنا چھوڑ دیا
لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں۔ ہمت بلند ہو، اخلاص و سعی ہو، اللہ تعالیٰ نے کوشش کی بھی جا بجا تاکید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کوشش کرنے والے کی کوشش کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ یہ ملت تو محبوب ہے، رحمۃ للعالمینؐ کی ملت ہے، اشرف الامم ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کو انسانیت بھی عزیز ہے، اپنی پیدا کی ہوئی دنیا بھی عزیز ہے۔ جس ماحول کا ہمارے لیے انتخاب کیا گیا ہے یا ہمارا جس ماحول کے لیے انتخاب کیا گیا ہے اس کے ساتھ ہمارا جوڑ ہو اور ہم اس فضا میں اپنی افادیت ثابت کریں۔ ہمارے اکابر مجدد الف ثانیؒ ہوں یا شاہ ولی اللہؒ ہوں یا شاہ عبد القادرؒ ہوں، انہوں نے زمانے کی نبض پہچانی، انہوں نے دیکھا کہ زمانے کو روحانیت کی ضرورت ہے، علمِ صحیح کی ضرورت ہے، توحیدِ خالص کی، عہدوں اور انانیت سے بلند ہو کر اعمال میں روح پیدا کرنے کی ضرورت ہے، طلبِ رضاء الٰہی کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی انہوں نے دیکھا کہ اس وقت انسانیت کس چیز کی پیاسی ہے۔ وہ زندہ رہنے کا استحقاق کھوتی چلی جا رہی ہے، اس سے جو مظالم سرزد ہو رہے ہیں، اس سے جو حق تلفیاں ہو رہی ہیں، اس سے جو خونِ انساں ارزاں ہو رہا ہے اور پانی کی طرح بہہ رہا ہے، کہیں اللہ تعالیٰ نسلِ انسانی کے خاتمہ کا فیصلہ نہ کر لے کیونکہ
وَ اَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَآءً وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ۔ (الرعد ۱۷)
جو جھاگ ہے وہ چلا جاتا ہے اور جو چیز نافع ہے وہ زمین میں باقی رہتی ہے۔ معلوم ہوا کہ بقا مربوط ہے نافعیت کے ساتھ۔ جو چیز اپنی افادیت کھو بیٹھتی ہے، جو گروہ، کوئی مرکز، دعوت یا تحریک اپنی نافعیت کھو بیٹھتی ہے، وہ اس کی مستحق نہیں رہتی کہ قائم رہے، یہی سنت اللہ ہے۔
ان بزرگانِ دین نے دونوں کام کیے۔ ہماری نظر اس پر تو جاتی ہے کہ انہوں نے ملت کو کیا دیا۔ حدیث و تفسیر میں کیا نئی راہیں نکالیں، علومِ اسلامیہ میں کتنا عمق پیدا کیا، ماحول میں کیا روحانیت پیدا کی، لیکن ہماری نظر اس پر نہیں جاتی کہ انہوں نے غیر مسلموں کی نظر میں اسلام کا کس درجہ احترام پیدا کیا۔ سیرتِ نبویؐ کو غور سے دیکھنے، پڑھنے، مطالعہ کرنے پر کس طرح آمادہ کیا۔ مؤرخین نے بھی اس پر پردہ ڈالا۔ جہاں انہوں نے علم کے دریا بہائے، مسندِ درس بچھائی، وہیں اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمۃ للعالمین ہونے کا، اسلام کے حقانی و مطابقِ عقل ہونے کا، اور اسلام کے اس دنیا کی پیاس بجھانے کا ثبوت دیا یقین دلایا۔ ہمارے سوانحی لٹریچر میں یہ پہلو بہت مغلوب رہ گیا ہے۔
آج میں کہتا ہوں کہ ملتِ اسلامیہ کو یہ دونوں کام کرنے ہیں۔ عقائد صحیحہ، عباداتِ مقبولہ، طلبِ خداوندی کے ذریعے ملت کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے صحیح بھی ہو، قوی بھی ہو۔ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ صرف صحیح ہونا کافی نہیں، قوی بھی ہو۔ صرف قوی ہونا کافی نہیں، صحیح بھی ہو۔ عبادت تو مشرکین بھی کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’وَ مَا کَانَ صَلَاتُھُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّآ مُکَآءً وَّ تَصْدِیَۃ‘‘ (الانفال ۳۵)۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خصوصًا اس زمانے میں ملت کا یہ فریضہ بھی ہو گیا ہے کہ اپنی نافعیت ثابت کرے۔ ہماری وجہ سے کتنی بلائیں ہیں جو ٹل رہی ہیں، ملک کے لیے باعث رحمت و برکت ہیں۔ یہ تب ہی ہو گا جب آپ صحیح انسان بن کر بازاروں، دفتروں میں جائیں جو انہیں سوچنے پر مجبور کرے کہ وہ کونسا مذہب ہے جس نے ہمیں ایسا انسان بنا دیا۔ ہمیں بتائیں کہ اس ملک کے لیے پہاڑ، دریا، سمندر اتنے ضروری نہیں جتنے کہ ہم۔ ہمارا پیامِ انسانیت، ہماری خداترسی۔
ہم ایسے دوراہے پہ آ گئے ہیں کہ ایک راستہ سیدھا ارتداد کی طرف جا رہا ہے۔ میں اس سے کم درجہ کا لفظ استعمال کرنے پر تیار نہیں۔ اگر کوئی آسمان سے ویسا اشارہ نہ ہوا، قدرتِ خداوندی کی کوئی مداخلت نہ ہوئی تو اس کے صاف آثار ہیں۔ آثار ہی نہیں بلکہ آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ تصور کی آنکھ سے جس میں تصور نہیں بلکہ تصویر بھی شامل ہے کہ آئندہ نسل شاید اسلام کے بنیادی قائد سے بالکل ناآشنا ہو، صرف آشنا منفی طور پر ہی نہیں بلکہ اس کے بالمقابل اسلام کے برخلاف عقائد و تصورات کی حامل ہو، مشرکانہ عقائد کی قائل ہو۔ ایسے خطرناک دوراہے پر آگئے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو اس کی توفیق نہ ہوئی کہ اس کے لیے اپنی ساری توانائی صرف کر ڈالیں تو شاید آنے والی نسل ۲۵ برس بعد، یہ تو زیادہ کہہ دیا، بلکہ ۱۵ برس کے بعد خطرہ ہے کہ وہ اللہ اور رسولؐ کے نام سے بالکل ناآشنا ہو۔ اس کی مثالیں سامنے آنے لگی ہیں کہ سکولوں کے بچے بہت سے اللہ کا لفظ صحیح نہیں لکھ سکتے، پوچھتے ہیں کہ ہم اللہ کس طرح لکھیں؟ اور آج نوجوانوں کی ایک تعداد یہ سمجھتی ہے کہ اس دھرتی کو کرشن یا رام چلاتے ہیں۔ ہندو علم الاصنام، ہندو دیومالا بچوں کے ذہنوں پر اثر کر رہی ہے۔ ابھی ٹی وی پر ’’رامائن‘‘ جو سیریل چل رہی ہے، کالج کی جو کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں، اس سے جوانوں کے ذہن و دماغ متاثر ہو رہے ہیں۔ ’’یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا‘‘ (التحریم ۶)۔
معاملہ عالم و فاضل یا مفسر و محدث بنانے کا نہیں بلکہ معاملہ ہے جہنم سے بچانے کا، دوزخ کی آگ سے بچانے کا۔ ایک جلسہ میں ایک بہن ایسی تھی کہ جن کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ عورتوں نے پوچھا کہ بہن! سر میں درد ہے؟ کچھ پیٹ میں تکلیف ہے؟ بولیں، کچھ نہیں۔ پھر مزید اصرار پر بتایا کہ میں بچہ سوتا ہوا چھوڑ کر آئی تھی، اس سے کچھ فاصلے پر دیاسلائی رکھی ہوئی ہے، اگر وہ بچہ جاگ گیا اور چل کر وہاں تک گیا اور دیاسلائی سے تیلی نکال لی، پھر اپنے کپڑوں میں آگ لگا لی تو کیا ہوگا؟ عورتوں نے پوچھا کہ بچے کی عمر کیا ہے؟ بولی، ڈھائی سال کا ہے۔ سب نے کہا، ہوش کی باتیں کرو، وہ اتنا چھوٹا بچہ چارپائی سے کیسے اترے گا اور پھر چل کر وہاں تک جائے گا اور جا کر وہ یہی ایک کام کرے گا؟ جواب دیا، تمہارا بچہ ہوتا تو جانتیں، میرا بچہ ہے اس لیے مجھے ڈر ہے۔
