اسلام کا فطری نظام

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

سمندر کا ایک ایک قطرہ، ریت کا ایک ایک ذرہ، درختوں کا ایک ایک پتہ، اور زمین و آسمان کا ایک ایک شوشہ بزبانِ حال ہر باشعور کو پکار پکار کر یہ دعوتِ فکر دیتا ہے کہ تمہارا اپنے آقائے حقیقی کے ساتھ ایک ازلی رشتہ اور ایک ابدی علاقہ ہے جس نے تمہاری جسمانی راحت و آرام کا جو اہتمام فرمایا ہے اس سے کہیں زیادہ اس نے تمہاری کائناتِ روحانی کی آسائش و زیبائش کا معقول اور واضح تر انتظام کیا ہے۔ یہ بہتے ہوئے دریا، یہ ابلتے ہوئے چشمے، یہ لہلہاتے ہوئے سبزے، یہ چہچہاتے ہوئے پرندے، یہ اونچی اونچی پہاڑیاں، یہ گھنی اور گنجان جھاڑیاں، یہ تناور اور پھل دار درخت، یہ خوش رنگ اور خوشبودار پھول اور پتیاں، یہ چرند و پرند، یہ نباتات و جمادات، یہ ارض و سماء اور یہ مادی عالم کے جملہ تغیرات، کیا یہ دعوت نہیں دیتے کہ زندگی کے ہر ہر لمحہ میں عبد اپنے معبود کو یاد رکھے؟ جلوت و خلوت، ظاہر و باطن، امارت و غربت، کسی حالت میں بھی اس کے خیال سے غافل نہ ہو۔ عبدِ منیب کا اپنے معبودِ حقیقی کے ساتھ یہ تعلق چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، صحت و سقم اور سفر و حضر ہی کی کیفیات تک ہرگز محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر لمحے اور حیاتِ ناپائیدار و مستعار کی ہر گھڑی میں وہ اپنے معبود ہی کی بے نیازی و عظمت کا اقرار کرتا ہوا نظر آئے گا۔ کسی آن اور کسی شان میں بھی عبدِ مُسلم کا ربط اپنے پروردگار سے ہرگز منقطع نہیں ہو سکتا۔ 

بندہ اپنی بندگی اور بے چارگی کے تعلقات کو اپنے رب ذوالمنن اور اس کے الطاف و عنایات کے ساتھ وابستہ و استوار رکھنے کے بغیر بندہ کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہو سکتا۔ بندہ کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے خوف اور ڈر رکھنے کے باوجود بھی اس کی رحمت و رأفت کی قوی امید اور اس کی نصرت و دستگیری پر کامل اعتماد اور آسرا کرے اور ہر وقت اس کی توجہ کا مرکز صرف وہی ذاتِ کبریائی ہی ہو۔ کھانے پینے کی کوئی مجلس ہو یا کھیل و شغل کی کوئی محفل، بے تکلف کا کوئی گوشۂ تنہائی ہو یا جلوت کی رنگینی، بازار کی رونق ہو یا حجرہ کا کوئی زاویۂ خمول، میدانِ کارزار ہو یا شادی کی بزم، کہیں بھی اس کے ہاتھوں سے اپنے معبودِ حقیقی کی رضا جوئی کا مضبوط اور مستحکم سر رشتہ ہرگز جدا نہیں ہو سکتا اور زندگی کے کسی لمحہ میں بھی وہ اپنے معبود کی عظمت و جلالت کے خیال سے کبھی غافل نہیں رہ سکتا۔ خدا تعالیٰ کی بندگی اور بندوں کی بے چارگی کے ان مستحکم روابط اور تعلقات کا چولی دامن کا ساتھ ہے جو کسی وقت منفک نہیں ہو سکتے۔

ربِ قدیر سے مناجات کرتے ہوئے عبدِ منیب جب فطرت کی گہرائیوں میں ڈوب کر اپنی تمام نفسیات کا جائزہ لیتا اور اپنی ذاتی زندگی کا محاسبہ کرتا ہے اور جب اس عمیق مطالعہ کے بعد اپنا سر اٹھاتا ہے تو حسبِ ارشاد خداوندی ’’فِطْرَۃَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا‘‘ اگر وہ اس فطرت سے بیگانہ نہیں ہو چکا تو وہ خدائے ذوالجلال کے سامنے سر نیاز جھکا کر رقت انگیز لہجے اور محبت خیز لے میں یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ

