الحمد للہ کہ پاکستان کی اسلامی مملکت قائم ہو چکی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کی مجلس دستور ساز میں ’’قراردادِ مقاصد‘‘ بھی منظور ہو چکی ہے کہ یہاں قرآن و سنت کے ماحول میں اسلامی نظامِ حیات جاری کیا جائے گا۔ پاکستان کے قیام کا حقیقی مقصد یہی تھا کہ ہمیں ایک ایسا خطۂ ارضی مل جائے جہاں مسلم قوم کو قدرت حاصل ہو کہ وہ تمام و کمال اسلامی آئین و قوانین جاری کرے اور اللہ تعالیٰ و رسول اللہؑ کے دین کو غالب اور سربُلند کرے۔
بعض مغرب زدہ لوگ جو اپنی اسلامی بصیرت کھو چکے ہیں اور خفاش کی طرح ظلمت سے نکل کر روشنی میں آنے کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ اوروں کا بھی راستہ روکنا چاہتے ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ چودہ سو سال کا (معاذ اللہ) فرسودہ نظام اس نئی روشنی کی دنیا میں کہاں چل سکتا ہے؟ لیکن جونہی دنیا طرح طرح کی روشنیوں کے باوجود کروڑوں برس کے فرسودہ شمس و قمر سے ہنوز بے نیاز نہیں ہو سکی تو چودہ سو برس کے قرآنی نظام سے اس کا آنکھیں چرانا کہاں تک حق بجانب ہو سکتا ہے؟
قراردادِ مقاصد سے پہلے بعض لوگوں نے، جو مسلمانوں کی قیادت کا دم بھرتے ہیں، یہ بھی کہا کہ قرآنی نظام چلانے کے لیے ابھی ماحول تیار نہیں، لیکن قرآن جس وقت دنیا میں آیا اگر ماحول کی تیاری اور فضا کی سازگاری کا انتظار کرتا تو شاید قیامت تک بھی یہ ختم نہ ہوتا۔ قرآن تو اپنے لیے ماحول خود بناتا ہے اور قرآنی نظام کے نافذ ہونے سے بڑی حد تک فضا بدلنے لگتی ہے۔ آپ سعودی عرب کی حکومت ہی کو دیکھ لیجیئے، صرف دو تین چوروں کا ہاتھ کٹنے سے حجاز جیسے ملک میں چوری کا بیج باقی نہ رہا۔ اور متنورین کو یہ سن کر تعجب ہو گا اور شاید افسوس بھی کہ حجاز میں ٹنڈوں اور لنجوں کا کوئی بڑا شہر تو کجا چھوٹا سا گاؤں بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ آسمانی قانون کے اجراء کی یہی برکت ہے کہ اس میں جرم کی سزا جرم کو روکتی ہے، مجرم کو جیل میں بھیج کر پکا اور ڈگری یافتہ مجرم نہیں بنایا جاتا۔
(خطباتِ عثمانی ص ۲۸۲)