میں پوچھتا ہوں کہ آج ہمارے ماں باپ کے دل میں یہ خیال پیدا کیوں نہیں ہوتا کہ اگر ہم نے بچہ کو کلمہ، نماز نہ سکھائی، توحید کا سبق یاد نہ کرایا، ابراہیم کی بت شکنی نہ سمجھائی تو کل وہ مشرک اٹھے گا۔ یہاں تو بالکل خطرات نہیں بلکہ مشاہدات ہیں، وہاں تو ایسا دور دراز کا اندیشہ تھا۔ میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ ایک لڑکا ڈھال کی سڑک پر سائیکل پر جا رہا ہے اور آگے گہری کھائی ہے۔ سائیکل سے اتر جاؤ۔ اسی طرح آج ہمارے سامنے گہری کھائی ہے، وہ کھائی ہندو دیو مالا کی ہے، بت پرستی کی ہے، مسلمانوں کے دلوں سے شرک و بت پرستی کی طرف سے ایسے گھن آنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔ یہ تکدّر، یہ تعفّن، یہ وحشت دور ہوتی جا رہی ہے حالانکہ ایک مسلمان کو سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا ہونا تھا کہ کل وہ مشرکانہ عقائد لے کر نہ اٹھے۔ حضرت خضر علیہ السلام کا ایک بچہ کو قتل کر دینے کا واقعہ تشریعی نہیں ہے، اس پر عمل آج نہیں ہو سکتا مگر یہ قصہ قرآن میں قیامت تک پڑھا جائے گا۔ اس کا مقصد و افادیت یہ ہے کہ مسلمان سمجھے کہ خاندان کے لیے فتنہ بننے والا بچہ کتنا منحوس ہوتا ہے۔ اس قصہ کو قرآن نے جگہ دی تاکہ معلوم ہو کہ یہ خطرہ کتنا بڑا تھا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آئندہ نسلوں کو کھلی ہوئی بت پرستی سے، مشرکانہ عقائد سے بچانے کے لیے اپنے گھٹنے ٹیک دیجیئے، ہر ممکن کوشش کر ڈالیے، سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لیے خالی وقتوں میں پرائیویٹ کلاسز کا انتظام کرائیے یا ان مدارس و مکاتب میں داخل کرائیے۔ یہ مدارس و مکاتب آج ہماری ریڑھ کی ہڈی ہیں، سانس کا حکم رکھتے ہیں۔ اگر سانس چل رہی ہے تو ہم زندہ ہیں ورنہ ختم۔ اور اپنے ماحول کو مانوس کریں، فضا اگر یونہی اشتعال انگیز رہی تو کسی وقت چنگاری سے آگ لگ سکتی ہے۔ اگر ہمیں دیکھ کر ان کے چہروں پر ناگواری کے آثار نمودار ہوتے رہے، وہ دیکھتے رہے کہ نہ ہم میں اخلاقی کردار، نہ افادیت، ہم بھی وعدہ خلاف اس طرح یہ بھی۔ جس طرح ہم جھوٹ بولتے ہیں اسی طرح یہ بھی۔ تو صرف ہم اپنے لیے ہی نہیں بلکہ اسلام کے باقی رکھنے کے لیے بھی اس ملک میں خطرہ پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارے اکابر جو افریقہ، مراکش، اسپین تک اسلام کو پھیلاتے چلے گئے، یہ صرف زبانی کام نہیں بلکہ اس میں کردار بھی شامل تھا جنہیں دیکھ کر خودبخود غیر مسلموں میں جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ اسلام کو قبول کریں۔
مسلم پرسنل لاء کی لڑائی اس لیے لڑی گئی تھی کہ عائلی تعلقات، میراث، طلاق، نکاح سب اسلامی طریقہ پر ہوں جس کے لیے سب مطالعہ کرنے والے علماء اپنے کمروں سے نکل کر میدان میں آئیں، اپنے عائلی قانون کی بھی حفاظت کرنی ہے، اپنے ملی تشخص کی بھی حفاظت کرنی ہے، اس کا قریب ترین ذریعہ یہ دینی مدارس و مکاتب ہیں۔
دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ یہ تلخی جو پانی، ہوا، سانسوں اور ماحول اور فضا میں آ گئی ہے اسے دور کریں۔ اسلام کا تعارف کرائیں ورنہ کسی چیز کا موقع باقی نہ رہے گا۔ ’’پیامِ انسانیت کی تحریک‘‘ یہ ایک چہار دیواری ہے، یہ ایک حصار ہے، اس میں بیٹھ کر آپ قرآن شریف پڑھیے، مسجد بنائیے، نماز پڑھیے، خدانخواستہ یہ ٹوٹ گئی، خدا ہمیں اس دن کے لیے زندہ نہ رکھے جب یہ مسئلہ چہار دیواری کے اندر آجائے اور مدارس و مساجد سب خطرے میں پڑ جائیں۔