ہمیشہ تیرے در پر ہو سر تسلیم خم میرا
رہے تیرے تصرف میں زبان میری قلم میرا

فطرتِ صحیحہ تک رسائی کا طریقہ

نفسانی خواہشات انسان کو انجام بینی سے روک کر تن آسانی اور راحت کا گرویدہ بنانے پر آمادہ اور مذہبی تقاضوں پر غفلت کے پردے ڈالنے میں مصروف و کوشاں رہتی ہے۔ اکتسابِ اخلاقِ فاضلہ، خیر و شر کی حقیقی تمیز اور زندگی کے اعلیٰ ترین مقصد و مرام تک پہنچنے اور ان کمالات کے حاصل کرنے سے روکتی ہیں جو مذہب پر کاربند ہو کر آنے والے سفر میں بھی رفیقِ سفر رہتے ہیں۔ 

اگر کوئی متنفس ایسا باقی نہ رہے جو خدائے بزرگ و برتر کی رضاجوئی کے لیے اپنی جان و مال سب کچھ قربان کر دینے پر آمادہ اور روزِ جزاء کے مواخذہ سے بچنے کے لیے اپنی تمام خواہشاتِ نفسانی اور نفسِ امّارہ کا مقابلہ کر سکتا ہو؛‎  اور اگر تمام باتوں کو، جو کسی نہ کسی حیثیت سے مذہب و دین کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں، فنا کر دیا جائے تو یہ دلفریب اور دلکش دنیا نہ صرف یہ کہ بے لطف و بے رونق بن جائے گی بلکہ درندوں کا جنگل، وحشی جانوروں کا اکھاڑہ، اور شیطانوں کی بستی بن جائے گی۔ پس اس بات کے تسلیم کر لینے میں ذرّہ بھر تامل نہیں ہو سکتا کہ دنیا میں اخلاق و روحانیت، تہذیب و تمدن اور تمدنی ترقیات اور عمدہ اخلاق کی بنیاد مذہب ہی نے قائم کی ہے اور مذہبیت کی عمر نسلِ انسانی کی عمر سے ایک دن بھی کم نہیں ہے۔ اور مذہب کوئی وہمی اور خیالی چیز نہیں بلکہ ایک واضح حقیقت ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور چیز حقیقی نہیں، اور وہ ایک ایسی صداقت ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور صداقت تصور میں نہیں آ سکتی۔ 

مگر یہ یاد رہے کہ مذہب سے مراد اس جگہ الٰہی، الہامی اور آسمانی مذہب ہے جس میں تمام عقائد و اعمال اور اخلاق و معاملات نیز حیات بعد الممات اور اسی طرح بے شمار دیگر احکام مشرح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ باقی دھرمی یا فلسفی، محض عقلی اور خودساختہ نظریات کو مذہب کہنا ہی اشد غلطی ہے اور ان بے بنیاد مذاہب کو عالمِ انسانیت میں کبھی کوئی اہمیت حاصل ہی نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے۔ مذہب صرف وہ ہے جو رسول اور نبی کے ذریعہ دنیا میں شایع ہوا، جس کی نشر و اشاعت کے لیے بہت سے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام وقتاً فوقتاً دنیا میں مبعوث ہوتے رہے، جنہوں نے فطرت اللہ کے موافق نسلِ انسانی کی بہترین رہنمائی کی اور توجہ الی اللہ کے لیے اظہارِ عبودیت کے مختلف اور متنوع اعمال و اشغال بتائے اور اس طرح فطرتِ انسانی کی شگفتگی کے ساتھ ہی ساتھ دین الفطرت بھی شگفتہ ہوتا گیا۔ 

جن لوگوں نے عقلِ صحیح اور الہامِ ربانی سے بے نیازی برتی اور اپنے ارادہ اور اختیار کا غلط استعمال کیا تو وہ فطرت اللہ کی تلاش میں آوارہ اور گم کردہ راہ بن کر انبیاء و ملائکہ، جنات و بنی آدم، احبار و رہبان، چاند و سورج، ستارے و فرضی ارواح، دریا و پہاڑ، درخت و آگ وغیرہ کو معبود سمجھ کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ اور اب بھی مختلف ملکوں میں متعدد قوموں میں آب و تاب کے ساتھ رنگ برنگ خودساختہ دلائل سے اس کجری کی ترویج کی جا رہی ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں۔ 

بدل کے بھیس زمانے میں پھر سے آتے ہیں
اگرچہ پیر ہے آدم، جواں ہیں لات و منات

الغرض خدا تعالیٰ کی رضاجوئی اور فطرت اللہ کے موافق زندگی بسر کرنا وحی الٰہی کے بغیر بالکل ناممکن ہے کیونکہ انسان خواہ کتنا ہی ترقی کر جائے اور اپنے علم و واقفیت کو کیسے ہی اعلیٰ سے اعلیٰ معیار اور مقام تک پہنچائے پھر بھی وہ بغیر امدادِ خداوندی اور وحیٔ الٰہی کے اور بدون رہبریٔ رسول اور راہنمائی نبیؔ کے نہ تو اپنی سعادت اور نجاتِ اخروی کے طریقوں سے واقف ہو سکتا ہے اور نہ نیکی اور بدی کا پورا تعیّن کر سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے انسان کو توجہ دلائی ہے کہ تمہاری جسمانی پیدائش، بدنی پرورش اور روحانی تربیت کے تمام سامانوں کا پیدا اور مہیا کرنے والا صرف تمہارا حقیقی پروردگار ہے اور اس کی ربوبیت کے بغیر نہ تو تمہارا وجود ممکن ہے اور نہ تمہاری روحانی ترقی اور مقصدِ حیات سے ہم کنار اور فائز المرام کرنے کا کوئی اور موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہادیانِ برحق کو تعلیم ربانی پیش کرنے کا نہایت مدلل و پُر اثر و دل نشین اور یقین آور ملکہ عطا فرمایا جس سے جاہل و عالم، دیہاتی و شہری، نوجوان و بوڑھا، مرد و عورت، غرض ہر طبقہ اور ہر حیثیت کا آدمی یکساں متاثر و مستفید ہوتا رہا اور اب بھی مستفیض ہو سکتا ہے۔ 

انوارِ نبوت سے اب تک دن رات میں اک تابانی ہے
اے مہرِ درخشاں کیا کہنا، اے شمعِ شبستاں کیا کہنا

اور ان سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کامل و مکمل دین، ناقابلِ ترمیم و تنسیخ شریعت اور معراجِ کمال تک پہنچانے والا بہترین اسوۂ حسنہ دے کر مبعوث فرمایا جو تمام عالم کی ہدایت اور رہبری کے لیے بھیجے گئے۔ چونکہ آپ وحیٔ الٰہی مبسط اور خداوند تعالیٰ کے مخاطب اور احکامِ خداوندی کے سب سے پہلے تعمیل کنندہ اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے خواہاں اور سب سے بڑھ کر حق تعالیٰ کے فرمانبردار اور مطیع تھے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو لوگوں کے لیے مکمل نمونہ بنا کر مبعوث فرمایا تھا لہٰذا وہی سب سے بہتر وحیٔ الٰہی کے منشاء و مراد کے سمجھنے اور سمجھانے والے تھے۔ اور اسی لیے آپؐ کی اطاعت عین خدا تعالیٰ کی اطاعت ہے اور آپؐ ہی کے مکمل نمونے کی پیروی سے دینِ حق دنیا میں قائم ہے۔ آپؐ کا ہر ایک حکم دین کے معاملے میں ایسا ہی واجب التعمیل اور ضروری ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا حکم۔ اور ظاہر ہے کہ آپؐ کا ہر ایک حکم خدا تعالیٰ ہی کے منشاء کے ماتحت ہوتا تھا، خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف آپؐ کسی کو کوئی حکم نہیں دیتے تھے۔ اگر کسی موقع پر آپؐ سے کوئی اجتہادی لغزش سرزد ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ تنبیہ نازل فرما کر اصلاح فرما دیا کرتے تھے اور اس لغزش پر آپؐ کو ہرگز برقرار نہیں رکھا جاتا تھا۔ 

آپؐ کے ایسے احکام کو جو قرآن کریم کے سوا ہیں وحی خفی اور حدیث کہتے ہیں۔ اور یہ ایک واشگاف حقیقت ہے کہ صحیح وحی خفی اور حدیث یقیناً وحی جلی اور قرآنِ کریم ہی کی تفسیر اور اس کی تشریح ہے، اس کی مخالف ہرگز نہیں۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کا حکم دیا گیا اور آپؐ کی نافرمانی سے منع کیا گیا ہے کہ امت کے لیے آپؐ بہترین نمونہ ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۔ (پ ۵ ۔ النساء ۱۱)
’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔‘‘

نیز فرمایا کہ:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ۔ (پ ۳ ۔ آل عمران ۴۰)
’’اے رسول! آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو تم میری اتباع کرو، اللہ بھی تم سے محبت کرے گا۔‘‘

اور ایک جگہ یوں ارشاد فرمایا ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃُْ حَسَنَۃُْ۔ (پ ۲۱ ۔ احزاب ۳)
’’مسلمانو! تمہارے واسطے جناب رسول اللہ کا طرزِ عمل پیروی کے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘

غرض کہ جیسے آپؐ کی ہستی مخلوقِ خدا میں سب سے اعلیٰ و ارفع ہے، اس طرح آپؐ کا اُسوۂ حسنہ بھی بے مثل اور بے نظیر ہے جس کا تمام عالم میں کوئی بدل ہی نہیں ہے۔

شرابِ خوشگوارم ہست و یار مہرباں ساقی
ندارد ہیچکس یارے چنیں یارے کہ من دارم

جس طرح قرآن کریم میں آپؐ کی اطاعت اور اتباع کو امت کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے اور تمام امت پر آپؐ کے عمدہ ترین اسوۂ حسنہ کی پیروی ضروری بتائی گئی ہے اسی طرح خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عیاں الفاظ میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ اس کی خواہش میری خواہش کے تابع نہ ہو۔ اور پروردگارِ عالم نے قسم اٹھا کر یہ حکم بیان کیا ہے کہ تیرے رب کی (یعنی مجھے اپنی ذات کی) قسم کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے تاوقتیکہ آپ کو ہر بات اور ہر معاملہ میں اپنا فیصلہ اور حَکَم تسلیم نہ کریں اور پھر دل میں ذرہ بھر تنگی محسوس نہ کریں اور آپ کے حکم کے سامنے گردنِ تسلیم خم نہ کر دیں۔ ’’فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ‘‘- (النساء ۶۵)

اس کے بعد بھی اگر کسی آبلہ فریب کو یہ مغالطہ ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور آپؐ کی اطاعت اور اتباع ہمارے لیے لازم نہیں اور آپؐ کے ارشادات کی حیثیت محض تاریخی واقعات کی سی ہے جن کے انکار سے کفر لازم نہیں آتا تو اس ہٹ دھرمی کا علاج یہاں نہیں بلکہ کسی اور جہان ہی میں ہو سکتا ہے۔ اور خود حالات اس کو بتائیں گے کہ دارِفانی میں اس کا کن سے عشق و پیار تھا اور دنیا میں اس نے کیا کمایا اور کیا کھویا۔ 

بوقتِ صبح شود، ہمچو روزِ معلومت
کہ باکہ باختۂ عشق در شبِ دیجور


دین و حکمت

(دسمبر ۱۹۸۹ء)

دسمبر ۱۹۸۹ء

جلد ۱ ۔ شمارہ ۳

آہ! الشیخ عبد اللہ عزامؒ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا عزیر گلؒ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پیرِ طریقت مولانا حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ
مولانا ضیاء الرحمٰن فاروقی

اسلام کا فطری نظام
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

کیا افغان مجاہدین کی جنگ مسلمان اور مسلمان کی جنگ ہے؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دینی تعلیم اور مدارس کی اہمیت
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

تلاوتِ قرآنِ مجید باعث خیر و برکت ہے
محمد اسلم رانا

کیا بائیبل میں تحریف پر قرآن کریم خاموش ہے؟
محمد عمار خان ناصر

علماء کا مقام اور ان کی ذمہ داری
قاضی محمد اسرائیل

کیا واقعی سندھ کو نبی اکرمؐ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے؟
غازی عزیر

موت کا منظر
حکیم سید محمود علی فتحپوری

عورت کی حکمرانی کی شرعی حیثیت
مولانا مفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی

توہینِ صحابہؓ کے مرتکب کو تین سال قید با مشقت کی سزا
ادارہ

منقبتِ صحابہؓ
سرور میواتی

تعارف و تبصرہ
ادارہ

قرآنی نظام اپنے لیے ماحول خود بناتا ہے
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی

تلاش

Flag Counter